اصلاح زبان اور اسے ٹھیٹھ بنانے
کے لیے ہر دور میں انفرادی اور اجتماعی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی اس ذیل
میں کسی ناکسی سطع پر شدت موجود ہے۔ لغت ترتیب دیتے وقت حرف اور لفظ کی
تفصیلات بڑے اہتمام کے ساتھ درج کی جاتی ہیں۔ لغت نویس یہ درج کرنا نہیں
بھولتا کہ وہ کس زبان کا لفظ ہے۔ یہاں ان کی مساعی سے انکار کرنا یا کیڑے
نکالنا سرے سے مراد نہیں۔ بلاشبہ ان کی کوششیں لائق صد آفرین ہیں۔ لغت
مطالعہ میں کلید کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا
جا سکتا تاہم چار امور کے پیش نظر ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
١۔ حالات اور وقت کا تقاضا کیا ہے۔ فکر ضرورت اور رفتار زمانہ کیا ہے۔
٢اصلاح زبان ہو سکی ہے‘ ہو سکتی ہے یا ہو سکے گی۔ یہ عمل‘ سوچ اور رویہ
درست بھی ہے یا نہیں۔
٣۔ جو کام ہوا درست ہوا‘ وقت اور ضرورت کا ساتھ دینے کے لیے کافی ہے یا
نہیں۔
٤۔ کام کیا اور کس طرح ہونا چاہے۔
زندگی کے معاملات مختصر محدود سادہ اورعام فہم نہیں رہے۔ ہر لمحہ پچیدگی
میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقی‘ خانگی مسلط اور خود ساختہ ضرورتوں میں اضافہ
ہو رہا ہے۔ جبر کی شکلیں اور انداز و اطوار بدل رہے ہیں۔ پچھاڑ کر اگے اور
آگے بڑھنے کی خواہش جنونی ہو گئ ہے۔ ردعمل کا سلیقہ بالکل الگ ہو گیا ہے۔
انسان دکھ سکھ ضرورت حالات پروگرام ردعمل وغیرہ کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ اس
ذیل میں خواہش رکھتا ہے کہ اصل کے مطابق کہہ سکے۔ اصل اور سارے کے سارے کے
لیے زبان کی ابلاغی وسعت بھی ناگزیر ٹھہرتی ہے۔ ایسے حالات میں زبان کو
ٹھیٹھ بنانے کی کوشش زبان دوستی نہیں‘ زبان دشمنی کے مترادف ہے۔
اس قسم کی پہلی کوششیں اور خواہشیں زبان کے ابلاغی حوالوں کو محدود کرنے کے
مترادف تھیں۔ زبانیں اس قسم کی کوششوں کو‘ خواہ پرخلوص ہی کیوں نہ ہوں خاطر
میں لاتیں۔ زبان شخص کے خیال جذ بے ضرورت اور ماتحتی کی پابند ہے۔ اظہار کے
معاملے میں تلفظ استعمال مفہوم اورگرائمر ثانوی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ گھڑنے
مستعار لینے اشکالی تبدیلی کے معاملہ میں تھوڑدلی سے کام نہیں لیتی۔ زبان
نے تو ہر استعمال کرنے والے کی انگی پکڑنا ہوتی ہے۔ یہ ہر استعمال کرنے
والے کی باندی ہوتی ہے۔
زبان کو دائرے اور حدود و قیود میں رکھنا زبان دوستی نہیں‘ زبان دشمنی کے
مترادف ہے۔ یہ پابند رہ بھی پابند نہیں سکتی۔ یہ زبان کی سماجی مجبوری ہے۔
اسے استمال کرنے والے کا ساتھ دینا ہی ہوتا ہے۔ یہ اپنے استعمال کنندہ کا
اس کی مرضی اور ضرورت کا ساتھ دینے کی پابند ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنا
ہو کہ پرایا اس کے لیے ایک سے اور ایک ہی مرتبے کے حامل ہوتے ہیں۔ اس میں
گرنتھ بھگوت گیتا رامائن یا قرآن لکھا جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال کنندہ کسی
مخصوص فیلڈ سے متعلق نہیں ہوتا۔ وہ سائنسدان‘ سیاست دان‘ کاشت کار‘ باغبان‘
امور معاشیات غرض کہ کسی بھی فیلڈ سے متعلق ہو سکتا ہے۔ اس کی زبان پر
انکار آ ہی نہیں سکتا۔ استعمال کرنے والا گالی نکالے یا کوئ الہامی کلام
پڑھے‘ اس کی مرضی اور ضرورت پر انحصار کرتا ہے۔ اسے حضور اور ہجور‘ دونوں
طرح سے استعمال ہونا پڑتا ہے۔ حضور اور ہجور‘ اس کے لیے دونوں ٹھیک ہیں۔
بولتے وقت عین بولنے میں آئے یا ناآئے‘ اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اصلاح زبان
یہی ہے لکھنے میں آئے۔ لکھنے میں نہ آئے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ یہ بولنے کے
قریب ہو گا۔ تعلق لکھنا گویا اصلاحی استعمال ہو گا جبکہ تلق بولنے کا تلفظ
ہو گا۔۔
زبانوں میں مقامی و غیرمقامی زبانوں کی آوازوں اور الفاظ کا دخول عام سی
بات ہے اور یہ عمل دوچار صدیوں تک محدود نہیں بلکہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ ان کی
شکل و صورت کو دیکھ کر انھیں ان کی اصلی زبان کا لفظ قرار دینا کسی طرح
درست نہیں۔ نئ زبان میں وارد ہو کر یہ نئ زبان کے الفاظ ہو جاتے ہیں انھیں
کسی دوسری زبان کا لفظ سممجھنا بہت بڑی غلطی کے مترادف ہے کیونکہ ان کا
استعمال مفہوم تلفظ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ لفظ یا آواز کا کلچر ہی اختیاری
زبان کا ہو جاتا ہے تو اسے کسی دوسری زبان کا لفظ قرار دینا سراسر زیادتی
کے مترادف ہے۔
راشی اردو میں رشوت لینے والے کے لیے مستعمل ہے۔ مذاق کو ٹھٹھا کے معنوں
میں لیا جاتا ہے۔ نقل چوری سرقہ وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ختم خاتمے
کے علاوہ بھی مفہوم رکھتا ہے۔ اسامی حور اوقات واحد ستمال ہوتے ہیں۔ ارم
حضرت نوع کے پوتے کا نام ہے‘ ہمارے ہہارے ہاں لڑکیوں کا نام رکھا جاتا ہے۔
ہند حضرت حام کے بیٹے کا نام ہے‘ عرب میں عورت کے لیے مستمل ہے۔ تابع کے
ساتھ دار مستعمل ہے۔ تابع کے ساتتھ کسی لاحقے کی ضرورت ہی نہیں۔ دار بدیسی
نہیں داری سے ہے۔ کاواساکی سواری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کامی کام کرنے
والی کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ جاپان میں سان کے اضافے کے ساتھ بیوی کے
لیے بولا اور لکھا جاتا ہے۔ سان کا لاحقہ عزت کے لیے ہے ورنہ اصل لفظ کامی
ہی ہے۔
اوال پر ح کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ عین کے ساتھ نک کا اضافہ کر دیا گیا۔ گویا اس
قسم کی ہزاروں مثالیں درج کی جا سکتی ہیں۔ تفہیمی اور استعمالی حوالہ سے
انھیں کیسے اور کس طرح بدیسی کہا جا سکتا ہے۔
تلفظ اور لہجہ بھی بدلتا ہے۔
اصلاح زبان یا کسی عصبیت کے جنوں میں ان کی آمد کا رستہ روکنا اس کے ابلاغی
حوالوں اور کروں کو محدود کرنا ہے۔ زبان کو اس کے فطری پھیلاؤ کے حال پر
چھوڑ دینا‘ زبان دوستی ہے۔ لفظ جب سمجھ میں آتا ہے اور اپنےمعنی دیتا ہے تو
اسے زبان کے ذخیرہ میں جگہ پانے کا پورا پورا حق ہے۔ ممکنلٹی ٹربلات وٹروں
سپٹروں لیڈیاں ٹیبلیں وغیرہ کا ستعمال انگریزی بولنے والوں کے لیے نہیں ہو
رہا ہوتا۔ یہ الفاظ ہءیتی استعمالی اور تفہیمی حوالہ سے انگریزی کے ہیں ہی
نہیں اور کوئ انگریز انھیں بھول کر بھی نہیں قابولے گا تو اصلاح زبان کا
سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہونسلو فاسلو عرب سے درآمد ہوئے لیکن میواتی میں آ کر
عربی نہیں رہے۔ ذمہ کو پیش سے بولنے والا عربی نہیں بول رہا ہوتا۔ قلفی بول
کر قفلی معنی مستعل ہیں اور ابلاغ میں کوئ کجی نہیں تو غلط کیا ہے۔
زبان اور اس کے استعمال کرنے والوں کے ساتھ خیرخواہی اسی میں ہے کہ اسے اس
کے فطری انداز میں پھیلنے پھولنے دیا جائے۔ زبان وہی بڑی اور مضبوط ہے جو
ابلاغ کے حوالہ سے وسعت رکھتی ہے۔
پھوپھا نسرین کیڈھر گیا ہے۔
لال خان ادھر بیٹھی تھی۔
تم کو صاحب بولاتا ہے۔
حجور میں کل جرور حاجر ہوں گا۔
باجار سے چارجل لیتے آنا۔
برہما بردان دینے میں بخل نہیں کرتا۔
برہما وردان دینے میں بخل نہیں کرتا۔
ان جملوں میں ابلاغی حوالہ سے کوئ کجی موجود نہیں۔ کہا ٹھیک سے سمجھ میں آ
رہا ہو تو زبان درست ہے۔ یہ زبان کے لہجے ہیں۔ ان میں اصلاح کی ضرورت نہیں۔
کسی زبان کا ایک لہجہ تعین ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناممکنات میں ہے۔ اس
ذیل میں آخری بات یہ ہے کہ ہندی الگ سے زبان نہیں۔ جو زبان آپ پڑھ رہے ہیں
اس کے تین رسم الخط ہیں نستعلق دیو ناگری اور رومن‘ جو بولنے اور سمجھنے
میں ایک ہیں۔ اسی حوالہ سے سوچنا اور تحقیق وتنقید کا کام ہونے سے ہی اس کی
خدمت ہو سکتی ہے۔ |