صبح سویرے ٹی وی آن کیا تو ایک
بہت ہی نجی ٹی وی چینل جسے پاکستان کے ہر کام میں خرابی نظر آتی ہے۔جو دنیا
بھر میں ہونے والی دہشت گردی ،اور دہشت گردی ہی پہ کیا موقوف ہر خرابی کا
ذمہ دار بھی پاکستان کو سمجھتا ہے۔معاملہ کوئی بھی ہو اس چینل سے کبھی خیر
کی خبر نہیں آتی۔پاکستانیوں میں مایوسیوں کے اندھیرے پھیلانا ہی اس چینل کا
خاصہ ہے۔گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ آج کا نہیں ہمارے ملک کا پرانا مسئلہ
ہے۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں بارشیں بھی ہوتی ہیں۔آندھیاں بھی آتی ہیں اور
زلزلے بھی۔ٹی وی چینلز اور اخبارات اپنے ملک کے لوگوں کو حوصلہ دیتے ہیں
اور جینے کی نئی راہ دکھاتے ہیں۔ہمارے ملک میں آجکل دھند چھائی ہوئی ہے اور
ٹی وی چینل اس دھند کو تقریباََ عذابِ خداوندی بتا رہا تھا۔ایسا لگتا تھا
کہ یہ دھند ہمارا نام و نشان مٹا کے ہی چھوڑے گی۔صبح سے شام تک اگر آپ ایک
ہی راگ آلاپتے رہیں کہ پاکستان ایک ناکام ملک ہے۔اس کی کوئی کل سیدھی نہیں
تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور یقین ہونے لگتا ہے
کہ جو کہا جا رہا ہے وہ سو فیصد صحیح ہے۔خصوصاََ اس وقت جب کہنے والے نے
کسی اپنے کا بہروپ بھر رکھا ہو۔
کہتے ہیں کہ اچانک مل جانے والی دولت خیر کا باعث کم ہی ہوتی ہے۔اس میں
آسائشیں کم اور آلائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک پی ٹی وی
ہوا کرتا تھا۔خبریں چھان پھٹک کے نشر اور شائع کی جاتی تھیں ۔پھر ضرورت
محسوس کی گئی کہ تاجروں کو اپنا سودا بیچنے کے لئے مزید ٹی وی چیملز کی
ضرورت ہے۔اشتہار چلانے کو مزید چینلز کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری نہیں ملٹی
نیشنلز کی ضرورت تھی اور انہی کے دباؤ میں آ کے نئے ٹی وی چینلز کی اجازت
دی گئی۔کاروباری سوچ اور ذہن کے لوگوں نے ملک کی بہتری کے لئے نہیں صرف
دولت اکٹھی کرنے کے لئے لائسنس لئے اور پھر چل سو چل۔سدا کے سادے صحافیوں
نے فوراََ ہی اس کاروباری ضرورت کا سہرا آزادی صحافت کے سر باندھا اور خوشی
کے شادیانے بجانا شروع کر دئیے۔آج ہر گلی ہر محلے میں ایک ٹی وی چینل اور
تین اخباروں کا دفتر ہے اور صحافت آزاد ہے اور آزاد بھی ایسی کہ جس کا جو
جی چاہتا ہے آن ایئر کرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
پوچھنے والا تو خیر یہاں واقعی کوئی نہیں۔ملکی سلامتی کے معاملات سے لے کے
طاقت کے کشتے بیچتے حکیموں تک کسی سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا بلکہ اب تو
چوروں رسہ گیروں ،نشہ بیچنے والوں غرضیکہ ہر طرح کی دولت رکھنے والوں سے
بھی کوئی پوچھ کچھ نہیں۔جس کے پاس جو مال ہے لائے ہم خریدار ہیں۔کوئی ملک
دشمنی لے آئے کوئی خود غرضی لے آئے کوئی اسلحہ لے آئے یا بارود۔کوئی دہشت
گردی لائے یا بد امنی ہمیں ہر شے کی ضرورت ہے۔مجال ہے کہ کوئی روک کے
پوچھنے والا ہو۔ ہمارے ملک کی جیلیں مجرموں سے بھری پڑی ہیں لیکن ہمارے
وزیر اعظم اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کے خوف سے ان سزاؤں پہ عمل درآمد
نہیں ہونے دے رہے اور ساتھ ہی جج حضرات کو ماسک پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔جس
معاشرے میں سزا و جزا کا نظام نہ ہو اس معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے اور
غیر متوازن تو گاڑی نہیں چلتی ملک کیسے چل سکتا ہے۔حکومت کا پہلا مقصد ہی
یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کرے۔ وہ حکومت جو اپنا
بنیادی کام انجام نہ دے سکے اسے کیا حکومت کہلانے کا حق ہے۔ایک سوال لیکن
اور بھی اٹھتا ہے کہ کیا حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے چند لوگ اور چند
خاندان کیا کسی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ کیا ہم عوام کے تعاون کے بغیر
اس ملک میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے؟کیا کوئی ایسا شخص جو روز زہر کا انجیکشن
لیتا ہو اپنے طبیب کے نالائق ہونے کا گلہ کر سکتا ہے۔
خواجہ آصف پانی و بجلی کے وزیر ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ موسم کی تبدیلی کی
وجہ سے آنے والے دنوں میں بجلی کی شدید ترین لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے گی۔ عابد
شیر علی کہتے ہیں کہ چار سے چھ گھنٹے ہمیں نلک میں لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے
گی۔اب اس اطلاع پہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم اس تکلیف کا مقابلہ کرنے کے
لئے خم ٹھونک کے سامنے آ جاتی لیکن بحیثیت قوم ہمارا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہم
ذخیرہ اندوزی کے قائل ہیں۔ کسی چیز کی کمی ہو ہم ہر قیمت پہ اسے حاصل کرنا
چاہتے ہیں۔بجلی کی ذخیرہ اندوزی ممکن نہیں ورنہ لوگ باگ اسے بھی خرید کے
سٹور کر لیتے۔لوڈ شیڈنگ کا اعلان ہوتے ہی ہم دو کی بجائے چار بلب جلانے
لگتے ہیں کہ کل خدا جانے بجلی ملے یا نہیں۔حکومت کو بھی صرف اعلان نہیں
کرنا چاہیے تھا بلکہ اس کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے تھا۔سیاست
اپنی جگہ ، حکومت اپنی جگہ لیکن ریاست تو اپنی ہے ملک تو ہمارا ہے ۔کیا یہ
ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس کے مفادات کا تحفظ کریں۔ اس کے اثاثے بچانے کی
کوشش کریں۔اس کا پانی اس کی بجلی اس کی گیس بچانے کی کوشش کریں۔
صاحبانِ اقتدار کے اپنے معاملات ہوتے ہیں اور اپنی ترجیحات۔ملک عوام کی سوچ
اور محنت کے بل بوتے پہ ترقی کرتے ہیں۔ہمیں حکومت نہیں اپنے آپ کو بدلنے کی
ضرورت ہے۔اﷲ کی مدد سے ملک کو پہلی ترجیح بنانا ہو گا۔جب ملک پہلی ترجیح ہو
گا تو حکمرانوں کو بھی بدلنا پڑے گا۔جس ملک میں مینڈیٹ تک چوری کر لیا جائے
اور ہر کوئی اتنی بڑی زیادتی کو قبول کر لے وہاں تبدیلی کے لئے صدیوں کی
ضرورت پڑتی ہے۔ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی دراصل ظلم کو بڑھاوا دینے کے
مترادف ہے۔پہلا پتھر مارنے کا حق لیکن اسی کو ہوتا ہے جس کا اپنا دامن صبح
کی شبنم کی طرح صاف اور پاک ہو۔آئیے اپنے اپنے دامن پہ نظر ڈالیں کیا ہماری
ترجیحات میں کہیں ہمارا ملک بھی ہے۔ کیا ہم نے وطن کو کبھی کچھ دینے کی
کوشش کی۔اسے کبھی بنایا سنوارا اگر نہیں تو پھر کیا ہم اس سے کچھ طلب کرنے
کا حق رکھتے ہیں۔ |