ایک بہت پرانا گھِسا پٹالطیفہ ہے کہ شیخ چلی ایک درخت پر
چڑھ کر اُسی شاخ کو کاٹ رہا تھا ، جس پر وہ بیٹھا تھا ۔قریب سے گزرنے والے
ایک شخص نے شیخ چلّی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے اُس سے کہا کہ ’’اِس شاخ
کو کاٹنے سے باز رہو ،گر جاؤ گے ‘‘۔شیخ چِلّی نے ماتھے پر بَل ڈال کر کہا
’’جاؤ بابا ! اپنا کام کرو‘‘۔وہ شخص اپنی راہ ہو لیا لیکن وہ ابھی تھوڑی
دور ہی گیا تھا کہ درخت کی شاخ کٹی اور شیخ چِلّی دھڑام سے نیچے آ رہا ۔وہ
زمین سے اُٹھا اور لنگڑاتا ہوا اُس شخص کے پیچھے بھاگا۔ پاس پہنچ کر شیخ
چِلّی نے اُس شخص کے پاؤں پکڑ لیے ۔اُس شخص نے حیرت سے پوچھا ’’اب کیا ہوا‘‘؟۔تب
شیخ چِلّی نے گڑگڑاتے ہوئے کہا ’’میں آپ کے ہاتھ پہ بیعت ہونا چاہتا ہوں،
آپ ولیِ دَوراں ہیں کیونکہ آپ کو پہلے ہی پتہ چل گیا تھا کہ میں گرنے والا
ہوں‘‘۔
جس جس کو ہمارے ہاتھ پہ بیعت کرنی ہو ، ابھی سے کر لے کیونکہ ہماری الہامی
کیفیات نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی یوتھ لون سکیم ثمر آور نہیں
ہو گی ۔ہمارے پاس اِس سکیم کی ناکامی کے دلائل نہیں اور نہ ہی ہم اِس فضول
بحث میں اُلجھنا چاہتے ہیں کہ یہ سکیم ناکام کیوں ہو گی ۔ہمیں تواور بہت سے
تجزیہ نگاروں کی طرح الہام ہوا ہے کہ اِس سکیم نے ناکام ہونا ہی ہونا ہے
البتہ اِس سکیم کی ناکامی کی ایک وجہ جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ
اِس میں عمر کی حد 45 سال مقرر کی گئی ہے اور ہم ٹھہرے 45 سال سے زیادہ ۔جس
سکیم سے ہم مستفید نہیں ہو سکتے اُس کی کامیابی بھلا کیسے ممکن ہے۔ ویسے تو
پہلے بھی ہم اِس سکیم کے بارے میں وہم میں مبتلاء تھے کیونکہ ہمارے بڑے
بوڑھے یہ کہہ گئے ہیں کہ قرض ایک لعنت ہے اور ہمیں چچا غالب بھی یاد ہیں جو
فرما گئے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دِن
اِس کے علاوہ اِس قرضے میں ’’سود‘‘ کا عنصر بھی شامل ہے جو حرام ہے اِس لیے
اگر ہم اِس سکیم سے مستفید نہیں ہو سکتے تو اِس میں ہمارا ہی بھلا ہے ۔ویسے
آپس کی بات ہے کہ اگر ہم 45 سال سے کم کے ہوتے تو سب کچھ بھول کے ایک دفعہ
تو ضرور ’’قرض کی مے‘‘سے لطف اندوز ہوتے لیکن ہمارے لیے چونکہ انگور کھٹے
ہیں اِس لیے ہمیں یقین ہے کہ اس سکیم کی ناکامی کے بعد حکومت کو بھی ’’کھٹی
ڈکاریں‘‘ آنے لگیں گی اور ’’ہماری اپنی‘‘ حکومت کے پاس تو ہاضمہ درست کرنے
کے لیے کوئی ’’فرینڈلی گولی‘‘ بھی نہیں اوربقول وزیرِ اطلاعات حکومت کے
’’میڈیکل بُکس‘‘ کی ساری گولیاں ہی کڑوی ہیں ۔
اَب جب کہ ہماری الہامی کیفیات نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ یہ سکیم ناکام ہو گی
تو پھر سوال یہ ہے کہ حکومت جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ ’’کَڑوی گولی‘‘ نگلنے
کی کوشش کیوں کر رہی ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ اِس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ
ہے ۔وہاں بیٹھے بارک اوباما نے امریکی یوتھ کو بھڑکا کر اپنے پیچھے لگایا
اور امریکہ کا صدر بن بیٹھا ۔اِدھر ہمارے کپتان صاحب نے بھی یہی فارمولا
استعمال کرتے ہوئے پاکستانی یوتھ کو ساتھ ملا کر ’’ڈھول ڈھمکا‘‘ شروع کر
دیا جس کا توڑ کرنے کے لیے ہمارے خادمِ اعلیٰ نے ’’رَج کے‘‘ لیپ ٹاپ تقسیم
کر کے نواز لیگ کو ’’سونامیوں‘‘ سے صاف بچا لیا ۔اب ایک دفعہ پھر حکومت
امتحان گاہ میں ہے ، بلدیاتی انتخابات سَر پر ہیں اور عمران خاں صاحب یوتھ
کو ساتھ ملا کر پنجاب میں مہنگائی کے خلاف ہنگامہ بپا کرنے والے ہیں اِس
لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ یوتھ کو اعتماد میں لیا جاتا اور ظاہر ہے کہ
اِس دَورِ جدید میں پیسے کے بغیر کون اعتماد کرتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ
محترم خاں صاحب مہنگائی کے خلاف یہ تحریک خیبر پختونخواہ سے کیوں شروع نہیں
کرتے ؟۔یہ سب سازشی لوگ ہیں جو خوب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخواہ میں تو پہلے
ہی مہنگائی پنجاب سے کہیں زیادہ ہے اور وہاں حکومت بھی سونامیوں کی ہے اِس
لیے وہ چاہتے ہیں کہ خاں صاحب ’’پٹھانوں‘‘ کو چھیڑ کراپنے آپ کو ’’وخت‘‘
میں ڈال لیں۔
یوتھ لون سکیم کی چیئر پَرسن محترمہ مریم نواز شریف نے ایک ٹاک شو میں جو
فرمایا وہ ہمارے مَن کو بہت بھایا ۔جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر یہ
سکیم ناکام ہو جاتی ہے تو کیا اِس کی ناکامی کا بوجھ وزیرِ اعظم برداشت کر
سکیں گے ؟۔محترمہ مریم نواز نے جواباََ پوری قطیعت سے کہا کہ ساڑھے چار سال
بعد جب آپ سے دوبارہ ملاقات ہو گی تو حکومت بڑے فخر سے کہہ سکے گی کہ اُس
نے’’ یوتھ‘‘ کو اُس کے پاؤں پر کھڑا کر دیا ۔اُنہوں نے قدرے جذباتی انداز
میں کہا کہ جب 100 ، ارب روپیہ پانچ خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور
اُس قرضے کی واپسی کی کوئی سبیل بھی نہیں نکلتی تو کسی کے کان پر جُوں تک
نہیں رینگتی لیکن اگر حکومت 100 ، ارب روپیہ ایک لاکھ نوجوانوں میں تقسیم
کرکے اُنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو کیڑا کاری کا
طوفان بپا ہو گیا ہے ۔محترمہ مریم نواز کی اِس بات میں کوہ ہمالیہ جتنا وزن
ہے ، واقعی ہماری اشرافیہ نے کھربوں ڈکار کر نشان تک نہ چھوڑا اب جب ہماری
یوتھ کے’’ڈکارنے‘‘ کی باری آئی ہے تو لوگوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھنے
لگے ہیں ۔یوتھ تو یہ کہتی ہے کہ ہمیں تو اِس سمندر سے بقدرِ قطرۂ شبنم بھی
نہیں مل رہا اور ہم تو یہ شکوہ کرنے والے تھے کہ
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ ، رزاقی نہیں ہے
لیکن یہاں تو اِس ’’قطرۂ شبنم‘‘پر بھی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔بندہ پوچھے
کہ اگر ہمارے نوجوانوں میں اتنا بھی تقسیم نہ کیا جاتا تو پھر کیا آمدہ
بلدیاتی انتخابات محترم عمران خاں کی ہتھیلی پر رکھ دیئے جاتے؟۔اُدھر خاں
صاحب کی ’’سونامی‘‘ اونچے سُروں میں ’’مہنگائی مار گئی‘‘ الاپ رہی ہے اور
خود تحریکِ انصاف ’’لنگوٹ ‘‘کَس کر 20 دسمبر کو اکھاڑے میں اُترنے والی ہے
اور اِدھر ہماری انتہائی معزز و محترم کورٹس بھی ایسی ’’طوطا چشم‘‘ نکلی
ہیں کہ ہر فیصلہ نواز لیگ کے خلاف ہی جا رہا ہے ۔حکومت نے چیئر مین نادرا
کو نوکری سے نکالا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُسے دو گھنٹوں میں بحال کر
دیا ، چیئر مین پیمرا کو برخاست کیا تو اُس کی بحالی میں بھی دو گھنٹوں سے
زیادہ نہیں لگے ۔سپریم کورٹ کے نئے نویلے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی
نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے نواز لیگ کو ہی ’’پھڑکایا‘‘ ۔محترم
عمران خاں چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کے لیے کئی مہینوں سے چیخ رہے تھے
لیکن کہیں شنوائی نہیں ہو رہی تھی ۔محترم چیف جسٹس صاحب نے الیکشن کمیشن کو
’’لتاڑتے‘‘ ہوئے 15 دنوں کے اندر رپورٹ طلب کر لی اور ہمیں بھی زندگی میں
پہلی بار الیکٹرانک میڈیا پر ہنستے مسکراتے خاں صاحب کا دیدار کرنے کی
سعادت نصیب ہوئی اور خاں صاحب نے بھی کہہ دیا ’’ اب سپریم کورٹ صحیح فیصلے
کر رہی ہے‘‘ ۔اِن حالات میں چاروں طرف سے گھری ہوئی نواز لیگ کے ہاتھ سے
نَسلِ نَو بھی نکل جاتی تو پھر باقی کیا بچتا ؟۔ہمارے خیال میں یوتھ پر
گرفت مضبوط رکھنے کے لیے 100 ، ارب روپے کا ’’جُوا‘‘ مہنگا نہیں ۔اگر کچھ
نو جوانوں نے اپنا مستقبل سنوار لیا تو اُسے ’’پرافٹ‘‘ سمجھ کر جشن منائیے۔ |