لاٹھی والے کی بھینس

لاہور بورڈ نے میری پنشنری غربت سے متاثر اور عبرت پکڑتے ہوءے مجھے ہیڈ ایگزامینر مقرر کر دیا۔ میں کام کی غرض سے نکلنے لگا۔ دروازے سے ایک قدم باہر اور ایک قدم اندر تھا کہ زوجہ ماجدہ کی پیار بھری آواز واپسی بلاوے کی صورت میں میرے ناچیز اور پراز گناہ کانوں میں پڑی۔ بڑھاپے کے باوجود میں پوری پھرتی اور کسی نوبہاتا نوجوان کی طرح واپس پلٹا۔ زوجہ حضور کے ہاتھ میں منڈی کے سامان کی لسٹ تھی۔ سخت گھبرایا اور نزع کی حالت کے نیم مردہ شخص کی طرح منمنایا بلکہ گڑگڑایا: رمضان کی برکتوں کے سبب منڈی کی اشیاء دسترس سے باہر ہو گئ ہیں۔ بس دو چار روز صبر فرما لیں پھر سب کچھ آپ کے مقدس چرنوں میں ہو گا۔ بس پھر کیا تھا کام اسٹارٹ ہو گیا جیسے میں نے کوئ ماں بہن کی بےلباس گالی نکال دی ہو۔ یہ کوئ ایسی نئ بات نہیں تھی تحفظ عزت و مال کے لیے سارا دن بےعزتی کرانا میرے معمول کا حصہ ہے۔ میں نے بھی دل ہی دل میں جی بھر سنائیں۔ سالی یوں گرج برس رہی ہے جیسے روزہ میرے لیے رکھا ہو۔۔ باور رہے یہ بھی دل ہی دل میں کہا۔ اونچی آواز میں کچھ کہنا میرے کیا بڑے بڑوں کے ابے کے بس کا روگ نہیں رہا۔

بیگمی حوصلہ اور عزت افزائ کے باوجود میں خود کو معاشرے کا معزز شہری سمجھتا ہوں۔ لوگ تو خیر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ہی۔ وہ کیا جانیں روزوں میں منڈی چڑھنے کے ساتھ ہی میری عزت اور وقار بےعزتی کی سولی پر مصلوب ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اوروں کے ساتھ بھی کم وبیش یہی ہوتا ہو تاہم میرے ساتھ باالضرور ہوتا ہے اور شاید یہی مقدر اور نصیبا رہا ہو۔

سنٹر میں ابھی میں نے تشریف نہیں رکھی تھی کہ ایک بی بی جو میری سب تھی اپنا کام لے کر آ گئ۔ سر میرا کیا قصور ہے جو کلرک کام میں دیری کرتا ہے بمعنی دوسروں کے پہلے کرتا ہے حالانکہ اسے لیڈیز فسٹ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے گویا جس کا کام کر رہا ہوتا ہے اسے موخر کے کھاتے میں ڈال دے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجاءے منہ سے بےساختہ اور بےمحل نکل گیا‘ جانے کیا کر بیٹھا ہوں جو گھر میں بھی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں باہر آؤ تو بھی عورتوں سے پالا پڑتا ہے۔ کہنے کو تو کہہ گیا لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ کچھ زیادہ ہی غلط کہہ گیا ہوں۔ بعد میں نے لیپا پوچی کی بڑی کوشش کی لیکن اب کیا ہوت کمان سے نکلا تیر نشانے پر بیٹھ کر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔

بات آئ گئ ہو کر وقتی طور پر ٹل گئ۔ مارکنگ کا یہ آخری دن تھا ایک دوسری خاتون نے برسرعام پوچھا سر اگر آپ برا نہ مناءیں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ سکتی ہوں۔ ذاتی پر زور تھا سا کا لاحقہ اس نے تکلفا استعمال کیا۔ کیا کہہ سکتا تھا ذاتی سا سوال سرعام دریافت کر رہی تھی۔ احمق میں ہی تھا جو ماتحت لوگوں کے بیچ بیٹھ کر کام کر رہا تھا۔ یہ لوگ تقریبا ماتحت تھے میں تو درجہ چہارم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پلے سے سب کے لیے چاءے منگوا کر پی لیتا ہوں‘ گپ شپ کر لیتا ہوں۔ بلاشبہ یہ اصول جاہی کے خلاف ہے۔ بہر کیف میں نے بی بی کو پوچھ گچھ کی اجازت دے دی۔

۔سر آپ کی تینوں بیگمات اسی شہر میں اقامت رکھتی ہی۔ تین کے ہندسے نے مجھے چکرا دیا۔ پھر میں نے سوچا مفت میں ٹہوہر بن رہا ہے اور اس حوالہ سے یہ جاءے انکار کب ہے۔ نہیں وہ تو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ جس طرح مجھے تین کے ہندسے نے چکرا دیا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بی بی کو چکر آ گیا اور میں جوابی کاروائ کی اثر انگیزی پر مسرور تھا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میری مسروری کو دیکھ کر اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ سر وہ آپس میں خوب لڑتی ہوں گی۔ میں یہ کہہ کر چلتا بنا: کیوں میں مر گیا ہوں۔

بعد میں کسی اور کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں نے کیوں میں مر گیا ہوں کی تفہیم بالکل الگ سے لی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ بابے نے تینوں کو نپ کر رکھا ہوا ہے۔ عورت اور وہ بھی سرکاری؛ دب کر رہے‘ کس کتاپ میں لکھا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپس میں کیوں لڑیں گی لڑائ اورعزت افزائئ کے لیے میں ابھی زندہ ہوں۔ یہ قصہ تو زیب داستان کے لیے عرض کر گیا ہوں اصل تحقیق کی ضرورت تین کا ہندسہ تھا۔ آخر یہ کہاں سے آ ٹپکا اور پورے مارکنگ سنٹر میں میری وجہ ء شہرت بن گیا۔

بڑا غور کیا‘ سوچا‘ سیاق و سباق میں گیا۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا۔ آج کچھ ہی لمحے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا تو میں نے سنجیدہ توجہ دی تو کھلا میں نے ایک بی بی سے کہا تھا گھر میں عورتوں اور باہر بھی عورتوں سے پالا ہے۔ جمع کے صیغے نے کہانی کو جنم دیا تھا۔ خاتون کے حافظہ میں ایک جمع رہی دوسری کو اس نے واحد لیا۔ وہ عورت تھی مکالمہ اسی سے ہوا۔ غالبا اردو نحو کا اصول بھی یہی ہے کہ دوسری جمع واحد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

سننے اور پڑھنے والا بولنے اور لکھنے والے کا پابند نہیں وہ مرضی کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ میرے کہے میں ابہام موجود تھا۔ بلا ابہام لفظوں اور جملوں کے بہت سے مفاہیم لیے جاتے ہیں یا پھر لیے جا سکتے ہیں۔ ساختیات بھی یہی کہتی ہے۔ اسے کہنا بھی چاہیے۔ ابہام اور لفظوں کی کثیر معنویت عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھولتی ہے۔ لفظ اپنی حیثیت میں جامد اور اٹل نہیں۔ اسے استعمال میں لانے والے کی انگلی پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے جامد اور اٹل ہونے سے زبان کے اظہار کا دائرہ تنگ ہو جائے گا۔ نتیجہ کار زبان مر جائے گی یا محض بولی ہو کر رہ جائے گی۔ اس تھیوری کے تناظر میں مجھے کسی بھی خاتون کے کہے کو دل پر لگانا نہیں چاہیے۔

کچھ ہی پہلے اندر سے آواز سنائ دی حضرت بیغم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے کچھ تو جمع ہوں گے عید پر کپڑے خرید لائیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑوں لانے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرحدار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائ کے دروازے کھولتا ہے جبکہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جاءے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھلا دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔

میں نے کئ بار عرض کیا کہ طنز لبریز مذاق نہ کیا کرو۔ کہتی ہے اب اس گھر میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکم نامے طاقت جاری کرتی ہے۔ ماتحت کمزور مفلس اور کامے حقوق کی مانگ بھی گزاشی انداز میں کرتے ہیں۔ لمحہ بھر کی خوش فہمی بھی ہضم نہ ہو سکی کہ گھر والی کو بےفضول کہنے کی جرآت نہیں‘ میرے حصے کا بھی بقول سقراط گھر والی نے بول دیا۔

سردار محمد حسین آج کی نشت میں کہہ رہے تھے کہ آخر آپ کی تان اعلی شکشا منشی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے۔ میں نے کہا سردار صاحب کل گاؤں سے ایک توڑا آلو لیتے آنا۔ آپ ہی فرماءیے اس میں زوردار ہنسنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے اپنی بات دہرائ تو پھر ہنس دیے۔ نہ ہاں نہ ناں‘ یہ کیا ہوا۔ میں اپنی لکھتوں میں اپنا حق طلب کرتا ہوں کیونکہ آلو کے بغیر گزرا نہیں اور آلو مفت میں نہیں ملتے۔ اعلی شکشا منشی کے دفتر سے پیسے ملیں گے تو ہی آلو لا سکوں گا۔ میرے آلو لانے کے لیے کہنے میں سادگی نہ تھی بالکل اسی طرح سردار صاحب کے دھماکہ دار قہقہوں میں بھی نزدیک کے معنی موجود نہ تھے۔

میں جانتا ہوں وہاں بھی آلو کا رولا ہے۔ سکی تنخواہ میں آلو اور ٹوہر ایک ساتھ نہی چل سکتے اور ناہی کسی سطع پر ان کا کوئ کنبینیشن ترکیب پاتا ہے۔ انہیں ضدین کا درجہ حاصل ہے۔ سردار صاحب نےآلو لانے کی بات کو گول کرکے میرے اندر ڈر اور خوف کی لہر دوڑا دی۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں نے ان سے کیا گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جن کے متعلق لکھتا ہوں ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سردار صاحب کا کہنا غلط نہ تھا۔ تاہم یہ بھی طے ہے لوگ جیل سے باہر جیل سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سفید پوش کی اوقات آلو برابر نہیں رہی۔ کیا عجیب صورت حال درپیش ہے۔ چور کی نشندہی کرنے والا مجرم اور لائق تعزیر ٹھہرتا ہے۔ چور یقینا دودھ دیتی بھینس کی مثل ہوتا ہے۔ چور چور کی آوازیں نکالنے والا دودھ دیتی بھینس کو چھڑی مار رہا ہوتا ہے۔ نشاندہی کرنے والا ایک طرف چور کو‘ تو دوسری طرف چور سے مال انٹنے والے کے پیٹ پر لات رسید کر رہا ہوتا ہے۔

ویسے سچ اور حق کی آنکھ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ چور اس وقت تک چور ہوتا ہے جب تک دوسرے کا مال اس کی گرہ میں نہیں آ جاتا۔ مال چاہے شور مچانے والے کا ہی کیوں نہ ہو۔ چور کی گرہ میں آنے کے بعد مال چور کا ہوتا ہے۔ کسی صاحب مال کو چور کہنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر شور مچانے والا بخوشی گرہ سے کچھ نہیں دے سکتا تو کسی کے مال پر دعوے کا بھی اسے حق نہیں۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.