محبو بِ خدا حضرت مولانا شا ہ حکیم اختر رحمہ اللہ

میں ابھی سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچا تھا کہ حفظ قرآن کے لیے کراچی سدھار گیا۔ میرے انکل مولانا موسیٰ ولی خان صاحب کراچی میں درس و تدریس میں مشغول تھے۔میں ا پنے والدین کا اکلوتا بچہ تھامگر قرآن پاک کو حفظ کرنے کے لیے ہزاروں میل دور کراچی بھیج دیا گیا۔جامعہ اشرف العلوم کورنگی کراچی،مولانا سحبان محمود صاحب (شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی) کا لگایا ہوا حسین پودا ہے۔میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہو رتھا۔ یہ غالبا2000ء کی بات ہے۔ حضرت سحبان محمود صاحب سے دوران حفظ کئی دفعہ انعام میں کتابیں لینے کا اعزاز حاصل رہا۔امتحانات میں پوزیشن ہولڈر طلبہ کو کتابیں انعام میں دی جاتیں تھیں۔ چونکہ ہم چھوٹے تھے اس لیے ہمیں اکابرین علماء کرام کے رسائل دیے جاتے۔ان رسائل میں زیادہ تر دارالعلوم کراچی والے رسائل ہوتے مگر تین شخصیات کے رسائل ہر انعام میں ہوتے۔ ١۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی، مولانا عاشق الہی بلندشہری ثم مکی اور شاہ حکیم اختر نوراللہ مرقدہ کے رسائل ہوتے۔چونکہ میں مبتدی طالب علم تھا۔ علم و ادب سے نابلد تھا۔اکثر رسائل درمیان سے کچھ کچھ پڑھنے کے بعداچھے وقتوں کے لیے سنبھال رکھتا۔ مگر حضرت مولانا حکیم اختر صاحب قدس سرہ کے رسائل اورکتب کے ساتھ معاملہ برعکس ہوتا ۔ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ حضرت کے رسائل انتہائی خوبصورتی کے ساتھ معیاری کاغذ میں مزین طریقے سے چھاپے جاتے اور سہل اور آسان موضوعات پر مبنی یہ رسائل اور کتب جابجا اشعار اور قصوں اور کہانیوں سے مملوء ہوتے تھے۔حضرت اپنے مواعظ میں دقیق علمی مسائل نہیں چھیڑتے۔وہ تو انتہائی دلچسپ اور دلربا انداز میں وعظ کرتے اور یہی وعظ کتب و رسائل کی شکل میں چھپتے۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ حضرت کے مخاطب دینی مدارس کے طلبہ و علماء سے زیادہ عوام تھے۔عام طور پر ہمارے مدارس میں علمی زبان استعما ل کی جاتی ہے جو عوام الناس کی فہم و ادارک سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے مناسب فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر حضرت حکیم صاحب کا لب و لہجہ، انداز بیاں، اورطرزتخاطب عوامی ہوتا۔وہ بڑے بڑے علمی دقیق مسائل اور صوفیاء کا کلام بالخصوص پیر رومی کا فارسی کلام انتہائی جاذب اور دل نشیں انداز میں سمجھاتے تھے۔ پیر رومی کا کلام اور اس کی تشریحات تفصیل سے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے البتہ جو پڑھا ہے وہ حضرت شاہ صاحب کی بیان کردہ توضیحات و تشریحات ہی پڑھا ہے۔حق یہ ہے کہ شاہ صاحب نے حق ادا کیا ہے۔ آپ یوں سجھ لیں کہ میں حضرت شاہ صاحب کا سن بلوغت سے پہلے کا قاری ہوں اور اس زمانے سے حضرت کا قدر دان بھی۔ حضرت کے کئی اشعار تو دوران حفظ ازبر ہوئے تھے۔ ابتدائی اسلامی ادبی ذوق بھی حضرت والا کے لٹریچر اور کتابوں سے پیدا ہوا۔ یقینا حضرت کی کتب ادب اسلامی سے مملوء ہیں۔

دارالعلوم کراچی میں ہمارے ایک برادر محترم مولانا عبدالقدوس صاحب پڑھتے تھے۔ان کا ایک مشغلہ یہ تھا کہ بزرگ علماء سے ملاقات اور زیارت کرتے تھے۔ وہ غالباً درجہ ثالثہ کے طالب علم تھے۔ اکثر گلشن اقبال میں حضرت کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھتے تھے۔ جمعرات کو میں دارالعلوم میں ان کے پاس آیا کرتا تھا۔ وہ میرے نگران بھی تھی اور رشتہ دار بھی۔وہ حضرت شاہ صاح بہج اللہ مرقدہ کے دلدادہ تھے۔شاہ صاحب کی اکثر کتب ان کے پاس موجود تھیں۔وہ شاہ صاحب کی کتب اپنے دوستوں اور اساتذہ میں باٹتے۔ مجھے بھی کئی کتب دی تھیں۔ویسے بھی ان کے پاس حضرت کی جو کتابیں تھی وہ میرے دسترس تھی اورمطالعہ میں رہتے تھی ۔ایک دفعہ میری چاہت پر مجھے بھی اپنے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں لے گئے۔ ہم بہت پہلے ہی مسجد میں پہنچ گئے اور اگلی صفوں پر بیٹھ گئے۔مسجد تنگ تھی۔لوگوں کا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔کافی انتظار کے بعدحضرت شاہ صاحب جلوہ افرو ز ہوئے۔سفید ریش بزرگ سفید پوشاک میں جب منبر پر بیٹھ گئے تو اللہ اللہ ! دیدنی کا کیا منظر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ حکیم اختر رحمة اللہ علیہ کو جن جن وہبی و کسبی صفات عالیہ سے نوازا تھا ان پر تو اہل علم و قلم اور اصحاب سلوک وطریقت ہی روشنی ڈالیں گے مگر اس پہلی زیارت میں مجھ پر جو واہ ہوا، اور میرے دل و دماغ میں حضرت کی جو شخصیت سامنے آئی وہ کچھ یوں تھی کہ اللہ نے انہیں اخلاص و للہیت، تقویٰ و طہارت،الفت و محبت،احترام و اکرام اور علم و عمل سے وافر مقدار میں نوازا تھا۔ عشق رسول ۖ میں فدائیت ، عشق الٰہی میں فنائیت، عشق صحابہ میںغرق اور عشق اولیاء و صوفیاء میں قربان نظرآئے۔علم تصوف میرا موضوع نہیں اور نہ ہی تصوف وطریقت کے رموز سے واقفیت ہے اور نہ ہی موجودہ دور کے اکابر صوفیاء و شیوخ شناسائی ہے ۔ لیکن اگر قسم کھا کر کہوں کہ حضرت شاہ حکیم اختر صاحب اکیسوی صدی کے علم تصوف و طریقت اور اصحاب تصوف و سلوک کے بے تاج بادشاہ تھے تو حانث نہیں ہونگا۔ بلکہ وہ تو با تاج بادشاہ تھے۔

نماز جمعہ کے بعد حضرت والا سے مصافحہ کے لیے لائن لگ گئی۔بخدالوگوں کی ایک کثیر تعداد مصافحہ کے لیے تپتی دھوپ میں کھڑی تھی۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے۔ حضرت سے مصافحہ کیا۔ پھر ہوتے ہوتے حضرت کی نشست گاہ تک پہنچے۔مریدین وسالکین کا ایک مجمع تھا۔ دبک کے کسی کونے میں بیٹھ گئے۔ واللہ! حضرت باتیں نہیں کررہے تھے دَہن مبارک سے پھو ل جھڑ تے تھے۔کتنی رسیلی گفتگو تھی جس کا بیان الفاظ میں ناممکن ہے۔

حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیارے حبیب ۖ سے فرمایا کہ '' میں نے اپنی رضا کو نفس کی مخالفت و مخاصمت میں رکھ دیا ہے اور لوگ اُسے موافقتِ و مطابقتِ نفس میں تلاش کرتے ہیں بھلا وہ کیسے میری رضا پائیں گے۔ شاہ حکیم اختر صاحب نے بھی اپنے نفس کی مخالفت کرکے اللہ کی رضا پا لی تھی۔مخالفتِ نفس ان کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا۔مخالفتِ نفس میں تادم آخیر قائم و دائم رہے۔یہی حدیث میں آتا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں کہ'' میں نے عزت و اکرام اور شرف و منزلت کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں رکھ دیا ہے لوگ اُسے بادشاہوں کے محلوں اور دروازوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ بھلا انہیں عزت کیسے ملے گی۔'' حضرت شاہ صاحب بارک اللہ وجہہ نے اطاعت خداوندی میں اپنے زندگی بتائی تھی۔بڑے بڑے بادشاہ اور بادشاہ گر ان کے آستانہ میں حاضری دیتے تھے۔ اطاعت خداوندی کی وجہ سے اللہ نے انہیں و ہ عزت و مرتبہ اورشرف سے نوازا تھا کہ ما وشما سوچ سکتے ہیں۔ جس قدر انسان کے اندراللہ کی معرفت و محبت صحیح ہوگی اس قدر اس کاعمل درست اور عنداللہ مقبول و ما جور ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی معرفت ،محبت و مودت، اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی کیفیات دلوں میں کیسے جاگزیں ہوتیں ہیں اس کو جاننے کے لیے حضرت شاہ صاحب کی کتب کا مطالعہ اور اس کی جیتی جاگتی حیات کا سمجھنا ضروری ہے۔اور اس پر چلنا اور پھر وہی مطلوب نتائج کا حصول کیسے ممکن ہوتا ہے اور سنت کے راستے کیسے اللہ تک ملاتے ہیں کا پتہ چلانے کے لیے بھی ان کی سوانح عمری کوپڑھنا ہوگا۔میں نے حضرت والا کو بارہا سنا۔ ہر بار دل میں ان کے لئے ایک بلند مقام پیدا ہوتا۔وہ خدا کی معرفت اور محبت کو سمجھانے کے خدا کی کتاب مقدس اور رسول اللہ کی تعلیمات کا مکمل سہارا لیتے تھے۔خد ا وند کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ'' یھدی الیہ من اناب'' یعنی اللہ راہ مستقیم انہیں کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف متوجہ ہو۔ حضرت والا نے عمر بھر یہی کام کیا کہ بندگانِ خداکو خدا کی طرف متوجہ کیا۔

حضرت حکیم صاحب نوراللہ کا فیض چاردانگ عالم پھیلتا رہا۔کراچی میں تو آپ کے فیوض وانوار کی برسات تادم حیات جاری و ساری رہا۔علماء و صلحاء اور تشنگانِ تصوف و طریقت کی آمدورفت ہمیشہ رہتی۔گلشن اقبال کی یہ عظیم خانقاہ حضرت رحمہ اللہ کے وجودسعید سے ایک طویل عرصہ جگماتی رہی۔گلشن اقبال مرجع خلائق بنا ہوا تھا۔اندرون ملک اور بیرون ملک سے لوگ قطار در قطار آ رہے تھے۔آج خانقاہِ گلشن کے در و دیوار پسماندگان شیخ میں شامل ہیں۔
کلیوں کو میں خونِ جگر دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

ہم بھی اپنی بساط کے مطابق حضرت سے مستفید ہوتے رہے مگر سچی بات یہ ہے کہ جس انداز میں حضرت سے کسب کرنا تھا، ان کی خدمت کرنی تھی وہ نہ کرسکے۔ تاہم بارہا حضرت کی محفلوں میں شرکت کا موقع ملا۔ حضر ت کے مواعظ سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کچھ مواقع ایسے بھی آئے کہ حضرت کو بہت قریب سے دیکھا۔

غالباً مارچ 2008ء کی بات ہے۔ مولانا عطاء اللہ شہاب کراچی میں آئے تھے۔ ان کے ساتھ جامعہ اشرف المدارس سندھ بلوچ سوسائٹی میں جانا ہوا۔ حضرت مولانا حکیم مظہر صاحب اور ان کے صاحبزادے کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔کئی امور زیر بحث آئے۔ وہاں سے حضرت حکیم مظہر صاحب کی معیت میں حضرت شاہ حکیم اختر صاحب کے حجرے پہنچ گئے ۔حضرت کو دیکھ کر دل مسرور ہوا۔حضرت نے نفیس طبع پائی تھی ۔حضرت والا طویل عرصے سے بستر علالت میں تھے۔بستر علالت اور حجرہ مبروک سے بھی نفاست ٹپک رہی تھی۔ حجرہ خاص سے باہر مریدین باصفاکا ایک مجمع تھا۔جب ہم حاضر ہوئے تو حضرت کے صاحبزادے مولانا حکیم مظہر صاحب نے تعارف کروایا۔وہ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے اور احقرنے حضرت کے ہاتھ دبانے شروع کیا۔سلسلہ دراز ہوا۔پیشانی پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرا۔ پھر پاؤں بھی دیر تک دباتا رہا۔کتنے نرم گرم اور ملائم پاؤں تھے۔ حضرت ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔میری زندگی کے حسین لمحات میں ان چندلمحات کا بھی شمار ہوتا ہے کہ جب میرے کہنے پر حضرت شاہ صاحب نے میرے لیے ہاتھ اُٹھا کر دعاء کی تھی۔ قارئین میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت میری دل کی کیفیات کیا تھیں۔ ایسا ہی ایک مقبول دعامجاہد اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی میرے لیے خصوصی کی تھی جب برادرم مولانا ۔۔۔ابن شیخ الحدیث مولانا مغفوراللہ باباجی(حقانیہ اکوڑہ خٹک)کی معیت میں ان کے دولت کدے میں حاضر ہوئے تھے۔ اللہ اللہ ! کہاں یہ بزرگان با صفاکے ہاتھ بندہ پرتقصیر کے لئے اُٹھناکہاں خواہشات نفسی کا یہ پتلا۔بندہ عاصی کے لیے محبوب خدا کے ہاتھ اُٹھنا کوئی معمولی بات ہے کیا۔میر اد ل سرشار تھا۔اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ حضرت شیخ محبوبِ خدا تھے۔وہ کیونکہ کر محبوب خدا تھے تو سیدھی سی بات ہے وہ عاشقِ محبوبِ خدا تھے۔کیونکہ اس(رسول اکرم ۖ) کے بغیر اللہ تعالیٰ سے محبت، اس کی اطاعت میں مداومت ناممکن ہے۔بدون واسطے رسول ۖ بندے کی ایمان قبول نہیں چہ جائیکہ وہ محبوب خدا بنے۔ا

دورہ حدیث کے سال استاد محترم مولانا عبید اللہ خالد صاحب نے موطا امام مالک کی ایک حدیث دلنشیں انداز میں پڑھائی تھی۔حدیث کا مفہوم یوں ہے کہ: '' جب اللہ رب العزت کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرئیل امین سے فرماتے ہیں کہ
اے جبرئیل !
میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، اسے پسند کرتا ہوں لہذا تو بھی اس سے محبت رکھ۔چنانچہ ملائکہ کے سردار حضرت جبریل امین بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر وہ اہل سماء میں اعلان فرماتے ہیں کہ
ا ے سکان سمائ!
مالک ارض وسماء فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ خلائقِ سماء بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد اس محبوب خدا کی مقبولیت زمین میں پھیلتی ہے او راہل ارض بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔''

حضرت شاہ حکیم اختر صاحب بھی ان معدودے لوگوں میں سے جو ا للہ کو محبوب تھے، وہ کیوں نہ اللہ کے محبوب ہوتے کہ پوری عمر محبوب خدا کی سنتوں کو زندہ کرنے میں بتائی۔وہ تو علماء دیوبند کے محبوب تھے۔ عوام و خواص ا س سے کٹ کر محبت کرتے تھے۔ افراتفری اور مادیت کے اس دور میں مخلوقِ خدا حضرت والا کے آستانے میں حاضری دینا سعادت سمجھتی تھی ۔بغیر کسی دنیاوی غرض اور مقصد کے صرف اللہ کے لیے محبت کرنا ہی محبت حقیقی ہے۔ورنہ تو آج لوگ کسی کے خوف و شر سے بچنے اور مال و متاع کے لالچ میں محبت واکرام کرتے ہیں ۔اور شاہ صاحب سے خلقت رضاء الہی کے لیے محبت کرتی تھی۔

استاد محترمولانا عبیداللہ خالد صاحب نے جامعہ فاروقیہ میں طلبہ کے ایک پروگرام میں فرمایا تھا کہ '' آجکل دینی مدارس و اجتماعات میں بھی غیر مستند شعراء کا کلام ، نظمیںاور نعتیں سنائی جاتی ہیں، بعض دفعہ تو ان کا کلام دینی احکامات کے خلاف بھی ہوتا ہے۔میری گزارش ہے کہ جامعہ کے پروگراموں میں حضرت نفیس شاہ صاحب اور حضرت حکیم اختر صاحب کا کلام پڑھا جائے۔ ان دونوں بزرگوں کا کلام شرعی پیمانوں پر پورا اترتا ہے۔کلام میں شرینی اور لطافت بھی ہے۔ اور شعری معیار پر پورا بھی اترتا ہے اور اکابر علماء ان کے کلام پراعتماد بھی کرتے ہیں''۔

حضرت والا کی اصلاحی وعلمی خدمات کے ساتھ سماجی خدمات کا بھی ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ الاختر ٹرسٹ کے نام سے ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کے غریب مسلمان بھی مستفید ہوتے رہے۔ مگر افسوس کہ کچھ عرصے سے یہاں گلگت کے مقامی نااہل ذمہ داروں کی غیر شائستہ حرکتوں کی وجہ سے الاختر ٹرسٹ کی امداد و معاونت سے باسیان گلگت بلتستان محروم ہیں۔گلگت بلتستان میں الاختر ٹرسٹ کی ذمہ داریاں جن لوگوں کو سونپی گئی تھیں انہوں نے غریب اور مستحق عوام کے مال پر ہاتھ صاف کیا۔شروع شروع میں ٹرسٹ کا امدادی مال گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقوں تک پہنچ چکا تھا مگر بعد میں صورت حال مختلف رہی۔جس کی وجہ سے شاید ٹرسٹ کے بزرگوں نے یہاں کام معطل دیا۔ حضرت والا رحمہ اللہ کی باقیات صالحات سے گزارش ہے کہ گلگت بلتستان کے غیور اور مستحق مسلمانوں کو الا ختر ٹرسٹ کے فیوض و امداد سے محروم نہ رکھیں۔ دیندار اور صالح علماء کی ایک کمیٹی بنا کر یہاں دوبارہ سماجی کاموںکا نیٹ ورک بچھایا جا سکتا ہے۔اہل باطل نے گلگت بلتستان میں سماجی کاموں کا وسیع نیٹ ورک بچھا کر یہاں فتنہ و فساد شروع کر رکھا ہے۔ دیگر قبیح مضرات کے ساتھ ایک عظیم المیہ یہ بھی وقوع پذیر ہورہا ہے کہ غریب اور سادہ لوح مسلمان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔الاختر ٹرسٹ اور دیگر رفاہی و سماجی اداروں بالخصوص اکابر علماء کرام کو اس حوالے سے سنجید گی سے کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔وگرنہ آنے والے دنوں کے موسم یہاں کے اہل سنت عوام کے لیے صحت افزا نہیں۔گلگت بلتستان کے مدارس بھی مفلوک الحال ہیں، ان پر بھی توجہ دینی کی اشد ضرورت ہے۔بہرصورت الاختر ٹرسٹ والوں کی نظر کرم والتفات کی اشد ضرورت ہے۔حضرت والا کا لٹریچر بھی اگر گلگت بلتستان میں مستقل بنیادوں پر تقسیم کیا جائے تو مناسب نتیجے کی توقع ہے۔

حضرت والا کی رحلت ہوچکی ہے۔ موت کو کسی سے رستگاری نہیں۔ ہم نے بھی وہاں جانا ہے جہاں حضر ت چلے گئے ہیں۔اس معمورے بے ثبات میں کسی کو مخلد نہیں رہنا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو محبوبِ خدا جناب محمدمصطفی ۖ کو کبھی بھی موت نہ آتی۔
ولوکانت الدنیا تدوم لواحد
لکان محمد فیہا مخلداً

حضرت والا کی رحلت کی خبر سن کر دل افسردہ ہوا۔مگر فورا ''انا للہ وانا الیہ راجعون ''پڑھ لیا۔ان کی وفات حسرت آیات پر ہر ایک رویا۔العین تدمع۔ آنکھوں پر اختیار ختم ہوچکا ہے۔ خلقت بے ساختہ روئی۔دل مغموم ہیں۔ والقلب یحزن۔حضرت کی وفات پر تو اہل علم و عمل لکھیں گے۔ ان کی زندگی ، سوانح عمری پر بھی اصحاب قلم ہی قلم اُٹھائیں گے۔تاہم ہماری اس ناقص تحریر کا سبب برادرم مکرم مولانا زین العابدین حفظہ اللہ رعاہ بنے جو حضرت شاہ صاحب نوراللہ مرجعہ کی وفات حسرت آیات پر اہل علم و قلم کی تحریری جمع کرکے '' تذکرہ و سوانح'' ترتیب دے رہے ہیں۔سچ یہ کہ وہ ثواب کما گئے اور ان کی بدولت ہم بھی خریداران یوسف میں شامل ہیں ورنہ من آنم کہ من دانم۔ ہم تو انہی لوگوں میں ہیں جو حضرت والا کے نام سے نام کمانا چاہتے ہیں۔ کسی عربی شاعرنے حضرت محمد مصطفی ۖ کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ
مامدحتُ محمداً بمقالتی لکن مدحت مقالتی بمحمدِِ

امیرجان حقانی
ایڈیٹر : سہ ماہی نصرة الاسلام گلگت
مدرس: جامعہ نصرة الاسلام گلگت
لیکچرر: ایف جی ڈگری کالج گلگت
کالم نگار: آن لائن پامیر ٹائم اینڈ روزنامہ صدائے گلگت
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 385709 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More