لوٹا کوئ عہد جدید کی پیداوار
نہیں۔ یہ صدیوں پہلے وجود میں آ کیا تھا اور اس نے اپنی بہترین کارگزاری کے
حوالہ سے انسانی زندگی میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اس کے وجود سے انسان
خصوصا برصغیر کے بااختیار اور صاحب حیثیت لوگوں نے خوب خوب فاءدہ اٹھایا۔
دیکھا جاءے یہ کمزور اور گریب طبقے کی چیز ہی نہیں۔ پکے محل رکھنے والے اس
کی کارگزاری کے معترف رہے ہیں۔ کمزور اور گریب طبقے سے متعلق لوگ کچے اور
تعفن کے مارے گھروں میں رہتے ہیں اس لیے ان کی گزر اوقات گھیسی سے ہو جاتی
ہے۔ اس حیقیت کے پیش نظر لوٹے کو بلند پایہ طبقوں کی امانت سمجھنا چاہیے۔
موجودہ بتی کے بحرانی دور میں بھی بڑے لوگوں کو گھیسی نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ
سعادت صرف اور صرف کمزور اور گریب طبقے کے مقدر کا حصہ رہے گی۔
"لوٹا" کو آفتابہ بھی کہا جاتا رہا ہے لوٹے کو استاوا بھی کہتے ہیں اور یہ
لفظ دیہاتوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم شہروں میں مستعمل اور معروف لفظ
لوٹا ہی ہے۔ یہ ایک قسم کا ٹونٹی والا برتن ہوتا ہے جو پاخانہ وغیرہ کے لیے
پانی سے طہارت کرنے والا برتن ہوتا ہے۔ مغرب والے اس برتن اور اس کی افادیت
سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ وہ طہارت کا کام ٹیشو پیپر سے چلاتے ہیں۔ ویسے
ٹیشو پیپر کا استعمال کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔
اصطلاحا ٹیشو پیپر کے معنی اس سے مختلف ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد آنکھیں
بدل لینا کے لیے یہ مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ ٹیشو پیپر
معنویت کھو دیتا ہے۔ انسان کے لیے اس مرکب کا استعمال کرنا مناسب نہیں لگتا
کیونکہ انسان کی دوبارہ سے ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ٹیشو پیپر دوبارہ سے
استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ دوبارہ سے ضرورت یا حاجت کے لیے نیا ٹیشو
پیپر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان دوبارہ سے کیا' بار بار
استعمال میں لایا جا سکتا ہے . ٹیشو پیپر کا ہاتھ اور پیٹھ کی صفائ کے
علاوہ کوئ قابل ذکراستعمال موجود نہیں۔
مساجد میں مٹی کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے آج بھی زیادہ تر مٹی کے لوٹے
معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں پلاسٹک کے لوٹے بھی دیکھنے کو مل جاتے
ہیں۔ جماعت والے جب چلے پر جاتے ہیں پلاسٹک کے لوٹوں کو ترجیع دیتے ہیں
کیونکہ ان کے ٹوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سفر میں لوٹا ٹوٹنا یا بہہ جانا نہوست
ہی نہیں مکروہات میں بھی ہے۔ لوٹے کی سلامتی میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی
ہے۔ طہارت کا سارا دارومدار لوٹے پر ہوتا ہے۔ لوٹا برقرار ہے تو طہارت
برقرار ہے۔ طہارت برقرار ہے تو ہی عبادت ممکن ہے۔
شہر کے گھروں میں کانسی سلور سٹیل چاندی پلاسٹک وغیرہ دھاتوں کے لوٹے
دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ایوا نوں میں پلاسٹک کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے
غالبا آج بھی پلاسٹک کے لوٹے استعمال ہوتے ہیں۔ فیشنی دور ہے ٹیشو پیپر بھی
بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ ٹیشو پیپر کو لوٹے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حقیت یہ
ہے کہ ۔ ٹیشو پیپر لوٹے کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں پانی کا
عمل دخل نہیں ہوتا دوسرا ٹیشو پیپر ایک سے زیادہ بار استعمال نہیں ہو سکتا۔
گویا گھیسیی اور ٹیشو پیپر برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ گھیسیی طہارت کے
حوالہ سے زیادہ معتبر ہے۔ مٹی سے وضو تک کیا جا ستا ہے۔ وضو کی ضرورت نماز
تک محدود ہے۔ ہہاں لوگ بسم الله شریف تک درست نہیں پڑھ سکتے لہذا ٹیشو پیپر
کا استعمال ایسا غلط نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اس قماش کے لوگ گھیسی بھی کر لیں
تو کوئ برائ نہیں۔ طہارت کے لیے لوٹا' گھیسی یا ٹیشو پیپر نہ بھی استعال
میں لاءیں تو بھی ان کی سر جائے گی۔ یہ لوگ عوام کا ووٹ حاصل کرکے طہارتیوں
میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی پلیدی پر انگلی نہیں رکھی جا سکتی۔
لوٹے کے چھوٹا یا بڑا ہونے کے حوالہ سے بات ہوئ ہے لوٹا چھوٹا ہو یا بڑا'
بظاہر ا س سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ لوٹا اول تا آخر لوٹا ہے کہاں تک ساتھ دے
گا۔ مٹی کا لوٹا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔ لوٹےکے بڑا یا چھوٹا ہونے سے اچھا خاصا
اثر پڑتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں پانی کم پڑتا ہے اس لیے طہارت کے لیے دو سے
زیادہ لوٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس بڑا لوٹا بڑی حد تک ایک ہی
کافی ہوتا ہے۔ رہ گئ ٹیشو پیپر یا گھیسی کی بات ٹیشو پیپر بڑے ایوانوں یا
بڑے گھروں کے کام کی چیز ہوسکتی ہے لیکن دیہاتوں یا جھونپڑوں کے مقیم اسے
afford نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ان کی تسلی کی چیز ہو سکتی وہ گھیسی یا
کچے روڑے کےاستعمال کو ترجیع میں رکھتے ہیں۔
لوٹے کا اصطلاحی استعمال بڑے ایوانوں میں ہوا کرتا تھا اصطلاحی لوٹا عوام
کے متعلق چیز نہ تھی اور نہ ہی ایوانی لوٹوں پر کسی قسم کی بات کرنے کا حق
تھا ۔ ان کی یہ اوقات بھی نہ تھی کہ وہ ایوانی لوٹوں کے متعلق کوئ بات اپنی
ناپاک زبان پر لاءیں۔ لوٹے ا اپنی اوقات اورافادیت کے حوالہ سے بڑی
importance رکھتے ہیں۔ کمی کمین عوام جو دوچار بتی کھچ جھٹکوں کی مار نہیں
ہیں' تقدس ماب لوٹوں پر اپنے حوالہ سے ایک شبد بھی منہ سے نہ نکالیں۔ ان کی
اتنی جرات اور ہمت کہاں حالانکہ لوٹوں کے بارے اں کی بقلم خود راءے موجود
رہی ہے۔ عوام کو صرف اور صرف راءے دہی کا حق حاصل ہے۔ اگر مخالف فریق کے
ڈبے میں ووٹ چلا جاتا ہے تو راءے دہی کا حق' داھندلی کے لقب سے ملقوب ہوتا
ہے۔
میں اصل نقطے کی بات عرض کرنا بھول گیا ہوں لوٹے کی ہیت ترکیبی ٹونٹی تک
محدود نہیں پیندے کا اس میں بنیادی رول ہوتا ہے۔ مٹی کے بعض لوٹے بلا پیندے
کے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے لوٹوں کے لیے پیالہ نما جگہ بنا دی جاتی تھی
لیکن پیندے وا لے لوٹے پیالے کی سعادت سے محروم رہتے تھے۔ پلاسٹک کے لوٹے
باپیندا ہوتے ہیں ہاں زیادہ استعمال کے باعث ان کا پیندا ٹوٹ بھی جاتا ہے
لیکن ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پیندے کا نام و نشان باقی رہتا ہے۔ انھیں استعمال
کی کسی بھی سطع پر بے پیندا لوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ استعمال کے سبب
نیچے سے کتنا بھی ٹوٹ جائے پیندے کا نشان ضرور باقی رہ جاتا ہے۔ معمولی
نشان بھی اسے باپیندا قراردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
سیانے مولوی اپنا طہارت خانہ الگ سے رکھتے ہیں لہذا ان کا لوٹا بھی اوروں
سے الگ تر ہوتا ہے۔ اس طر ح مولوی صاحب کا لوٹا' مقدس لوٹا ہوتا ہے۔ دفاتر
میں عملے کے طہارت خانے عام استعمال میں رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لوٹے کسی
خاص دفتری کے لیے مخصوص نہیں ہوتے ہاں البتہ افسروں کے طہارت کدے ان کے
دفتر کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ان طہارت کدوں کے لوٹے بڑی معنویت کے حامل ہوتے
ہیں۔ بعض افسر ٹیشو پیپر استعمال میں لاتے ہیں' وہاں لوٹے نہیں رکھے جاتے ۔
کچھ افسرز کے طہارت کدوں میں دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ موقع کی مناسبت
سے لوٹے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں تاہم ان کے طہارت کدوں کی آن بان
اور شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
حضرت پیر صاحبان کے واش روم زیر بحث نہیں لئے جا سکتے کیونکہ حضرت پیر
صاحبان نیک پاک اور عزت کی جگہ پر ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خانقاہ میں ہوں یا کسی
ایوان کی زینت بڑھا رہے ہوں' ان کے لوٹے دوہرے کام کے ہوتے ہیں. نہ گھومیں
تو چاند گھوم جاءں تو زنجیر وٹ پر رہتی ہے۔ بہرطور طہارتی اور پرچی نکالنے
والے لوٹے الگ ہوتے ہیں اس لیے ان کے حوالہ سے بات کرنے پر پاپ لگتا ہے۔
ایوانوں میں تشریف رکھنے والے حضرت پیر صاحبان سیاسی کھیل کے لیے پیندے اور
بے پیندے لوٹے استعمال میں لاتے رہتے ہیں اور یہ ان کا پروفیشنل حق بھی
ہوتا ہے لہذا کسی کو کوئ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت پیر صاحبان کے لوٹوں کی
جانب میلی نظر سے بھی دیکھنے کی گستاخی کرے۔ اس قسم کے لوگوں کی زمین پر
ٹہوئ نہیں ہوتی۔
کوئ لوٹا نواز ہک پر ہتھ مار کر نہیں کہہ سکتا کہ لوٹا زندگی کے کسی موڑ پر
اپنی مرضی سےاوور فلو ہونے کی گستاخی کرتا ہے۔ یہ لوٹے دار کی غلطی کوتاہی
بے نیازی یا بے دھیانی کے سبب اوور فلو ہوتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں بڑے لوٹے
کے برابر پانی ڈالو گے تو ہی بات بگڑے گی۔ اسی طرح بڑے لوٹے میں چھوٹے لوٹے
کا پانی طہارتی امور سرانجام نہیں دے سکتا۔ لوٹا دار کا فرض ہے کہ وہ تناسب
کو ہاتھ سے ناجانے دے۔ استاد غالب بلا کا لوٹا شناس تھا. تبھی اس نے کہا
تھا:
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
اماں حوا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آدم کی بچی ہوئ مٹی سے بنائ گئ تھیں۔
میں اس بات کو نہیں مانتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔ ایک عام آدمی کا خیال
ہے کہ ہمارے ہاں کے لوٹے استاد غالب کے کسی نہایت حرامی لوٹے کی بچی ہوئ
مٹی سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ میں اس عقیدے پر یقین نہیں رکھتا تاہم یہ ایک
میتھ ضرور ہے۔
جگہ' قانون' لوگ اورحکومت کسی بھی ریاست کے وجود کے لیے ضروری عناصر ہوتے
ہیں۔ ان کے بغیر ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصر بھی شارٹ
ہو تو ریاست نہیں بنتی۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹے نہ ہوں تو معزز ممبران
لبڑی پنٹوں شلواروں کے ساتھ نشتوں پر بیٹھیںگے ' سوساءٹی میں پھیریں گے اس
سے نا صرف حسن کو گریہن لگے گا بلکہ بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پنٹوں شلواروں
والے ممبران کی عزت کون کرے گا۔ گریب عوام اور ان میں فرق ہی کیا رہ جاءے
گا۔ کھوتا گھوڑا ایک برابر ہو جاءیں گے لہذا لوٹوں کی خرید و فروخت کا کام'
اپنی ضرورت اور افادیت کے حوالہ سےپہلا سوال لازمی کی حیثیت رکھتا ہے۔
لوٹوں کی تجارت پر کسی بھی سطع پر کبیدہ خاطر ہونا سراسر نادانی کے مترادف
ہے۔ ریاست کے ضروری عنصر یعنی حکومت کے ہونے کے لیے لوٹوں کے کاروبار پر
ناک منہ اور بھووں کو کسی قسم کی تکلیف دینا کھلی ریاست دشمنی ہے۔ اس
کاروبار پر ناک منہ اور بھویں اوپر نیچے کرنے والے حضرات غدار ہیں اور غدار
عناصر کا کیفرکردار تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے اورانھیں سزا دینے کی
حمایت کرنا حکومت دوستی کے مترادف ہے۔ |