روس کی مثال

پاکستان کی موجودہ اقتصادی اور سیکیورٹی صورت حال میں ایک مثبت تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک پاکستان ایشیا ء کی سطح پر آکر نہیں سوچتا۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اندرونی مسائل اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ بہتری کے لیے باہر کی طرف سوچنا ناممکن سا عمل بن گیا ہے۔جنوبی ایشیا میں افغانستان کے کردار کو ہٹا کر کوئی بھی اقتصادی یا سیکیورٹی فارمولا کامیاب ہوتا نظر نہیں آسکتا۔روس اور جیسی بڑی طاقت نے اس عنصر کو منفی کر کے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے کی ایک ناکام کوشش کی۔مگر جلد ہی ان کو اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔روس اس بات سے آگاہ تھا کہ اس نے خطے کے اندر افغانستان کی پوزیشن اور خطے سے باہر افغانستان کی پوزیشن کو دیکھ کر ہی کوئی بڑا فیصلہ لینا ہے۔کیونکہ ان حالات سے ہی روس اور امریکہ کے آپسی تعلقات نے طے ہوناتھا۔روس نے اس بات کو جانچ لیا تھا کہ افغانستان میں لیا گیا کوئی بھی بڑا قدم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا۔جب تک اس میں امریکہ اور بڑی عالمی طاقتوں کا ساتھ شامل نہ ہو۔روس کی خارجہ پالیسی کے کئی نکات پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں اس لیے مشترک رکھ سکتاہے کہ دونوں کا حدف ایک ہی تھا۔اور وہ یہ کہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا ساتھ ہی امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک کے اثر کو افغانستان سے ختم کرنا یا غیر معمولی سطح تک کم کردینا۔پاکستان کو اب اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جب امریکہ اس خطے میں اپنی فوجی طاقت استعمال کرے گا اس وقت تک اس خطے میں حقیقی اقتصادی ترقی کا خواب تک نہیں دیکھا جا سکتا۔توانائی کے منصوبوں میں پاکستان افغانستان اور دیگر ایشیاء ممالک میں سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔جبکہ اس کے بر عکس روس جو کہ ایک وقت تھا افغانستان کا دشمن تصور کیا جا تا رہااور کئی بڑے منصوبوں میں افغانستان کے اندر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔پاکستان کا کردار افغانستان کے خلاف جارحیت میں روس سے بھیانک ہرگز نہیں تھا ۔اس کے باوجود بھی پاکستان اپنا امیج بہتر نہیں کرپایا۔نہ ہی افغانستان میں اپنا سرمایہ لگا نے کے قابل ہوا ہے ۔جس کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں کی نااہلی اور امریکہ کی امداد کی مجبوریاں ہیں۔بدلتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کو صرف وہی ملک سمجھ سکتے ہیں جن کی نظر آنے والے وقت کی ترقی پر ہو۔ہمارے ملک میں جس کے ہاتھ میں بھی اس ملک کی لگام دی گئی اس نے ان معاملات پر غور تب کرنا تھا۔جب اس کی ذاتی خواہشات اور ضروریات کا پیٹ بھر جاتا۔نہ وہ کبھی بھرے گا نہ ہی کوئی ایسی باتوں کی طرف دھیان جائیگا۔ 2006میں پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ افغانستان میں اپنا ایک اچھا امیج بنائے جب کرزئی حکومت اور امریکہ (اور اس کے اتحادیوں ) کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔کر روس بھی وہی رہا ہے افغانستان کے لیے جیسا ہم اس سے کئی گنا بہتر اور وسیع پیمانے پر کر رہے ہیں۔مگر ان کے ہاں ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت یہ سارے کام سرانجام دیے جا رہے ہیں۔مثال کے طور پر روس میں محض15000 طالبعلم افغانستان سے آکر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں افغان پناہ گزینوں اور پاکستان سے براہراست فوائد حاصل کرنے والے افغان باشندوں کی تعداد تو لاکھوں میں جاتی ہے۔اس کے باوجود افغانستان میں روس کا کردار مثبت تبدیلیاں رونما کر رہاہے۔روس نے قریب 400افغان نوجوانوں کے لیے وظائف کا اعلان بھی کیا ہوا ہے۔جو کہ روس کی اچھی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اب اگر افغان مہاجرین پر لگنے والے پیسے کا ذکر کیا جائے۔تو روس افغان امداد میں ہم سے کئی گنا پیچھے ہے۔

ایک مضبوط معیشت ہونے کے باوجود بھی روس نے افغانستا ن میں سرمایہ کاری کی تیاری مکمل کرلی ہے۔اور اس کے لیے اس نے اپنے تعلقات نہ صرف افغان حکومت سے بلکہ اس طبقہ فکرسے جو کہ روس سے تعلیم یافتہ ہے بہتر لیے ہیں۔یاد رہے کہ ان طالبعلموں میں سے بیشتر افغانستان میں سیکیورٹی اور سیاست میں کافی بڑے عہدوں پر فائض ہیں۔2014میں افغانستان سے امریکہ کے جانے کے بعد(اگر انخلاء ہوا بھی تو)پاکستان میں ایک معاشی بحران جنم لے گا۔ہماری معاشی پالیسیاں بڑی اور بُری حد تک امریکہ کی امداد کے اثر و رسوخ میں ہیں۔اور جب اس امداد کا سلسلہ یقینی طور پر بند ہوگیا۔تو ہمارے لیے معیشت سنبھالنا بھی ایک مسلہ بن جائے گا۔آسان اور قریب ترین سرمایہ کاری افغانستان میں ہی میسر ہو سکتی تھی کیونکہ امریکی فوجوں کے جانے کے بعد افغانستان میں ترقیاتی اور توانائی کے شعبوں میں ایک بڑی مارکیٹ سامنے آنی ہے۔مگر اس میں روس کیا پاکستان کی مداخلت برداشت کرے گا؟جو کہ ابھی سے اپنے پاؤں جمانے کی کوشش میں لگا ہواہے۔پاکستان کو چاہیے کہ جلد از جلد امریکی امداد کی بجائے ایک حقیقی ترقی کی کاوش شروع کرے۔جو کہ سرمایہ کاری سے ہی آئے گی۔نہ کہ آی ایم ایف کے قرضوں سے۔اگر سرمایہ کاری کا یہ موقع پاکستان حکومت نے گنوا دیا تو اس کا اپنا سرمایہ دار اپنا تمام تر سرمایہ اس ملک سے نکال لے گا۔جس کا نتیجہ بہت بھیانک سامنے آئیگا۔حکومت کو محض اپنے اللے تللے لگے ہوئے ہیں۔ان باتوں کی طرف عام عوام کی نظر ہے مگر ہمارا خارجہ اور داخلہ امور سمیت تمام تر کے وزیر نہ جانے کب ملک کے مفاد میں بیٹھ کر سوچیں گے۔اور اس کی ترقی کے لیے کوئی جامع اور قابل عمل فارمولا تجویز کریں گے۔ورنہ امریکہ کا مفاد تو اس خطے میں رہنے میں ہے ۔چاہے وہ افغانستان میں رہے یا پاکستان میں ۔مستقبل کا افغانستان بننے سے بہتر ہے ۔کہ اپنی حالت زار پر غور کیا جائے۔بیرونی دورے عیش و عشرت اور سیر کی بجائے بین الاقوامی صورتحال کا سمجھنے کے لیے اور ضرورت کے مطابق کیے جائیں۔اور ایشیا ء سے بھاگنے کی بجائے ایشیائی ممالک کے تعاون سے ہی ایشیاء میں ایک ایسی اقتصادی منڈی کی بنیاد رکھی جائے جس کو یورپی منڈیوں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے۔یہی ہماری بقاء کی ضرورت ہے۔
 

Zia Ullah Niazi
About the Author: Zia Ullah Niazi Read More Articles by Zia Ullah Niazi: 9 Articles with 6806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.