الہ آباد ---بھارت کا ایک شہر
اور ضلع جسے وزیر اعظموں کی سر زمین کہا جائے تو بیجا نہِں ہوگا -
پنڈت جواہر لال نہرو- اندرا گاندھی - لال بہادر شاستری - راجیو گاندھی -گلزاری
لال نندہ اور کئ بھارت کے دیگر وزرائے اعظم سب اسی سرزمین سےتعلق رکھتے تھے
الہ آباد جہاں سے بڑے بڑے ادیبوں نے جنم لیا --اکرم الہ آبادی کو کون نہیں
جانتا وہ بھی اسی شہر کے باسی تھے -ابن صفی جن کے جاسوسی ناولوں اور ناول
کے کرداروں عمران ۔فریدی ۔حمید نے دھوم مچا رکھی تھی کا تعلق بھی اسی علاقے
سے تھا
نئی نسل امیتابھ بچن کی شیدائی ہے -امیتابھ بچن نے بھی اس شہر میں جنم لیا
لیکن مستقبل میں اب یہ شہر "ایکو لال ساندل اور اکبر کیس " کے حوالے سے بھی
یاد
کیا جائے گا
ایکو لال ساندل" کون ہے"
لکھنو میں ایک چائے کا کیبن چلانے والا ایک غریب آدمی
اس کے حوالے سے کیوں یہ شہر یاد کیا جا ئے گا
سال 2002 کی بات ہے - ایک بچہ جس کی عمرڈھائی تین برس کے لگ بھگ ہوگی لکھنو
کے ایک باغ کے کونے میں لوگوں کو ملا -وہ شدید بخارسے تپ رہا تھا اور
تقریبآ نیم بے ہوشی کے عالم میں ہی تھا اور غالبآ اسے نمونیہ بھی تھا - اس
کی آنکھیں بھی زرد ہو رہی تھیں
کمزور سی پسلیاں
چھوٹا سا بچہ
نمونیہ کا شکار
آنکھیں زرد
محلے والوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو انکشاف ہوا کہ وہ چل بھی نہیں سکتا
تھا اس کی چال میں لنگڑاہٹ تھی -
اسے محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اس نے دیکھنے کے بعد کہا کہ اسکے جگر میں
کچھ مسئلہ لگتا ہے -اور صحت کی حالت کافی حد تک تشویشناک ہے -
یہ آبادی زیادہ تر غریب افراد پر مشتمل تھی - اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب تک
لواحقین کا اتہ پتہ نہیں ملتا اسے کون رکھے -سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
-آخر یہ چائے کا کیبن چلانے والا ایکو لال ساندل آگے بڑھا اور اپنی کمزور
آواز میں کہا میں اسے رکھوں گا
اس کی آنکھوں کی چمک ۔ آواز کی پختگی اور اس میں چھپا اعتماد یہ ظاہر کر
رہا تھا کہ وہ جذباتی انداز میں سوچنے والا نہیں ہے بلکہ اس نےتھوڑی دیر
میں سب کچھ سوچ لیا ہے
-ارے ایکو بھیا تمہارا کھوکھا کونسا زیادہ چلتا ہے -تم کب تک رکھو گے - اسے
کسی یتیم خانے کے حوالے ہی کردو
لیکن ایکو لال ساندل نے دوبارہ اصرار کیا - اس کی آواز مزید محکم اور مضبوط
تھی
چلو خیر ہے رکھ لو ہم بھی دیکھتے رہیں گے - بھگوان کرپا کرے گا
اور بچہ کیبن والے ایکو لال ساندل کےحوالے ہوا
ایکو لال ساندل نے اس کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال شروع کی --- تنگدستی کے
باوجود اسکی دوائیوں میں کسی قسم کا ناغہ نہیں کیا-اور قوت بخش خوراک اپنی
بساط کے مطابق دیتا رہا - نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ صحت مند ہونے لگا
اب تو بچہ صحت مند بھی ہو گیا ہے -پھر اس سوال نے دوبارہ جنم لیا کہ کہ اب
کیا کریں
ایکو لال ساندل نے تھانے میں جاکر رپورٹ درج کرائی تاکہ وہ اپنے طور پر
معلومات حاصل کر کے بچے کے والدین کا پتہ چلائیں
بچے سے پوچھا گیا تو اس نے اپنا نام اکبر بتایا اور اس سے زیادہ اسے کچھ
پتہ نہ تھا - والد کا نام ابو اور والدہ کا نام بھی اسے علم نہیں تھا
ایکو لال ساندل
نے ہمت نہیں ہاری اور مسجد جاکر اور دیگر علاقے کی مساجد میں بھی جاکر اس
کے لئے منادی کروائی -لیکن کوئی بھی بچے کو لینے نہیں آیا
تھانے والوں نے بھی پورا تعاون کیا اور قرب و جوار کے کوتوالیوں سے معلوم
کروایا لیکن کہیں بھی کسی بچے کی گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں کر وائی گئی تھی
تھک ہار کر محلے والوں نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی یتیم خانے میں داخل کردیا
جائے --لیکن ایکو لال ساندل پھر اڑ گیا کہ میں اس کی پرورش کروں گا -
محلے والوں نے سمجھایا کہ بھائی تم کیا سمجھتے ہو یہ آسان معاملہ ہے تمہارا
ہندو دھرم اور یہ مسلمان -یہ سنجوگ کیسےممکن ہے - ذرا سی بھی اونچ نیچ ہو
گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے -
کشن داس نہ کہا یہ تمہیں مشکل لگتا ہو گا مجھے نہیں -وہ اپنا قران پڑھتا
رہے نماز پڑھے - اپنے دھرم کے مطابق کام کرتا رہے میں اپنے دھرم پر چلتا
رہوں گا -اس کےلئے اس کا دھرم میرے لئے میرا دھرم
اس کی ضد کے آگے لوگوں نے ہتھیار ڈال دئے
اب ایکو لال ساندل کا اصل امتحان شروع ہوا لیکن وہ بخوبی راستے میں آنے
والی دشوایوں کو اپنی فراست سے دور کرتارہا - اسکول میں داخلے کا مسئلہ آیا
تو نام کا مسئلہ اٹھا
ہیڈ ماسٹر نے کہا کیا نام لکھوں
ایکو لال ساندل نے کہا یہ اکبر بتاتا ہے وہی لکھ دو --
اگے پیچھے بھی تے کچھ ہو گا
چلو لکھ دو اکبر ایکو لال ساندل
ارے بابا کیوں شہر میں دنگا کرانا چاہتے ہو --
بالاآخر اس کا نام اکبر ساندل رکھ دیاگیا باپ کے نام کی جگہ ایکو لال ساندل
بطور نگہبان یا گارڈین لکھا گیا
ایکو لال ساندل نے جو وچن محلے والوں کے سامنے کیا اس پر حرف بہ حرف عمل
کیا -اسے مسجد بھی بھیجنے لگا کہ قران سے بھی آشنا ہو جائے - نماز کا پابند
بنانے کی کوشش کی لیکں اس پر پورا عمل نہ ہو سکا البتہ جمعے کی نماز کے لئے
اسے صحیح طریقے سے اشنان کرواکر مسجد ضرور بھیجتا رہا -
کشن داس کے گھر جأو تو کئی بار عجب منظر دیکھنے کو ملتا -- ایک طرف ایکو
لال ساندل ایک کمرے میں مورتیاں رکھ کر پوجا پاٹ میں ّّمصروف ہو تا تو
تھوڑے فاصلے پر ہاتھ میں تسبیح لئے اللہ کے حضور میں سر جھکائے ملتا -
معاملات سب صحیح جا رہے تھے - نہ کسی مسلمان کو شکوہ ہوا اور نہ ہی کسی
ہندو کو رنجش
پانچ سال بیت گئے --پھر ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی ٹی وی چینل والے وہاں سے
گزرے اور چائے پینے کے لئے ایکو لال ساندل کے کھوکے پر ہی اپنی گاڑی روکی -
ٹی وی والوں کی عادت ہے کہ جہاں کہیں رکتے ہیں اپنے ٹی وی پروگراموں کے لئے
کچھ خوراک ڈھونڈتےرہتے ہیں سو اپنی عادت سے مجبور ہو کر یا اپنی پیشہ ورانہ
ضرورت کے پیش نظر انہوں نے لوگوں سے عام انداز میں گپ شپ کی اور انہیں پتہ
چلا کہ یہاں تو ایک نہایت حیرت انگیز داستان پرورش پارہی ہے -
انسانیت کی معراج کی انتہا - ہمدردی کا ایک سمندر -- بہبود انسانی کا ایک
عظیم مینارہ , وہاں موجود ہے -
انہوں نے مزید ٹیم کو فوری طور پر بلایا--ایک چھوٹی سی میٹنگ وہیں پر منعقد
کی - پروگرام فلمانے کا طریقہ کار طے کیا اور اسی وقت ایک ٹی وی پروگرام
ریکارڈ ہو گیا اور دوسرےانتظامی مراحل سے گزرنے کے بعد ٹیلی کاسٹ ہو گیا-
کس نے دیکھا کس نے نہیں اس کا پتہ نہیں -
جنہوں نے دیکھا انہوں نے کس انداز میں اس خبر کو لیا -اس کا علم نہیں -ہو
سکتا ہے کچھ گھروں میں کھانے کے دستر خوان یا ٹیبل پر بات ہوئی ہو اور اس
کے بعد کچھ تبصرہ ہوا ہو اور اس کے بعد خاموشی ہو گئی ہو
مذہبی جماعتوں نے اسے کس تناظر میں دیکھا اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں
-اندازہ اس لئے نہیں کہ انہوں نے شاید اسے کسی تناظر میں نہیں دیکھا تھا
ورنہ اگلےآنے والے دنوں میں ہنگامہ مچا دیتے کہ یہ مذہبی تعلیمات کی خلاف
ورزی ہے - یہ کوئی نئی سازش جنم لے رہی ہے - پکڑو پکڑو --بچ کر نہ جانے
پائے -
ایسا کچھ بھی نہیں ہوا -
البتہ ایک گھر میں کہرام مچ گیا - بیوی کے شور مچانے کی آوازیں باہر تک نکل
آئیں - یہ تھا اکبر کے اصلی ماں باپ کا گھر - لکھنو سے 200 کلومیٹر دور الہ
آباد میں اکبر کے اصل والدین محمد عباس اور شہناز بیگم نے یہ پروگرام دیکھ
لیا اور اب اس گھر میں شور مچا ہوا تھا -اس میں خوشی کی آوازیں بھی تھیں
اور جلدی لکھنو پہنچنے کے مطالبے بھی -- محمد عباس شراب کا عادی تھا - پانچ
سال پہلے وہ اپنے بچے کو لیکر شراب کے ٹھئے پر پہنچا اور شراب پی کر ایسا
کھویا کہ کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ بچہ اکبر کہاں چلاگیا -نشے میں دھت محمد
عباس جب گھر کئی گھنٹے بعد پہنچا تو بیوی شہناز نے بیٹے کے بارے میں پوچھا
تو تب بھی وہ مان ہی نہیں رہا تھا کہ اس کا لخت جگر اس کے ہمراہ ہی گیا تھا
اور اس کے نشے کے دوران کہیں کھو گیا ہے -
اصل والدین محمد عباس اور شہناز بیگم ایکو لال ساندل کے گھر پہنچے اور بات
چیت شروع کی - لیکن اکبر انکو پہچانتا ہی نہیں تھا -وہ ایکو لال ساندل سے
چپک گیا -وہ معصومانہ انداز میں رورہا تھا اور چیخ چیخ کر بول رہا تھا کہ
وہ محمد عباس اور والدہ شہناز کے ساتھ نہیں جائے گا - اس نے ایکو لال ساندل
کی میلی سی بش شرٹ مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی -
یہ حالت دیکھ کر ایکو لال ساندل کا دل بھی پسیج گیا - اس کے سامنے وہ سارے
مناظر گھومنے لگے کیسے وہ اس بچے کو لیکر آیا تھا -کیسے اس کا علاج کروایا
- وہ شاید دل پر پتھر رکھ لیتا اور اکبر کو اس کے اصل والدین کے حوالے کر
دیتا لیکن اکبر کی حالت دیکھ کر اس نے بھی اکبر انکے حوالے کر نے سے انکار
کردیا
محمد عباس اور اسکی بیگم شہناز نے عدالت میں مقدمہ کردیا - انہوں نے عجیب
عجیب الزامات لگائے --وہ سارے احسانات بھول گئے جو ایکو لال ساندل نے ان کے
بیٹے پر کئے تھے - انہوں نے کہا کہ ایکو لال ساندل نے دراصل اکبر کو اغوا
کیا اور اسکے بعد یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے - انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ایکو
لال انکے بچے سے اپنے ہوٹل میں کام کرواتا ہے اور چائلڈ لیبر قوانین کی
خلاف ورزی کر رہا ہے - شہناز بیگم نے میڈیا میں بیان دیا کہ ایکو لال ساندل
نے بچے پر جادو کرواکر اس کا دماغ پھیر دیا ہے - انہوں نے اسے کچھ ہندو
مسلم مسئلہ بنانے کی سعی بھی کی
ایکو لال سندر نے ان تمام مصائب کا مقابلہ کیا -لیکن محلے والوں نے بھی اس
کا ساتھ دیا -
مسجد کے مولوی صاحب نے عدالت میں آکر سارا پس منظر بتایا اور یہ بھی کہا کہ
اکبر کی تعلیم عین اسلامی خطوط پر ہورہی ہے -
تھانے کے سربراہ نے شہادت دی کہ ایکو لال سندال تو ہمارے پیچھے کئی دنوں تک
لگا رہا کہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں - لیکن اکبر کے حقیقی والدین
نے کہیں ایف آئی آر ہی نہیں درج کرائی تھی کہ کچھ پتہ چلتا -
اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے بیان دیا کہ اکبر پڑھائی میں عام بچوں کی مانند ہے
-اسکول کا کام باقائدگی سے کر کے آتا ہے اور اسکول فیس بھی باقائدگی سے
دیتا ہے -اس کی یونی فارم پر ہر روزانہ استری ہوتی ہے - جوتے بھی اچھی طرح
چمکے ہوتے ہیں - غیر ضروری چھٹی بھی نہیں کرتا
حقیقی مان باپ نے اپنے حقیقی والدین کا ثبوت دینے کے لئے اپنا اور اکبر کا
ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروایا اور ثابت ہوا کہ محمد عباس اور شہناز ہی حقیقی
والدین ہیں-
ایکو لال ساندل نے اپنے بیان میں کہا کہ اسنے ایک اچھے پتا (باپ) کا کردار
ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی -اسے اس کے دھرم کے مطابق اسلام کی تعلیم
دلوائی اور اسکول میں داخل کروایا - کبھی بیمار ہوا تو اپنا پیٹ کاٹ کے اس
کا علاج کروایا -اس نے اکبر کے سکول سے حاصل کردہ مارکس شیٹ کی کاپیان اور
مختلف بیماری کے سرٹیفیکیٹ دکھائے اور یہ بھی کہا کہ اس نے اس بچے کی خاطر
شادی نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا اور اب تک شادی نہیں کی کہ نئی ماتا جانے
کیا سلوک کرے جبکہ مذہب کی دیوار بھی درمیان میں حائل ہو - اس کی آواز
گلوگیر ہوگئی جب اس نے کہا کہ بھگوان نے اس پر محبتوں کے جو پھول نچھاور
کئے ہیں وہ انہیں اس بچے پر نچھاور کر رہا ہے -کیا وہ غلط کر رہا ہے اس نے
آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا - بچہ معصوم تھا - میرا من نہیں مانا کہ
اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر اس کا دھرم تبدیل کردوں -یہ پاپ ہے مہا پاپ
---میں نے جو کچھ کیا اس میں میرا بھگوان میرے ساتھ تھا -
جنوری 2008 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شری جسٹس برکت علی زیدی نے نے
تمام گوہوں کے بیا نات وغیرہ سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ ہم ایک سیکولر ملک
میں رہتے ہیں -جب مختلف ذاتوں کے افراد شادیاں کر رہے ہیں --مختلف مذاہب کے
افراد بھی آپس میں شادیان رچا رہے ہیں تو دو مختلف مذاہب کے افراد گارڈین
اور بیٹے کے طور پر کیوں نہیں رہ سکتے جب کہ بچے کا مذہب بھی تبدیل نہیں
کیا جا رہا -اور اسے صحیح تعلیم بھی دلائی جارہی ہو - اس فیصلے پر کسی کو
منہ بنانے کی ضرورت نہیں-
یہاں سے کیس ہارنے کے بعد حقیقی ماں باپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی
- اس اثناء میں اکبر کے حقیقی والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ بیوہ ہو گئی
- والدہ شہناز نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایکو لال سندال کی مالی حالت
ایسی ہے کہ وہ بچے کی پرورش صحیح طریقے سے نہیں کر سکتا -جبکہ شہناز خود دو
مکانوں کی مالکہ ہے اس کا زری کا کارو بار ہے - بیوہ ماں نے مزید کہا کہ اب
وہ بیوہ ہو گئی ہے اس لئے اسے اپنے بچے کی ضرورت ہے -
سپریم کورٹ نے اس کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کر نے کا حکم دیا اور
انہیں اپنے کاروبار کا ثبوت-- بچوں کی اسکول فیس-- اور آمدنی کا ایفےڈیوٹ
لانے کو کہا - شہناز بیگم کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکی اور نہ ہی آمدنی کا
ایفی ڈیوٹ جمع کرایا -
یہاں پرایک اور واقع ہوا جس نے فیصلے کا رخ تعین کرنے میں کافی مدد کی -
ایکو لال سندل کا ایک مسلمان دوست جو کہ دوبئی میں نوکری کر رہا تھا چھٹی
پر بھارت آیا تو اسے تمام واقعہ کا پتہ چلا -اس نے کہا کہ ایکو لال سندل اس
کا منہ بولابھائی ہے -یہ بھی بچپن میں کہیں کھو گیا تھا تب میرے مسلمان
والدین نے اسے گھر میں رکھ لیا تھا اور مذہب تبدیل کئے بغیر اس کی پرورش کی
تھی-
بالآ خر سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ ایکو داس ساندل کے حق میں کیا اور کہا کہ
شہناز کے دو بچے ہیں جن میں بیٹے کی عمر آٹھ سال اور بیٹی کی عمر چھ سال ہے
-سپریم کورٹ نے اس امر پر نہایت ہی اچنبھے کا اطہار کیا کہ بچے کے ماں باپ
نے اس کی گمشدگی کی ایف آر درج نہیں کرائی -- عدالت نے مزید کہا کہ ایک
بیٹے کو اسکی خواہش کے برعکس اس کے ماں باپ کے حوالے کر دینا کسی طور بھی
مناسب نہیں - بچے کی رائے کو اہمیت دینی پڑے گی-
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کبھی مستقبل میں ایسا قانوں بنانے کی کوشش کی بھی
جائیگی تو ایکولال ساندل اور اکبر کیس کی نظیر اسے روک دے گی - |