ایک ریلوے اسٹیشن پر عوام کا ایک جم غفیر تھا اور ہجوم
میں اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے، کچھ دیر میں چند لوگ آئے
شائد ریلوے اہلکار ہوں ،نے چند لمحوں میں اس بڑے عوامی ہجوم کو ایک لمبی
قطار میں بدل دیا کہ وہ بڑے اطمینان سے ٹکٹ لیتے اور ٹرین میں سوار ہوتے
گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شور وغوغا جو کچھ دیر پہلے تھا ختم ہو
گیااوریک دم سے سارا ماحول بدل گیا۔
کسی بھی ملک کے عوام اس ریلوے اسٹیشن کے اس بے ھنگم ہجوم جیسے ہی ہوتے ہیں
مگر جب انہیں کوئی رہنما ۔۔۔ اچھی قیادت ملے تو وہ بے ھنگم ہجوم جلد یا
بدیر ایک قوم بن جاتا ہے شرط اچھے رہنما کا ہونا ہے اور رہنماان تحریکوں سے
جنم لیتے ہیں جو کسی بھی نوح کی تبدیلی کیلئے برپاہ کی گئی ہوں اور ایسی
تحاریک کیلئے پہلے چند ہم خیال لوگ جمع ہوتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ کچھ
غلط ہورہا ہے اور مطلوبہ تعداد میں جمع ہونے پر وہ اپنے اس گروپ کو ایک
پارٹی کا نام دیتے ہیں اور اپنا ایک پروگرام منشور اور اس پر عملدرآمد
کیلئے ایک متفقہ دستور بناتے ہیں اور پھر اپنے اس پیغام کو گلی کوچے محلے
شہرشہر و بستیوں میں پہنچاتے ہیں جہاں سے انہیں ایسے ہی مذید ہم خیال لوگ
ملنے لگتے ہیں تب وہ ایک حقیقی سیاسی جماعت بن جاتے ہیں پھر وہ جماعت پورے
ملک میں نچلی سطح سے یونین کونسل ،سٹی ،تحصیل ،حلقہ و ضلع کی تنظیمیں قائم
کرکے اپنے نٹ ورک کو منظم کرتی ہے ۔وہ اپنی آرگنائزیشن کے اندر ہر نوح کے
ادارے قائم کرتے ہیں جو رات دن اس عظیم پروگرام پر ہوم ورک کر کہ حکمت عملی
ترتیب دیکر بالا تر ادارے کے سپرد کرتے ہیں ۔اس آرگنائزیشن میں موجود ہر
شخص اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظائرہ کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نتائج
دینے کی کوشش کرتا ہے۔اور آرگنائزیشن میں نچلی سطح سے ورکر کام کرتے کرتے
اپنی استطاعت کے مطابق’’ گرووم‘‘ کرتے ہوئے محلے، سٹی، یونین کونسل ،تحصیل
و ضلع سے ہوتے ہوئے مرکز میں پہنچتا ہے اور اسے مرکز میں پہنچنے کیلئے کوئی
خصوصی کوشش نہیں کرنا پڑھتی بلکہ اسکی صلاحتیں خود بخود اسے آگے ہی آگے
دھکیل رہی ہوتی ہیں جب ایسانظام برپا ہو جائے تب وہ آرگنائزیشن ایک سے
بڑھکر ایک رہنما جنم دیتی ہے کیونکہ اسکے تمام ادارے اس مروجہ نظام کے تحت
اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔اور پھر وہ مثالی آرگنائزیشن انقلابی
بنیادوں پر اس عوامی ہجوم کو قوم کی شکل دیتی ہے اور جب وہ ہجوم قوم بن
جائے تب اسے ترقی کرنے سے یا کسی بھی طرح کے قومی مقصد کے حصول سے کوئی روک
نہیں سکتااور اسطرح مروجہ نظام کے تحت چلنے والی آگنائزیشن کی قیادت کبھی
کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی جو قومی جذبات کا عکاس نہ ہو کیونکہ ایسی
آرگنائزیشن کا سربراہ ایک بڑے قومی ادارے کی پالیسی پراپنی صلاحت سے
عملدرامد کرواتا ہے نہ کے اپنے کسی زاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے ۔
ریاست جموں کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے 1925میں ملک میں بنیادی اصلاحات
کا علان اور عملدرامد شروع کیا اور 1930میں لوگوں کو سیاسی جماعتوں کے قیام
کی اجازت دیدی تب سے لیکر آج تلک کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی
جائے تو روائتی و تحریکی تنظیمیں سینکڑوں کی تعداد میں بنتی اور ٹوٹتی رہی
لیکن ایک بھی ایسی تنظیم نہیں جس نے تنظیم سازی کے بین الاقوامی مروجہ
مسلمہ اصولوں کے مطابق کام کرنے کی کوشش ہی کی ہو۔۔۔ہر دور میں حادثاتی طور
پر رہنما سامنے آتے رہے عوام نے کندھوں پہ اٹھایا جو استقامت کا مظائرہ نہ
کرسکے ۔اسی لئے آج تک ہم اس اہم ترین قومی مسئلہ پر یکسوؤ نہ ہو سکے اور آج
بھی ریاست کے مستقبل کی سیاسی گاڑی کے آگے تین گھوڑے اسے مختلف سمت میں
کھینچتے نظر آتے ہیں تو انجام۔۔۔؟ تحریکی لوگ جن پر ایک بہت ہی بڑے مقدص
کاز کے علمبردار و دعویدارہونے کے باعث سب سے بڑھکر زمہ داری عائد ہوتی ہے
۔اور ریاست کی آزادی پسند تنظیموں دوسری روائتی تنظمیوں سے آگے ہونا چاہیے
مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ریاست کی تحریکی سیاست بھی شخصیات کے گرد گھومتی ہے
عہدوں کی خواہش جان لیوا ہے۔ چند لوگوں پر مشتمل جماعتیں بھی بلکہ کچھ تو
ایسی ہیں جنمیں ایک فردہی سارے عہدوں پہ فائز نظر آتا ہے جو کسی المیے سے
کم نہیں اور کبھی بھی کسی آرگنائزیشن نے آج تک ایسی کوئی کوشش نہیں کی کہ
اپنے آپ کو نچلی سطح تک پہنچاکر اسے بین الاقوامی تنظمیوں کا ہم پلہ بنایا
جا سکے ۔دیکھا یہ گیا کہ جب جب حا لات میں کچھ اچھال آئے تو چند بڑے جلسے
آرگنائز کئے جاتے ہیں جنمیں عوام لحمالہ شرکت کرتے ہیں جلسے سے پہلے اور
اختتام پر اوپر سے نیچے تک کی قیادت کافقط استدلال یہ ہوتا ہے کہ جلسہ میں
کتنے آدمی ہو جائیگے یا کتنے آدمی تھے۔۔۔؟جبکہ یہ بھی حقیقت ہیکہ عوام کی
بڑی اکثریت نے ہمیشہ تحریکیوں سے ہی اپنی امیدیں وابستہ رکھیں مگر وہ اس سے
آگے نہ سوچ سکے ۔گزشتہ پیسٹھ برسوں کے دوران ریاست میں کئی ایسے مواقع آئے
بالخصوص گنگا کیس کے بعداوپر نیچے ،1988/89/90/92کہ جب بہت کچھ کیا سکتا
تھا لیکن زور اسی بات پہ ہے کہ۔۔۔ کتنے آدمی تھے؟جب کہ یہ رویہ تحریک آزادی
کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہر گز نہیں ہے بلکہ غیر زمہ داری کی انتہا ہے کہ ایک
طرف دعویٰ کہ تین نیوکلیائی قوت کے حامل ممالک کے درمیاں ریاست جموں کشمیر
کی وحدت و تشخص کی بحالی اور ریاستی احیاء اوردوسری جانب ۔۔۔صرف یہ سوچ
۔۔۔کتنے آدمی تھے ؟
اسلئے تحریک آزادی کی دعویدار تمام تنظمیں یاد رکھیں ہجوم کبھی تحاریک نہیں
چلا یا کرتے ۔ملک آزاد نہیں کروایا کرتے ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم یا ہماری
نسلیں آزاد خود مختار و خوشحال ہوں تو ہمیں جماعت بننا پڑھیگا ایک ایسی
انقلابی جماعت جو دور حاضر کے تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحت کی حامل
ہو جسکے تما تر ادارے بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہوں جوقیادت کے
حوالے سے قھط زدہ نہ ہو بلکہ ایک سے لیکر دسویں لائن تک کی قیادت کی حامل
ہو اور جسکا ڈسپلن مثالی ہو جسمیں عہدوں کے حصول جیسی گھٹیا سوچ کے حامل
افراد کی کوئی جگہ نہ ہو اور جسکی نظرقومی مقاصد کے حصول پر ہو اور جو ہجوم
کو قوم میں بدل سکے۔ |