بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے
رہنما عبدالقادر مُلا کو ان الزامات کے تحت بنگلہ دیش کی خصوصی عدالت نے
پھانسی کی سزا سنا دی کہ آج سے 42سال قبل 1971ء میں انہوں کے البدر کے
کارکن کی حیثیت سے ’’تحریک آزادی‘‘ کے دوران بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت
اور پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے پا ک فوج کا ساتھ دیا تھا۔اس خصوصی عدالت
کو انٹر نیشنل کرائم ٹربیونل کا نام دیا گیا حالانکہ ٹربیونل کے تینوں جج
بنگالی ہیں۔بنگالی آج جسے تحریک آزادی قرار دے رہے ہیں وہ ریاست کے خلاف
بغاوت اور پاکستان توڑنے کی سازش تھی جسے پاکستان کے ازلی دشمن سے مل کر
عملی جامہ پہنایا گیا۔ بھارت وہی دشمن ہے جس کیساتھ پاکستان کی 1965ء میں
جنگ ہوئی جس میں بنگالیوں نے بھی اپنی جان کے نذرانے پیش کئے تھے۔ غدار تو
وہ ہیں جنہوں نے دشمن کیساتھ مل کے پاکستان توڑا۔وہ آج بھی پاکستان کے
غدار ہیں جنہوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان سے محبت کرنیوالے
لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔ غدار بنگلہ دیش میں اقتدار میں آئے توپاکستان کے
حامیوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی لیکن ان کی سیاسی
اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی بنگلہ دیش میں ایک مسلمہ
حیثیت ہے ۔وہ الیکشن لڑتی اور کامیابی بھی حاصل کرتی رہی۔ وہ خالدہ ضیاء کی
حکومت میں شامل رہی۔دو تین سال سے حسینہ واجد کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث
خالدہ ضیاء کی قیادت میں اپوزیشن متحد اور مضبوط ہوگئی اس پر حسینہ واجد کی
تشویش فطری تھی۔ حسینہ واجد کی عوامی لیگ بنگالیوں کے دل میں پاکستان سے
نفرت کے بیج بوکر اسے انتخابات میں کیش کراتی رہی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی
کے رہنمائوں پر پاکستان سے وفاداری کا الزام لگایا جسے خصوصی عدالت نے
تسلیم کیا اور تین رہنمائوں کو پھانسی اور نوے سالہ غلام اعظم کو نوے سال
قید کی سزا سنا دی ۔ ان میں سے 65 سال عبدالقادر ملا کو اپنے یوم آزادی کے
موقع پر پھانسی لگا کر اپنی طرف سے پاکستان سے نفرت کرنیوالے بنگالیوں کو
خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ماہ میں الیکشن ہونیوالے ہیں ہوسکتا ہے کہ ایک
دو کو عین الیکشن کے موقع پر بھی تختے پر چڑھا دیا جائے ۔
عبدالقادر ملا کو پاکستان سے وفاداری کی سزا دی گئی ۔ اس پر حکومت پاکستان
کی خاموشی افسوس ناک اور گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ کا بیان انتہائی
شرمناک ہے۔ان کہنا ہے کہ ’’ پاکستان کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت
نہیں کرنا چاہتا‘کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت پاکستان کی پالیسی
نہیں۔ خواہش ہے بنگلہ دیش میں مفاہمت کی فضا پیدا ہو۔سارک ممبر کی حیثیت سے
بنگلہ دیش کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں تاہم عبدالقادر ملا کی پھانسی کے
حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات بھی دیکھ رہے ہیں۔ عدالتی کارروائی پر
انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعتراضات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مقدمات سے
بنگلہ دیش میں عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔‘‘
پاکستان کے وفاداروں اور پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے انتہائی حد تک
جانے کی پاداش میں سزائیں پاکستان سے نفرت کا اظہار ہے۔ اسے بنگلہ دیش کا
اندرونی معاملہ قرار دے کر خاموشی اختیار کرنے والوں کی اپنی حب الوطنی بھی
مشکوک ٹھہرتی ہے۔۔ ہم اپنے ہیروز کی پھانسی پر اسے بنگلہ دیش کا اندرونی
معاملہ قرار دیکر یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ
ملنے پر مبارک بادیں دے رہے اور بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کا فرض
تھا کہ بنگلہ دیش کے متعصب ٹربیونل کی حقیقت دنیا پر آشکارکی جاتی اور اس
کی طرف سے دی گئی سزائوں کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کر کے ان پر عمل
در آمد رکوادیا جاتا۔ایسی بھی کیا بزدلی کہ آپ اصول اور ضمیر کی بات کرنے
سے بھی گریزاں ہیں۔
16 دسمبر ہمیں ایک بہت ہی دلشکن حادثے کی یاد دلاتا ہے… ہر سال آتا ہے ہر
سال گزر جاتا ہے۔ جس طرح 9/11 کے بعد اس کے وقوع ہونے کے حقائق دنیا پر
روشن ہونے شروع ہو گئے تھے۔ اسی طرح سقوط ڈھاکہ کے حقائق بھی اب کتابوں اور
کہانیوں کے اندر واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں پروفیسر ڈاکٹر سجاد
حسین کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ’’شکست آرزو‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
جس میں مصنف نے بڑی جی داری سے اصل واقعات لکھے ہیں۔ یعنی بھارت نے علیحدگی
پسند قوم پرستوں کے ساتھ مل کر مکتی باہنی بنائی تھی۔ جس نے مشرقی پاکستان
کے اندر ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی تھی۔ بالآخر ان کی مدد سے بھارت نے
اپنی فوج کو مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا اور اس کے لئے بنگلہ دیش بنانا
آسان ہو گیا۔
اس وقت بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے
مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ اور یہ بھی گوہر
افشانی کی تھی کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو بھی بحیرہ عرب میں غرق کر دیا ہے۔
شرمیلا بوس جو بھارتی اور بنگالی ہیں وہ آکسفورڈ کے بین الاقوامی تعلقات کے
ریسرچ سینٹر کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی کتاب میں بنگالی قوم پرستوں
کے مظالم کھول کر بیان کئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے۔ بنگالی عورتوں کے گینگ
ریپ کے واقعات غلط ہیں۔ انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج
سے منسوب تیس لاکھ قتل ایک افسانہ ہے۔ قوم پرستوں نے اردو بولنے والوں اور
مغربی پاکستان سے آنے والے سب لوگوں کو نشانہ بنایا تھا جب پاکستانی فوج نے
ایکشن شروع کیا اس وقت بنگلہ دیش کے شہروں کی زمین غیر بنگالیوں کی لاشوں
سے اٹی پڑی تھی۔ ایک مقام پر تو لاشوں کے باعث لپٹا ہوا پانی رک گیا تھا۔
آخری دنوںمیں بنگالی علیحدگی پسندوںنے اپنے ہی بنگالیوں کو جومتحدہ پاکستان
کے وفادار تھے، ظلم و تشددکا نشانہ بنا ڈالا۔
یہی جنون آج کل بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے سرپر سوار ہے وہ ایک بپھری ہوئی
شیرنی کی طرح جماعت اسلامی کے برگزیدہ لوگوں کو چن چن کر سزائے موت اورعمر
قید کی سزا دلا رہی ہے۔ گویا وہ بھارت کا ایک آلہ کار بن کر آئندہ انتخابات
میں جیتنے کی راہ ہموار کر رہی ہے مگر اسے معلوم ہونا چاہئے پہلے بھی وہ
ایک خونی لکیرپر چلتی ہوئی حادثاتی طور پر وزیراعظم بنی تھی۔ اقتدار حاصل
کرنے کے لئے وہ اور کتنے حادثوں کو جنم دینا چاہتی ہے۔ افسوس کبھی کسی برسر
اقتدار شخص نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ جب بھی وہ تاریخ کو اپنے ہاتھ میں
لے لیتے ہیں جغرافیہ ان سے روٹھ جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے جن علماء اور زعماء
پر غداری کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں۔ وہ محض ایک مکتی باہنی ذہنیت کے عکاس
ہیں کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کی حمایت کرنا غداری نہیں ہے۔ جس زمانے
میں بنگلہ دیش ۔ مشرقی پاکستان تھا۔ سب لوگ پاکستانی تھے اورپاکستانی شناخت
رکھتے تھے۔ پاکستان کے حق میں بات کر سکتے تھے۔ پاکستان کو متحد رکھنے کی
کوششیںکر سکتے تھے۔ چالیس پنتالیس سال کے بعد انہیں پاکستانی ہونے کی سزا
دینا محض پاگل پن تو ہو سکتا ہے۔ انسانیت نہیں کیا۔ جنہوں نے 42ء میں
پاکستان بنانے کی مخالفت کی تھی انہیں آج اس بات کی سزا دینا واجب ہے؟۔ آج
جبکہ ان کی اولادیں بھی پاکستان کی خدمت کر رہی ہیں۔ حسینہ واجد مکافات عمل
سے خوف کھائیں۔
محمد یاسین وٹو & کالم نگار | بشری رحمن سے اقتباس |