حلقہLA22 بلوچ جو گزشتہ کافی عرصہ سے پی پی پی کے امید
وار کے لیے موزوں رہا ہے اس بار پھر ایک مرتبہ مسلم کانفرنس کے امید سابق
وزیر تعلیم کو شکست دے کر پی پی پی کے امید وار سردار اختر حسین ربانی
اسمبلی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تا ہم اس حلقہ کی ایک اہم بات یہ
رہی ہے کہ اس حلقہ کے امید وار کو عوام میں پذیرائی کیسے ملتی ہے تو اس کے
لیے لازمی ہے کہ امید وار جب تک شخصی بنیادوں پر افراد کو نہیں نوازتے اس
وقت تک عوام امید واروں کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
پی پی پی کے موجودہ وزیر حکومت نے اس سے قبل عرصہ میں اپنے کارکنان کا بھر
پور اند میں تحفظ کیا مگر مسلم کانفرنس کے امیدوار فلاحی کاموں کی بنیادوں
پر عوام سے توقع لگائے بیٹھے رہے اور بالآخر انھیں شکست سے دوچار ہونا
پڑاویسے تو اس حلقہ میں نظریات نام کی کوئی چیز موجود نہیں اگر بات صرف
نظریات کی ہوتی تو اس الیکشن سے ماقبل الیکشن میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر
سردار منظور حسین عاصم کو اسمبلی ممبر بن جانا چاہیے تھا مگر معاملہ اس کے
برعکس رہا اس وقت جیتنے والے امیدوار کا تعلق مسلم کانفرنس سے تھا اور
دوسرے نمبر پر موجودہ ایم ایل اے سردار اختر حسین ربانی تھے جن کو پی پی پی
نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا تھا اور وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے تھے اور پی پی
پی کو تیسرے نمبر پر ووٹ ملے تھے جب کہ اس وقت کو اگر دیکھا جائے تو بات کا
نتیجہ صرف ایک ہی ہے جو موجودہ صورت حال ہے اس وقت سردار اختر حسین ربانی
کا پی پی پی کی سیٹ پر الیکشن نہ لڑنا اور موجودہ دور میں مسلم کانفرنس کو
خیر آباد کہہ کر مسلم لیگ ن کی طرف ہجرت کر جانے والے امیدوارں میں کسی حد
تک یکسانگی نظر آ رہی ہے اور وہ صرف شخصیت پرستی ہے۔
اس وقت کے الیکشن میں منظور عاصم کا ہارنا اور حال ہی میں ہجرت کرنے والے
امید واروں کے ساتھ ایک مخصوص ٹولہ ہے جو صرف شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے
ہیں نہ کہ نظریات کی بنیا د پر۔ ایک پارٹی کے لوگ دوسری پارٹی کے امیدوار
کو قبول نہیں کر سکتے اور اپنے اپنے سیاسی بتوں کی پرستش کی جارہی ہے سردار
اختر ربانی کے ووٹر کسی اور اومیدوار کو ووٹ نہیں دیتے اسی طرح فاروق طاہر
اور ملک پرویز کے ووٹر بھی کسی اور اور ووٹ نہیں دیتے اور عوامی مسائل جوں
کے توں رہتے ہیں اور مسئلہ مسلم کانفرنس کا تو ایک طرف عتیق حکومت کا ایوان
کے اند ر بہت ساری تبدیلیاں جو ہوتی رہیں وہ مسلم کانفرنس کے لیے زہر قاتل
ثابت ہوئیں اور اب اس حلقہ میں مسلم کانفرنس کے مضبوط امیدوار بھی مسلم
کانفرنس کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہو گئے جن میں فاروق احمد طاہر اور ملک
پرویز کا گٹھ جوڑ بھی شامل ہے مگر ایک بات عیاں ہے کہ اگر مسلم لیگ ن
موجودہ کیفیت میں ہی رہی تو ایک بار پھر پی پی پی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو
جائے گی چونکہ اِس حلقہ میں موجودہ دور میں مسلم لیگ تین حصوں میں تقسیم ہے
جس میں ایک گروپ ملک سجاد گروپ،دوسرا راجہ ابرار گروپ،اور تیسرا گروپ وہ جو
حال ہی میں مسلم لیگ ن کی سیاست کو قبول کر کے مسلم لیگ میں داخل ہوئے جن
میں سردار فاروق احمد طاہر اور ملک پرویز گروپ ہے اور اگر یہ گروپنگ اِسی
طرح کچھ عرصہ مزید رہی تو آنے والے دنوں میں اس بات کی بھی توقع رکھی جا
سکتی ہے کہ ان میں سے ہی تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس بھی وجود میں آئیں
گی دوسری طرف بھی حالات کچھ مضبوط نہیں چونکہ موجودہ وزیر کا وزرات سے
مستفعی ہونا اور بیماری کی وجہ سے عوام سے رابطہ نہ ہونا اور پھر حلقے میں
کسی پروجیکٹ کا شروع نہ ہونا عوام کے لیے سوالیہ نشان ہیاور عوام کے اند ر
مایوسی پائی جاتی ہے کام نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ
موجودہ حکومت میں سرے سے کوئی کام ہوا ہی نہیں تو اس میں بھی مبالغہ آرائی
نہ ہو گی جبکہ کارکنان مایوس سے مایوس تر ہوتے جا رہاے ہیں اور عوامی حلقوں
میں یہ بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اگر آنے والے الیکشن میں موجودہ امید
وار کو پی پی پی کا ٹکٹ ملا تو پی پی پی کے ووٹر بھی کسی اور امید وار کو
ووٹ دینے میں جھجک محسوس نہیں کریں گے اور اگر یہی صورت حال بدستور رہی تو
تمام سیاسی جماعتوں کا الیکشن میں صرف الیکشن مہم پر انحصار ہو گا کہ جس
پارٹی نے الیکشن مہم منظم انداز میں چلائی وہی کامیاب ہو گی البتہ شخصیت
پرستی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اختر ربانی کے ورکر ز ان کو چھوڑکر کسی
اورپارٹی اور فاروق طاہر اورملک پرویز کے ورکرز انھیں چھوڑ کر کسی دوسری
پارٹی کو ووٹ نہیں دے سکتے اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات رویوں تک
جاتی ہے جس کا رویہ عوام سے اچھا ہوگا وہی امیدوار کامیابی حاصل کرنے میں
کامیاب بھی ہو گا شخصیت پرستی کو شکست صرف امیدوار کا رویہ ہی دے سکتا ہے
اس کے علاوہ فی الحال کوئی اور حل موجود نہیں جس سے شخصیت پرستی میں کمی
واقع ہو تمام امیدوار وں کو عوام میں پذیرائی کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی
لانی ہو گی تمام چھوٹی بڑی برادریوں سے یکساں سلوک ان کے حقوق برابری کی
بنیاد پر دینے ہوں گے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی اپنی برادریوں کے لیبل
لگانے کی بجائے پروفیسر،انجنئیر،میجر،یا اس طرح کے کئی اور القابات سے ہی
کمی واقع ہو سکتی ہیاور اسی طرح چونکہ گزشتہ الیکشن میں مسلم کانفرنسی
امیدوار غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ انھیں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ پڑھیں گے
مگران کا عوام کے ساتھ ناروا سلوک کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب سردار اختر
حسین ربانی آزاد کشمیر اسمبلی کا ممبر بن چکا تھا اور یہ ایک بات طے ہے کہ
اگر مسلم لیگی قیادت کی یہی حالت برقرار رہی تو وہ آنے والے اوقات میں ابھی
سے اپنی شکست تسلیم کر لیں یا پھر اپنے آپ میں کچھ تبدیلیاں پیدا کریں ایک
طرف عوام مایوس سے تو دوسری طرف سیاسی رہنما بھی کچھ خوش دیکھائی نہیں دیتے
اور آنے والے وقت کا اصل استعمال اسی گھڑی ہو گا جب کوئی ایک کامیاب ہو کر
اسمبلی میں پہنچے گا۔ |