کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے
اسے ہر دور، ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ بہ قول حکیم محمد سعید
شہید’’کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔
جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو،
جس درسگا ہ میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسی درس گاہ کی مانند ہے جس میں طلباء نہ
ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں
لوگوں کو کتابوں سے عشق و محبت نہ ہو وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ
ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ
بھی ہوسکتی ہے‘ ‘۔ درحقیقت، کتاب ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی
شمع کو کسی لمحے مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی
مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے
تمام ادوار یعنی ماضی،حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں
ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔سقراط کا
کہنا تھا کہ’’ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا
مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے‘‘۔ فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے
کہ ’’اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا
ہے‘‘ کارلائل کے خیال میں ’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی
یونیورسٹی ہے‘‘ ۔ ملٹن کا کہنا تھا کہ ’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی
خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری
زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے‘‘ ۔کتاب سے اچھا کوئی دوست نہیں۔
کتاب سے دوستی اور عقیدت انسان کی زندگی پر خوشگوار اثرات ڈالتی ہے۔ کتاب
سے عشق کرنے والوں کی زندگی خوشگوار اور مطمئن ہوتی ہے ۔ یہ کہا نی ہے کتاب
سے عشق کرنے والے کی، ایک ایسے عاشق کی جس نے اپنی زندگی میں کتاب کو اپنا
اوڑھنا بچھونا بنا یا، اس سے محبت کی، اس کی خوشبو سے اپنی روح کو منور
رکھا اور دوسروں تک اسے پہنچانے میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ
آج اس کی
زندگی اطمینان اورسکون سے عبارت نظر آتی ہے۔ بقول صہبا اختر
کتابیں اُجالوں کی دِم ساز ہیں
کتابیں ستاروں کی آواز ہیں
کتابوں کا مقصد ہے روحانیت
کتابوں کا مذہب ہے انسانیت
کتابوں کی طاقت ہیں فکر و خیال
ہے کتابوں کو ممکن نہیں زوال
کتابوں کو حاصل ہے وہ اقتدار
جسے چھین سکتے نہیں تاجدار
خموشی کبھی ان پہ چھاتی نہیں
کتابوں کی گویائی جاتی نہیں
میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، یونیورسٹی آف سرگودھا میں بہ حیثیت
ایسو سی ایٹ پروفیسر منسلک ہوں ، قیام‘ جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر
۵ میں ہے، شعبہ اردو کے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی اسی ہاسٹل کے
کمرہ نمبر ۲ کے مقیم ہیں۔ڈاکٹر تونسوی اردو کے معروف ادیب، شاعر، نقاداور
دانش ور ہیں،ان کی علمی خدمات کوحکومت پاکستان نے سراہتے ہوئے دوسال قبل
تمغہ امتیاز سے نوازا، ان کے چاہنے والوں نے ان کی شخصیت سے متا ثر ہوکر ان
کے خاکے اور سوانحی مضامین لکھے، آپ کی تخلیقات کا اشاریہ رابعہ سرفراز نے
مرتب کیا۔ان کی علمی کاوشوں پر مصر اور بھارت میں ڈاکٹریٹ ہوچکی ہے،
پاکستان کی تقریباً تمام ہی جامعات میں آپ کی شخصیت اور علمی کاوشوں پر ایم
فل اور ماسٹر تھیسس لکھے جاچکے ہیں۔ماہ نامہ ’وجدان ‘لاہور نے ان پر خصوصی
شمارہ شائع کیا۔ سرگودھا میں ڈاکٹر صاحب میرے دوست ہی نہیں بلکہ میرے ہاسٹل
کی تنہائی کے ساتھی بھی ہیں ، آج کل ہماری سرد شامیں ایک ساتھ میرے کمرے
میں گزرتی ہیں اس سے قبل سرگودھا کی گرم شامیں باہر کھلی فضاء میں گزرا
کرتی تھیں۔ یہ تفصیل میں اس لیے بیان کررہا ہوں کہ ایک کتاب دوست عبدالوہاب
خان سلیم پر لکھنے کا سبب میرے یہی محترم دوست بنے۔ایک دن میں نے ڈاکٹر
صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو معلوم ہے کہ شخصیات میرا موضوع ہیں اوران
پر لکھنا میرا پسندیدہ شوق بھی ہے، میں (معذرت کے ساتھ) آپ پر ہاتھ صاف
کرنا چا ہتا ہوں۔میرے اس جملے سے وہ محظوظ ہوئے، اگلے ہی دن مجھے ایک کتاب
لاکر دی ، کہا کہ میرا ایک خاکہ میرے استاد ڈاکٹر سلیم اختر صاحب نے لکھا
ہے وہ اس میں شامل ہے اسے آپ پڑھ لیں مدد ملے گی، کتاب کا عنوان تھا ’’درشن
جھروکہ‘‘۔یہ ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجوعہ ہے۔ ڈاکٹر
سلیم اختر اردو کے معروف ادیب و دانش ور ،اَسی (۸۰) سے زیا دہ کتابوں کے
مصنف ،آپ وہی سلیم اختر ہیں جنہوں۱۹۵۷ء میں جامعہ پنجاب ، لاہور سے
لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا تھا، پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں
خدمات انجام دیں اور کتب خانوں کے موضوعات پر بھی کافی کچھ لکھا ۔
’’درشن جھروکہ ‘‘میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک خاکہ تحریر کیا ہے جس کا عنوان
ہے ’’ دوستی کا گُلِ سرسبز‘‘ ، یہ سر سبز اور باغ و بہار شخصیت ہے ’’ عبد
الوہاب خان سلیم‘‘ کی۔یہ خاکہ پڑھ کر طبیعت تو خوش ہوئی، ساتھ ہی وہ ارادہ
تقویت پا گیا جو کئی ماہ قبل جب میں کراچی میں تھا تو استادمکرم ڈاکٹر غنی
الا کرم سبزواری صاحب کی خواہش تھی کہ میں عبد الوہاب خان سلیم کا انٹر ویو
کروں تاکہ ایک علم دوست ، کتابوں کے عاشق،لکھا ریوں کے بہی خواہ ، جوعرصہ
دراز سے انگریز بہادر کی سرزمین امریکہ میں رہتے ہوئے کتابوں اوراُن سے
تعلق رکھنے والوں پر اپنی دلی محبت نچھاور کررہاہے کی شخصیت کے بارے میں
احباب کو معلوم ہوسکے۔میں اس منصوبے پر عمل کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا
اورایک سوال نامہ بذریعہ برقی ڈاک بہ توسط ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری اور
براہِ راست عبد الوہاب خان سلیم کی صاحب زادی کو امریکہ بھیج چکا تھا۔ سال
گزرگیا، متعدد بار یاد دہانی بھی کرائی ، ایک دن عبد الوہاب خان سلیم نے
فون پر بات بھی کی اور انٹرویو دینے کا وعدہ بھی کیا، لیکن وقت گزرتا گیا
یہ ممکن نہ ہوسکا۔ عبد الوہاب خان سلیم پرڈاکٹر سلیم اختر کا خاکہ میری اس
تحریر کی بنیاد بنا، بہت ممکن ہے کہ خان صاحب اس تحریر کے بعد اپنے اورمیرے
استاد ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب سے کیے وعدے کے مطابق ٹیلی فون پر وقت
دے دیں ، تاکہ ایک علم دوست، کتاب اورکتاب کاروں سے محبت کرنے والا ، جس کے
توسط سے بے شمار پاکستانی مصنفین کی تصانیف آج امریکہ، لندن اور بھارت کے
کتب خانوں کی زینت بن سکی ہیں طالبان علم ان سے استفادہ کر رہے ہیں کے بارے
میں لوگوں کو زیادہ تفصیل سے معلوم ہوسکے۔
۱۹۷۲ء کی بات ہے میں ایم اے (لائبریری سائنس )سال اول ، جامعہ کراچی کا
طالب علم تھا ،اپنے سینئرز(ایم اے سال فائنل) میں سے ایک صاحب کوجو دیگر
طالبِ علموں کے مقابلے میں زیادہ عمر کے دکھا ئی دیتے تھے کو اکثر ڈاکٹر
غنی الا کرم سبزواری صاحب کے کمرے میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا، گفتگوکا
انداز انتہائی مٔودبانہ، عاجزی، انکساری کا پیکر۔اس وقت ان کے پاس جو بھی
کتابیں یا فائل ہو ا کرتیں وہ انہیں اپنی بغل میں دبائے رکھتے تھے، اپنی اس
ادا کے باعث یہ شعبے میں پہچانے بھی جاتے تھے۔وہاب صاحب نے ۱۹۷۱ء میں جامعہ
کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کرنے سے قبل ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیوسٹی
سے لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا، جہاں پر وہ ڈاکٹر سلیم اختر سے
ایک سال پیچھے تھے اور جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں موصوف مجھ
سے ایک سال آگے تھے، یعنی میرے بیج میٹ تھے۔ان کے کلاس فیلوز میں آبان رستم
جی، لینا ڈی سوزا، اودیشی لچھمن ، صابرہ سلطانہ ، رئیسہ خاتون، سکینہ محمد،
رخسانہ جمیل، سیدہ آمنہ قادری، ظہیر الدین اور بدر الدین خورشیداور احمد
خان شامل تھے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر اور عبد الوہاب خان سلیم کورس کرنے کے بعد
جامعہ پنجاب کے کتب خانے سے بھی منسلک رہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ’’میں پہلی نگاہ کے عشق کا تو قائل نہیں لیکن
نگاہ میں دوستی کا قائل ہوں اوریہی وہاب کے معاملہ میں ہوا۔ امتحان پاس کر
لینے کے بعد وہاب بھی یونیورسٹی لائبریری میں آگیایوں مزید قربت کے مواقع
ملے۔بس یوں سمجھیں کہ میری ’’سرپرستی ‘‘ میں آگیا۔ ہم دونوں کی عمروں میں
کچھ زیا دہ فرق نہ تھا میں اس سے چند برس بڑا تھا لیکن بہت کچھ دیکھ چکا
تھا اور وہاب کے مقابلے میں خاصا تجربہ کار بلکہ جہاں دیدہ تھا۔سو میں نے
اپنے تجربات کی روشنی میں وہاب کو مشوروں سے نوازنا شروع کر دیا․․․․․ کیسے
مشورے؟ چنچل نار کو کیسے لطیفے سنا کر راغب کیا جا سکتا ہے؟ کس طرح لڑکی سے
چائے کی پیالی کا رومانس کرو اور کس لڑکی کو توا ضع تک محدود رکھنا ہر گز
دل نہ دینا اور کس سے پناہ مانگنا وغیرہ وغیرہ‘‘۔ جامعہ کراچی میں دوران
طالب علمی عبد الوہاب خان سلیم نے اپنے دوست ڈاکٹر سلیم اختر کے ان مشوروں
پر خوب خوب عمل کیا اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ وہ کراچی کی رنگینیوں کا لطف
اٹھا کر،علم کی دولت سے مالا مال ہوکر تن تنہا ہی پنجاب واپس لوٹ گئے ، اگر
ایسا نہ ہوتا تو ڈاکٹر سلیم اختر کو عبد الوہاب خان سلیم کی شادی میں
بالواسطہ کردارادا کرنے کا موقع کیسے ملتااور چھ فٹ کا شہ بالا بننے کا
موقع بھی نہ ملتا اوربقول ڈاکٹر سلیم اختر ’’وہاب کو خورشیدبھابی کی صورت
میں ایسی نیک بخت اور سلیقہ شعار بیوی کیسے ملتیں‘‘۔کہتے ہیں اولاد مرد کی
قسمت سے اور خوشحالی یعنی دولت عورت کی قسمت سے ملتی ہے۔ الحمد اﷲ وہاب
صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے دونوں ہی چیزوں سے نوازا ہے، اولاد بھی
اور دولت بھی۔ اولاد سعادت مند اور دولت جس کا وہ دل کھول کرجائز استعمال
کررہے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر اردو میں ایم اے بھی تھے چناں چہ وہ اردو کے لیکچرر ہوگئے
بعد ازاں پروفیسر کے مرتبہ پر فا ئز ہوئے جب کہ وہاب صاحب کراچی سے پنجاب
اور پھر امریکہ چلے گئے اور پھر امریکہ کے ہی ہورہے لیکن انہوں نے اپنی روح
سے رشتہ نہیں توڑا جیسا کہ اکثر ہمارے نوجوانوں نے کیا کہ وہ گوروں کے
درمیان جاکر اپنے جسم کے ہورہے اپنی روح ، اپنی سر زمین، اپنے لوگوں کو
بھول گئے۔ وہاب صاحب نے امریکہ جانے سے قبل ڈاکٹر سلیم اختر سے کہا تھا کہ’
’بھائی سلیم ! اگر چہ میں پیسہ کمانے جارہا ہوں اور اس کے لیے سب کچھ کر
گزروں گامگرپیسے کے علاوہ اور بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں‘ ‘۔ وہاب صاحب
کاکہا سچ ثابت ہوا واقعی انہوں نے پیسوں کے علاوہ بھی بہت کچھ حاصل کیا،
یوں تو ان کی امریکہ میں گزری پوری زندگی ہی ان کے کہے کی منہ بولتی تصویر
ہے لیکن انہوں نے اولاد کی صورت میں سعادت مند اولاد ،(چار بیٹیاں ، ایک
بیٹا) اوردیار غیر میں رہتے ہوئے وطن عزیز کے لوگوں کو بھلا یا نہیں ، کتاب
‘کتب خانوں، کتابداروں اور اہل قلم سے روابط قائم رکھے، ادیبوں ، شاعروں،
مصنفین ومولفین کی حوصلہ افزائی میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی، پاکستانی
مصنفین و مولفین کا تخلیق کردہ علمی سر مایہ بڑی تعداد میں آج امریکہ،
برطانیہ اور بھارت کے کتب خانوں میں محفوظ ہے اور تشنگانِ علم ان سے اپنی
علمی پیاس بجھارہے ہیں۔بے شمار مصنفین کی کاوشیں وہاب صاحب کے توسط سے منظر
عام پر آسکیں۔
میری عادت رہی ہے کہ میں اپنے نام موصول ہونے والے خطوط حتیٰ کے چھوٹی
چھوٹی تحریریں بھی ردی کی ٹوکری کی نظر نہیں کرتا بلکہ انھیں محفوظ رکھتا
ہوں۔ خطوط کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی، خطوط کی ان فائلوں کو کبھی کبھار
کھول کر بیٹھ جاتا ہوں تو یادوں کے دریچے واہ ہوجاتے ہیں۔بعض ایسے احباب کے
خطوط بھی ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں ان کی تحریریں جو میرے نام تھیں میرے
پاس محفوظ ہیں۔ عبد لوہاب خاں سلیم پر اپنی تحریر مکمل کرچکا تھا اوراپنی
ایک اور ہم پیشہ محترمہ فرخندہ لودھی مرحومہ پر لکھنے کی منصوبہ بندی کررہا
تھا، خطوط کی فائلوں میں اچانک اپنے نام موصول ہونے والے عبد لوہاب خاں
سلیم کے خط پر نظر پڑی، اقبال حسین صاحب سے اسی وقت درخواست کی کہ اگر
رسالے کی کاپیاں نہ جڑی ہوں تو ایک پیراگراف کا اضافہ کردیں، ان کی عنایت
سے وہاب صاحب کا یہ خط بھی شامل ِخاکہ ہوا۔ یہ خط وہاب صاحب نے ۸ فروری
۱۹۸۳ء کو امریکہ کے شہر نیویارک سے تحریر کیا تھا۔ آپ کا خط مختصر ضرور ہے
لیکن ایک تعلق کا خوبصورت اظہار، ہزاروں میل دور بیٹھ کر یاد رکھنا بڑی بات
ہے۔ :
۸ فروری ۱۹۸۳ء
برادرم صمدانی صاحب !
سلام شوق، مزاج گرامی!
عزیزم، مجھے آپ سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں میں آپ کو جانتا ہوں، ممکن ہے
آپ نے بھی مجھے پہچان لیا ہو!
گزشتہ دنوں ایک خط غنی الاکرم سبزواری صاحب کا بھی مکّے سے آیا تھا۔ یہ خط
موصول کرکے مجھے اپنے صحیح پتے سے آگاہ فرمائیں تاکہ میں آپ کو تفصیلی خط
تحریر کرسکوں۔ براہِ کرم آپ مایوس نہ فرمائیے گا چند سطور مجھے تحریر کرد
یجیے گا تاکہہ میں آپ سے گفتگو کرسکوں۔ شکریہ
عبد الو ہاب خان سلیم
یقینا میں نے وہاب صاحب کو جواب ضرور دیا ہوگا، لیکن اس کے بعد ہمارے مابیں
خط کتابت کا کوئی ریکارڈ میرے پاس نہیں نہ ہی مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہاب
صاحب کا کوئی پتر آیا تھا۔ البتہ ہم دونوں کے استاد محترم غنی الا کرم
سبزواری صاحب ہمارے مابین تعلق کا ذریعہ تھے، مجھے اکثر وہاب صاحب کے بارے
میں کچھ کچھ معلوم ہوتا رہا ہے اور اسی طرح وہاب صاحب تک میرا نام بھی
پہنچتا رہا ۔یہ تحریر اسی تعلق اور محبت کاثمر ہے۔
کتاب سے محبت ہی عبد الوہاب خان سلیم کو شعبہ لائبریری سائنس میں کھینچ
لائی۔ کتب بینی اوراس سے عقیدت انہیں عشق کی حد تک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ
کتاب نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ کتاب تحفہ کے طور پر اپنے احباب کو دیتے
بھی ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر نے عبد الواہاب خان سلیم کے خاکے میں لکھا کہ
وہاب’’ہندوستان ‘ پاکستان بلکہ یورپین ممالک سے کتابیں اور جرائد خریدتا
اور پڑھتا رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اردو دنیا کے تمام اہل قلم سے
ٹیلی فون پر رابطہ رکھتا ہے۔ آپ پاک و ہند کے کسی بھی بڑے ادیب اور دانشور
کا نام لیں، و ہ وہاب کا دوست نکلے گا اور اس سے بھی بڑی بات․․․․ جس کے لیے
حوصلہ ‘ ظرف ا ور زر کی ضرورت ہے․․․ یہ ہے کہ جو کتاب اسے پسند آجائے اسے
خرید کر احباب اور معزز اہل قلم کو بطور تحفہ پیش کرتا ہے اور سنیے ․․․
ابھی اور بھی بتانے کو بہت کچھ ہے۔ گرما کے آغاز میں نیویارک میں بیٹھے
وہاب کی جانب سے روح افزا کی نصف درجن بوتلیں حاضر اور جولائی میں آم۔ خود
شوگر کا مریض مگر دور بیٹھا احباب کی تواضع کا اہتمام کررہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے جن خوبیوں کا ذکر کیا ، یہ تمام کی تمام وہاب صاحب میں
بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کا رابطہ اردو کے شاعروں اور ادیبوں سے ہی
نہیں بلکہ لائبریری سائنس کے پیشہ سے تعلق رکھنے والے ہم پیشہ احباب سے
ایسا ہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ عبدالوہاب خان سلیم اپنے استاد
ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب سے گزشتہ چالیس برس سے مسلسل رابطے میں
ہیں، کیونکہ سبزواری صاحب از خو د امریکی شہری ہیں ، ۲۷ برس مکہ الامکرمہ
میں رہے ، اب امریکہ میں زیادہ پاکستان میں کم رہتے ہیں۔ وہاب صاحب اور
سبزواری صاحب میں استاد و شاگرد کے رشتے کے علاوہ عقیدت اور محبت کامثالی
تعلق بھی ہے۔
عبد الوہاب خان سلیم کے بارے میں ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری نے اپنی سوانح
عمری بہ عنوان ’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گُہر ہونے تک: تلخ و شیریں حادثات اور
واقعات پر مبنی آپ بیتی‘ شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں وہاب صاحب کا ذکر کرتے ہوئے
لکھا ہے کہ’ ’وہاب صاحب نے ایک بار بتایا کہ ان کے پاس اردو، فارسی ، عربی
اور انگریزی کی تقریباًدس ہزارکتابیں جمع ہوگئی ہیں۔ ان میں کثیر تعداد حج
اور عمرے کے سفر ناموں کی ہے۔ ان میں بعض تو بہت ہی نایاب اور کمیاب نسخے
ہیں جو انہوں نے ہندوستان ‘پاکستان اور امریکہ کے کتب خانوں سے فوٹو کاپی
کراکے محفوظ کیے ہیں۔ایسے ہی ادبی رسائل اور سوانحی کتا بوں کی بھی بڑی
تعداد ہے۔ مجلات ہندوستان اور پاکستان سے کافی منگوائے ہیں۔ان کا حافظہ
ماشاء اﷲ بڑے غضب کاہے ۔ میرا خیال ہے ان کو ساری کتابوں کے مندرجات ازبر
ہیں۔جب بھی گفتگو ہوتی ہے مصنفین کے حالات ‘ واقعات ‘ سرگزشت اس طرح سناتے
ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ اپنے ذ خیرہ کتب
کی کتابیات مرتب کریں چھپوامیں دوں گا ۔ لیکن یہ کام ابھی تک نہیں
ہوسکا‘‘۔ایک اور جگہ سبزواری صاحب نے لکھا’ عبد الوہاب صاحب کو حج کے سفر
نامے جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ ایک مرتبہ جب کہ خان صاحب عمرے کے لیے گئے
ہوئے تھے اور سبزواری صاحب کے مہمان تھے، وہاب صاحب نے سبزواری صاحب سے کہا
کہ’ ’ مدینہ منورہ پرانے راستے سے چلیں کیونکہ پرانے سفر نامے میں رابغ ،
مستورہ، بدر اور دیگر مقامات کا بہت تذکرہ کیا گیا ہے‘‘۔سبزواری صاحب لکھتے
ہیں کہ’’ میں انہیں پرانے راستے سے مدینہ منورہ لے گیا۔راستے میں ہم رابغ
میں رکے وہاں ہم نے مچھلی اور چاول کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا یا ۔ اکثر
سفر ناموں میں حجاج کرام نے رابغ میں مچھلی کھانے کا لکھا تھا‘‘۔سبزواری
صاحب نے یہ انکشاف کرکے یہ بات بھی عام کردی کہ خان صاحب کا ذاتی ذخیرہ
ہزاروں نایاب کتب پر مشتمل ہے۔نیز آپ کی اس رائے میں وزن ہے کہ خان صاحب کو
اپنے ذخیرہ کی کتابیات مرتب کرنی چاہیے۔یہ مفید اور تحقیق کرنے والوں کے
لیے مفید تر ہوگا۔
عبدالوہاب خان سلیم بزرگوں خصو صاً اور اپنے اساتذہ کا حد درجہ احترام کرتے
ہیں۔ استادوں کی تعظیم کرنا، ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر جھکے رہنا، نظر نہ
اٹھا نا جیسے مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے اس وقت دیکھے جب وہاب صاحب جامعہ
کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں طالب علم تھے میں ان سے جونیئر تھا لیکن
وہاب صاحب کو مودبانہ انداز میں اساتذہ کے سامنے متعدد بار دیکھا۔ استاد سے
حد درجہ عقیدت اور محبت کی مثال جس کا ذکر ڈاکٹر سبزواری نے اپنی سوانح
عمری میں کیا اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔
سبزواری صاحب جب جامعہ کراچی میں استاد تھے تو وہاب صاحب ایم اے کر رہے
تھے، سبزواری صاحب جامعہ کراچی کے کیمپس میں اور وہاب صاحب ہاسٹل میں رہا
کرتے تھے، وہاب صاحب اکثر اپنے استاد کے گھر جایا کرتے تھے، وہاب صاحب ایم
کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے اور سبزواری صاحب مکہ المکرمہ چلے گئے۔ سبزواری
صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ وہاب صاحب امریکہ سے پاکستان گئے، جامعہ
کراچی کیمپس جاکر سبزواری صاحب کے سابقہ مکان سی ۴۰ بھی گئے، اس مکان میں
اُس وقت جامعہ کے ایک دوسرے استاد رہائش پذیر تھے، وہاب صاحب نے ان سے ملا
قات کی اور ان سے کہا کہ ’اس مکان میں میرے استاد رہا کرتے تھے میں اُن کے
پاس آیا کرتا تھا، مجھے اُن سے بہت عقیدت تھی اور اب بھی ہے۔آپ مجھے اجازت
دیں تو میں اس مکان کے دروازے کو بوسہ دینا چا ہتا ہوں‘۔ ان استاد صاحب نے
کہا ضرور ۔ وہاب صاحب نے دروازے کو بوسہ دیا اور جانے لگے تووہ استاد صاحب
وہاب صاحب کو عزت سے گھر میں لے گئے کچھ خاطر مدارت کی اور فرمایا’ ’میں
حیران ہوں کہ آپ اپنے استاد سے اِس قدر محبت کرتے ہیں۔ ہم تو ایسے شاگردوں
کو ترستے ہیں‘‘ـ۔ کچھ اسی قسم سے وہاب صاحب نے سبزواری صاحب کے مکہ المکرمہ
سے واپس آجانے کے بعد سبزواری صاحب کے مکہ الکرمہ والے گھر بھی تشریف لے
گئے اور مالک مکان جو کہ عربی تھا سے اجازت لے کر دروازہ کو بوسہ دیا۔ یہ
ہے اپنے بزرگوں خصوصاً اساتذہ سے انتہائی محبت اور عقیدت ، جس کا عملی
مظاہرہ عبدالوہاب خان سلیم نے کیا۔
عبدالوہاب خان سلیم۶ فروری ۱۹۳۹ کو دریا باد، ضلع بارہ بنکی(یو پی)
ہندوستان میں پیدا ہوے ۔ ابتدائ تعلیم ضلع مراد آباد ، سنبھل، حسن پور میں
حاصل کی۔میٹرک سیالکوٹ سے کیا، ایف اے، بی اے، مرے کالج ، سیالکوٹ ہی سے
کیا۔ڈپلو ما لابٔریری سایٔنس ۱۹۶۰ میں پنجاب یونیورسٹی سے اور ایم اے
لابٔریری سایٔنس ۱۹۷۱ میں کراچی یونیورسٹی سے کیا۔پنجاب یو نیورسٹی
لابٔریری میں ۱۹۵۹ سے ۱۹۷۳ تک اسسٹنٹ لابٔریرین کی حیثت سے خدمت انجام دی۔
۱۹۷۳ میں امریکہ چلے گۓ۔ آپ کی ما شا اﷲ چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا۔لڑکا
اور لڑکیاں ڈاکڑ اور انجینٔیر ہیں ، ایک بیٹی فارمیسسٹ ہے۔بہ فضل تعالی
امریکہ میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
عبدالوہاب خان سلیم کواﷲ نے فراغ دل اور مدد کرنے والا جذبہ عطا کیا ہے ۔
وہ اپنے شناسا احباب کی معاونت کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔لکھاریوں کی دل سے
مدد کرتے ہیں۔حال ہی میں پاکستان لائبریرین شپ کی معروف شخصیت پروفیسر
ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی سوانح بہ عنوان ’پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ: شخصیت اور
کام‘ شائع ہوئی جسے ہما منان بٹ نے مرتب کیا۔ یہ سوانح وہاب صاحب کی تحریک
پر مرتب ہوئی اور اس کی اشاعت میں عبد الوہاب خان سلیم کی حوصلہ افزائی بھی
شامل ہے جس کا اعتراف مولفہ نے کتاب کے تعارف میں اس طرح کیا ’ ’میں
عبدالوہاب خان سلیم کی اس عنایت کی بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مالی
معاونت بھی کی اور ہمت افزائی مسلسل کرتے رہے‘‘۔ لکھنے والوں کی حوصلہ
افزائی کرنا وہاب صاحب کی سرشت میں شامل ہے۔ کتاب میں مختلف احباب کے خطوط
بھی شامل ہیں ان میں سے وہاب صاحب کے تین خطور صفحہ نمبر ۲۳۳۔۲۳۶ پر ہیں،یہ
خطوط وہاب صاحب کی اپنی تحریر میں ہیں۔ اپنے ایک مکتوب بنام ڈاکٹر نسیم
فاطمہ تحریر شدہ یکم اگست ۲۰۰۵ء میں وہاب صاحب نے لکھاـ ’’ مجھے خوشی ہوئی
ہے آپ نے اپنی خود نوشت لکھنا شروع کردی ہے۔ اس خود نوشت کی اشاعت پر جو
بھی خرچہ ہوگا سب ادا کروں گا، گزشتہ روپیہ آپ کے پاس ہے جو کمی ہوگی میں
اور دے دوں گا اور خوشی سے دوں گا، بس آپ محنت کر کے خود نوشت مکمل
کرلیں‘‘۔اس طرح کی بے شمار مثالیں اور بھی پائی جاتی ہیں کہ وہاب صاحب نے
مصنفین کی حوصلہ افزائی کی جس کے باعث ان کی تخلیقات منظر عام پرآسکیں۔صہبا
اختر نے کیا خوب نظم ’’کتابیں‘‘ ، مصنفین کے بارے میں کیا خوب کہا ہے
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سرِ طاق ِ فن اِ ک دیا رکھ دیا
عبد الوہاب خان سلیم اﷲ کی وحدانیت پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔ خوف خدا کے جذبے
سے سر شار مذہبی ذہن کے مالک ہیں۔ متعدد عمرے اور حج کرچکے ہیں ، سنا ہے ہر
سال ہی زیارت بیت اﷲ کو جاتے ہیں۔بقول ڈاکٹر سبزواری ’’ عبد الوہاب صاحب
ربِ کعبہ نے اسِ قدر دینی جذبہ اُجاگر کردیا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے
ساتھ ماشاء اﷲ مسلسل آٹھ حج کیے‘‘۔ سبزواری صاحب لکھتے ہیں کہ ’ ’عبد
الوہاب خان سلیم پہلی بار اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد ارشد خان صاحب کے ساتھ
عمرے پر تشریف لائے میں ان کو جدہ ایئر پورٹ پر لینے گیا۔ قیام ہمارے ہاں
ہی رہا۔ ان کو عمرہ کرانے حرم شریف لے گیا جوں ہی ہم باب عبد العزیز سے حرم
شریف میں داخل ہوئے۔ اُن کی نظر بیت اﷲ شریف پر پڑی بس وہیں سجدے میں گر
گئے اور زار وقطار رونا شروع کردیا۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے اور
توبہ استغفا ر کرتے رہے۔ میں نے ان کو اٹھا یا اور مطاف میں لے گیا۔ عمرہ
کرایا۔ عمرے کے دوران روتے رہے ااور توبہ استغفار کرتے رہے‘‘۔
معراج جامی ،وہاب صاحب کے خصوصی نمائندے اور دوست ہیں، کراچی میں رہتے
ہیں،شاعر ہیں ،ناشر ہیں، کتابیں اور رسائل شائع کرتے ہیں۔ ماہ نامہ
’پرواز‘لندن ،ماہ نامہ ’سفیر اردو ‘ لیو ٹن اور سہ ماہی ’ارتباط ‘ استنبول
کے مدیر بھی ہیں۔جامی صاحب نے وہاب صاحب کے بارے میں بتا یا کہ’’ میرا تعلق
وہاب صاحب سے بہت قدیم ہے لیکن میری آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی بس فون
پر گفتگو ہوتی ہے۔
عبدالوہاب خان سلیم کتابوں کے دیوانے ہیں، اچھی کتاب یا ان کے خصوصی
موضوعات پر کوئی کتاب ان کے علم میں آجائے تو وہ کسی نہ کسی طرح اُسے حاصل
کر ہی لیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں متعدد ایسے دوست بنائے
ہوئے ہیں جو ان کی اس خواہش کی تکمیل کو ممکن بناتے ہیں۔ میں بھی اسی قسم
کا فریضہ ان کے لیے انجام دیتا ہوں۔ جامی صاحب نے بتا یا کہ کتاب سے ان کی
محبت کاا ندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ان کے ذاتی ذخیرے میں ہزاروں
کتابیں ہیں ، انہوں نے اپنے گھر کے علاوہ اپنی بڑی بیٹی کے گھر کا تہہ خانہ
بھی اسی غرض سے لے لیا ہے اور وہ بھی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ نے بتا یا
کہ وہاب صاحب کے خاص یا پسندیدہ موضوعات خود نوشت، سوانح، خاکے اور سفر
نامے ہیں۔ ان کے پاس ان موضوعات پر بے شمار نایاب اور قیمتی کتابیں موجود
ہیں۔ آپ نے کہا کہ وہاب صاحب دوستوں کے دوست، خیال کرنے والے اور یاد رکھنے
والوں میں سے ہیں۔ وضع دار انسان ہیں۔دنیا دار ہی نہیں دین دار بھی ہیں،
تقریباً ہر سال عمرہ کرتے ہیں‘‘۔
عبدالوہاب خان سلیم پاکستان سے شائع ہونے والے رسالے ’’پاکستان لائبریری و
انفارمیشن سائنس جرنل‘‘ جس کے سبزواری صاحب مدیر اعلیٰ اور میَں ایسو سی
ایٹ چیف ایڈیٹر ہوں کے امریکہ کے لیے نمائندہ خصو صی کے فرائض بھی انجام دے
رہے ہیں۔ ’لائبریری پروموشن بیورو‘ جو اس رسالے کی اشاعت کا اہتمام بھی
کرتا ہے نے پچاس سے زائد کتب بھی شائع کی ہیں۔ عبد الوہاب خان سلیم نے
ازراہ عنایت ا س ادارے کی تمام کتابیں خرید کر ہندوستان میں علی گڑھ
یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ کرادیں ہیں۔ کراچی میں موجود وہاب صاحب کے
دوست معراج جامی صاحب نے یہ فریضہ انجام دیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے وہاب صاحب کے خاکے میں جامی صاحب کو ایک تجویز دی تھی
کہ جامی صاحب اپنے رسالے سفیر اردو کا ایک شمارہ وہاب صاحب کے لیے مخصوص
کردیں۔ معقول تجویز تھی، جامی صاحب کو پسند بھی آئی لیکن اس تجویز پر عمل
نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کی تجویز اور ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری
صاحب کی تجویز کہ عبدالوہاب خان سلیم اپنے ذاتی ذخیرے کی فہرست مرتب کریں
جس کی اشاعت کو ممکن بنا یا جائے تاکہ علم کے شیدائیوں کووہاب صاحب کے
ذخیرہ کتب کا علم ہوسکے اور وہ اس سے فیض حاصل کرسکیں۔ دونوں تجاویز مناسب
ہیں۔
وہاب صاحب کے لیے تیسری تجویز میری بھی ہے کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات سے
آنے والی نسل کو بہرا مندفرمائیں اور اپنی سوانح حیات قلم بند کریں۔ خود
نوشت اور سوانح حیات تو وہاب صاحب کے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔ وہاب صاحب
احباب کی سوانح میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں سوانح لکھنے کی تر غیب دیتے
ہیں تو ان کی سوانح میں دیگر لوگوں کی دلچسپی کا خیال کرتے ہوئے خان صاحب
کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے بے شمار خود نوشت اور سوانح حیات
کامطالعہ بھی کیا ہے، ان کے لیے یقینا یہ کام مشکل نہیں ہو گا ۔سوانح حیات
قلم بند کرنا ایک علمی، ادبی اور تاریخی فریضہ ہوتا ہے۔ ایسے احباب جن کی
زندگی نشیب و فراز سے دوچار رہی ہو، جو سیلف میڈ رہے ہوں، ان کی جدوجہد
دوسروں کے لیے نمونہ ہو، سب سے بڑھ کر اﷲ تبارک تعالیٰ نے انہیں صلاحیت اور
وسائل سے نوازا ہو، انہیں ہر صورت اس فریضہ کی انجام دہی میں سوچ و بچار کے
بجائے عمل پیہم پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر وہاب صاحب اس تجویز پر عمل کرنے کا
ارادہ کرتے ہیں تو راقم اس فرض کی ادائیگی میں ان کی معاونت کرکے خوشی
محسوس کرے گااورمعراج جامی اس کی اشاعت ذوق و شوق سے کریں گے۔ |