تھوڑی توجہ۔۔۔۔۔اس اہم جانب بھی

آج کے دور میں جتنا زور دے کر خواتین اور اُن کے شانہ بشانہ مرد حضرات لگے ہوئے ہیں "حقوق نسواں" کے لئے کام کرنے لدتا ہے جلد ہی "حقوقق مرداں"کے لئے کام کرنا پڑ جائے گا کوئی اخبار، سائٹ، میگزین اُٹھا لیں آپ خود دیکھ لیں گے کہ ہر وقت ان خواتین کو کوئی مسئلہ ضرور لاحق ہو گا اور ساتھ ہی ان کے مسئلے کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی کام ضرور جاری ہوگا۔ ہم جتنا اس مسئلے پر بات، بحث، ڈائلاگ کرلیں اس میں نت نئی شکایات اور حکایات آپ کو ضرور ملیں گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سب کا کوئی حل نظ نہیں آتا جہاں سے چلتے ہیں وہی پر واپس پہنچتے ہہیں اور مسئلہ، مسئلہ ہی بنا رہتا ہے۔

ہر مسئلہ کی ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ وجہ ہی اس مسئلے کو پیدا کرتی ہے۔ یعنہ جہاں وجہ ہوگی وہاں مسئلہ ضرور ہوگا۔ اب اس جملے کو پڑھ کر شاید یہ لگے کہ خواتین ہیں اس لئے یہ مسئلہ ہے اور اگر خواتین نہیں ہوں گی تو دنیاا کے تمام مسئلے ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ ایک لطیفہ بھی ہے کہ اگر لڑکیاں نہ ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا کوئی لڑکا چوک میں کھڑا ہوتا نہ کوئی چھیڑ چھاڑ کرتا اور صوم و صلوت کا پابند ہوتا اور سیدھا جنت میں جاتا۔

ہمارے ہاں مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کی جگہ اس کی جڑ کو لگا کر اس پہ مسئلے کا حل بونا شروع کیا جاتا ہے۔ یہ جو قوانین بنائے گئے ہیں خواتین کو ہراساں پونے سے بچانے اور کام کی جہگوں پر صحت مند ماحول کی فراہمی کے لئے آپ کو شکایت کے لئے جن لوگوں کے پاس جانا ہوتا ہے اکثر وہ خود ہی ایسے ہوتے ہیں کہ آُ کو سوچنا پڑتا ہے کہ میں ان کی شکایت کس کو کہوں۔ بہت پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ والے افراد سے جب میری اس حوالے سے بات چیت ہوئی تو ان کا بھی یہی موقف تھا کہ اس قسم کے مسائل کے تدارک کے لئے قانونی چارہ جوئی سب سے فالتو اور نامناسب حل ہے۔

ہر بچہ اپنی ایک فطرت لےکر دنیا میں آتا ہے اور اس کے بعد نشو نما کے حالات اور دیگر اس طرح کی چیزیں آپ کو یہ بتاتی ہیں کہ آپ اگر بچے ہیں تو اس طرح پالے جائیں گے اگر آپ لڑکی ہیں تو اس طرح کا رویہ رکھاجا ئے گا اور ہمارے معاشرے میں بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے ایک بھائی کو واہ واہ اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ پالنے کی اگر بھائی اکلوتا ہو تو پھر تو لاڈ پیار اور اس کے راج کی کوئی حد نہیں ہوتی اکثر جہگوں پر بھائی کو مارنے کا حق تک دے دیا جاتا ہے۔ اکثر جب ان کو موقع ملے ساتھ والے گھر کی بہن چھیڑنے کا تب بھی ان کا یہ کام چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ٹالنے کی اور حمایت کے لئے کام کیا جاتا ہے۔

یہی ایک ایک بچہ آگے چل کر معاشرے کو چلانے کے لئے کام آتا ہے اور پھر جب یہ معاشرے میں فتور بھرتے ہیں تو ہم یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں زمانے کو کیا ہو گیا ہے۔ میری کچھ پرائیوٹ سکول کی ٹیچرز سے بات چیت ہوئی اور ان کا کہنا تھا کہ ماؤں کا رویہ اتنا نامناسب اور بالکل بھی توجہ نہ دینے والا ہےایک ٹیچر کے پاس بچہ صرف چھ گھنٹوں کے لئے ہوگا اور تب بھی صرف ایک نہیں ایک کلاس میں بیس سے پچاس بچے ہو سکتے ہیں اب ٹیچر کس کو دیکھے اور کس کو نہیں۔

یہ ماں کا کردار تاریخی طور پر تسلیم شدہ ہے اور آض بھی آپ اس کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے آ پ کو بہرحال اپنے بچوں کو خود ہی پالنا ہوتا ہے میڈیا یا ٹیچر نے نہیں۔ اسی طرح جب آپ بھائی کو منع نہیں کر رہے اپنی بہن پر ہاتھ اُ ٹھانے سے تو کل کو وہ اپنی بیوی پر بھی ہاتھ اٹھائے گا۔ اسی طرح آج کو ایک معمولی سی چھچھوری حرکت کرنے پر اپنے بچے کو نہیں ڈانٹ رہے تو کل کو وہ کچھ بھی کر دے گا اور برا نہیں سمجھے گا۔

آج کو جو ہمارے پاس ٹین ایج نسل ہے اس کو دیکھ لیں آج سے دس سال بعد اس نے معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہے کیا ہم اس نسل کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ یہ نسل ہمیں مثالی معاشر دے سکے۔۔۔۔۔۔۔؟

ہم سب کو نہیں سنوار سکتے ہم سے سوال ہر بچے کے بارے میں نہیں ہوگا ماں باپ سے سوال صرف ان کی اولاد اور اس اولاد کے افعال کے لئے ہوگا۔ ذمہ داری کے بارے میں ماں باپ کل کو یہ جواب دے سکیں گے انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت بہت عمدہ اور خوب کی ہے اور وہ اس سے مطمئن بھی ہیں کیا یہ ممکن ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293086 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More