اسمبلی انتخابات
چار ریاستوں میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی واضح فتح اور
کانگریس کی فاش شکشت کے بعد اب سوال یہ اٹھنے لگا ہے کہ کیا ان ریاستوں میں
بی جے پی کی کامیابی فرقہ پرستی کی کامیابی ہے یا یہ کہ کیا ملک میں فرقہ
پرستی کا گراف اپنی بلندی پر پہونچ گیا ہے یا پہونچ رہا ہے جس کی وجہ سے بی
جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کو واضح اکثریت ملی؟ ان سوالوں کے جواب آج ملک
میں مختلف سطح پر تلاش کئے جارہے ہیں اور ہر کوئی اپنی حد تک ان کے جواب
دینے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہورہا ہے کہ انتخابات سے
قبل اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والی پارٹیوں نے بی جے پی کی فرقہ پرستانہ
نظریات وکردار کی تشہیر کے ذریعے عوام کو اس سے دور رکھنے کی کوششیں کی
تھیں، مگر رائے دہندگان نے سیکولر پارٹیوں کی ان کوششوں واپیلوں کوسبوتاژ
کرتے ہوئے عوامی سطح پر اسے ٹھکرا دیا اور تین ریاستوں میں واضح طور پر بی
جے پی کو اور دہلی میں عام آدمی پارٹی کے حق میں بھی اپنی حقِ رائے دہی کا
استعمال کیا۔
تین ریاستوں راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور بی جے
پی کو ملنے والے ووٹوں کا اگرتناسب لگایا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
تقریباً 68فیصد رائے دہندگان نے بی جے پی کے حق میں اپنی حقِ رائے دہی کا
استعمال کیا اوردہلی میں تقریباً 40فیصد لوگوں نے بی جے پی کو اپنی پہلی
پسند قرار دیا۔ یعنی کہ مجموعی طور پر چاروں ریاستوں میں کم وبیش68فیصد
لوگوں نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا۔ کسی ایسی پارٹی کو جس کی فرقہ پرستی
جگ ظاہر ہو اور سیکولر پارٹیوں کی جانب سے جس کی تشہیر بھی کی جاتی رہی ہو،
اس کو عوام کی جانب سے اتنی زبردست حمایت ملنے کے بعد یہ سوال پیدا ہونا
فطری ہے کہ کیا مذکورہ پارٹی واقعی فرقہ پرست ہے؟ کیونکہ عوام کی 68فیصدی
تعداد نے اگر متحدہ طور کسی ایسی پارٹی کو ووٹ دیا ہے جسے فرقہ پرست کہا
جاتا ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ 68فیصد لوگوں نے فرقہ پرستی کے حق میں
ووٹ دیا ہے ۔ اس لئے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی 68 فیصدی
تعداد فرقہ پرست ہوچکی ہے جس نے ایک فرقہ پرست پارٹی کو تین ریاستوں میں
واضح اکثریت اور ایک ریاست میں اکثریت کے قریب پہونچا دیا؟
حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کے جوابات نہایت واضح ہیں۔ ملک کی وہ 68فیصد عوام
جس نے بی جے پی کو ووٹ دیااور سیکولرازم کی دعویدار کانگریس کو زبردست
پٹخنی دی ہے،اس کی مجموعی تعداد کسی طور فرقہ پرست نہیں ہوسکتی ۔اگر ایسا
ہوتا اور ملک کے 68فیصد لوگ فرقہ پرست ہوتے تو یہ ملک کب کا اپنا سیکولر
وجمہوری یثیت کھو چکا ہوتا۔اس لئے فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے سوالات میں
الجھنے کے بجائے ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ
ملک کی اتنی بڑی اکثریت نے بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کے ہاتھ میں ان
چاریاستوں کی زمام کار سونپ دی ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ
پرستی نئے سرے سے اپنے تاروپو نکال رہی ہے اور بی جے پی کی جانب سے مودی کو
ممکنہ وزیراعظم کے طور پر پیش کئے جانے کو فرقہ پرستی کے نشاۃ الثانیہ سے
تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ مگراسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ کانگریس نے اپنے سیکولر کردار (دعوے کی حد تک سہی) کے باوجود ملک
کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔جن لوگوں نے بی جے پی کے
حق میں ووٹ اور کانگریس کو چاروخانے چت کیا انہیں ایک بدلاؤ چاہئے تھا،
انہیں ایک بہتر گورننس چاہئے تھا، انہیں مہنگائی سے نجات چاہئے تھی، انہیں
ملک کی ترقی چاہئے تھی اور سب سے بڑھ کر انہیں ایک واضح تبدیلی چاہئے
تھی۔اس لئے جہاں بھی کانگریس کے بالمقابل کوئی پارٹی انہیں نظر آئی ، اسے
ووٹ دیا چاہے وہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی کے حق
میں رائے دہی کا استعمال ہو یا پھر دہلی میں بی جے پی کے ساتھ عوام آدمی
پارٹی ۔کانگریس کے طرزِ حکومت سے بیزار اور تبدیلی کی خواہش مند عوام نے
بہر صورت کانگریس کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ اس لئے ملک کی اتنی بڑی تعداد کی
اس ووٹنگ کو فرقہ پرستی کی حمایت کی ووٹنگ قرارنہیں دی جاسکتی۔ یہ ووٹنگ
کانگریس کی مہنگائی اور اس کی کمزور قیادت کے خلاف عوام کا ایک غصہ تھا، جو
کہیں بی جے پی کے حق میں ظاہر ہوا تو کہیں عام آدمی پارٹی کے حق میں بھی۔
ان چار ریاستوں کے انتخابی نتائج سامنے آنے سے جہاں ایک جانب اپنے آپ کو
سیکولر کہلانے اور ملک وقوم کی ترقی کی دعویدار پارٹیوں کی قلعی کھل گئی ہے
تو وہیں مسلمانوں کی سیاسی زبوں حالی کی علامت بھی حقیقت میں تبدیل ہوگئی
ہے۔ مسلم دانشوروں ، سیاسی ورکروں، بلکہ علماء کرام (کرائم پڑھئے) کو بھی
اب یہ سوچنا ہوگا کہ قومی سیاست میں ان کا رول جو پہلے ہی سے نہایت کم ہے،
کہیں مزید کم ہوتے ہوتے صفر نہ ہو جائے۔ منی جنرل الیکشن کے طور پر دیکھے
جانے والے اور پارلیمانی الیکشن کا سمت نما سمجھے جانے والے ان انتخابات کا
اگر ایک مسلمان کی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہم پر آشکارا ہوگی
کہ آئندہ پانچ برسوں تک حکومت کرنے والی سرکاروں میں دوا کے طور پر استعمال
ہونے کے لئے بھی کوئی مسلمان نظر نہیں آئے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مسلمان ووٹر اب کی بار پہلے کے مقابلے میں کہیں چوکا تو نہیں تھا؟ اس نے
اپنی دانست میں اپنا دینی و ملی فریضہ ادا کرتے ہوئے اپنا قیمتی ووٹ سیکولر
پارٹیوں کی جھولی میں ڈال کر مطمئن ہوکر بیٹھ گیا کہ چلو ہمارا جو فرض تھا
ہم نے اد کردیا۔ لیکن ہوا اس کے برخلاف۔مسلمان اگر اپنا دینی وملی فریضہ
ادا کرنے کے بعد مطمئن ہوکر بیٹھ رہے ،لیکن ان کے ہم وطن سیکولر اور فرقہ
پرستی کے دائروں سے باہر جاکر اپنی بیداری کا اس قدر ثبوت دیا کہ آئندہ
پانچ سال تک قائم رہنے والی سرکاروں میں اپنی جگہ متعین کرلی اور ایک سیاسی
انقلاب کی سمت آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے نہ سیکولرازم کو اپنا اوڑھنا بچھونا
بنایا اور نہ ہی فرقہ پرستی کو اختیار کیا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ
تبدیلی لانے کے اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب ہوگئے۔ اور مسلمان! سمندِ
وقت جاچکا غبار دیکھتے رہے۔
ہم مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم بڑے پریشان اور اپنے ہی کنویں میں
ٹرٹرانے کے عادی ہیں۔ہم سوچتے ہیں کچھ ہیں اور کر کچھ نہیں پاتے اور اگر
کچھ کرتے بھی ہیں تو وہ ہماری سوچ سے میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کی جانب سے
مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں منعقد ہونے والے تمام سمپوزیم و سمینارصبح
سے شام تک اور کئی کئی دنوں تک اٹینڈ کرکے دیکھ لیجئے ، سینہ کوبی، دیواروں
سے سرٹکرانے اوربال نوچنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ تکالیفوں وپریشانیوں
کا بیان شروع کریں گے تو سر سے پاؤں تک جسم کا ہر حصہ پھوڑوں کی طرح تکلیف
دینے لگتا ہے۔ کہیں پولیس سے شکایت، کہیں کارپوریشن سے شکایت، کہیں حکومت
سے شکایت تو کہیں سیاسی پارٹیوں سے شکایت۔ کہیں پورے نظام کو ہی گالیاں دی
جارہی ہیں اور یہ سلسلہ 4سال364دن چلتا رہتا ہے اور پھر 365ویں دن جاکرپھر
انہیں لوگوں کو ووٹ دے آتے ہیں جن سے ازلی شکایت ہوتی ہے۔ ہم سوچتے تو ہیں
مسلمانوں کی طرح لیکن عمل کرتے ہیں سیکولر وادیوں کی طرح۔ بلکہ اب تو ہم نے
اپنے عمل سے اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کے واضح فرق کو مٹا کر اسلام کو
ہی سیکولرازم اورسیکولرازم کو ہی اسلام ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس ملک میں جو شکایات ہیں وہ ہم ایک ایک کرکے
خوب گنواتے ہیں ۔ عید قرباں پر بیل ذبح کرنے نہیں دئے جاتے ، ہماری زبان کی
ترقی وترویج کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، ہماری عبادت گاہوں پر قبضے
کئے جاتے ہیں، ہمارے مدرسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ہمارے اسکولوں کو
گرانٹ نہیں دی جاتی ، ہمارے برقع اور داڑھی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار
دیا جاتا ہے ، ہمارے نوجوان پڑھ لکھ لیں تو بھی دہشت گرد ہی بنے رہتے ہیں،
ہمیں کسی بھی مقام پر تحفظ حاصل نہیں ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس نظام اور
ان زیادتیوں کو ختم کرنے کے لئے ہم جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ ہمیں لے
جاکر اسی نظام کی بھٹی میں جھونک دیتا ہے جس کے لازمی نتائج کے طور پر یہ
شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس سیکولر نظام میں ہم
یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا ذریعہ صرف ووٹ ہے اور اسی ووٹ کو آڑے ترچھے اور
اونے پونے طریقے سے استعمال کرکے یا بیچ کر کے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے
ایک بڑا معرکہ سرکرلیا۔ انتخابی نتائج اگر کسی سیکولر پارٹی کے حق میں
برآمد ہوتے ہیں تو ہم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور کسی غیر سیکولر پارٹی
کے حق میں آتے ہیں تو ہم تشویش کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اطمینان کا اظہار
ان تمام زیادتیوں کے باوجود جو سیکولر پارٹیوں کے ذریعے کی جاتی ہیں اور
تشویش کا اظہار ان تمام امکانات کے باوجود جو غیر سیکولر پارٹیوں سے
امیدہوسکتی ہے۔یہ ہے ہمارا رویہ اور یہ ہے ہمارا طریقۂ کار۔ہم اپنے موضوعات
پر صرف چیخ وپکار مچاتے ہیں اور برادرانِ وطن کی تکلیفوں وپریشانیوں پر نہ
ہم کچھ سوچتے ہیں اور نہ ہی اس کی توفیق ہوپاتی ہے کہ کچھ سوچ سکیں۔ پھر
بھلا ہم کون سے اسلام کی بات کرتے ہیں اور کون سے اسلام کی پیروی کرتے ہیں
جو ہم میں اس قدر خود غرضی پیدا کردیتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں
سے بھی بے خبر رہتے ہیں؟
ان حقائق کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کا گراف
بڑھ رہا ہے ۔ اس کا اندازہ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے
11؍دسمبر2013کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب
ہمارا اگلا ٹارگیٹ 2014کا پارلیمانی انتخاب ہے۔اس کا مطلب اس کے علاوہ اور
کیا ہوسکتا ہے کہ فرقہ پرست جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھی ، اب اسے مستحسن
نظروں سے دیکھاجانے لگا ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس کے بارے میں ہم اس حقیقت سے
واضح ہیں کہ وہ ہمیشہ پردے کے پیچھے سے سیاسی کھیل کھیلتا رہا ہے ، لیکن اب
اس نے علی الاعلان اپنے سیاسی منصوبوں کو ظاہر کرناشروع کردیاہے۔ اس تعلق
سے مہاراشٹر حکومت میں وزیربرائے اقلیتی امور عارف نسیم خان کہتے ہیں کہ اس
بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں فرقہ پرستی بڑھ رہی ہے۔ یہ فرقہ
پرستی ذات پات میں بھی بڑھ رہی ہے اور مذہب کے نام پر بھی۔ یہ اضافہ ہمارے
ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈران کی وجہ سے بھی ہورہا ہے اور فرقہ پرست پارٹیوں
کی وجہ سے بھی۔ ان کے مطابق جب ملک میں فرقہ پرستوں کی تعداد کم تھی تو آر
ایس ایس پردے کے پیچھے سے سیاسی بازی کھیلتی رہی اور اب یہی آرایس ایس علی
الاعلان یہ کہتی ہے کہ ہمارا اگلا نشانہ 2014کے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ اس
کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں فرقہ پرستی نے اپنی جڑیں پہلے سے زیادہ مضبوط
کرلی ہیں اور یہ فرقہ پرستی بیوروکریٹس طبقے میں نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
مختصر داستانِ الم یہ کہ ملک میں فرقہ پرستی بڑھ رہی اور یہ ملک وقوم کے
استحکام کے لئے زبردست خطرناک بھی ہے ۔ اسی کے ساتھ ایک موہوم سی امید یہ
بچی ہے ملک کی واضح اکثریت ابھی فرقہ پرستی کی عفریت کی شکار نہیں ہوئی ہے۔
اب یہ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ فرقہ پرستی کی اس لہر کو روکنے کے لئے
ہمارا کیااقدام ہو۔ کیا ہم بی جے پی کی فرقہ پرستی سے خائف ہوکر کانگریس کی
جھولی میں گرجائیں ،جس کی درپردہ فرقہ پرستی بی جے پی کی واضح فرقہ پرستی
سے کہیں زیادہ خطرناک ہے؟ کیا ہم اپنے آپ کو ملک کے مین اسٹریم میں شامل
کرنے کے لئے اپنے وجود کو داؤ پر لگادیں یا پھر خود مین اسٹیریم بنیں اور
اپنے برادارانِ وطن کو بھی اس میں شامل کریں؟ یہ فیصلہ ہمیں ہی کرناہوگا
اور بہت جلد کرنا ہوگا ۔اگر نہیں کرسکتے تو پھر ہمیں سینہ کوبی اور دیواروں
سے سرٹکرانے سے کوئی روک بھی نہیں رہا ہے۔ |