تیری دولت نے تیرے عیبو ں کو چھپا رکھا ہے

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
انکا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

حضرت وا صف علی واصف فر ما تے ہیں انسان دوسرے کی دولت دیکھ کر اپنے حالا ت پر اس قدر شرمندہ کیو ں ہو تا ہے ۔ یہ تقسیم تقدیر ہے ۔ ہما رے لیے ما ں با پ ہی با عث تکریم ہیں ۔ ہما ری پہچان ہما را اپنا چہرہ ہے ۔ ہما ری عا قبت ہما رے اپنے دین میں ہے ۔ اسی طر ح ہما ری خو شیا ںہما رے اپنے حالا ت اور اپنے ما حول میں ہیں ۔ مور کو مو ر کا مقدر ملا ، کو ے کو کوے کا ۔ ہم یہ نہیں پہچان سکتے کہ فلا ں کے ساتھ ایسا کیو ں اور ہما رے ساتھ ویسا کیو ں ہوا ۔ مو سیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے پو چھا : اے رب العا لمین آپ نے چھپکلی کو کیو ں پیدا فرمایا ؟ اللہ رب العزت نے جواب دیا عجب با ت ہے ،ابھی ابھی چھپکلی پو چھ رہی تھی اے رب : تم نے مو سیٰؑ کو آخر کیو ں پیدا کیا ؟ با ت وہی ہے کہ انسان اپنے نصیب پر راضی رہے تو اطمینان حاصل کرے گا ۔ نصیب میں تقابلی جا ئرہ ناجائز ہے ۔دنیا میں بظاہر مقا م و مرتبہ دولت و اما رت کا معیا ر غیر حقیقی وجوہا ت کی بناءپر کرنا درست با ت نہیں ہے اگر ہم یہ گمان کرلیں کہ فلا ں شخص کے پا س دو لت و اما رت کے امبا ر لگے ہو ئے ہیں تو اسے خا لق کی رضا اور خو شنودی بھی حاصل ہے تو یہ ضروری نہیں کبھی کبھار بڑے بڑے نامور لوگ بھی اپنے نا کردہ گناہو ں کی بھینٹ چڑھ کر بدنام ہو جا تے ہیں حقیقی رتبے اور مرتبے کے لیے زندگی کچھ خاص عمل اور کام ما نگتی ہے جو ہر ایک کے بس کی با ت نہیں نیلسن منڈیلا نے بظاہر اپنی زندگی بے حد رنج و علم مصائب و مشکلا ت بے سکونی اور قفس میں گزاری لیکن ان کی مو ت نے انہیں پو ری دنیا کے سامنے امر کردیا کیو ںکہ بہت بڑے مقام و مرتبہ پر پہنچنے کے باوجود بھی انہو ں نے اپنے اختیا رات اور معمولا ت کا ناجا ئر طو ر نہیں رخ موڑا بلکہ پو ری قوت طا قت اور عروج پالینے کے بعد عوام کی بھلا ئی اور بہتری کی خا طر اپنے بلند و بالا منصب کی قربانی دے دی اس مقام عروج پر پہنچ کر اقتدار اور مراعات سے علیحدگی اختیا ر کی جہا ں پہنچنے کے بعد انسان پر وٹو کول اور مراعا ت کے نشے میں چو ر ہو کر اپنا آپ ہی کھو دیتا ہے آج دنیا سے جا نے کے بعد بھی اس پسماندہ اور غریب شخصیت کا نام اور انجام زندہ و جا وید دکھائی دیتا ہے یہا ں تو دولت کے خما ر میں ڈوبے افراد اپنی ذات کے ساتھ ساتھ رب کی موجودگی اور پکڑ کو بھی بھول جا تے ہیں کیو ں کہ بقول دانشور آنکھیں تبھی کھلیں گی جب ان میں روشنی بجھ جائے گی اور یہ ابدی طو ر پر بند ہو جا ئیں گی ہما رے وطن عزیز کی بظا ہر ایک بلند پائیہ قدآور شخصیت جن کا شما ر ایسے افراد میں ہو تا ہے جو اپنے نفع نقصان کے لیے کسی کو بھی خرید سکتے ہیں انکے پا س بڑے بڑوں کی بو لیا ں اور قیمتیں موجود ہیں جسے زمینی حقا ئق کے مطابق رد نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن شاید انکو اس با ت کا علم یا ادراک نہیں کہ با ضمیر اور با وزن سوچ اور کردار خریدے نہیں جا سکتے انکی قیمت محض انکی زندگی کی چند سانسیں ہیں جو خا لق نے انہیں عطا کی ہیں انکے خا ندان کے اکلوتے اور بلند پایا شخص ملک عامر کسی بھی طر ح ان سے پیچھے نہیں رہتے ہیں بلکہ ظا ہری تر قی وکامیابی میںبھی جنا ب ملک ریا ض کو بھی ما ت دینے کا سوچ بیٹھے ہیں گذشتہ دنو ں موصوف کی صاحبزادی غیرقانونی طو رپر فا رن کرنسی لیجا تے ہو ئے لاہو ر ائیرپو رٹ پر پکڑی گئیں اور با ت یہا ں تک نہ ٹھہری بلکہ انکی صا حبزادی پر مو رخہ 26-04-2013 کو تھا نہ ایمن آبا د گو جر انوالہ میں ایف آئی آرنمبر 143/13 بجرم 302/34 109 نا مزد پر چہ درج ہوا قتل کیس کے حوالہ سے اس کے بعد سٹی ہا ﺅسنگ سو سائٹی گو جرا نوالہ جس کے عامر ملک چیف ایگزیکٹو بھی ہیں کی ایڈمنسٹریشن میں شامل ڈا ئریکٹرز پر مو ر خہ 01/11/2013 کو مقدمہ نمبر 380/13 بجرم 506 B/447 511/379 109/440 148/149 تھا نہ ایمن آبا د گو جرا نوالہ میں ہی زرعی اراضی پر مسلح افراد کے ہمراہ قبضہ کرنے کے حوالہ سے مقدمہ درج کیا گیا اسکے بعد دو رو ز قبل سٹی ہا ﺅ سنگ سوسائٹی ہی کے ریسٹو رینٹ میں سابق وفا قی وزیراور گو جر انوالہ کی پہچان خان غلام دستگیر خان اور انکے صاحبزداے وفاقی وزیر مملکت انجنئیر خرم دستگیر خان اور انکی فیملی کے ساتھ غنڈہ گردی کرنے حبس بے جاہ میں رکھنے اور قتل کی دھمکیا ں دینے کی پاداش میں تھا نہ صدر گو جرا نوالہ کے علاقہ میں سٹی ہا ﺅ سنگ کے عملہ ، گا رڈز اور دیگرز کے خلا ف ایف آئی آر 762/13 کا اندراج ہوا س میں 324 506B 342 148 149 دفعات شامل کی گئی ہیں سنئیر بزرگ مسلم لیگی رہنما خان غلا م دستگیر خان ، وفاقی وزیر مملکت انجنئیر خرم دستگیر خان کی فیملی کے ساتھ نا روا سلوک اور توہین آمیز رویہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی غیرت و حمیت اور پارلیمنٹ ہا ﺅ س کے تقدس کی پامالی کے مترادف ہے ۔ مو رخہ 20-12-2013 کو تھا نہ سول لا ئن فیصل آبا د کے علا قہ میں قابل عزت و تکریم مہذ ب و معزز چیف ایگزیکٹو سٹی ہا ﺅسنگ سوسائٹی ملک عامر کے نام ایف آئی آر نمبر 1124/13 کا اندراج کیا گیا جس میں 420/468 171ٹی پی سی لگائی گئی ہیں اس مقدمہ کے مدعی کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ خو د ڈا ئر یکٹر FDA ٹا ﺅن اینڈ پلا ننگ فیصل آبا دوا جد حسین ہیں اور گو جرانوالہ ایف آئی اے کے زیر سما عت ملک عامر کے خلا ف منی لا نڈرننگ کی انکوائری بھی چل رہی ہے مو صوف کے با رے میں ملک بھر میں نا جانے کتنے ہی کیسز زیرالتواءاور زیر سما عت ہیں لیکن ان تمام جرائم اور منصو بو ں کو بالا ئے طا ق رکھتے ہو ئے مو صو ف اپنی مزید دولت و اما رت میں اضا فہ کرنے اور لو گو ں کے ساتھ نت نئے کھیل کھیلنے میں مصروف عمل ہیں عدلیہ ، افواج ، پولیس،میڈیا اور ہر ادارے کو خریدنا اور بیچنا ان کا خاندانی دستور اور روایت چلی آرہی ہے جس میں کسی کو مداخلت اور رکا وٹ کی جرات و ہمت نہیں ہو تی محض پیسے اور روپے کے خمار میں ہر سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے یہ افراد اربا ب اختیا ر کو دکھائی کیو ں نہیں دیتے؟ ان کی دولت و اما رت اور آگے غیر فطری تقسیم کی روش ہر اہل اقتدار اور اربا ب اختیا ر کو خا موش کیو ں کردیتی ہے؟ عدل و انصا ف کی یہ پامالی اور انسانی ظلم و بربریت خدا کے عذا ب کو دعوت دینے کے مترادف ہے قتل اقدام قتل قبضہ مافیا حق تلفی کی کئی داستانیں ان احباب سے جڑی ہیں لیکن پھر بھی کو ئی حق پر ست ان کے خلا ف آواز حق اٹھا نے سے کیو ں گریزاں ہے جب تک ہما رے معا شےر ے میں اعلیٰ ادنیٰ امیر و غریب متوسط و حقیر کی تقسیم کے پہلو موجود رہیں گے تو اسوقت تک مکمل عدل و انصا ف اور جزا سزا کا پہلو اجا گر کرنا بھی محال ہے اہل زمیں پر ظلم و ستم ڈھا نے والے یہ حضرات کیا دنیا داری کی نظر میں بڑے ہی خو شحال کا میا ب و کا مران ہیں کیا اللہ پاک ان سے بہت راضی اور خو ش ہے نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ خا لق و مالک نے ان کو مہلت دے رکھی ہے اور ان کی رسی کو دراز کیے ہو ئے ہے اور ان کو مزید دولت و اما رت اور جاہ جلال سے نواز کر ایک کڑے امتحان میں مبتلا ءکر رکھا ہے جس کا اندازہ ان کے ما ضی سے لیکر مستقبل تک کے احوال سے بخو بی لگایا جا سکتا ہے علم جہا د بلند کرنے کی ایسے افراد کے خلا ف ضرورت ہے معاشرتی برائیو ں اور را ہ را ست کا دم بھرنے والو ں کو ایسے عنا صر جو معا شرے کے اندر رہتے ہو ئے پو ری قوت اور طا قت کے ساتھ نا انصا فی اور بد عنوانی کی زندہ مثال بنے ہو ئے ہیں دکھائی کیو ں نہیں دیتے ہیں؟ انکو سبق کیو ں نہیں سکھا یا جا سکتا ہے؟ کیا انکے احتساب کا معاملہ محض اللہ کی عدالت میں چھو ڑ دیے جا نا ہی بہتر ہے؟ نہیں نہیں ایسے معاشرتی ناسورو ں کو روکنا ہو گا بز ور قلم و عمل کیو نکہ انہیں یو نہی آزادی اور خو دمختا ری عطا کردی گئی تو یہ دنیا میں بسنے والے دوسرے لو گو ں کے لیے نقصا ن اور تکلیف کا با عث بنے رہیں گے انکا احتساب محض سزا جزا کے عمل کو تقویت پہنچا نے نہیں بلکہ معا شرے میں موجود دوسرے جرائم پیشہ اور نام نہا د مہذ ب خا ندانو ں اور معززین کے لیے حو صلہ شکنی اور نشان عبر ت کے طو ر بھی ضروری ہے۔

مت سہل اسے جا نو ، پھرتا ہے فلک بر سو ں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتاہے
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118482 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More