قیدی نمبر 379

حضرت علی فرماتے ہیں ’’کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں ‘‘۔جس ملک کی عدالت کا انصاف ہماری گونگی ‘بہری ‘اندھی اشرافیہ(متحدہ پاکستا ن سے لے کر ۔۔۔نجانے کب تک۔۔) کی مانند محواستراحت ہو‘جہاں آنکھوں پر بغض ‘تعصب وکینہ کی دبیز تہہ جم چکی ہو ‘جہاں اخلاقیات‘خلوص اور ایمان کاجنازہ نکل چکاہو‘جہاں ہوس اقتدار‘حصول تاج اور انتقام کاجہنم سلگ رہاہو وہاں ملا عبدالقادر شہید جیسے افراد کے لیئے انسانی برابری کے تصورات دم توڑ دیتے ہیں۔

ملا عبدالقادر نے پہلے یوم آزادی 14اگست 1948کو مشرقی پاکستان کے ضلع فریدپور کے ایک دیہات امیرآباد میں آنکھ کھولی ۔ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم کیا ۔وہ جماعت اسلامی میں اہم عہدوں پر جلوہ گرہوتے رہے ۔مشرقی پاکستان کے ایک بنگالی اخبار روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹربھی رہے(بمطابق انسائیکلوپیڈیا)۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کو دوٹکڑے ہونے سے بچانے کیلئے رکاوٹیں کیوں کھڑی کیں؟؟ان کا جرم واقعی ناقابل معافی تھا کیونکہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کی تقسیم میں کلمہ کی بنیاد پر مزاحمت کی۔لیکن اندھوں کو بتادو کہ ’’دوقومی نظریہ‘‘پر دسمبر 2013میں ایک ایسے انسان نے جان دی ہے جو بنگال کاشہری ہے ‘جو بنگال کی اسمبلی کا دو مرتبہ ممبر بھی رہ چکاہے ۔جس کی زبان بنگالی اور پیدائش بھی بنگال کی ہے لیکن اس کے آخری خط میں لفظ پاکستان زندہ ہے۔

18دسمبر 2011کوعبدالقادرملاپر 1971کے دلخراش سانحات کو بنیاد بناتے ہوئے جھوٹے مقدمات قائم کیئے گئے ۔ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے دوران 300سے زائدافراد کوڈھاکہ کے علاقے میرپورمیں قتل کیایاکروایا۔ان پر عصمت دری کا بھی الزام ہے۔چارعشرے گزرنے کے بعد باعمل مسلمانوں کے خون سے انتقام کی آگ بجھانے اور اقتدارکی شمع کو فرزندان اسلام کے خون سے روشن رکھنے کیلئے یہ بہیمانہ انداز روارکھاگیا۔بنگال کی سپریم کورٹ جس میں مسلمان جج بھی شامل ہیں نے بدنام زمانہ نورمبرگ ٹرائل کا حوالہ دیاہے۔نورمبرگ ٹرائل کے محرکات بھی پوری عمر شرم سے سرجھکائے رہے لیکن شائد انصاف کے قاتلوں کو یہی جواز راس آیاہوکیونکہ ان کے پاس ایسے خون آشام فیصلے کو سہارادینے کیلئے کسی بھی انصاف پرست معاشرے یا منصف مزاج انسان کی عدالت نے بیساکھیاں فراہم نہیں کیں۔الفاظ ملاحظہ کیجئے ’’نورمبرگ ٹرائل کے بوجھ سے میراسرشرم سے جھکاہواہے‘‘سپریم کورٹ صدرجیکسن کی ذاتی ڈائری سے ۔

متعددعالمی اداروں نے بھی اسکی مذمت کی لیکن ویسی نہیں جیسی کسی لبرل یا مذہب سے نفرت کرنے والے افراد کے خون حق پر دی جاتی ہے۔اور رہ گئی بات اس ملک کی جسے پاکستان کہتے ہیں تو اسکے ہاں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ‘جہاں قوم کے مجرم جھنڈے میں دفنائے جاتے ہوں وہاں حقیقی پاکستانیوں کیلئے جگہ کہاں۔۔بقول شاعر۔،ان حسرتوں سے کہوکہیں اورجابسیں اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدارمیں۔میرے نزدیک عبدالقادرملا شہید ہیں لیکن جس دیدہ دلیری سے انسان کاخون ناحق بہایاگیااس پر تمام مسلم ممالک کو سراپااحتجاج ہوناچاہیئے کیونکہ عبدالقادر ملا نے استعارہ’’پاکستان‘‘استعمال کیا ہے اور پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے (پہلی مدینہ منورہ)۔یزیدیت کا مظاہرہ پاکستان میں ہو‘افغانستان میں یاکسی بھی اسلامی یا غیراسلامی ملک میں فلسفہ کربلا پر یقین رکھنے والوں کا حق ہے کہ ببانگ دہل مجرموں کو کیفر کردارتک پہنچانے میں تامل نہ کریں کیونکہ اگر ایسانہ کیا گیا تونہ صرف اسلامی ملک بنگلہ دیش میں مزید مظلموں کو شہید کیاجائے گابلکہ کل کلاں کو اگر کسی ملک میں تقسیم کی سازش کی گئی تو ملکی افواج کے ساتھ قدم ملانے سے پہلے عام مسلمان سوبارسوچے گا۔

اب ذرا عبدالقادرملاکے خط کے کچھ الفاظ جنہیں پڑھ کر آپ کا یقین ‘یقین کامل میں بدل جائے گاکہ غیرت مسلم زندہ ہے ‘شہادت کاشوق تابندہ ہے‘راہ حق کے مسافر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ‘صراط مستقیم پر صبرواستقلال سے قائم رہتے ہیں اور صرف سیدنا محمد ﷺکے رب سے ہی نفع ونقصان کی توقع رکھتے ہیں۔
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیمہ وبہ نستعین

قیدی نمبر 379سکنہ :کال کوٹھری‘سنٹرل جیل ڈھاکہ مجھے نئے کپڑے فراہم کردیئے گئے ہیں ۔نہانے کا پانی بالٹی میں موجودہے۔سپاہی کاآڈرہے کہ جلد ازجلد غسل کرلوں۔کال کوٹھری میں بہت زیادہ آناجانالگاہواہے۔ہر سپاہی جھانک جھانک کرجارہاہے۔کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔ان کا بار بار آناجانامیری تلاوت میں خلل ڈال رہاہے۔میرے سامنے سید مودودی کی تفہیم القرآن موجود ہے ۔ترجمہ میرے سامنے ہے۔’’غم نہ کرو ‘افسردہ نہ ہو‘تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔سبحان اﷲ کتنااطمینان ہے ان کلمات میں ۔میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان کلمات میں مل گیاہے۔زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔مجھے اگرفکرہے تواپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔اﷲ سے دعاہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے امین۔اﷲ پاکستان کے مسلمانوں اورمیرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پرآسانی فرمائے۔۔‘‘۔

یہ ہیں اس بنگلہ دیشی شہری کے الفاظ جسے حب اسلام میں سزادی گی ‘محبت پاکستان میں پھانسی دی گئی ۔ سناہے کہ ہمارے ہاں اب قراردادمنظورہوئی ہے لیکن یہ کام قراردادوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مجیب بھٹو معاہدے پر عمل درآمد کیلئے ٹھوس اقدامات کیئے جائیں جس کے مطابق دونوں ممالک جنگی جرائم کے مقدمات فریز کرچکے ہیں۔اور وزیراعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ اپنے 1992کے وعدے کے مطابق ان ڈیڑھ دولاکھ بہاریوں کو وطن لے آئیں جنھوں نے دولت ‘عزت ‘انا سب کاسب کچھ پاکستان کے عشق میں گنوادیاہے انکی تاریک زندگی دیکھ کر یہی لگتاہے کہ اگر ان کے پاس کچھ باقی ہے تو پاکستان سے لگاؤ اور وہ ہم سے زیادہ محب وطن ہیں۔وزیراعظم پاکستان کو ہر حال میں اس کام کو انجام دیناچاہیئے کیونکہ میاں صاحب وطن سے جدائی کا دکھ سہہ چکے ہیں اگرچہ وہ محلات میں رہے ہیں اور بہاری غربت کی لکیرسے بہت نیچے کسمپرسی ‘افلاس‘مایوسی اوراپنوں کی بے اعتنائی جیسے کربناک وجاگسل لمحات میں تین نسلیں گزارچکے ہیں۔

۔نوٹ :میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف ہے لیکن عبدالقادر ملا کی روح پرور فکر‘اصول پرستی اوربے گناہی نے میرے دل کو گہرا صدمہ پہنچایا ۔اورمیرا قلم سے عہد ہے کہ اپنے دورکہ ہریزید کے خلاف اسے لکھنے سے نہیں روکوں گا۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188613 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.