آج ہم ایک ایسے فنکا ر کے تعلق سے بات کریں گے جو ہر قسم
کے گیت لکھنے میں ماہر تھا۔جس نے دو پیڑھیوں کے لئے گانے لکھے اور اپنے قلم
کا لوہا منواتا رہا۔ SONG: Film , Carvaan (Piya Tu ab to Aaja,Shola Sa
Man Bahke Aake Bujha ja)
Film , Jo Jeeta Wahi Sikandar (Pehla Nasha,Pehla Qumar)
جی ہاں آج ہم بات کریں گے مشہور گیت کار مجروح سلطان پوری کی جنہوں نے
تقریباً ۶۰ برس تک کامیاب فلمی گیت لکھے۔مجروح سلطان پوری کی پیدائش ریاست
اُتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ کے ایک گاوئں نظام آباد میں ۱۹۱۹ء میں
ہوئی۔اِنکا پیدائشی نام اِسرارالحق خان تھا۔ اِنکا آبائی گاوئں سلطان پور
تھا جسکی وجہ سے یہ سلطان پوری کہلائے۔والد پولیس ہیڈ کانسٹیبل تھے ملازمت
کے لئے نظام آباد آئے ہوئے تھے وہیں مجروح سلطان پوری کی پیدائش
ہوئی۔ابتدائی تعلیم کے سلسلے میں مدرسے میں داخلہ کرادیا گیا وہاں انہوں نے
عربی ، فارسی ، اور اردو کی تعلیم حاصل کی۔اور عالمِیت کی سند حاصل کی۔ پھر
اِنکا رجحان علمِ طِب کی طرف بڑھا تو لکھنؤ طِب کالج میں داخِلہ لیا اور
ایک نوجوان حکیم بن گئے۔شاعری کا شوق تو پہلے ہی سے تھا۔ ایک مرتبہ سلطان
پور کے مشاعرہ میں غزل پڑھی جو بہت مقبول ہوئی اور لوگ تب سے انہیں جاننے
لگے۔ دھیرے دھیرے اِنکی شاعری آگے بڑھتے گئی اور حکیمی پیچھے چلی گئی۔ اُسی
دوران مجروح نے اردو زبان میں ایک جملہ ایسا لکھا جو آج بھی بڑی محفلوں میں
اکثر پڑھا جاتا ہے وہ تھا۔۔ میں اکیلا ہی چلا تھا جانِبِ منزل مگر ، لوگ
آتے گئے اور کارواں بنتا گئے۔
SONG: Film , Dosti
(Koi jab Rah Na Paye Mere sang Aaye, Ke Pag Pag Deep Jalaye.Meri Dosti
Mera Pyar)
۱۹۴۵ء میں مجروح سلطان پوری نے ممبئی کے سبوصدیقی انسٹی ٹیوٹ مشاعرہ میں
شرکت کی۔ انکے ساتھ جگر مراد آبادی جو اردو کے بڑے شاعر تھے موجود تھے اور
مجروح نے کچھ دنوں پہلے اِنکی شاگردی قبول کر لی تھی۔ اتفاق یہ ہوا کہ جس
مشاعرہ میں مجروح اپنی غزل پڑھ رہے تھے اِس محفل میں فِلم بنانے والے لوگ
بھی موجود تھے جن میں سے ایک اے۔ آر ۔کردار صاحب بھی تھے اور کردار صاحب
اِس عارضو کے ساتھ آئے تھے کہ اِنکی آنے والی فِلم شاہ جہاں کے لئے جگر
مراد آبادی گیت لکھیں۔ مگر ہوا یوں کہ جگر مراد آبادی نے منع کر دیا اور
مجروح سلطان پوری کا نام آگے کر دیا۔ بحرِ کیف اُستاد کی با ت مجروح ٹال نہ
سکے اور ویسے بھی حکیمی کا پیشہ ٹھیک نہیں چل رہا تھا مان گئے۔ جب مجروح
سلطان پوری نے اپنا پہلا گیت لکھا گیت کے بول تھے۔جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی
کے کیا کریں گے۔۔ بہت مقبول ہوا۔ جسے K.L.Sehgal صاحب نے اپنی آواز دی تھی۔
K.L.Sehgal صاحب کے دماغ پر یہ گیت کا اتنا گہرا اثر ہوا کے انہوں نے وصّیت
کی کے میرے مرنے کے بعد میری ارتھی پر یہ گانہ لگایا جائے۔
SONG: Film , Shah Jahan
(Jab Dil Hi Toot Gaya, Hum ji ke kya Karenge)
اسکے بعد کیا تھا مجروح آگے بڑھتے گئے۔ ۱۹۴۹ء ایک ہی سال میں فِلم انداز
نوشاد کے ساتھ،گیت تھا تو کہے اگر اور فلم عارضو انِل بسواس کے ساتھ گیت ،
ائے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو ۔ لکھا۔ یہ دونوں فلموں کے گیت
بے حد مشہور ہوئے۔ شاعری کے علاوہ وہ کیمونسٹ پارٹی کے کارکُن بھی تھے۔
جسکے چلتے انہوں نے سرکار کے خلاف کچھ نظمیں لکھیں تو اسلئے انہیں جیل بھی
جانا پڑا۔ جب جیل میں تھے تو انکے حالات بڑے کمزور تھے۔اِسی دوران اِنکی
بڑی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ اُسوقت مجروح نے راج کپور کی فلم دھرم کرم کیلئے
گانا لکھا ۔ جسکے موسیقار تھےR.D Burman، جسکے لئے انہیں ایک ہزار روپئے
ملے تھے۔ اور گانے کے بول تھے۔۔ ایک دن بک جائے گا، ماٹی کے مول ، جگ میں
رہ جائیں گے پیارے تیرے بول۔
SONG: Film , Dharm Karam
(Ek Din Bik Jayega, Maati ke Mol,Jag Me Reh Jayenge Pyare Tere Bol)
مجروح سلطان پوری کی تاریخ کا مطالعہ اگر ہم غور سے کریں تو ہمیں ایک عجیب
بات معلوم ہوگی وہ یہ کہ موسیقاروں کے لئے وہ بہت Lucky تھے۔مثال کے طور پر
R.D Burman صاحب جنکی پہلی Hit Music تھی فلم تیسری منزل کی جو ۱۹۶۶ء میں
آئی تھی گیت تھا وہ میرے سونا رے سونا رے سونا، دت دوں گی جان جُدا مت ہونا
رے ۔ دوسرے موسیقار تھے لکشمی کانت پیارے لال جن کے لئے مجروح نے ۱۹۶۴ء میں
آئی فلم دوستی کا گانا لکھا گیت کے بول تھے ۔ کوئی جب راہ نہ پائے، میرے
سنگ آئے، کہ پگ پگ دیپ جلائے، میری دوستی میرا پیار۔۔ موسیقار راجیش روشن
کو جس فلم نے شہرت دی وہ فلم کنوارا باپ تھی جو ۱۹۷۴ء میں آئی تھی گیت کے
بول تھے ۔۔ آری جا ، نندیا تو لے چل کہیں اُڑن کھٹولے میں، دور ،دور ،دور
یہاں سے دور۔ آنند ملند جی جس فلم نے اُنہیں راتوں رات شہرت دی وہ فلم تھی
قیامت سے قیامت تک جو ۱۹۸۸ء میں آئی تھی مجروح سلطان پوری کی اس فلم کا ہر
گیت بہت مقبول ہوا۔ خاص کر پہلانشہ ، پہلا قمار۔۔ اور غضب کا ہے دن، سوچو
ذرا، یہ دیوانہ پن دیکھو ذرا۔۔
SONG : Film , Qayamat se Qayamat tak
(Gazab ka Hai Din, Socho Zara,Ye Diwanapan Dekho Zara)
مجروح سلطان پوری جس نے ۶۵ سال تک ہندی سینِما کو لازوال گانے دئے، زبان دی
، نئے شبد دئے، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صنم ، جانم ، بندہء پرور ، قبلہء ،
محترمہ ایسے نہ جانے کتنے لفظ جو مجروح سلطان پوری سے پہلے فلمی دنیا میں
کبھی استعمال ہی نہیں ہوئے تھے۔ اِ سکے موجد بذاتِ خود مجروح سلطان پوری
تھے۔
مجروح سلطان پوری کو ۱۹۶۵ء میں آئی فلم دوستی کے گیت چاہوں گا میں تجھے
سانجھ سویرے کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جسے محمد رفیع صاحب نے
اپنی خوبصورت دی تھی ۔
SONG: Film , Dosti
(Chahunga Mai Tujhe, Sanjh Savere,Phir Bhi Kabhi Ab Naam Ko Tere,Aawaz
Mai Na Dunga) اسکے علاوہ مجروح سلطان پوری پہلے گیت کار ہیں جنہیں مشہور
دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے ۱۹۹۳ء میں سرفراز کیا گیا۔ آخر کار ۲۴ مئی
۲۰۰۰ء کو انکا انتقال ہوا۔ مگر یہ پھول انکے چاہنے والوں کے باغِ وفا میں
ہمیشہ مہکا کرے گا۔۔
SONG: Film , Mamta
(Rahe na Rahe Hum, Mehka Karenge,Banke Kali Banke Saba Baage Wafa Me) |