ڈرون کی حقیقت

گزشتہ کئی برس سے خطے میں چھڑی امریکی جنگ میں جہاں خطے میں اور بالخصوص پاکستان میں ناقابل تلافی نقصان ہوا وہی پر امریکہ کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ امریکہ نے افغانستان و عراق میں اپنی ناکامی کے بعد اس ٹیکنالوجی کو درندوں کی طرح انسانوں پر استعمال کیا اور اس امریکی دردندگی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جن میں لاتعداد معصوم پاکستانیوں کا ناجائز قتل عام کیا گیا۔

ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے نام پر ان گنت بے گناہ پاکستانی شہریوں کو مارا گیا ان ڈرون حملوں نے کئی ماؤں سے ان کے بیٹے چھین لیے کئی بچوں کیو یتیم کردیا کئی سہاگنوں کے سہاگ لوٹ لیے اور کئی عمر رسیدہ لوگوں سے ان کے بڑھاپے کے آخری سہارے چھین لیے۔

اس ساری صورتحال میں جب ڈرون حملوں کی اصلیت کے بارے میں چھان بین کے نتیجہ میں کچھ اہم معلومات حاصل ہوئی جو پیش خدمت ہے

ڈرون کے پھینکنے میں چار طریقے زیادہ تر مروج ہیں جن میں چپ(Chip)والا طریقہ سر فہرست ہے اس سسٹم میں ایک مخصوص chipکا استعمال کیا جاتاہے اس مخصوص چپ کو متعلقہ جگہ ،جہاں حملہ کرنا مطلوب ہو وہاں پر نصب کردیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک Automatic System کے تحت ڈرون حملہ کیا جاتا ہے۔

جبکہ دوسرا طریقہ جو اس ڈرون کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ سیاہی والا سسٹم ہے اس سسٹم میں ایک مخصوص قسم کی سیاہی کو مطلوبہ حملے کی جگہ پر نصب کیا جاتا ہے اور یہ سیاہی بھی بالکل chip والا کام کرتی ہے اور اسی طرح ایک systematicطریقہ سے ڈرون حملہ گرانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہاں پر دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دونوں طریقوں میں چند آوارہ اور نشہ کرنے والے لوگوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ چپ یا سیاہی نصب کرنے والے اکثر افغانی لوگ ہوتے ہیں جن کو اس ساری کاروائی کے عوض ان کا نشہ وغیرہ کرنے کے لیے ایک اچھی رقم دی جاتی ہے اور اس کاروائی میں ان لوگوں کو مکمل طور پر امریکی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

تیسرا طریقہ جو ڈرون گرانے میں استعمال ہورہا ہے وہ سیٹلائٹ سسٹم ہے اس طریقہ کار میں سیٹلائٹ کے ذریعہ مطلوبہ اہداف کو Tract outکیا جاتا ہے اور یہ طریقہ اکثر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کسی گاڑی وغیرہ کو نشانہ بنانا ہو ایسی جگہ کو نشانہ بنانا ہو جہاں چپ یا سیاہی نصب کرنا ممکن نہ ہو۔

اور چوتھا طریقہ جو ڈرون حملوں میں استعمال کیا جاتاہے وہ Picture systemہے اس طریقہ کار کے تحت مطلوبہ بندہ یا جگہ کی تصویر سے کام لیا جات ہے اور تصویر ہی کے ذریعے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

یہ وہ سسٹم ہیں جن کے ذریعے دہشتگرووں کو نشانہ بنانے کی آڑ میں ہزاروں عام پاکستانی شہری لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور یہ جو آج دہشتگرد ہی ماضی میں امریکی کے بڑے منظور نظر ہوا کرتے تھے کیونکہ اس وقت کی سپر پاور روس تھا اور امریکہ کو روس کی کمر توڑنے کے لیے یہ لوگ درکار تھے اور اب جب روس ٹوٹ چکا تو اب امریکہ کو ان سے کوئی غرض نہیں کیونکہ امریکہ کا دستور ہے کہ اپنے اہداف کے حصول کے بعد وہ اپنے کسی ہم راز کو spareنہیں کرتا کیونکہ یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں کیونکہ جب امریکہ نے افغانستان کے ذریعے روس کوتباہ کیا تو اس کے بعد اپنے ہم راز افغانستان کے پیچھے پڑ گیا اور جب پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعما ل کیا تو اب افغانستان سے جاتے ہوئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 62546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.