آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں

الله نے قلم کو معتبرمعزز اور محترم بنایا۔ اس کی حرمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ الله نے اس کی قسم اٹھائ ہے۔ اگلے وقتوں میں کانے سے بڑے اہتمام کے ساتھ قلم گھڑی جاتی تھی۔ ماسٹر کے جیب میں قلم گھڑ کر دینے کے لیے کاچو ہوا کرتا تھا۔ دوکان سے بھی گھڑی گھڑائ قلمیں مل جاتی تھیں۔ ٹک بڑی احتیاط کے ساتھ لگایا جاتا تھا۔ گھڑائ کے ساتھ ساتھ خوش خطی میں اس ٹک کا بڑا عمل ہوتا تھا۔ خوش خطی باقاعدہ فن تھا اور خوش خطی کے الگ سے نمبر ملتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ لکھائ بڑی مشقت انگیز تھی۔ ہر اگلا لفظ لکھنے کے لیے ٹوبا لینا پڑتا تھا۔ اس قلم کے ساتھ ڈنک اور کچی پنسل بھی مستعمل تھے تاہم انہیں قلم کا نام و مقام حاصل نہ تھا۔ جی کے نب والا ڈنک انگریز کے عہد میں مستعمل ہوا۔ جی کے نب والے ڈنک کو انگریز ہونے کا شرف حاصل تھا اس کے باوجود اسے قلم کا درجہ کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔

الله نے کبھی اور کہیں ڈنک یا کچی پنسل کی قسم نہیں کھائ۔ قلم سے کچی اور پکی سیاہی سے لکھا جاتا تھا۔ ہر دو طرح کی سیاہی سے لکھی گئ تحریر قلم کی تحریر تھی اس لیے معتبر اور محترم تھی۔ پن تو بہت بعد میں ولایت سے تشریف لایا۔ چونکہ وہ ولایت سے آیا اسے پن شریف کہنا غلط نہ ہو گا۔ دیسی گوروں نے پن شریف کو بھی قلم ہی کہا اور کسی حد تک یہ نام بھی مستعمل ہوا۔ دیدہءبینا نے اسے کبھی قلم تسلیم نہیں کیا۔ ان کے ہاں یہ پن ہی مستعمل رہا۔ بھیڑ کو وہ بکری کیوں تسلیم کرتے۔ دیسی گورے رنگت کے گندمی‘ احساس برتری میں اسے پن ہی کہتے تھے۔ یہ تھا بھی پن حالانکہ اس کے نب میں بھی ٹک ہوتا تھا۔ پارکر جیسا قیمتی پن بھی ٹک کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔

وقت آگے بڑھا تو قلم پن متروک ہو گیے۔ ان جگہ بال پواءنٹ نے لے لی۔ بال پوائنٹ کو بائرو بھی کہا جاتا ہے اور یہی رائج ہے۔ جس پوائنٹ سے لکھتے ہیں وہ بلا ٹک ایک کوکا سا ہوتا ہے۔ ٹک نہ ہونے کے سبب اس سے مروت کی آشا بے فضول سی ہے۔ اس میں سیاہی نہیں پڑتی۔ یہ بھری بھرائ ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے اس میں جو بھی بھرا جاتا ہے کیمیکل سے مبرا نہیں ہو گا۔ بھرنے والے اپنی طینت اور مقاصد اس میں آمیزہ کرتے ہوں گے۔ دفاتر ہوں یا شفاخانے یا درس گاہیں‘ اس کا سکہ چلتا ہے اور بڑے بھار سے چلتا ہے حالانکہ اس کی اوقات اتنی ہے جب اس کے اندر کا مواد ختم ہو جاتا ہے اسے کچرے کے ڈبے کی زینت بننا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس پن کی یہ حیثیت نہ تھی۔ سیاہی ختم ہوتی تو دوبارہ سے بھر لی جاتی۔ نب ٹوٹ جاتا نیا نب بازار سے مل جاتا تھا۔

ڈاکٹر عبداقاضی لله کمال کے عالم فاضل ہیں۔ خیر سے ڈبل پی ایچ ڈی ہیں۔ زندگی پڑھنے لکھنے میں گزار دی ہے۔ ان کی شرح بخاری کویت سے شاءع ہو رہی ہے۔ اتنے پڑھ لکھ کر بال پوائنٹ کی طاقت کو نہیں مانتے۔ عہد جدید میں بھی پن سے لکھتے ہیں وہ بھی ایگل کے پن سے۔ پارکر کا قلم رکھتے ہوئے ایگل کے پن سے لکھنا پارکر کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ کل فون پر گفتگو کرتے ہوءے فرما رہے تھے کہ قلم کی حرمت جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ تو سنا تھا عزت‘ عزت اور حرمت ایک ہی بات ہے بچانے کے لیے جان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ جان بار ملنے کی چیز نہیں لہذا اسے بچانے کے لیے عزت نیلام کر دی جاتی ہے۔ دونوں طرح کی صورتیں تاریخ میں ملتی ہیں۔

عزت پر جان قربان کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔ سقراط نے زہر پی لیا لیکن ارسطو میدان چھوڑ گیا۔ پورس جب جان کو ہتھیلی پر لے کر میدان میں اترا تو سکندر کو فرار اختیارکرنا پڑا۔ اہل بال پوائنٹ کو دیکھیے اس نے نیچے والے بابے کو اوپر قرار دے دیا۔ ریفریری کسی کو بھی آؤٹ دے سکتا ہے۔ اچھی بھلی بال کو نو بال قرار دے دینا اس کے ایک اشارے کی مار ہے۔

ڈاکٹر قاضی کے نزدیک قلم سے بددیانتی ماں بہن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ قلم مستعمل نہیں اس لیے بددیانتی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ دوسرا ہر وہ کام جسے الله اور اس کا رسول حرام قرار دیتا ہے بااختیار طبقے اسے کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ زمین پر کسی ضمنی پارٹ کے سہی وہ خدا ہیں‘ اس لیے وہ زندگی بھی اپنی مرضی کی گزارتے ہیں اور اپنی ساختہ شرع پر عمل کرتے ہیں۔

سماجی پابندی ہو یا اخلاقی یہ ان کے لیے معنویت نہیں رکھتی۔ قانون لوگوں کے لیے ہوتا ہے اگر وہ بھی قانون کو کچھ سمجھیں تو ان میں اور عام لوگوں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ رہ گیا مذہب‘ تو یہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ دوسرا مذہب عبادت گاہوں کی چیز ہے لہذا عبادت گاہوں کی حدود میں اس پر عمل درامد فرض ہوتا ہے۔

قلم کی بےحرمتی لوگوں کی ماں بہن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ یہاں بال پواءنٹ کی موجودگی میں اپنی یا پرائ ماں بہن کے ساتھ زیادتی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بیٹی کا ذکر اس لیے مناسب نہیں کہ بیٹیاں سب کی سانجی ہوتی ہیں۔

آزاد معاشروں میں سب سے پہلے اہل علم کو داڑھ کے نیچے رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ آگہی پھیلا کر کمزور طبقوں کو بے حضوریہ بناتا ہے۔ اہل جاہ اور اہل زر کی بےادبی ہی درحقیقت خرابی کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالج کیڈر سے متعلق لوگوں کا پرموشن کبھی کبھار ہوتا ہے۔ دس سال بعد بھی کسی لیکچرر سے پوچھو تو خود کو لیکچرر بتاءے گا۔ ایک طرح سے انھیں مستقل مزاج بنانے کی یہ سعی عظیم ہے۔ بھولے سے کبھی پرموشن ہو جاءے تو ان کی مٹی پلید کرنے میں کوئ دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا۔ اسے پنشن کے دروازے پر لا کھڑا کرکے مسافر بنا دیا جاتا ہے۔ دکھ کی جندریوں میں مقید رہنے تک زندگی کی آخری سانس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ بلا حرکت بھی کوئ زندگی ہے۔ فارغ رہیں گے تو آگہی پھیلانے سے باز نہیں آءیں گے۔

وہ اہل علم کو ذلیل کرنے کا بڑی خوش اسلوبی اور بڑی دیانت داری سے فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کی فرض شناسی کو آب زر سے قلم بند کیا جائے گا۔ ناخواندگی کی حوصلہ افزائ میں ان کا کردارکبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ ڈاکٹر قاضی جیسے اہل علم کو تو پرموشنی چکروں میں ڈالے رکھنا پورے سسٹم کے ساتھ بھلائ کرنے کے مترادف ہے۔ میں مہامنشی کے شعبہ اعلی شکشا کے بالا وزیریں اہل کاروں کی تحسین کروں گا کہ علماء و فضلا کی اسی انداذ سے قدردانی ہونی چاہیے۔۔ اگر انہیں گریڈ بیس مل گیا تو گریڈ واءز اعلی شکشا منشی کے برابر ہو جاءیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اوقات واءز اس کے ناءب قاصد سے بھی کمتر ہوں گے۔

قلم کے متروک ہو جانے کے بعد محاورہ قلم کی مار دینا بھی کسی حد تک سہی‘ ختم ہو گیا۔ مرا نہیں تو قریب المرگ ضرور ہے۔ مفتا ساتھ میں لفافہ نہیں لایا ہوتا اس لیے اسے گھاس بھی نہیں ڈالی جاتی۔

مفتے کو دفتر اعلی شکشا منشی کے اہلکار پر بھی نہیں لکھتے اس کی فاءل تھوڑا بہت مواد موجود ہونے کے باوجود بال پواءنٹ کی آلودگی سے محفوظ رہتی ہے۔ سفارشیے اور جھڑیے کی فاءل گردش میں رہتی ہے اور اس کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں۔ ہر بار علاقے کی سوغات نہیں لاتا تو ناسہی ایسا شاز ہی ہوتا ہے ورنہ وہ خالی ہاتھ نہیں آتا‘ آ کر وہاں کے حاضرین و ناظرین کو چاء چو تو پیش کرتا رہتا ہے۔ چاء لانے والے قریبا آفیسر سے بقایا طلب کرنے کی غلطی کا سزاوار نہیں ہوتا۔ بقایا طلب کرنے کے انجام سے وہ بخوبی واقف ہوتا ہے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176134 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.