اللہ کے دوست
اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ
لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے
ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب
اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے
ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور
ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس
دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔اور ان کے لیے
آخرت میں جو کچھ مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے ۔ چونکہ وہ اللہ
کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری
زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا
وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین،
شہیداء اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا
فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب
ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی
ضرور حق دار ہیں۔
اللہ عز وجل قرآن مجید میں ان نیک لوگوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتا
ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور
جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی
زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ، اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے
والوں کو۔ اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مفصل بیان کر دیں
نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور
وہ ان کا مولیٰ ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے۔‘‘
سورۃ الانعام آیات 125، 126، 127
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اْسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر
اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے
ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘
سورۃ النساء آیات 69، 70
’’ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا
ثواب ہے‘‘
سورۃ المائدہ آیت 9
’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم
کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ
اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے توبیشک اللہ ہی کا گروہ
غالب ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ آیات 55، 56
’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔وہ جو ایمان لائے
اور پرہیز گاری کرتے ہیں ،انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں
، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ،اور تم ان کی باتوں کا
غم نہ کرو بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سنتا جانتا ہے ۔‘‘
سورۃ یونس آیات 62، 63،64،65
’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے
اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ
دیا جاتا تھا ۔ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور
تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں
جومانگو۔مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔اور اس سے زیادہ کس کی بات
اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ اور نیکی
اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی
وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا دوست
۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب
والا۔‘‘
سورۃ حم السجدہ آیات 30، 31، 32، 33، 34، 35
شہر لاہور کے روحانی تاجدار
علامہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نور نور
چہرے (صفحہ نمبر168، 169 اور 170 )میں روزنامہ نوائے وقت کے معروف کالم
نگار نامور صحافی میاں عبدالرشید شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ لکھا ہے
میاں صاحب کا ایک کالم جو 9اکتوبر 1962ء کو شائع ہوا ملاحظہ ہو:
حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ان قافلہ سالارانِ عشق میں سے ہیں
جنہوں نے اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا بیج بویا اور محبت کے ذریعہ سے یہاں اسلام
روشناس کرایا۔ یہ بھی فاتحین تھے، لوگوں کے نگاہ سے زخمی کرتے اور اعلیٰ
اخلاق سے جکڑ لیتے۔ ان کے قلوب عشقِ الہی سے زندہ تھے، اس لئے موت ان کا
کچھ نہ بگاڑ سکی، آج بھی ان کا فیض عام ہے۔ خواص عوام دونوں یہاں سے فیض
پاتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چلہ کاٹا، بابا
فرید گنجِ شکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سے فیض پایا۔ حضرت بو علی
قلندرپانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ یہاں معتکف رہے۔میاں شیر محمد شرقپوری رحمہ
اللہ تعالیٰ یہاں باقاعدہ حاضری دیتے رہے ۔
بزرگوں کی توجہ سے قلوب میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، طبیعت نیکی کی طرف راغب
ہوتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے جمنیزیم میں رسہ پکڑکر اوپر چڑھنے والے
کو نیچے سے سہارا مل جائے ۔حضرت پیرپیران رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے
ہیں:’’ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے فلاں کی طرف توجہ رکھو،ہم
اسے توجہ دیتے ہیں حکم ہوتا ہے فلاں سے توجہ ہٹالو، ہم ہٹالیتے ہیں۔یہ سارا
نظامِ کائنات اللہ تعالیٰ کی توجہ ہی سے چل رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی وجہ کے
تحت ہی بزرگوں کی توجہ بھی کام کرتی ہے ۔
نہ بادہ ہے،نہ صراحی، نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزمِ جانانہ
لاہور کی فضاان بزگوں کی روحانیت کی خوشبوسے ہی مہک رہی ہے جیسے موسم بہار
میں باغ کی فضامیں خوشبوبسی ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے لاہور لاہور ہے، اور جو
یہاں آجائے، وہ یہیں کاہورہتا ہے۔میرے ایک مرحوم دوست حج کر کے آئے، حضرت
صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری کے لئے گئے، توکہنے لگے :ان گلیوں
سے تو مدینہ منورہ کی گلیوں کی خوشبو آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا پرتوہے، البتہ اللہ
تعالیٰ کی صفات ان کی اپنی اور لامحدودہیں۔اور بندوں کی صفات اللہ تعالیٰ
کی عطاکردہ اور محدود ہیں۔اللہ تعالیٰ سخی ہیں،ان کے بندوں میں سخاوت کا
وصف پایا جاتا ہے ۔داتا سخی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔قطب الدین ایبک
کو لکھ داتا کہتے تھے۔داتا گنج بخش کے معنی ایسا سخی ہے جو خزانے لٹادیتا
ہے ۔اس میں شرک کی کوئی بات نہیں۔سورہ البقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے
لئے الفاظ ’’اَنْتَ مَوْلَاناَ‘‘ آئے ہیں ، آج کل کے سارے علماء مولانا
کہلاتے ہیں۔
کئی برس ہوئے ایک ’’مولانا‘‘نے یہ ہوائی چھوڑی تھی کہ سیدعلی ہجویری رحمۃ
اللہ تعالیٰ یہاں مدفون نہیں،بلکہ قلعہ لاہور کے اندر مدفون ہیں۔بعد میں
انھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیاتھا۔آج کل پھر کسی نے اس قسم کا مضمون
لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کے بیسیوں ایسے بندے ہیں جنہیں کشف القبور حاصل ہے، وہ
جانتے ہیں،بلکہ دیکھتے ہیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ یہی
ہے۔قلعہ کی زمین دوزقبر والے بزرگ اور ہیں ‘اگرچہ ان کا نام بھی سیدعلی ہے۔
داتا سرکار کا اسم مبارک
آپ سر کار کا نام نامی علی ہے۔آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔آپ نجیب الطرفین
یعنی حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کے والد کا نام سید عثمان ہے۔ لہذا آپ کا مکمل
نام سید ابولحسن علی بن عثمان ہے۔ روایت مشہور ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی
اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چلہ کاٹا اور
بعد میں یہ فرمایا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
لہٰذا عرف عام میں آپ سرکار کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور داتا صاحب
کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کا دور اسلامی ہجری قمری اعتبار سے یہ پانچویں صدی ہے۔ اکثر تذکرہ نگار
اس پر متفق ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ400ہجری کو پیدا ہوئے۔ اور آپ رحمۃ
اللہ علیہ 465ہجری میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ عیسوی شمسی اعتبار سے یہ
گیارھویں صدی تھی۔ اور یہ دورانیہ تقریباً 1010 ء سے لے کر 1072 ء تک ہے۔
ہجویری اور جلابی
داتا حضوررحمۃ اللہ علیہ کوہجویری بھی کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں آپ کو
’’الہجویری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہجویر اور جلاب، غزنی شہر کے
دوعلاقے یا محلے ہیں۔ جو افغانستان میں واقع ہیں۔ آپ جلاب میں پیدا ہوئے
اور ہجویرمیں بھی آپ کا قیام رہا اس لئے آپ کو ’’الجلابی‘‘ بھی کہا جاتا
ہے۔ آپ کے والد محترم سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ جلاب کے رہنے والے تھے اور
والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں۔والد محترم کی وفات کے بعد آپ ہجویر
منتقل ہو گئے تھے۔
محکمہ اوقاف کی جانب سے نسیم عباسی صاحب کی تحقیقی تحریر 2011ء میں شائع
ہوئی اس کے مطابق آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت کچھ اس طرح
سے ہے۔
سلسلہ نسب
آپ حسنی سید ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک
پہنچتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے: حضرت سید علی رحمۃ اللہ علیہ بن عثمان رحمۃ
اللہ علیہ، بن علی رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بن شاہ
شجاع رحمۃ اللہ علیہ بن ابو الحسن علی رحمۃ اللہ علیہ بن حسین اصغر رحمۃ
اللہ علیہ بن سید زیدشہید رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن
علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔
پیر غلام دستگیر نامی کے نزدیک جو دورِ حاضر کے بڑے ماہر انساب مانے جاتے
ہیں، پانچویں بزرگ کا نام عبداللہ ’’ شجاع شاہ ‘‘ ہے اور آٹھویں بزرگ سید
زید کے ساتھ جو لفظ ’’ شہید‘‘ لکھا ہے، وہ درست نہیں ہے کیونکہ سید زید
شہید امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بن امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند
تھے نہ کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے۔
سلسلہ طریقت
آپ کے مرشد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علہ ہیں۔ ان کا
سلسلہ طریقت نو واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ اس کی
تفصیل یہ ہے: حضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابو الفضل ختلی
رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو الحسن حصری رحمۃ اللہ علیہ،شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ
اللہ علیہ، شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ،
شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حبیب
عجمی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علی المرتضیٰ کرم
اللہ وجہہ۔
حصول علم
آپ رحمۃ اللہ علیہ کوعلوم دین، فقہ، تفسیر و حدیث میں تبحر حاصل تھا آپ نے
علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے لئے بہت جدوجہد کی اور وسطِ ایشیا کے کئی
ممالک کاسفر کیا۔ اور بہت سے علماء و مشائخ سے فیض حاصل کیا۔ آپ کی تعلیمات
سے ان علوم و فنون کی جھلک دکھائی دیتی ہے جن پر آپ کو خاطر خواہ عبور حاصل
تھا۔
فقہی مسلک
فقہی طور پر آپ سراج الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی
اللہ عنہ کے مذہب پر تھے۔ اور آپ شریعت مطہرہ کے نہایت پابند تھے۔آپ رحمۃ
اللہ علیہ کی کتاب کشف المحجوب میں جابجا شریعت پر عمل پیرا رہنے کی تلقین
موجود ہے۔
پیر و مرشد
داتا سرکار حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشِدکا
نام حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جوکہ حضور سید
الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ کے مسلک طریقت پر قائم تھے۔ داتا حضور
رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر و مرشد علیہ الرحمہ کا تذکرہ اپنی کتاب میں ان
الفاظ میں فرمایاہے۔
حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ
ائمہ طریقت میں سے زین اوتاد شیخ عباد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی
رحمتہ اللہ علیہ ہیں طریقت میں پیروی انہیں سے ہے۔(مرشدسید نا داتا گنج
رحمتہ اللہ علیہ) وہ علم تفسیر وروایات کے عالم اور تصوف میں حضرت جنید
رحمتہ اللہ علیہ کے مذ ہب پر تھے حضرت خضری کے مر ید حضرت سردانی کے مصاحب
تھے، حضرت ابو عمر فزونی، حضرت ابو احسن بن سالبہ رحیم اللہ علیہم کے ہم
زمانہ تھے۔ آٹھ سال صادق گوشہ نشینی اختیار کرکے پہاڑوں کے غاروں میں رہے
اور اپنا نام لوگوں کے درمیان گم رکھا۔ اکثر لگام نامی پہاڑ پر رہتے۔ عمدہ
زندگی گزاری ان کی نشانیاں اور براہین بکثرت ہیں لیکن وہ عام صوفیوں کے رسم
لباس کے پابند نہ تھے۔ اور اہل رسوم سے سخت بیزار تھے۔ میں نے اس سے بڑھ کر
رعب و دبدبہ والا کبھی کوئی مرد خدا نہ دیکھا۔ ان کا ارشاد ہے
الدنیا یوم ولنا فیھا صوم
ترجمہ: دنیا ایک دن کی طرح ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔
مطلب یہ کہ ہم نے دنیا سے کچھ حاصل نہیں کیا اور نہ اس کی بندش میں آتے ہیں
کیونکہ ہم نے دنیا کی آفتوں کو دیکھ لیا ہے اور اس کے حجابات سے باخبر
ہوگئے ہیں ہم اس سے بھاگتے ہیں۔
حکایت: ایک مرتبہ میں ان کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کیونکہ وہ وضو فرما
رہے تھے میرے دل میں خیال گزرا کہ جبکہ تمام کام تقدیر و قسمت سے ہیں تو
آزاد لوگ کیوں کرامت کی خواہش میں پیروی کے غلام بنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے
فرزند من! جو خیالات تمہارے دل میں گزر رہے ہیں میں نے ان کو جان لیا ہے تو
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر حکم کے لیے کوئی سبب ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ
کسی سپاہی بچہ کو تاج و حکومت عطا فرماتا ہے تو وہ اسے توبہ کی توفیق دے کر
اپنے کسی دوست ومحبوب کی خدمت میں مشغول فرماتا ہے تاکہ یہ خدمت اس کی
درامت کا موجب بن جائے۔
اس قسم کے لطیفے بکثرت مجھ پر ہر روز ان سے ظہور پذیر ہوتے تھے۔ جس دن کہ
ان کا نتقال ہوا بیت الجن میں تھے یہ بانیاں رود اور دمشق کے مابین گھاٹی
کے کنارے ایک گاؤں ہے ان کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ اس وقت میرے دل میں
اپنے کسی دوست کی طرف سے کچھ رنج تھا جیسا کہ آدمیوں کی عادت ہے۔ انہوں نے
مجھ سے فرمایا اے فرزند! دل کو مضبوط کرنے والا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر
خود کو اس پر درست کرلو تو تمام رنج و فکر سے محفوظ ہو جاؤ گے فرمایا ہر
محل اور ہر حالت خواہ نیک ہو یا بد اسے اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا فرمایا ہے
لہٰذا اس کے کسی فعل پر جھگڑنا نہیں چاہیے اور دل کو رنجیدہ نہ کرنا چاہیے
اس کے سواء کوئی وصیت نہ فرمائی اور جان دے دی واللہ اعلم بالصواب۔
کشف المحجوب، اردو ترجمہ(جو ترجمہ حضرت مفتی سید غلام معین الدین نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ) ،مطبوعہ لاہور،صفحہ نمبر 241 ،242
آپ کی تصانیف
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی ایک کتب تصنیف فرمائیں جن میں شاعری کا ایک دیوان
بھی تھا لیکن دیگر لوگوں نے آپ کی ان علمی خدمات کو اپنے نام سے شائع
کردیا۔ ان کتابوں کا ذکر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ایک
چھوٹا رسالہ کشف الاسرار جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بقول کشف المحجوبکی تلخیص
ہے وہ رسالہ اور کشف المحجوب ابھی تک دستیاب ہیں۔ آپ کی چندتصانیف کے نام
یہ ہیں۔
1. کشف المحجوب
2. کشف الاسرار
3. منہاج الدین
4. الرعایۃ الحقوق اللہ تعالیٰ
5. کتاب فناء وبقاء
6. اسرار الحزق المؤنات
7. بحر القلوب
8. کتاب البیان لاہل العیان
|