دو شخص ہوٹل میں گرما گرم بحث کر رہے
تھے۔باتوں سے دونوں بےپارٹی کے لگتے تھے۔ بے پارٹی اشخاص کا مختلف سمتوں
میں چلنا اوراتنی گرما گرمی دکھانا مجھے بڑا ہی عجب لگا۔ خیرمیں بے تعلقی
ظاہر کرتے چائے نوشی میں مشغول رہا۔ ان کا موضوع سخن مہنگائ اور بےروزگاری
تھا۔ وہ یوں ایک دوسرے سے الھج رہے تھے جیسے ان دونوں میں سے کوئ ایک ان
خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔
ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار خود عوام ہیں۔ آخرانھوں
نے ان بدمعاشوں کو ووٹ ہی کیوں دیے۔ دوسرے کا کہنا تھا اطراف میں بدمعاش
تھے ایک کو ممبر بننا ہی تھا۔ دوسری طرف اگر کوئ شریف تھا اور ممبر نہیں بن
سکا تو بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کام شریفوں کا کبھی بھی نہیں رہا۔
پوری جمہوری تاریخ کو دیکھ لیں۔ اسمگلر چوراچکے سنیما کی ٹکٹیں بلیک کرنے
والے رسہ گیر صاحب زادے نواب زادے حرام زادے امریکہ کے چہولی چک اس عمل کا
حصہ رہے ہیں۔
دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ قصور سارا عوام کا ہے۔ کچھ فیصد ہی سہی لوگ
جمہوریت کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔ پہلے کا موقف تھا کہ لوگوں کو بھوک میں نک
نک ڈبو کر الیکشنوں کے دنوں میں چوپڑی روٹی اور لگ پیس دکھا کر یہ لوگ ووٹ
حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگ چند دن کی سیری کو دیکھ کر پچھلے اور اگلے سالوں کی
قیامت ناک بھوک کو بھول جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک جس نے جوش خطابت میں چائے کا ابھی تک ایک گھونٹ بھی نہیں لیا
تھا‘ کا کہنا تھا کہ صدر وزیر اعظم اور اسپیکر تو ڈھنگ کے منتخب کیے جاءیں۔
شاید اسے معلوم نہ تھا کہ انھیں عوام منتخب نہیں کرتے۔ یہ عوامی نمائندے
نہیں‘ اپنی پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے
لیے کام کرتے ہیں۔ انھیں عوام سے کیا مطلب۔ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہیں
بلکہ پارٹی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اسپیکر نے وزیر اعظم کے حوالہ سے جو فیصلہ
دیا ہے۔ عوامی مفاد میں نہیں دیا۔ اگر وہ عوام کا نمائندہ ہوتا تو اسے عوام
کا مفاد عزیز ہوتا تو فیصلہ عوامی ہوتا۔ عدلیہ کی عزت اور وقار کو یوں پاؤں
کی مٹی نہ بناتا۔ فیلصے میں واضع کرتا کہ کون آءین کا قاتل ہے۔ اس کے فصلے
سے آئین بحال نہیں ہوا۔ آئین ابھی تک چیلنج یا معطل ہے۔
اتنی دیر میں بجلی آ گئ۔ دونوں کا جوش ہوا ہو گیا۔ دونوں سر پر پاؤں رکھ کر
بھاگ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اتنا گہرا شعور انھیں کس نے دیا ہے۔ کیا یہ
بھوک پیاس اور اندھیرے کی مہربانی ہے یا میڈیے کی کارگزاری ہے۔دوسرا سوال
یہ بھی کھڑا تھا کہ شعور انقلاب کی طرف لے جا رہا ہے یا بھوک شعور کو کھا
پی جائے گی۔
ان دونوں کا بجلی کے آنے پر دوڑ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ شعور کسی بھی سطع پر
ہو بھوک سے تگڑا نہیں ہوتا۔ روٹی ایمان کی بناء ہے۔ شخص کتنا ہی مظبوط کیوں
نہ ہو بھوک کے ہاتھوں بک جاتا ہے۔ لوگوں کو بھوک کی آخری سطع پر اسی لیے
پنچا دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ضمیر ایمان اور عزت بیچنے پر مجبور ہو جائیں۔
بھوک کےتیور دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کوئ تبدیلی
نہیں آئے گی۔ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھ کر بڑےاونچے درجے کی باتیں کرتے رہیں گے
لیکن بجلی آتے ہی روٹی کی طرف بھاگ اٹھیں گے۔
بغداد والے کوا حلال ہے یا حرام پر بحثیں کرتے رہے ادھر ہلاکوں خان نے
بغداد کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔ ہمارےساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ ہماری
خودداری پر ہر دوسرے کاری ضرب لگاتا ہے اور ہمارے لیڈر اگلے الیکشن جیتنے
کے لیے بھوک میں اضافے کا کوئ نیا راستہ تلاشنے کی سعی کرتے ہیں۔
کار سستی آٹا چینی دال گھی مہنگی کر رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کو کار سے کیا
دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بس کرایہ کم ہو تو غریب سے تعاون سمجھ میں آتا ہے۔
اندھا بانٹے روڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں۔ کار کا سستا ہونا غریب پروری کے کس
زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے کہ میک اپ بھی سستا کر دیا
گیا ہے۔ غالبا قوم کوکوٹھے پر بیٹھانےکا ارادہ ہے۔
قوم اس نام نہاد آزادی کے دن سے لے کر آج تک کوٹھے پر بیٹھی ہے۔ جوآتا ہےاس
کی جان مال عزت آبرو انا اور غیرت سےکھیلتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ اس کے
جانے کے بعد ہر کوئ اس کے جبروستم کے قصے چھیڑ دیتا ہے لیکن یہ سب زبانی
کلامی ہوتا ہے۔ کوئ اس پر گرفت نہیں کرتا۔ گئے وقت کی چھوڑیے کوئ موجودہ کے
سدھار کی کوشش نہیں کرتا۔ ہرآتا دن گزرے سے بدترین ہوتا ہے۔
عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان نام کے قومی لیڈروں کی ناک کے
نیچے رشوت کا بازار گرم ہے۔ اکثر افسر ان کے اپنے بندے ہیں۔ کم از کم جو ان
کے اپنے بندے نہیں ہیں ان پر تو گرفت کریں تاکہ وہ ان کا بندہ ہونے کا جتن
کریں۔
محکمہ تعلیم اوروں کے لیے نمونہ ہونا چاہیے لیکن اس کا حال بےحال ہے۔ ان
دنوں لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسرز کی پوسٹنگ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ خالی پوسٹوں
اور پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کے بھاؤ لگ رہے ہیں۔ جو گرہ ڈھیلی نہئں کرے گا
دور دراز علاقوں کی ہوا کھاءے گا۔ نیلے پیلے نوٹ میرٹ بناتے ہیں۔ کوئ
پوچھنے والا نہیں۔
پوچھنے والوں کے ہاتھ میں سفید گڑ کی پیسی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ دانت
خراب ہوں گے چوسے پہ چوسا مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں خراب دانتوں کا
علاج کون سا گرہ خود سےہونا ہے۔ سرکار کا اشیرواد اور قوم کا مال سلامت
رہے۔ انھیں پریشان کی کیا ضرورت ہے۔ |