از:مولانامحمدشاکرعلی
نوری(امیرسنی دعوت اسلامی،ممبئی )
طبقہ انسانی کا ہر فرد کامیابی وکامرانی کو پسند کرتا ہے اور ناکامی کو
ناپسندکرتاہے۔مدرس تدریس میں،خطیب خطابت میں، داعی دعوت وتبلیغ میں، طالب
علم امتحان میں، تاجر تجارت میں، سیاست داں سیاست میں غرض کہ ہر فرد
کامیابی کو ہی محبوب رکھتا ہے۔کوئی ناکامی کامنھ دیکھناپسندنہیں
کرتا۔مذکورہ تمام شعبوں میں درحقیقت کامیاب وہی ہوتے ہیں جو دیانت داری کے
ساتھ قربانی دیتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور اپنے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
آج اُمت مسلمہ کاہرفردمیابی کا متمنی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کامیابی ہم
سے روٹھ گئی ہے اور ہمارے دروازے پر دستک دینے اور ہمارے پژمردہ چہروں کو
مسکراہٹ دینے کو بھی تیار نہیں۔ ہزارتگ ودو کرنے ، منصوبہ سازی کرنے اور
غوروفکر کے باوجود ہم جہاں تھے اس سے مزید پیچھے جارہے ہیں، آگے جانا تو
بہت دور کی بات ہے۔لیکن اسی زمین پر ایسے بھی اللہ کے بندے گزرے ہیں جن کو
کامیابی تلاش ہی نہیں کرتی تھی بلکہ کامیابی بڑھ کر ان کے قدموں کابوسہ
لیتی تھی، وجہ کیا تھی؟ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کامیابی کو قرآن کے
سنہرے اوارق میں تلاش کرتے تھے۔ قرآن مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد
فرمایا:قَداَفلَحَ مَن تَزَکّٰی۔وَذَکَرَاسمَ رَبِّہ فَصَلّٰی(سورہ اعلیٰ،
آیت:۴۱،۵۱)
بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوااور اپنے رب کانام لے کرنمازپڑھی۔ (کنزالایمان)
کیا آج ہمارا مَن پاک ہے؟ کیا آج ہم نفس کی مخالفت کرتے ہیں؟ کیا ہم نفس کے
غلام نہیں ہوچکے ہیں؟ کیا ہمارا دل حبِّ دنیا سے سرشار نہیں؟ کیا حسد، بغض،
کینہ یہ ہماری فطرت ثانیہ نہیں ہے؟احتساب کریں توپتہ چلے گاکہ آج ہم نفس کے
مکروفریب کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سے سورہ مومنون کی ابتدائی آیتوں میں
کامیاب مومنین کے اوصاف کا تذکرہ یوں کیاگیاہے۔
کامیاب مومن وہ ہیں جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ،جو کسی بیہودہ بات کی
طرف التفات نہیں کرتے ، زکوٰة دینے کا کام کرتے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کرتے ہیں ، اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ،اپنی
نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
افسوس! قوم کی اکثریت لغویات اور لایعنی کاموں ہی میں ڈوب گئی ہے خواہ لوگ
مذہبی ہوں، سیاسی ہوں، وغیرہ، الا ماشاءاللہ۔ ماضی قریب کی عبقری شخصیت
جنہیں دنیا اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہ کے نام سے جانتی ہے ان کی
زندگی کے لمحات کا اگر جائزہ لیا جائے اور ان کی کامیابی کے راز کو تلاش
کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ ان کا دل حب دنیا سے
خالی تھا۔ بغض، کینہ اور حسد جیسے رذائل اخلاق کا تو گزر ہی نہیں تھااور ان
کی زندگی لغویات سے کوسوں دور تھی۔ہرکام کو پابندی وقت کے ساتھ کرناان کی
زندگی کا ایک روشن باب تھا،آپ کا دل حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا
سرشار تھا کہ اللہ اکبر! عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبے ہوئے ان
کے اشعار سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں سن کر ہی دل عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم
میں مچلنے لگتا ہے۔ ان کا عشق حقیقی تھا۔ فرائض وواجبات ہی کے نہیں بلکہ
سنن ومستحبات کے بھی وہ پابند تھے،آپ نے کبھی نفس کی غلامی نہیں کی بلکہ
ہمیشہ سنت نبوی کو پیش نظر رکھا۔اسی کے مطابق اپنی زندگی کے لمحات گزارے۔
نفس کتنا بڑا دشمن ہے،نفس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے ہوئے خود اپنے ایک
شعر میںفرماتے ہیں
رضا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے
غلامانِ رسول ﷺ نفس جیسے دشمن کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ ہمیشہ اس سے
ہوشیار رہتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ آج سیرت اعلیٰ حضرت کے اس
تابناک گوشے کو پیش نظر رکھ کر ہم بھی حب دنیا اور نفس کی غلامی ترک کردیں
تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی ان شاءاللہ۔ |