کیا ڈاکٹر آسمانی مخلوق ہے

”ڈاکٹر کیا آسمانی مخلوق ہے“ اپنے موبائل پر مخاطب کی یہ بات سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور ایک عجیب سے الجھن بھی یہ میرے ایک قاری کا فون تھا اس سے قبل کہ میں خود کو جواب کےلئے تیار کرتا اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” آپ ڈاکٹروں سے ڈرتے ہیں ان کے خلاف کیوں نہیں لکھتے“ میرے پاس اس کا جواب تھا لیکن میں اسے سننا چاہتا تھا میں اپنے اس انجانے قاری کو نہیں جانتا تھا نہیں معلوم کہ اسے میرا نمبر کہاں سے ملا اور وہ کون ہے اس نے اگر میرے لکھنے کی تعریف کی تو اپنا غصہ بھی مجھ پر اتارا‘ میں نے اس سے پوچھا بھائی آپ کیا چاہتے تو فرمانے لگے کہ آپ ڈاکٹروں کے حوالے بھی ان کی زیادیتوں پر کچھ لکھیں میں نے حامی بھر کر انہیں مطمین کر دیا جس کے بعد اس نے فون بند کر دیا میں دیر تک اس کی اس بات پر غور کرتا رہامجھے اےک لطےفہ ےاد آےا ایک صاحب بہت تیز اور اونچا گھومنے والے جھولے پر بہت دیر سے بیٹھے تھے بار بار جھولا رکتا سب لوگ اتر جاتے لیکن وہ صاحب بیٹھے رہتے حتیٰ کہ جھولا دوبارہ چلنے لگتا بہت دیر سے جھولے لیتے لیتے ان کی حالت خراب ہوچکی تھی چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیںرنگ نیلا پڑ گیا تھا اور ابکائیاں آرہی تھیں دوست احباب ان کی منتیں کرنے لگے لیکن وہ جھولے سے اترنے کو تیار نہیں تھے بالآ خر ایک دوست نے پوچھا” آخر کیا بات ہے تمہیں کیوں یہ جھولا اتنا پسند آگیا ہے کہ جان پر کھیل رہے ہو؟“ وہ صاحب بولے” پسند نا پسند کو بھاڑ میں ڈالو اس جھولے والے نے مجھ سے چار سو روپے ادھار لے رکھے ہیں ایک سال ہوگیا دینے کا نام نہیں لے رہا مجھے اب حساب برابر کرنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں سوجھ رہا کہ چارسو روپے کا جھولا جھول لوں“شاہد اسی طرح ڈاکٹر حضرات بھی اگلا پچھلا حساب برابر کررہے تھے جھولا جھول رہے تھے لےکن انہےں کوئی اتارنے والا شاہد نہےں مل رہا تھااسی لےے انہوں نے گذشتہ دنوں اےسی ہڑتال کی کہ ہسپتال بھی وےران کردےئے تھے اگر لوگوں کے جان پر بنی تھی تو اس سے ان کو کےا لےنا دےناانہوں نے تو حساب برابر کرنا تھاجب مےرے کالر نے فون کےا تو مےں سوچ مےں پڑگےا کہ کےا واقعی ’ ڈاکٹرجھولے سے اترنے کا نام نہےں لے رہے ہےںےا انہےں جھولے سے اتارنے والے نہےں ہےں اور کےا ڈاکٹر واقعی آسمانی مخلوق ہے“ اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی ڈاکٹر آسمانی مخلوق ہے لیبارٹریوں سے ان کا کمیشن ہے ادویات میں الگ بھتہ ہے ایکسرے ہوں یا الٹراساﺅنڈ وہ یا تو ان کے اپنے شروع کردہ ہیں یا اس میں وصولی ہے جس لیبارٹری کو وہ تجویز کرتے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی دوسری لیبارٹری سے ٹیسٹ کرائے گئے ایکسرے نکالے گئے یا الٹرساﺅنڈ کئے گئے تو وہ مسترد کرتے ہیں اگر ڈاکٹروں سے تلخ بات بھی کر لی جائے توپولیس حاضر ہو جائے گی یا پھر ہڑتال ہو گی اغواءکی صورت میں بند آنکھوں کے ساتھ ہڑتال تو کوئی بات ہی نہیں کےونکہ ہڑتال ایک اہم ہتھیارجوٹھہرا اور پھر صرف ہڑتال ہی نہیں قوم کے یہ مسیحا اور میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے وہ دعوے آن واحد میں اس وقت ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں جب یہ ڈگری پالیتے ہیں بات ہو رہی تھی ہڑتال کی اس بار ہڑتال میں جو کچھ ہوا اس سے توشاید انسانیت بھی شرما گئی ہو گئی مریض سسکتے بلکتے رہے وارڈ کے باہر مسکینوں کی طرح انتظار کرتے رہے مسیحاﺅں کا‘ اور مسیحاﺅں نے آتے ہی مریضوں کو دھکے دے کر وارڈ خالی کرا لیے اور تالے لگا دیئے جن وارڈوں میں مریض موجود تھے ان کا کوئی پرسان حال ہی نہیں تھا وہ بے یارو مدد گار پڑے رہے ایڑیاں رگڑتے رہے اور مسیحا” نظام زندگی کو اجیرن بنا دیں گے مفلوج بنا دیں گے“ کہ پوسٹر لگاتے رہے اور اپنے اس عزم کو انہوں نے عملی طور پر ثابت بھی کیا طب مقدس پیشہ تھا اب اسے کاروبار بنا لیا گیا نفع اور نقصان کے ترازو میں رکھ کر اسے دیکھا جانے لگا بزنس کے طور پر اسے چلایا جانے لگا اور فیکٹری کی طرح اس سے ” پیداوار“ لی جانے لگی‘ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اسی لےے تو انہےں آسمانی مخلوق کہا جارہا ہے کےونکہ آسمانی مخلوق کو ہی کوئی کچھ نہےں کہہ سکتاکےونکہ اس تک کسی کی پہنچ ہی نہےں تو کوئی انہےں کےسے کچھ کہے گا ےہی صورت حال ہماری زمےنی آسمانی مخلوق کی بھی ہے اگر کوئی پوچھے پابندی لگے یا ٹیکس نافذ ہو پھر بھی ہڑتال کے ذریعے ” زندگی مفلوج“ ہو جاتی ہے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روزانہ ” منافع “ کمانے والے بھی مظلوم بن کر ایسے دلائل دیکر قائل کریں گے کہ سننے والا اسے حیران و پریشان دیکھتا ہی ر ہے گا اور سب کی چمڑی ادھڑ کر بھی وہ ایسے معصوم لگےںگے کہ واقعاتاََ ان سے زیادتی ہوئی ہو لیکن اگر دیکھا جائے تو عوام کی طرح بیچاری حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہے اور جس طرح فلموں میں خلائی مخلوق طاقت کا مبنع ہوتی ہے اسی طرح ہماری زمین پر بھی آسمانی مخلوق طاقت کا مرکز ہے جنہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا چاہے وہ آپ کی سانس ہی کیوں نہ بند کردیں اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں اسے کہتے ہیں آسمانی مخلوق جس کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا سب ہی ان کے سامنے دم ہلاتے نظر آتے ہیں ہم یہ نہیں سمجھتے کہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں ہاتھ کی پانچ انگلیاںں بھی ایک جیسی نہیںہوتےں کوئی زیادہ کا آمد ہوتی ہے کوئی کم اسی طرح ہر شعبے میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور آسمانی مخلوق میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میںنمک کے برابر ہے ان کی آواز کوئی نہیں سنتا ان کی بات پر کوئی عمل نہیں کرتا وہ برائی کو برا سمجھ کر بھی خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آواز نگار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو شور میں کسی کو سنائی نہیں دیتی۔
 
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 40969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.