ہم اسلام کے ماننے والے ہیں٬ پیروکار نہیں

میں عرصہ سے حیران تھا کہ مسلمان دنیا کی ایک کثیر آبادی ہونے کے باوجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں گرفتار ہیں۔ اگر کوئ سر اٹھاتا ہے تو اٹھنے والا سر کلسڑ سے قلم کر دیا جاتا ہے یا پھر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ کوئ اس قہر و غصب پر چوں بھی نہیں کر پاتا۔

میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کیا اکثریت کی کوئ معنویت نہیں۔ اگر اکثریت معنویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پاکھنڈ ہے۔ اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہم اس میں اپنی بقا کیوں خیال کرتے ہیں۔

ایک سوال نے پھر جنم لیا‘ کیا جمہوریت کوئ پروگرام بھی دیتی ہے۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئ پروگرام نہیں دیتی یا اس کا اپنا ذاتی کوئ پروگرام نہیں ہے تو کیا جمہوریت میں ترقی کی تلاش کھلی حماقت نہیں۔ غیر مسلم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ ان کے سماجی اور مذہبی سٹ اپ سے لگا رکھتی ہو گی وہ اسے شوق سے گلے کا ہار بنائیں۔ کسی مسلم کو اس پر اعتراض کرنے کا بھلا کیا حق ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے کا حق ہے۔

اسلام میں تقوی پرہیزگاری اور عمل صالح کو اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئ مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھتا ہے تو ریاستی امارت کا اس شخص سے زیادہ کون مستحق ہے۔ جو بے پناہ دولت طاقت یا ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و فعل کے حوالہ سے فاسق و فاجر ہے وہ یہ حق نہیں رکھتا۔ گویا اس کی دولت اور طاقت کوئ معنوت نہیں رکھتی۔

میں نے بڑا غور کیا ہے اکثریت کی کوئ معنویت نہیں۔ انسانی ترقی اور بقا کی ضامن کوئ اور چیز ہے۔ اؤل اول مسمان تعداد میں ناہونے کے برابر تھے لیکن کامیابی سے ہم کنار ہوتے تھے۔ نماز روزہ حج زکوتہ وغیرہ واجبات وہ بھی سر انجام دیتے تھے ہم بھی ان واجبات کی ادائیگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قریانی بھی بڑے جوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ناکام ونامراد کیوں ہیں؟ موجودہ صورت حال کے حوالہ سے سوال اٹھتا ہے کیا مسلمان ہونے کے معاملہ میں ان امور کی ادائیگی کافی نہیں؟ اگر مسلمان ہونے کے لیے یہ واجبات کافی ہوتے تو آج ہم دنیا میں سربلند ناسہی باعزت ضرور ہوتے۔

اسلام کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان بلا کسی تمیز وامتیاز آپس میں بھائ بھائ ہیں لیکن ہم میں بھائ چارہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زبان اور عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہمارے معاشی اور نظریاتی مفادات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئ ظالم کسی مسلمان کو پھڑکاتا ہے تو ہم ساتھ دینے یا کم از کم بچ بچاؤ کرانے کی بجائے ظالم کی طرف داری ہی نہیں مسلمان کو مزید ازیت دینے کے لیے ظالم کا ساتھ دیتے ہیں اور اس کے فعل بد کو درست ثابت کرنے کے وہ وہ دلائل گھڑتے ہیں جن کا خود ظالم کو علم نہیں ہوتا۔

اسلام میں کسی کو زبان یا ہاتھ سے دکھ اور تکلیف دینے کی اجازت نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے کر خوشی ہی نہیں سرشاری ہوتی ہے۔

اسلام میں بدلا لینے کی ممانعت نہیں اور ناہی دوسرا گال پیش کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدلا لینے کا پورا پورا ہر کسی کو حق حاصل ہے ہاں معاف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس معافی نام کی چیز ہی نہیں۔ ہم ناکردہ جرم کی سزا دینے کے بھی قاءل ہیں۔ ایک شخص جرم نہیں کرتا یہ اس کا قصور ہے اس میں اذیت پسند کا کیا قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت سے بالاتر نہیں رکھا جا سکتا۔

اسلام میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مسلم ہمسایہ بھی بھوکا نہیں سو سکتا اس کے بارے میں ہم سے روز حشر سوال ہو گا۔ ہم اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھاتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئ قیامت کی بات وہ ہمیں یاد تک نہیں۔ ہم موجودہ حیات ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔

اسلام چوری کی اجازت نہیں دیتا۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ یہ چیز گریبوں سے متعلق ہے۔ بڑے قرضوں کی معافی کو اپنا قانونی حق سمجہتے ہیں جبکہ گریب کی سنگی پر انگوٹھا رکھ کر قرض وصول کر لیا جاتا ہے۔ طاقتور بجلی کی چوری کو چوری نہیں سمجھتا۔ خود واپڈا والے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کیا کریں اپنے پیٹ کے علاوہ بالا افسروں کے پیٹ کی ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔

اسلام جھوٹ اور جھوٹے پر لعنت بھیجتا ہے۔ ہم اور ہماری جمہوریت سچ اور سچے کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ سچ بولنا یا سچ کی حمایت کرنا آج کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔

اسلام حق دار کو اس کا حق دینے کی تاکید کرتا ہے۔ یہاں حق دار کو حق دینا حق نہیں رہا۔ حق دار وہی ہوتا ہے جو پلا جھاڑتا ہے۔ ہسپتال ہو یا کوئ بھی دفتر بلا دے دالا کے حق مل نہیں سکتا۔ ستم یہ کہ دے دالا ناحق کو حق کے درجے پر فائز کر دیتا ہے۔

میں نے یہاں محض چند باتوں کا ذکر کیا ہے ورنہ اسلام انسان کی زندگی سے متعلق ہر معاملے میں اپنا پروگرام دیتا ہے۔ اس حوالہ سے دیکھا جاءے تو یہ بات کھلتی ہے نماز روزہ حج زکواتہ قربانی وغیرہ کی ادائیگی مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں۔ مسمان ہونے کے لیے اسلام کے دیے پروگرام کو عملی زندگی کا حصہ بنانا بھی ضروری ہے۔ ہم اسلام اور اس کے متعلقات کو ماننے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم قدیم انبیاء اور تمام الہامی کتب کو مانتے ہیں۔ ماننا اور عمل کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ ماننے والے کو کوئ بھی نام دے دیں۔ ہم اسلام اور اس کے متعقات کے پیروکار نہیں ہیں۔ میں کوئ عالم فاضل شخص نہیں ہوں سیدھی سادی کلیے کی بات کر رہا ہوں۔ میرا اصرار ہے کہ ہم اسلام کو ماننے والے لوگ ہیں اسلام کی پیروی سے ہمارا دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ہماری کامیاب اور ظفرمندی کی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گا جب ہم اسلام کے پروگرام کو ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی پوری دیانت داری سےپیروی کریں گے۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 191235 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.