ہما رے بڑے اپنے دن کا آغاذ اکثر
اخبا ری صفحات کی خوشبو اور چائے کی چسکیوں سے کیا کرتے تھے۔ مشرف کی
آمرانہ جمہوریت اور زرداری کی جمہوری آمریت کی دہا ئی میں پروان چڑھنے والی
نسل میں وراثت منتقل تو ہوئی مگر تھوڑی تبدیلی کے ساتھ۔چائے کا نشہ توسلامت
رہا پر اخبار کی خوشبو ہاتھوں سے نکل کر لیپ ٹاپ سکرین کے ای پیپر تک
آپہنچی۔رہی سہی کمی فیس بک نے پوری کر دی۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ دن کا
آغاذ میں نے اسی روٹین سے کیا اور انٹرنیٹ پرقائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ والی
تقریر ہاتھ ہی لگی تھی کہ اتنے میں فیس بک پر چند میسجز موصول ہوئے۔ یہ
میسج شہیر سیالوی کے تھے ۔شہیر سے میری ملاقات آج سے ایک سال قبل برادرم
عبداﷲ گل جو کے جنرل حمید گل کے برخودار ہیں کے گھر ہوئی۔شہیر انجمن ِ طلبہ
اسلام کا ایک انتہائی سرگرم رکن ہے ۔۱۹ سالہ شہیر جس نے ابھی جوانی کی آغوش
میں پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولیں بہت سے احتجاجی جلسوں کی نمائندگی
کرتے پایا گیا ہے۔ فیس بک پر بات کرتے ہوئے اس نے میری توجہ ایک مسئلے کی
جانب مبذول کروائی ۔ کہنے لگا آپ قائداعظم ریزڈنسی حادثے سے متعلق کیوں
نہیں لکھتے ۔ ۶ ماہ ہونے کو ہیں اور یادگارِ قائد ابھی تک خستہ حالت میں
پڑی ہے۔ اس ۲۵ دسمبر اور اس کے آس پاس کے دنوں میں ہماری انجمن طلبہ اسلام
وفاقی دارلحکومت میں قائداعظم ریزڈنسی کو تباہ کرنے والی قوتوں کے خلاف
احتجاجی ریلی نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں وہ وفاقی اور صوبائی حکومت
سے اپیل کرے گی کہ ایک ماہ کے عرصے کے اندر اسکی تعمیر مکمل کی جائے۔ اس
معاملے سے آگاہ کرنے پر میں نے شہیر کو سراہا اور اس تازہ موضوع پر مشقت
آزمائی کرنے بیٹھ گیا۔ پہلے کچھ ذکر انجمنِ طلبہ اِ سلام کا کر لیا جائے۔یہ
جماعت آج سے قریباً ساڑھے چار دہائی قبل ۱۹ جنوری ۱۹۶۸ ء کو قیام میں آئی ۔
کراچی کے ایک علاقے میٹھادر کے صرافہ بازار میں واقع ایک چھوٹی سی مسجد ـ
’سبز مسجد ‘ میں دو نوجوان تنظیموں ، انجمنِ محبانِ اسلام اور جمیعت طلبہ
اہلسنت سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان جمع ہوئے اور اس جماعت کی بنیاد رکھ
ڈالی۔نوجوانوں میں عشقِ رسول اور وطن کی محبت بیدار کرنا انجمن طلباء اسلام
کا بنیادی مقصد ہے ۔ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں ATI چیپٹرز فعال ہیں جو
عشقِ رسول ، لیڈر شپ سکلز اور دیگر موضوعات پر کانفرنس کرواتے دکھائی دیں
گے۔انجمنِ طلبہ اسلام کی انفرادیت کچھ یوں ہے کہ یہ ملک کی دوسری جماعتوں
کی طرح سیاسی نہیں بلکہ ایک مکمل غیرسیاسی جماعت ہے اور نہ ہی اس میں جماعتِ
اسلامی طرز کے نیم سیاسی جراثیم موجود ہیں ۔انجمنِ طلبہ اسلام سے میرا
نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر جس مسئلے کو یہ نوجوان اُ ٹھا رہے ہیں کاش اس
ملک کی کوئی سیاسی جماعت بھی اسے اتنی ہی اہمیت دیتی جتنا یہ مسئلہ توجہ کا
طالب ہے ۔رواں سال ۱۵ جون کو بلوچستان لبریشن آرمی کے ہونے والے حملے میں
قائداعظم ریز یڈنسی کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا اس تاریخی عمارت کو خدا
کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہنچایا جا رہا ہے ۔زیارت جیسے حسین شہر کی سیاحت
کا مرکز قائداعظم ریز یڈنسی ہے ۔ جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں پنڈی
، اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ غیرملکی سیاح اس قدیم عمارت میں جناح اور
تاریخ کے اوراق پڑھنے اشتیاق سے آتے ہیں ۔ جون میں ہونے والی تباہی کے باعث
جولائی اور اگست میں سیاح اس کے پاس تک نہ بھٹکے ۔جس کی وجہ سے سیاحت تو
متاثر ہوئی پر ساتھ ساتھ ریزیڈنسی کے قریب واقع دکانوں کا روزگار بھی تنزلی
کا شکار رہا۔ وہاں کے ایک مقامی دکاندار کا کہنا ہے کہ اب میں دن بھر میں
ایک ہزار تک کما لیتا ہوں جبکہ اس واقع سے پہلے میری دن کی آمدنی ۹ سے ۱۰
ہزار کے بیچ ہوا کرتی تھی۔ مشاہیر سے منسلک عمارتیں تاریخ کا وہ آئینہ ہوا
کرتی ہیں جس میں قوم اپنا حقیقی چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ابھی چنددن پہلے مجھے
قلعہ روہتاس جانے کا اتفاق ہوا۔مجھے واپس آتے ہو ئے کہنا پڑا ’ بہت نازک
صورتحال ہے‘ ۔ شیر شاہ سوری کی روح جب اس قلعے پر سے پرواز کرتی ہوگی تو
ضرور ہمیں گالیاں دیتی ہوگی۔قلعے کے بیرونی دروازے میں وہاں کے رہائشیوں نے
ایک عدد مزار بنا رکھا ہے ۔قلعے کی دیواروں کا جائزہ لیا جائے تو محبت کرنے
والے اپنی ہوس ان دیواروں پر ان صورتوں میں نکالتے دیکھائی دیں گے ـــ۔ ’I
love you khadeja ‘ ’Javaid i miss you‘ ’مجھے کال ضرور کرنااس نمبر پر
03455937812‘ ۔ حیف صد حیف! قلعے کے جس دروازے سے کبھی شیرشاہ سوری اپنی
فوج کے ہمراہ داخل ہوا کرتا تھا اب اس دروازے سے آپکو بھینس، بکریاں اور
گاڑیاں گزرتی دیکھائی دیں گی۔
۴ کلومیڑ پر محیط یہ قلعہ محکمہ آرکیولجی اورمنسڑی آف ہیریٹیج اینڈ کلچر نے
گاؤں کے مقامی باشندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے ۔خدا نہ کرے کہ یہ
صورتحال قائد سے منسلک عمارتوں اور چیزوں کی ہونے لگے مگر حکومتوں کی بے
پرواہی سے یہ خدشہ لگا رہتا ہے ۔جہاں تک تعلق ہے بلوچستان لبریشن آرمی کی
قائداعظم ریزیڈنسی سے نفرت کا تو انھیں چاہئیے کہ اگرتووہ پاکستانی کرنسی
رکھتے ہیں تو پہلے ۱۰۰ کے نوٹ کا استعمال ترک کریں پھر چاہیں جو مرضی کریں۔
بلوچستان حکومت نے واقعے کے بعد قائداعظم ریزیڈنسی کی تعمیر ِ نو کے
لیے60.7 ملین رو پے مختص کیے تھے اب خدا جانے یہ رقم اس عمارت پر صرف ہوگی
یا اس امارت پر ۔ ہونا تویوں چاہئیے تھا کہ ہم اس کو جلد از جلد مکمل کرکے
اس ۲۵ دسمبر کر قائد کو یہ تحفہ دیتے۔ حکومت ِ پاکستان شیرشاہ سوری کا نہ
سہی محمد علی جناح کا تو خیال کرے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کے بانیِ
پاکستان شیر شاہ سوری نہیں بلکہ محمد علی جناح ہیں۔ |