ہندوستانی مسلمانوں کو ذلیل و
خوار اور لوٹتے پیٹتے ہوئے 65سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن مسلمان
ہیں کہ کسی طرح سے بھی سبق لینے کو تیار نہیں ہیں اور اسلام میں اس وضاحت
کے ساتھ کہ اب ابابیل کا کوئی لشکر آنے والا نہیں ہے اس کے باوجود ابابیل
کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی پوری زندگی آزمانے اور تجربے کرتے گزرگئی لیکن
عملی میدان میں کبھی قدم رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ آزادی کے بعد سے الیکشن
ہورہے ہیں اور ہر الیکشن کے بعد مسلمان ماتم کرنے کے لئے مجلس سجاتے ہیں،
سیمنار کرتے ہیں، مباحثے اور مذاکرے کرتے ہیں اور اپنی کمیوں اور خرابیوں
کا جائزہ لیتے ہیں لیکن قورمہ بریانی کھانے کے بعد جس طرح اس کا فضلہ نکل
جاتاہے اسی طرح وہ سوچ اور جائز ہ بھی نکل جاتا ہے۔ اگلے پانچ سال تک ماتم
کرتے گزر جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے، ہماری باتیں سنی نہیں
جارہی ہیں، ہمارا کام نہیں ہورہا ہے، سرکاری اسکیمیں ہم تک نہیں پہنچ رہی
ہیں۔ اس پر بھی سیمنار کرائے جاتے ہیں اور امتیاز کا رونا رویا جاتا ہے
لیکن اس کے بعد اس کو حاصل کرنے کے لئے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا
جاتا۔ نہ ہی لوگوں کو کیمپ لگاکر اسکیموں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور نہ
ہی اسکیموں کے لئے فارم بھروائے جاتے ہیں اس کے باوجود نتائج کا شدت سے
انتظار رہتا ہے۔ ایسی سوچ، ایسے طریقے کار، ایسی رہبری اور ایسی اپنائیت سے
مسلمان آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اب تک مہادلت صرف نیچی ذات کے ہندو کے
بارے میں کہاجاتاہے اور اس کی فلاح و بہبود کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں
لیکن اگلے دس پندرہ سالوں میں اس کی جگہ مسلمان لینے والے ہیں۔ اس لئے جس
تیزی سے دلتوں اور قبائلیوں میں ترقی ہورہی ہے اور مسلمان پسماندگی کا شکار
ہورہے ہیں اس کا نتیجہ مسلمانوں کے مہادلت (انتہائی پسماندہ) کی شکل میں
آنے والا ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت کے لئے سب سے زیادہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں
جو تمام کام کرنا چاہتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کوئی کام نہیں کرتے ۔ الیکشن
کا موسم آتے ہیں اونچی، نیچی ٹوپیوں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے دربار میں
سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور کہتے وہ مسلمانوں کے ووٹ کسی بھی پارٹی کی جھولی
میں ڈالنے کیلئے کافی ہیں اور وہاں سے رقم لیکر پھر وہ دوسری پارٹی کے
دربارمیں سلام کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح کئی پارٹیوں سے مسلمانوں کے ووٹ
کا ٹھیکہ لے لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پارٹیاں مسلمانوں کے لئے کچھ کرنے کے
لئے روادار نہیں ہوتیں۔ وہ اس لئے بھی نہیں کرتیں کیوں کہ مسلم ووٹوں کے
ٹھیکہ داروں کو بڑی رقم ادا کرچکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد اس پارٹی کی حکومت
بن جاتی ہے تو یہ ٹھیکہ دار وفود کی شکل ملاقات کرکے اپنے اور اپنے
خاندانوں کے لئے مزید رعایتیں حاصل کرتے ہیں۔یہ سلسلہ گزشتہ پچاس سال سے
جاری ہے اور اس دوران مسلمان پسماندہ سے انتہائی پسماندہ ہوگئے۔ اب تو کچھ
لیڈر مسلمانوں کے انتہائی پسماندگی کا موضوع بنانے کے لئے سوچ رہے ہیں۔ یہ
موضوع اٹھاکر وہ مسلمانوں کو مزید تقسیم کرکے کسی قابل رہنے دینا نہیں
چاہتے۔ ان کے ووٹ پر اپنی شیخی بگھارنے والوں نے بھی کبھی کچھ نہیں کیا۔
جتنے مسلمان لیڈر ہیں اگر وہ ایک ایک حلقہ منتخب کرکے وہاں حکومتوں کی
اسکیموں کا نفاذکراتے تو مسلمان آج اس طرح قعر مذلت اور اس طرح غربت کی
زندگی بسر نہیں کر رہے ہوتے۔ ان لیڈروں نے مذہب، مسلک، ذات پات، علاقائیت
اور رنگ و نسل کی بنیاد پر مسلمانوں میں انتشار کے اتنے بیج بودئے ہیں وہ
تناور درخت کی شکل لے چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذاتی منفعت کے لئے سیاسی
پارٹیوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔ اپنے مسلک کے لوگوں کو دوسرے مسلک کے
خلاف بھڑکاتے ہیں یہاں تک دیگر مسلک کو کافر تک قرار دے دیتے ہیں۔ ایک مسلک
والا عالم اپنے مسلک کے لوگوں کو یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جو شخص حضور صلی
اللہ کو تسلیم نہ کرے وہ مسلمان ہوسکتا ہے اور فلاں مسلک والے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے تو بتاؤ وہ مسلمان کیسے ہوا اور اس طرح
ان پر کفر کا فتوی صادر کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اور
یہ کھیل انتخابات کے دوران جم کرہوتا ہے۔ حالیہ پانچ اسمبلی انتخابات کے
نتائج اس بات کی تصدیق کریں گے۔ اس میں مسلمانوں کی نمائندگی میں بہت تیزی
سے کمی آئی ہے ۔ اس میں جہاں اغیار کی ریشہ دوانیاں شامل ہیں وہیں ہمارا
انتشار بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔
راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں جہاں گزشتہ اسمبلی میں 12 مسلمان تھے وہیں
اب صرف دو رہ گئے ہیں۔ ان میں دونوں سیٹیں بی جے پی نے جیتی ہیں۔ بی جے پی
کے امیدوار یونس خاں (دیدوانا) اور حبیب الرحمان (ناگور ) کامیاب ہوئے۔ بی
جے پی نے اس مرتبہ چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھاجب کہ کم ازکم آبادی کے لحاظ
سے 22 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا جانا چاہئے تھا۔ریاست میں تقریبا 78 لاکھ یعنی
11 فیصد مسلم ووٹر ہیں ۔ ریاست میں کئی اسمبلی سیٹ تو ایسی ہے جہاں
امیدوارو کی شکست و فتح کا فیصلہ ہی مسلمان ووٹر کرتے ہیں۔ اس کے اس کے
باوجود بھی سیاسی جماعتوں کی سوچ میں آج بھی مسلمان محض ایک ووٹ بینک سے
زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ پچھلی بار کانگریس نے ریاست میں 17 مسلمانوں کو ٹکٹ
دیا تھا وہیں بی جے پی نے چار کو ہی اپنا امیدوار بنایا تھا جب کہ اس بار
اس نے صرف 16 مسلمانوں کو ہی ٹکٹ دیا تھا۔ کانگریس نے اپنے دس ممبران میں
سے تین دوروں میاں، امین خان اور نسیم اختر انصاف کو وزیر بنایا گیا
تھاوہیں کاما ں سے ممبر اسمبلی زاہدہ بانو کو پارلیمانی سیکرٹری بنا کر لال
بتی دی گئی تھی ۔ باقی چھ ممبر اسمبلی صالح محمد ، ذاکر حسین گوساوت، الہ
دین آزاد ، بھنورو خان ، محترمہ ذکیہ اور مقبول منڈیلیا تھے ۔ بی جے پی سے
ناگور سے کانگریس چھوڑ کر آ نے والے حبیب الرحمان اور دھول پور سے
عبدالصغیرخان کامیاب ہوئے تھے ۔بی جے پی نے اس بار بھی چار مسلمانوں کو
دھول پور سے عبدالصغیرخان ، ناگور سے حبیب الرحمان، ڈیڈوانا سے یونس خان
اور منڈاوا سے سلیم تنور کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ جبکہ گزشتہ بار 17
مسلمانوں کو ٹکٹ دئے تھے ۔ راجستھان کی سیاست میں مسلمانوں کو مناسب
نمائندگی نہ ملنے کی بنیادی وجہ خود مسلمان بھی ہیں جو خود سیاسی جماعتوں
کے ووٹ بینک کے طور میں استعمال ہوتے آئے ہیں ۔ ریاست میں کسی بھی پارٹی
میں بڑے قد کا کوئی مسلم لیڈر نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت میں مسلمان کے
نمائندہ کے طور پر کچھ وزیر بنا کر خانہ پری کر دی جاتی ہے ۔ ریاست میں
برکت اللہ خان ضرور ایک بار وزیر اعلی بنے مگر وہ بھی اپنے بڑے قد کی وجہ
سے نہیں بلکہ کانگریس کے ایک لیڈر کے طور پر ۔راجستھان سے کیپٹن ایوب خان
واحد مسلم لیڈر تھے جو جھنجھنو سے دو بار لوک سبھا انتخابات جیت کر
پارلیمنٹ پہچنے میں کامیاب ہو ئے تھے ۔ ان سے پہلے اور بعد آج تک کوئی
دوسرا مسلم لوک سبھا کا رکن نہیں بن پایا ہے ۔بی جے پی حکومت میں بھی ایک
مسلمان کو وزیر بنا کر کوٹہ پورا کرنے کی روایت رہی ہے ۔شاید اس بار یہ
روایت برقرار ہے گی۔ یونس خاں یا حبیب الرحمان میں سے کسی ایک کو وزیر
بنادیا جائے گا۔ راجستھان کا مسلم سماج کافی پچھڑا اور مالی طور پر کمزور
ہے ۔ ان کا تعلیمی معیار بھی بہت پست ہے ۔
مدھیہ پردیش میں واحد مسلم امیدوارکامیاب ہوا ہے۔ پانچویں مرتبہ انتخاب
جیتنے والے عارف عقیل نے بی جے پی کے امیدوار عارف مسعود کو شکست دیکر
کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے ۲۰ مسلمانوں کو امیدوار بنانے کی درخواست کی تھی
لیکن کانگریس نے صرف پانچ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔ یہاں بی جے پی نے
واحد مسلم امیدوارعارف مسعود کو ٹکٹ دیا تھا جو عارف عقیل سے ہار گئے۔
مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کی ناکامی وجہ سے جہاں ووٹوں کا انتشار ہے وہیں
ازسرنو حلقہ بندی بھی ہے۔ حلقہ بندی اس طرح کی گئی ہے کہ مسلم بکھر جائیں۔
چھتیس گڑھ میں اس بار کوئی مسلمان منتخب ہوکر نہیں آیا ہے۔ اس سے قبل
اسمبلی میں دو امیدوار بدرالدین قریشی اور محمد اکبر منتخب ہوکر پہنچے تھے۔
دہلی میں مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ تمام حلقے مسلم اکثریتی حلقے
ہیں۔ اوکھلا سے آصف محمد خاں‘ بلی ماران سے ہارون یوسف‘ سیلم پور سے چودھری
عبدالمتین‘ مصطفی آباد سے محمد حسن کامیاب ہوئے ہیں۔ان چاروں نے انتخاب جیت
کر کانگریس کی لاج بچائی ہے۔ ورنہ ان کی تعداد چار تک محدود رہ جاتی ۔
پانچواں کامیاب امیدوار شعیب اقبال ہیں جنہوں نے مسلسل چوتھی بار مٹیا محل
میں اپنی کامیابی برقرار رکھی ہے۔ بابر پور سے کانگریس کے ذاکر خاں کامیاب
ہوجاتے اگر ان کے مقابلے عام آدمی پارٹی اور پیس پارٹی کے امیدوار نہ ہوتے
۔ اگر یہ دونوں امیدوار نہ ہوتے تو کانگریسی مسلم امیدوار بیس ہزار سے زائد
ووٹوں سے کامیاب ہوتے لیکن چار ہزار سے زائد ووٹوں سے ناکام ہوگئے۔
ان پانچ ریاستوں کے انتخابات میں جس طرح تکنالوجی اور سوشیل میڈیا کا
استعمال ہوا ہے وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔بعض ریاستوں میں عوام نے ترقی
اور بدعنوانی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ مہنگائی ایسا
موضوع تھا جس کا کانگریسیوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بی جے پی کے پاس
تمام سہولت‘ جھوٹ پھیلانے کا آلہ اور اس جھوٹ کو تسلیم کرنے والے عوام کی
بڑی تعداد موجود تھی۔ جس کا فائدہ اسے حاصل ہوا اور وہ عوام کو گمراہ کرکے
فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی۔ بی جے پی نے بین السطور یہ پیغام دیا کہ اگر
بی جے پی کو کامیاب نہیں کرایا گیا تو ان کی زندگی اور ان کی بہو بیٹیاں
موجود نہیں رہیں گی لو جہاد کا نعرہ بھی بلند کیا گیا اور اس طرح مسلمانوں
کی نمائندگی کم کی گئی۔ اس کے لئے صرف بی جے پی کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا
مناسب نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے مسلم قوم ‘ مسلم علماء‘ مسلک کے نام پر
دوکانداری کرنے والے مذہبی رہنما‘ ذات پات پر مبنی تنظیم چلانے والے رہنما
اور سیاست میں مسلمانوں کے دم پر مقام حاصل کرنے والے اور مسلمانوں کا کام
نہ کرنے والے رہنما بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔
معاملہ یہاں مسلمانوں کا ہے اور میرے مضمون کا خلاصہ بھی مسلمانوں کی کم
ہوتی نمائندگی ہے۔اس اسمبلی میں مسلمانوں کی کوئی حکمت عمل نظر نہیں آئی۔جس
کی وجہ مسلمان ہر جگہ چاروں خانے چت ہوگئے۔ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات
میں سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے۔ یہ بات میں نے بار بار لکھا ہے کہ
کون سی پارٹی فتحیاب ہوتی ہے کون ناکام ہوتی ہے اس سے ہندوؤں کو کوئی فرق
نہیں پڑتا لیکن کون سی پارٹی کامیاب ہوتی ہے سے نہ صرف اس سے بلکہ کون
امیدوار اپنی کامیابی پرچم لہراتا ہے اس سے بھی مسلمانوں کو فرق پڑتا ہے۔
مسلمانوں کو غصے کا اظہار کرنا چاہئے اور پارٹیوں کو سبق سکھانا چاہئے لیکن
اس طرح سے سبق نہیں سکھانا چاہئے کہ ہم اپنی نمائندگی ہی کم کرلیں۔ اگر
مسلمان آپ کا کام نہیں کرے گا تو کم از کم نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن
دوسرے نہ صرف آپ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے تباہی کا
سامان کھڑا کر جائے گا۔ اس وقت نہ مسلک کام آئے گا نہ اونچی ٹوپی اور نہ ہی
نیچی ٹوپی۔ بندوق کی گولیاں مسلک اور ذات پات کے درمیان فرق نہیں کرتیں۔ اس
وقت چوں کہ مسلک اور ذات پات کے نام پر دوکانداری عروج پر ہے۔ اس لئے
مسلمانوں کو پہلے ان طبقوں سے لوہا لینا ہوگا ورنہ مسلمانوں کی حالت ان گڑی
پڑی اشیا کی مانند ہوگی جسے ہر شخص ٹھوکر مارتا ہے اور ایک مظفر نگر نہیں
کئی بڑے مظفر نگر کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی
ایک نیا ہتھیار کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ جس کا تجربہ پہلے سورت‘ ممبئی اور
پھر گجرات میں بڑے پیمانے پر کیا گیا ۔ آبروریزی سے صرف جسم ہی چھلنی نہیں
ہوتی روح بھی بری طرح چھلنی ہوجاتی ہے اور اس کا اثر آنے والی کئی نسلوں پر
پڑتا ہے۔ جس طرح آج مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیل
کے اندر ڈالا جارہا ہے یا انہیں دیگر طرح سے پریشان کیا جارہا ہے اور
مسلمان خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اس سے ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ
مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز بلند کرنے والا بھی نہ ہو۔ اس لئے مسلمانوں
کو 2014کے پارلیمانی انتخابات کی حکمت عملی ابھی سے ہی ترتیب دینی
چاہئے۔ایسا کچھ کرنا چاہئے مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہو اور ایسے
امیدوار انتخاب جیت کر آئیں جو مسلمانوں کی آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتے
ہوں۔ |