انیس ویں صدی برصغیر کی تاریخ
میں حصوصی اہمیت کی حامل رہی ۔اس صدی میں چند ایسی مسلم ہستیوں نے اپنا
لوہا منوایا جنہوں نے خطے کے مسلمانوں میں یگانت اور بھائی چارے کی نئی روح
پھونک کر انہیں ایک وحدت میں منسلک کردیا۔ان عظیم ہستیوں میں شاعر مشرق
ڈاکٹر علامہ اقبال ،مولانا ظفر علی خاں،ڈاکٹر ضیاء،مولانا شوکت علی،سرسید
احمد خاں ، مولانا محمد علی جوہر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام
نمایاں ہیں ۔ان رہنماؤں نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی پستی سے نکال کر
صیحح اور روشن منزل کاپتا دیا ۔وہ منزل قائد اعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ
اور ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے 14اگست1947ء کے دن پاکستان کی صورت
میں حاصل کی ۔اپنے عظیم قائد کا یوم ولادت ہم ہر سال قومی جوش و جذبے سے
مناتے ہیں ۔اس دن ہم اپنے قائد کی یاد تازہ کرنے کیلئے اُن کے اقوال اور
پاکیزہ جذبے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔25دسمبر2013ء برصغیر کے عظیم مسلم
قائد محمد علی جناح کی 138ویں سالگرا کا دن، قائداعظم محمد علی جناح ؒکراچی
کے ایک مشہور و معروف تاجرجناح پونجا کے گھر25دسمبر1876ء کو پیدا ہونے والا
بچہ جو بچپن ہی سے دیانتدار،ہونہار،اور فہم و فراست میں اپنی مثال آپ تھا۔
میٹرک کے بعد آپ کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ہونہار بیٹے کو اپنے ساتھ
کارو بارمیں لگا کرکاروبار کووسعت دیں مگر قدرت نے اس عظیم انسان کو کسی
اور ہی مقصد کے لیے چناتھا۔چنانچہ آپ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے
انگلستان بھیج دیا گیا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد جب آپ واپس تشریف لائے
توانھیں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کرگہرا دکھ ہوا۔اور ان کو شدت سے محسوس
ہو ا کہ مسلمانان ہند کو ان کی سخت ضرورت ہے اس وقت مسلمان غلامی کی زندگی
گزار رہے تھے اور اپنے جائز حقوق سے بھی محروم تھے ۔قائداعظم سمجھتے تھے کہ
مسلمان مذہب کی رو سے ہندوؤں اور انگریزوں سے الگ قوم ہیں اس لیے ان کی
آزادی اور خود مختاری کے لیے ایک علیحدہ ا سلامی ریاست کی ضرورت ہے۔ یہاں
اگر مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا ذکر نہ کیا جائے تو مناسب نہ ہوگا۔
یوں تو حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ یوں تو ہم ہر
برس یوم اقبال اوریوم قائدبڑے عقیدت واحترام سے مناتے ہیں لیکن اپنے عظیم
قائدین کے اقوال اور عملی زندگی کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔یہی سوچ کر
میں آج اپنی تحریر میں اپنے عظیم قائد مصور پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال
کے بارے میں کچھ معلومات شامل کررہا ہوں۔حضرت علامہ اقبال
9نومبر1877کوسیالکوٹ میں پیداہوئے ان کے والد کا نام شیخ نور محمدتھا جن کا
تعلق کشمیری برہمنوں کے خاندان سے تھانور محمد ایک سچے ،کھرے اور ایماندار
انسان تھے ۔حضرت علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی آپ
ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل
کرنے لاہور چلے آئے جہاں آپ نے بی اے اور ایم اے کے امتحانات گورنمٹ کالج
لاہور سے پاس کئے ۔1905میں آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے
اورکیمبرج یونورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر وہاں سے رہنمائی حاصل کرنے کے
بعد حضرت علامہ اقبال جرمنی چلے گئے جہاں آپ نے مونخ یونیورسٹی سے فلسفہ
میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔اور یوں آپ اس دور کے نہایت بڑے ۔لکھے شخص
تھے ۔آپ نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے برصغیر پرانگریزی تسلط
اورہندوستان کے عہد غلامی میں مسلمانانِ ہند کوبیدار کرنے کے لیے اپنے لوح
وقلم فکروادراک اور شعروادب کووقف کردیا۔ہندواور انگریزسامراجی عہدجبریت
میں برصغیرکے مسلمانوں کوآزادی کی اہمیت کادرس دیا۔یہ کام اس وقت آسان نہ
تھا مگر حضرت علامہ اقبال نے اپنے چراغ فکر کا اجالا پھیلاکرمسلمانوں کوظلم
وستم کے تاریک اندھیروں میں وہ روشنی دی جس کا وجود آج بھی نہ صرف پاکستان
بلکہ ساری دنیا کے مسلمان محسوس کرتے ہیں۔جی ہاں وہ علامہ اقبال ہی تھے
جنہوں نے 30دسمبر1930ء کوالہ آباد میں منعقدآل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ
اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ دیتے ہوئے صاف صاف الفاظ میں فرما دیا کہ
انگریزی تسلط کے اندر یاباہر(ہندوستان کے ان علاقوں پر مشتمل جن میں
مسلمانوں کی اکثریت تھی )بہرحال مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا قیام نا
گزیر ہوچکا تھا۔علامہ اقبال کا وہ اعلان قیام پاکستان کے اندھیرے راستوں کو
روشن کرنے والا پہلا چراغ تھا ۔اور پھر علامہ اقبال ہی کے اصرار پرمسلمانان
ہندوستان کے بطل جلیل اورمسلمانان ہندوستان کے منتشر شرازے کومجتمع کر کے
ایک قوم کے سانچے میں ڈھال دینے والے عظیم رہبر حضرت قائداعظم محمد علی
جناح انگلستان سے واپس بمبئی تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی نئے سرے
سے تنظیم سازی کرنے کے بعد 23مارچ1940ء کولاہورمیں برصغیر کے تمام مسلم
لیگی رہنماوں کی موجودگی میں صدارات کرتے ہوئے وہ قرادادمنظور کرائی جس نے
ہندؤ پریس کو قرارداد پاکستان تسلیم کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
کردیا۔اور پھر حضرت قائد اعظم کی عظیم الشان قیادت میں وہ ناقابل شکست
تحریک چلی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور بلاآخر 14اگست 1947کوپا کستان
اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔قائد اعظم محمد علی جناح
کوان کی اصول پسندی ،مستقل مزاجی،فرض شناسی اورایمان داری کی وجہ سے پاکستا
ن کے پہلے گورنر جنرل بنایا گیا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس عہدے
پر سرفرازی ،قائد کی بے لوث خدمات کا اعتراف تھا ۔ کیونکہ صرف جناح کی
قیادت اور درخشندہ شخصیت ہی مسلمانوں کو مطمئن ومتحرک کر سکتی تھی۔بحثیت
گورنر جنرل قائد اعظم کی حیثیت بے مثل تھی ان کی حیثیت مروجہ طرز حکومت میں
محض ایک روایتی سربرارہ مملکت کی نہیں تھی،بلکہ انہیں وہ حیثیت حاصل تھی جو
کہ بانی پاکستان اور بابائے قوم کے لیے وقف تھی ایسی شخصیت جنھیں نہ صرف
اپنے بلکہ غیر بھی مانتے تھے ۔قائد اعظم کے کارنامو ں اور تاریخی کردار پر
تبصرہ کرتے ہوئے اسٹینلے والپرٹ نے تحریر کیا کہ چند افراد نے تاریخ کے
دھارے کو بدلنے کی نمایاں کوشش کی ،اور صرف چند نے دنیا کا نقشہ تبدیل
کیا،لیکن شائد ہی کسی رہنما کو قومی ریاست قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا
ہو۔محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے۔قائد اعظم ایک ہمہ گیر عمل
سیاسی رہنما تھے یہ ان کی سچی اور پر خلوص جدوجہد کانتیجہ تھاکہ بے شمار
دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک مقتدر مملکت پاکستان وجود میں آئی۔
قائد اعظم پاکستان کو مضبوط و مستحکم ،ترقی یافتہ اور خود کفیل بنانا چاہتے
تھے مگر زندگی نے ان کو مہلت نہ دی اور وہ مختصر علالت کے بعد 11ستمبر1948ء
کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔ قائد اعظم کہتے تھے کہ میرا کام اب ختم ہوچکا ہے
اب مجھے مرنے کا افسوس نہ ہوگا، چندبرس قبل یقینا میری آرزو تھی کہ میں
زندہ رہوں اس لیے نہیں کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی یا میں موت سے خوف کھاتا
تھابلکہ اس لیے کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا تھا اور قدرت نے جس کام کے
لیے مجھے چنا تھا،میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔وہ کام پورا ہوگیا ہے
میں اپنا فرض نبھا چکاہوں، پاکستان بن گیا ہے۔اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس
کی تعمیر کرے اورناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔حکمران حکومت کا
کام نظم و نسق، دیانت داری،اور محنت سے چلائیں تاکہ ملک ترقی کرے۔ |