کہتے ہیں انسانیت کا کوئی مذہب
نہیں ہوتا۔ حقیقتاً اس بات میں ذرا بھی صداقت نہیں۔ انسانیت مسلمان بھی
ہوتی ہے، عیسائی بھی، یہودی بھی اور ہندو بھی۔ اور ہمارے ہاں تو انسانیت
کئی اور طبقوں میں بھی بٹی ہوئی ہے، سنی انسانیت، شیعہ انسانیت، دیوبندی
انسانیت، بریلوی انسانیت، اس جذبے کی لسانی اور علاقائی تقسیم اس کے علاوہ
ہے۔
جی ہاں، انسانیت کا مذہب بھی ہوتا ہے، فرقہ بھی اور زبان بھی۔ میرا قلم
انسانیت جگانے کے لیے چلتا ہے۔ مجھے ملنے والی ای میلز سے اندازہ ہوتا ہے
کہ میرے کالم پڑھنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ کالم
چھپتے ہی پاکستان اور مختلف ممالک سے ای میلز کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ان
میں میرے خیالات کی مخالفت پر مبنی میلز بھی شامل ہوتی ہیں، مگر میلز کی
غالب اکثریت میری کالموں کی ستائش اور تحریر میں اٹھائے گئے نکات کی حمایت
پر مبنی پیغامات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں عام آدمی کے
دکھوں اور مصائب کو موضوع بناتی ہوں، اس لیے یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ لوگ
دراصل میری ستائش نہیں کررہے بل کہ میری آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔ یوں
میرے اندر موجود جذبۂ انسانیت سرشار ہوجاتا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میری
زندگی کا مقصد کسی حد تک تو پورا ہورہا ہے کہ میرے لفظ کچھ لوگوں میں
انسانیت بیدار کرنے میں کام یاب رہے۔
لیکن میرا یہ زعم ٹوٹ گیا۔ میں جس فقرے کو پلو سے باندھے اپنے قلم کو مستقل
مزدوری پر لگائے ہوئے تھی کہ ’’انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ وہ غلط
ثابت ہوا، تو اب میرا قلم کیا لکھے گا؟
لوگ دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں اور پھر سرسری جان کر گزر جاتے ہیں۔ عقائد
انسانیت پر بھاری ہیں، اگر دوسرے عقیدے کا کوئی شخص تڑپ رہا ہو تووہ شخص جو
اس کے بہت قریب ہے اور مدد کرسکتا ہے، وہ بھی یہ سوچ کر منہ موڑ لے گا کہ
میں کیوں ایک دوسرے عقیدے والے کی مدد کروں، مرتا ہے تو مرتا رہے، خس کم
جہاں پاک۔ اُس کا یہ عمل اس سوچ کا آئینہ دار ہے جس کے تحت وہ اپنے سامنے
تڑپتے ہوئے شخص کو نہ صرف کافر گردانتا ہے، بل کہ کافر کو انسان سمجھنے اور
اس کی جان بچانے کو بھی گناہ سے تعبیر کرتا ہے۔
لوگ مر رہے ہیں اور میں فقط صفحے کالے کیے جارہی ہوں۔ انسانیت باقی نہیں
رہی فقط مختلف رنگوں میں رنگے گروہ باقی رہ گئے ہیں۔ کیسے سمجھاؤں اپنے
پیاروں کو کہ انسان ہی نہ رہے تو عقیدے، زبانیں، رنگ اور نسل یہ سب کہاں
رہیں گے۔
انسانیت کے خانوں میں بٹنے کی کرب ناک حقیقت مجھ پر اس وقت آشکار ہوئی جب
جنگ کے شکار شام کی ناکافی کپڑوں میں ملبوس ایک چھے سات سالہ بچی کو ایک
مکان کے ملبے پر جمی برف میں یوں دفن دیکھا کہ اس کا گلاب سا چہرہ اور
چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں نمایاں تھے اور باقی پر برف جمی ہوئی تھی۔ شاید اسے
ابھی ابھی برف سے نکالا گیا تھا۔ وہ شام اور خطے کے دیگر ممالک میں آنے
والے شدید برفانی طوفان کا شکار ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ خون
جماتی سردی میں نازک سا جسم یوں ہوگیا تھا جیسے سوکھی لکڑی۔ لیکن ہمیں اس
بچی کی حالت سے کیا۔ یہ ہمارا مسئلہ تو نہیں۔ وہ جانیں جن کی یہ بیٹی ہے۔
آخر کیوں ان سے اس کا خیال نہ رکھا گیا۔ خیال تو اس وقت رکھا جاتا جب وہ
زندہ ہوتے۔ یہ بدقسمت بچی تو ماں باپ سے محروم ہوچکی ہے۔ شام میں تو بھیڑیے
خون اور ماس سے اپنی بھوک پیاس مٹا رہے ہیں اور ملک کی مخصوص آبادی پہلے ہی
قتل وغارت گری کا شکار ہے کہ ایسے میں برفانی طوفان نے بھی قیامت ڈھادی۔ اس
بچی کی ماں ہوتی تو شاید سخت سردی بھی اپنے تن کو لبادہ بنا کر اپنی بچی کو
اڑھا دیتی۔ اسے اپنی ممتا کی حرارت سے زندگی دیتی۔ لیکن اسے تو پہلے ہی
ماردیا گیا ہے، اب وہ کہاں سے آئے اپنی بچی کی مدد کرنے۔
شام عہدحاضر کا سب سے بڑا مقتل بنا ہوا ہے۔ وہاں جس بے دردری سے انسانوں کا
خون بہایا جارہا ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں کم کم ہی ملتی ہے۔ ملک کا
ہر گلی محلہ محاذجنگ یا قبرستان بنا ہوا ہے۔ شامی سرزمین برسوں سے لہو میں
نہا رہی ہے، اہل شام کی آزمائش ختم ہی نہیں ہونے ہی میں نہیں آتی۔ خانہ
جنگی کے باعث تباہ ہوتے صدمے جھیلتے شامیوں پر ایک اور مصیبت برفانی طوفان
کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کو کوئی ایک صدی بعد اس طوفان کا
سامنا ہے۔ اس طوفان کے باعث سرزمین شام پر بچے مر رہے ہیں، بے یارو مددگار
مائیں جو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کو ترس رہی ہیں، زمین اور فضا کو سرد
خانہ بناتی سردی میں خود کو اور اپنے بچوں کو کیسے بچا پائیں گی۔ ایسے میں
جب خانہ جنگی کا شکار ہونے والے لوگ دوا اور مسیحا کے انتظار میں تڑپ تڑپ
کر مر رہے ہیں، برفانی طوفان نے ان کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے۔
یہ لوگ سسک سسک کر مرتے رہیں گے۔ ان کی چیخیں، کراہیں اور بین سماعتوں سے
ٹکرا کر واپس آتے رہیں گے۔ کچھ دنوں بعد دنیا بھر میں کرسمس اور پھر سال نو
کی خوشیاں مناتے لوگوں کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ شام کے باسی کس طرح تڑپ تڑپ
کر جانیں دے رہے ہیں۔ شام میں انسانیت قتل ہوتی رہے گی اور باقی دنیا کی
انسانیت جشن میں مشغول ہوگی۔ اوروں کو تو چھوڑیے، مسلم ممالک کی خود غرضی
اور شام کے المیے سے بے اعتنائی ہی انسانیت کا نوحہ لکھنے کے لیے کافی ہے۔
حکومت کے مظالم کا شکار شامی عوام کی حمایت نہیں کی جاسکتی، ان کے حق میں
جلسے جلوس نہیں نکالے جاسکتے اور قراردادیں منظور نہیں ہوسکتیں، تو چلیے
اسے مسلم ممالک کی حکومتوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کی سیاسی مجبوری مان
لیتے ہیں، لیکن ایک قدرتی آفت کا شکار ہونے والوں کی مدد سے گریز کیوں،
انھیں مصیبت سے نکالنے کے لیے آواز اٹھانے یا کوئی اقدام کرنے سے بے
اعتنائی کس لیے؟ یہ سوال یوں تو ہر مسلم ملک کی حکومت سے ہے، مگر پہلے
پاکستان کے حکم رانوں اور یہاں سیاست میں سرگرم جماعتوں خاص طور پر مذہبی
جماعتوں سے پوچھنا چاہتی ہوں، اتنی خاموشی کیوں ہے بھائی۔ |