ہم میں سے ہر کوئ لینے کے لیے
اگلی صفوں میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اپنے حقوق کی وصولی کے لیے احتجاج کرنے میں
کوئ کسر نہیں چھوڑتا۔ جب حق دینے کی باری آتی ہے تو رونا ہی نہیں موت پڑ
جاتی ہے۔ وہ وہ جواز گھڑتا ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اس بات کو یوں
سمجھیں ہم لینا جانتےہیں لیکن دینے کا نام بھی سننا نہیں چاہتے۔ ریاستی
ٹیکس کی وصولی تو یاد رہتی ہے لیکن ان ٹیکس دہندگان کو ریاستی حقوق اور
سہولتیں یاد سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ہاؤسز جو عوام کے خون پسینہ سے چلتے ہیں
وہاں اکھاڑ پچھاڑ اور عوام کو الو بنانے کی تراکیب تراشی جاتی ہیں۔ وہاں
بجلی پانی اور گیس کی تھوڑ نہیں آتی۔ عوام جو محنت کرتے ہیں اور ان کا بوجھ
اٹھاتے ہیں ان تینوں بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتے ہیں۔ آواز اٹھاتے ہیں تو
چھتر کھاتے ہیں۔ کیا یہ اندھیر نہیں؟ اس سے بڑھ کر شخصی حقوق کی بےحرمتی
اور کیا ہو گی۔ غاصب معزز بھوک و پیاس اوڑھنے والا شدت پسند۔
ڈاکٹر حضرات کے بارے بات کرتے خوف آتا ہے کیونکہ بیمار نظام و معاشرت کے
باشندے بیمار رہتے ہیں اس لیے ڈاکٹر حضرات سے واسطہ رہتا ہے۔ تنقید کی صورت
میں کھال تو اتاریں گے ہی لیکن ساتھ میں خدا معلوم کیا کر گزریں۔ ہماری شفا
گاہوں کے چوہے بھی ہمارے ڈاکٹروں کی طرح انسانی گوشت کے شوقین ہیں۔ اپنے
حقوق کے لیے کس شد و مد سے رولا ڈالتے چلے آ رہے ہیں لیکن انہیں اپنی
غلطیاں نظر نہیں آتیں۔ کہتے ہیں ملازمین پر انکواءریاں لگ گئ ہیں۔ اس سے
کیا ہو گا ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں۔ دو چار ماہ معطل رہیں گے۔ معاملہ
ٹھنڈا ہونے کے بعد کچھ دو اور کچھ لو کے تحت پروانہ بحالی جاری ہو جائے گا
یا کسی دور دراز علاقہ میں تبادلہ کر دیا جاءے گا اس طرح واپسی کےمعقول
داموں کی وصولی کا بندوبست کر لیا جائے گا۔ گویا ہر حوالہ سے وصولی ہی
وصولی۔ باور رہے معطلی میں تنخواہ بند نہیں ہوتی ہاں بالائ جو تنخواہ سے ٹن
ٹائم زیادہ ہوتی ہے‘ بند ہو جاءے گی۔ معطلی کے دن گربت کے دن ہوں گے لیکن
بھوکوں مرنے کے دن نہیں ہوں گے۔
ایک انسان جس نے نہ اچھا اور نہ ہی کچھ برا کیا‘ بالکل فرشتوں اور دیوتاوں
کے اوتار کا سا‘ بلا جرم زندگی سے گیا۔ ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر
گیا۔ کیا یہ قتل نہیں ہوا؟؟؟
ڈاکٹر اور ماتحت عملہ کس خدمت کی تنخواہ وصولتا ہے۔ کسی بھی ملازم سے
پوچھیں اسے یہ خوب خوب معلوم ہو گا کہ مہنگائ بڑھ گئ ہے اور تنخواہ بہت کم
ہے۔ اسے یہ یاد نہیں ہو گا کہ اس کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس کے ذہن سے بالائ
کی رقم بھی محو ہو چکی ہوتی ہے۔ اس معصوم بچے کا چوہے کے ہاتھوں مر جانا
ڈاکٹری کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن یہ تب ہے جب وہ اسے طمانچہ سمجھیں گے۔
زخمی ہونے کی صورت میں بھی یہ جرم کوئ معمولی جرم نہیں۔ قتل یا زخمی ہونے
کے حوالہ سے عدلیہ کے سامنے مسلہ لایا جانا چاہیے۔
حق اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ بد نصیب بچہ ڈیوٹی پر موجود عملہ اور
ڈیوٹی آفیسر کی لاپرواہی سے مرا نہیں ان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ کس بات کی
انکواءری جو اس دورانیے میں ڈیوٹی پر تھے اس بچے کے قاتل ہیں۔ قاتل کی سزا
ہمارے قانون میں غیر واضع نہیں۔
اس سے یہ بات بھی کھلتی ہے کہ ہماری شفاگاہوں میں صفائ ستھرائ کا کیا عالم
ہے۔ لوگوں میں صفائ ستھرائ کے پمفلٹ بانٹنے والوں کے اپنے ہاں صفائ ستھرائ
معنویت نہیں رکھتی۔ کوئ ذمہ دار اور غیر جانب خود جا کر بلا اطلاع جا کر
دیکھے‘ مجھے یقین ہے سر پکڑ کر بیٹھ جائے گا۔ سچی بات تو یہ ہے محکمہ صحت
پر فضول خرچ کیا جاتا ہے۔ یہاں داخل ہو کر بھی یہاں کے لوگوں سے پرائیویٹ
طبی امداد لینا پڑتی ہے ہماری شفا گاہیں
غالب کے اس مصرعے کا زندہ عکس ہیں
دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے
سنتے ہیں کھانسی کے سیرپ میں خطرناکی وارد ہو گئ ہےاور اس کے پینے سے کچھ
کھانسنے والے الله کو بھی پیارے ہو گئے ہیں۔ یہاں کا ہر دوسرا بڈھا کھانستا
ہے۔ لگتا ہے بڈھا مکاؤ مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ بڈھے وقتا فوقتا معاملات میں
ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں ان کی قوت برداشت کم یا ختم ہو چکی
ہوتی ہے اسی لیے بلاطلب مشورے دیتے رہتے ہیں۔ بڈھوں کے لیے میرا مشورہ ہے
کہ وہ اپنی چونچ بند رکھا کریں۔ قوم کو وہ کھٹکنے لگے ہیں۔ یہ کوئ ان کے
حوالہ سے صحت مند علامت نہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ خطرے
کی گھنٹی بج چکی ہے لہذا وہ محتاط ہو جائیں۔ چونچ بند کرنے کی ابتدا میں
اپنی ذات سے کرتا ہوں۔ کھانسی کا سیرپ بنانے والوں سے استدعا کرتا ہوں ایک
بار بڈھوں کومعاف کر دیں۔ آءندہ وہ احتیاط سے کام لیں گے اور شکایت کا موقع
نہیں دیں گے۔ ایک موقع تو ملنا چاہیے۔ حکومت سے اس لیے اپیل نہیں کروں گا
کہ اس کے پاس جنتا کی بھلائ اور بہبود کے لیے کچھ کرنے لیے وقت کہاں ہے۔
|