عقیدہ توحید سیمینار اور اس کے اثرات

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

از: ڈاکٹرمحمد اشرف آصف جلالی
ا نسان پر سب سے زیادہ احسانات خالق و مالک،رب ذوالجلال کے ہیں جس نے اسے پیدا کیا اور پرورش فرمائی انسان پر اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ بندہ اسے وحدہ لاشریک تسلیم کرے اسی لیے عقیدہ توحید تمام عقائد کی اساس اور تمام اعمال کا مدار ہے چنانچہ الہامی کتابوں میں بار بار عقیدہ کا درس دیا گیا تمام ابنیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلوۃوالسلام کی دعوت کا موضوع اول یہ عقیدہ رہا سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اسی عقیدہ کی تبلیغ کے لیے طائف کے بازار میں پتھر بھی برداشت کیے سخت حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھے اور اس جہان کو عقیدہ توحید کی عظمتوں سے مالا مال کیا آپ نے اپنی امت پر بھی لازم کیا کہ وہ اس نور کو آگے بانٹتی رہے یہ امت مسلمہ کا طرہ امتیاز ہے کہ اس نے اتنی صدیوں کا طویل سفر مکمل کر لیا ہے اور اب تک عقیدہ توحید کی امین ہے۔

لیکن مادہ پرستی اور ہوس زر کا ماحول اس عقیدہ کی چمک پر اثر انداز ہو رہا ہے نیز عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت کے باہمی ربط کے لحاظ سے کچھ شکوک وشبہات پیدا کیے جا رہے ہیں ایک طرف سے امت توحید کو صحیح ا لعقیدہ ہونے کے باوجودقدم قدم پر شرک کے بھیانک فتووں کا سامنا ہے اور دوسری طرف کچھ جہال اور فریب خوردہ لوگ امت توحیدکو خرافات کی وادیوں میں دھکیلنے پرتلے ہوئے ہیں۔ادارہ صراط مستقیم نے اس چیلنج کا بر وقت ادراک کیا ہے اور امت مسلمہ کی اعتقادی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تحقیقی سیمینارز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ جس کے پیش نظر عظمتِ توحید ، مقامِ رسالت ، شانِ اہل بیت رضی اﷲ تعالی عنہم ، شان صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کے بارے میں کئی سیمینار منعقد کئے جا چکے ہیں جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہو چکے ہیں ۔اور آج ہمیں الحادی سوچ ،نام نہاد روشن خیالی اور مسلم امہ کو رسم و رواج اور فیشن کی بھینٹ چڑھانے والی قوتوں سے ہر محاذ پر مقابلہ کرنا ہو گا اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی طرز زندگی ہی کی بنیاد پر انسان حیوانوں سے ممتاز اورمحترم ہے نام نہاد اور روشن خیال انسان کوراہ راست سے ہٹا کر حیوانوں کی وادی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات انسان کو عروج آشنا بنا کر فرشتوں سے اونچا مقام دینا چاہتی ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور اسکی ہرگز معافی نہیں ہے۔اس سے اجتناب ازحد لازم ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کا اس امت پرخصوصی فضل و کرم ہے کہ یہ امت امتِ توحید قرارپائی ہے۔اور اس کا عقیدہ توحید نہایت مستحکم ثابت ہوا ہے۔تاجدارِ انبیاء حضرت محمد مصطفیا، آپ کی ختمِ نبوت، قرآن اورمجددین کی برکت سے آج بھی یہ امت توحید کی علمبردار ہے۔شرکِ جلی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ جس کے نتیجہ میں آج قرآن بھی محفوظ ہے اور ایمان بھی محفوظ ہے۔ ہم پہلے چارعقیدہ توحید سیمینارز میں تفصیلی طور پر وہ دلائل پیش کر چکے ہیں، جس سے بحمد اﷲ ہزاروں کوگوں کے شکوک و شبہات دور ہوئے ہیں۔اس کے باوجودایک طبقہ کی طرف سے امت مسلمہ پر الزامِ شرک کامسلسل واویلاکیا جارہاہے۔اور طرح طرح کے شکوک و شبہات پیداکیے جا رہے ہیں۔کبھی توخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیا کے عشق اور آپکی عقیدت و محبت کے چرچے کرنے والوں پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ یہ لوگ شوقِ توحید سے معاذ اﷲ خالی ہیں۔اوربرتن بنانے والے کو چھوڑ کربرتن کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔(العیاذ باﷲ)

حالانکہ تاریخِ امم کا یہ طے شدہ ضابطہ ہے اور قرآن و سنت کا واضح پیغام ہے کہ قربِ رسالت ہی سے قربِ خداوندی میسر آتا ہے۔ایساہوہی نہیں سکتاکہ ایک انسان کو قربِ رسالت میسر ہو اور وہ قربِ خداوندی سے محروم ہو ۔دیکھئے امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ نے بخاری شریف کی کتاب الایمان میں یہ باب تو قائم کیاہے: ’’بابُ حُبِّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الْاِیْمَان‘‘کہ محبتِ رسول ا ایمان سے ہے مگر یہ باب بخاری میں نہیں ملتا’’باب حب اﷲ من الایمان‘‘۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت ایمان سے ہے۔اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ کے شوقِ توحید میں کوئی کمی تھی یا ان کے نزدیک محبتِ الٰہی کی حیثیت کم تھی۔بلکہ انہوں نے واضح کر دیاہے کہ محبتِ رسول ا ہی محبتِ خداوندی کی علامت ہے۔کہیں وہ امور جومجازی اور عطائی حیثیت میں ہوسکتے ہیں امت میں شرک جلی ثابت کرنے کے لیے انہیں ان امور کے ساتھ نتھی کرتے ہیں جن امورمیں مجاز اور عطاء ہے ہی نہیں۔قرآن مجید میں ہے ۔فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْن۔(سورۃ العنکبوت آیت نمبر 56)تو میری ہی بندگی کرو۔واِیَّایَ فَاتَّقُوْن۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر40)اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔ واِیَّایَ فَارْھَبُوْن۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر41)اور مجھ سے ڈرو۔

تینوں جگہ حصر ہے کہ میری ہی عبادت کرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ جو معاملہ عبادت کاہے وہ ڈر کانہیں اﷲ تعالیٰ کے سواکسی کی عبادت مجازاً کرنے کاکوئی جواز نہیں ہے۔لیکن والدین، استاذ یا عادل حکمران کاڈر تو شریعت میں ثابت ہے۔ہاں امریکاجیسے غیر اﷲ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔پتہ چلا کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت کرنے والا تو مشرک ہے مگر اﷲ کے سوا کسی سے ڈرنے والا مشرک نہیں ہے۔بلکہ اﷲ والوں کا ڈر شرعی طور پر مستحسن ہے۔ پتہ چلا اگرچہ حکم ہے کہ صرف مجھ ہی سے ڈرو ۔ مگر اس کا حکم عبادت جیسا نہیں ہے۔

ایسے ہی اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں کا حصر ہے۔’’ اﷲ ہی کی عبادت ہے اور اسی ہی سے استعانت ہے‘‘ مگر عبادت تو مجازی اور عطائی طور پر اﷲ کے سوا کسی کی نہیں مگر استعانت اﷲ تعالیٰ کے کسی مقرب سے مجازی اور عطائی طور پر جائز ہے۔ چونکہ خالقِ کائنات جل جلالہ کسی مقبول بندے کو معبود نہیں قراردیتا مگر اﷲ تعالیٰ کسی مقبول بندے کو مددگار قرار دے سکتا ہے۔ وہ چاہتا ہے تو خود مدد کرتا ہے اور چاہتا ہے تو کسی کو اپنی مدد کا مظہر بنا دیتاہے۔اﷲ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہلا سکتا ہے اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے تو وہ کسی کو توفیق دے دیتا ہے۔قرآن مجید اور حدیث شریف کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جن میں فکری دھاندلی کرکے اور مفہوم پر واردات کرکے معاشرے میں افتراق و انتشار پھیلایا جارہاہے۔اور امت پر شرک کا الزام لگایا جارہاہے۔

دیکھیے قرآن مجید میں بتایا گیا ہے عزت اﷲ تعالیٰ کی ہے اور یہ بات متعددمقامات پر موجود ہے:
(1)۔ فَاِنَّ الْعِزَّۃَلِلّٰہِ جَمِیْعاً۔ سورۃ النساء آیت 139۔(2)۔ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعاً۔سورۃ یونس آیت 65۔(3)۔ وَ لِلّٰہِ الْعِزَّہُ جَمِیْعاً۔سورۃ فاطر آیت 10۔قرآن مجید کی ان آیات میں یہ واضح کر دیا گیاہے کہ بے شک عزت ساری اﷲ تعالیٰ کی ہے۔آج ہمارے معاشرے میں جو طریق استدلال اپنایا جارہاہے اس کے مطابق عزت اگر کسی اور کی مانی جائے گی تو شرک لازم آجائیگا کہ عزت اﷲ کی ہو اور کسی اور کی بھی ہو۔مگر یہ نظریّہ قرآنی نہیں ہے۔ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ عبادت کے علاوہ کچھ امور ایسے ہیں قرآن مجید میں ان کا اﷲ تعالیٰ کیلئے حصر ہے کہ وہ اﷲ ہی کے ہیں مگر اس حصر سے مراد نفی غیروں کی ہے، نفی اپنوں کی نہیں ہے۔یہاں بھی اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے نفی مطلقاً کی ہے یہ کہتے ہوئے کہ’’ بے شک عزت ساری اﷲ تعالیٰ کی ہے‘‘مگر مراد یہ نہیں ہے کہ اﷲ کے مقبول بندوں کی عزت نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ لات و منات اور ابوجہل کی عزت نہیں ۔یہ مفہوم آیت کے ماقبل سے سمجھا جاسکتا ہے۔ عزت اﷲ تعالیٰ کی ہے اس کایہ مطلب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی اور کو عزت دیتانہیں۔ یا جسے اﷲ تعالیٰ عزت دے دے اس سے آگے کسی کو عزت نہیں ملتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ عزت جسے دیتا ہے اﷲ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔مثال کے طور پرولِلّٰہِ الْعِزَّۃُ ولِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ لٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَایَعْلَمُوْن’’۔اور عزت تو اﷲ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کیلئے ہے مگر منافقوں کو خبرنہیں‘‘۔(سورۃ المنافقون آیت8)

پس پتہ چلا کہ یہ بات کہ عبادت اﷲ تعالیٰ کی ہے اس کامطلب اور ہے اور عزت اﷲ تعالیٰ کی ہے اس کا مطلب اور ہے۔عبادت اﷲ تعالیٰ کی ہے اس کے سوا مجازی اور عطائی بھی کوئی معبود نہیں ہے۔ مگر عزت اﷲ تعالیٰ کی ہے اور اﷲ کی عطا سے اﷲ کے بندے بھی عزت والے ہیں۔ آج دھاندلی یہ ہورہی ہے کہ جو صفات معیارِ الوہیت نہیں، انہیں بھی معیار الوہیت قرار دیا جا رہا ہے ۔بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وہ شانیں اور صفات جو مجازی طور پر اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں بھی آ سکتی ہیں جیسے مدد کرنا ہے انہیں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خاص قرار دے کر امت پر شرک کا فتویٰ لگانے کا جواز فراہم کیاجارہا ہے۔

ان آیات سے پتہ چلاکہ عزت کے مسئلہ میں اﷲ تعالیٰ اور مقبولانِ بارگاہِ ایزدی کا معاملہ اور ہے ، بتوں اور دشمنانِ خداوندی کا معاملہ اور ہے۔ مقبولانِ بارگاہ ِ ایزدی کو بتوں کے زمرے میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ایسے ہی مدد، تبرّک اور توسُّل کے معاملہ میں بھی مقبولانِ بارگاہِ ایزدی کو بتوں کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات قابل غور ہے کہ آج تک ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے شوقِ توحید میں ایسے ا سٹیکرز اور پینافلیکس نظر نہیں آئے جن میں لکھا ہو ’’بے شک عزّت ساری اﷲ کی ہے‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم عزت ماں باپ کی بھی کرتے ہیں استاذاور شیخ کی بھی کرتے ہیں اور اپنی بھی کرواتے ہیں لوگ ان آیات کو ہمارے خلاف سمجھنا شروع ہوجائیں گے ۔ جبکہ ہم تو مستثنیٰ ہیں یہاں نفی ہماری نہیں بلکہ بتوں اور کفار کی ہے۔جب ان لوگوں کو ان تین آیات سے جہاں واضح ہے کہ عزّت ساری اﷲ تعالیٰ کی ہے اپنا استثنا نظرآجاتاہے ایسے مقامات پر حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمہ اﷲ تعالیٰ جیسے بزرگوں کا ان آیات سے ملتی جلتی آیات میں استثنا نظر کیوں نہیں آتا؟امت پر فتویٰ شرک کی گنجائش زیارتِ قبور کے معاملہ سے بھی نکالی جاتی ہے اور قبر اور بت کو آپس میں ملا کر ایک ہی قرار دیا جاتا ہے یہ بھی ایک فکری یورش ہے اور جس کا ہم نے دوسرے مقام پر تفصیلاً جواب دیا ہے۔مومن کی قبر جنت کے باغوں میں باغ ہوتی ہے، اس کا احترام اور حفاظت مستحسن امر ہے۔

امام ابن اثیر جزری نے کہا ہے: حضرت بلال ص کی حدیث میں ہے کہ حضرت بلال ص پر تشدُّد کیاجا رہا تھا اس حالت میں آپ کے پاس سے حضرت ورقہ بن نوفل ص کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم نے حضرت بلال ص کو شہید کر دیا تو میں ضرور ان کی قبر کو’’ موضع حنان‘‘ یعنی رحمتِ الہی کا گہوارہ قرار دونگا میں اس قبر سے حصول تبرّک کیلئے تمسّح کروں گا جس طرح کے پہلے امتوں کے صالحین جن کو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں شہید کیاگیا تھا ان کی قبور سے تبرک کیلئے تمسّح کیا(چھؤا)جاتا ہے۔میرا یہ عمل تمہارے لیے باعثِ عار ہوگا اور لوگوں کے نزدیک تمہارے لیے گالی ہوگی۔( النھایہ فی غریب الاثر :ج ،1 ص ، 452 )

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قبور سے تبرک محض جائز ہی نہیں بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر قبور صالحین کا جو ادب و احترام کیا جاتا ہے اور ان سے جو تبرّک حاصل کیا جاتا ہے ۔ اس سے دشمنان اسلام کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ چنانچہ مزاراتِ اولیاء پر حاضری سے اور زائرین کی کثرت سے بھی منکرین اسلام کو ایک پیغام ملتا ہے کہ اہل اسلام کی اس سے وابستگی کس قدر مضبوط ہے اسلام پر جینے اور مرنے کا مقام ومرتبہ کتنا اونچا ہے۔
کسی کی قبر سے نفرت اس انسان اور اس کے کردار سے نفرت کی دلیل بنتی ہے ۔ ایک نہایت بد بخت انسان ابو رغال جس کی قبر مکہ شریف اور طائف کے درمیان ہے نفرت کا حوالہ ہے ۔ یہاں تک کہ جریر نے کہا تھا جب فرزدق فوت ہو جائے اس کی قبر کو یوں پتھر مارو جس طرح کہ ابو رغال کی قبر کو پتھر مارے جاتے ہیں۔مگر اہل محبت کے مزارات پر پھول ڈالے جاتے ہیں۔آج کچھ لوگ اصحابِ مزارات کے تصرف کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں جب ایک زندہ انسان کو قبر میں دفن کریں تو وہ فوت ہوجاتا ہے۔تو فوت شدہ قبرمیں جا کے کیسے زندہ ہو جاتا ہے ۔ اصل میں وہ لوگ یہ بات کرتے ہوئے دنیا اور برزخ کا فرق بھول جاتے ہیں اور برزخ کے امور کو دنیا پر قیاس کر نے لگتے ہیں جو سراسر غلط ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے شھید ہمارے سامنے زندہ نہیں بعد میں کیسے زندہ ہو گا۔حدیث شریف میں ہے کہ نیک بندے کی قبر حد نظر تک فراخ کر دی جاتی ہے کوئی کہے کہ زندہ کو تو قبرستان کی جھاڑیوں کے باہر نظر کچھ نہیں آتا فوت شدہ کو حد نظر تک کیسے نظر آتا ہے تواس کی یہ گفتگوحدیث کے خلاف ہوگی۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ برزخ کو دنیا پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔

امام ابن حبا ن بُستی متوفی 354ھ نے لکھا ہے کہ حضرت اھبان بن صیفیص جو حضرت ابو ذر غفاری ص کے بھانجے اور شاگرد تھے ۔ بصرہ میں رہتے تھے اور بڑے عابد و زاہد تھے ۔انہوں نے موت کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کو سلی ہوئی قمیض میں کفن نہ دیا جائے لیکن انہیں سلی ہوئی قمیض ہی میں کفن دیا گیا جب لوگ ان کو دفن کر کے واپسی لوٹے اور ان کے گھر میں داخل ہوئے تو وہی قمیض جس میں انہوں نے ان کو کفن پہنایا تھا گھر میں پڑی ہوئی تھی لوگوں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا۔(کتاب الثقات ج 2 ص 32)
آج برکت اور تبرک کے عقیدہ کو بھی شرک کے زمرے میں لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کوئی صحابی بھی حصول برکت کیلئے کسی مقام پر نہیں گئے جبکہ تحقیق سے پتا چلے گا کہ یہ بھی سوائے مغالطہ کے کچھ نہیں ہے ۔ مدینہ شریف میں جبل سلع کے ساتھ جو مسجد فتح ہے جسے مسجد احزاب اور مسجد اعلیٰ بھی کہا جاتا ہے ۔اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اﷲ تعالی لکھتے ہیں :(الادب المفرد : ص 558 ) حضرت جابرص کہتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ا نے اس مسجد فتح میں پیر ، منگل اور بدھ کے دن دعا مانگی تو بدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان آپ اکی دعا قبول کر لی گئی۔حضرت جابر رضی اﷲ تعالی نے کہا کہ جب بھی مجھ پہ کڑی مشکل کا وقت آیا ہے میں نے اس گھڑی کا ارادہ کیا ہے پس مسجد فتح میں بدھ کے دن اس گھڑی میں دو نمازوں کے درمیان دعا مانگی ہے ہر بار میں نے دعا کی قبولیت کو پہچان لیا ہے یاد رہے یہ حدیث حسن ہے اور امام منذری نے اس کے اسناد کو جید قرار دیا ہے۔یہ دو نمازیں ظہر اور عصر کی نمازیں تھیں امام سمہودی نے مسجدِ فتح میں اس جگہ کی بھی تعیین کی ہے جہاں رسول اﷲ انے دعامانگی تھی۔ یہ حدیث شریف مسند امام احمد بن حنبل جلد نمبر5 حدیث نمبر14617پر اور وفاء الوفاء جلد نمبر3 صفحہ39پر بھی ہے۔

اس سے ثابت ہواکہ حضرت جابرصکے عقیدہ کے مطابق رسول اﷲ ا سے زمان و مکان دونوں کو برکت مل گئی اور وہ دونوں سے حصولِ برکت کرتے تھے۔اس وقت میں دعا کرتے تھے جس میں کبھی رسول اﷲ ا نے دعا فرمائی تھی۔ اور اس جگہ جاکر دعاکرتے تھے۔جہاں کبھی رسول اﷲ ا نے تشریف فرما ہوکر دعا فرمائی تھی۔

(بخاری شریف :ج 1 ، ص 129 ) حضرت موسی بن عقبہ رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ تعالی عنہما کو دیکھا کہ وہ راستے میں خاص جگہوں کو تلاش کرتے اور ان میں نماز پڑھتے اور فرماتے کہ ان کے ابا جی ان جگہوں میں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو ان جگہوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یُصَلِّی فِی تِلْکَ الْأَمْکِنَۃِ،حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما مدینہ شریف سے مکہ شریف جاتے ہوئے یا مکہ شریف سے مدینہ شریف جاتے ہوئے ڈھونڈ کر ا ن جگہوں پر نماز پڑھتے تھے۔جہاں کبھی رسول اﷲ انے نماز ادا کی تھی۔
حضرت عتبان بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ اسے درخواست کی آپ میرے گھر تشریف لاکر ایک جگہ نماز پڑھیں۔میں اس جگہ مصلّٰی بنا لوں۔رسول اﷲ ا تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔ انہوں نے اس کو مصلّٰی بنا لیااور بعد میں یہ مسجد عتبان بن مالک کے نام سے مشہور ہوئی۔یہاں حضرت عتبان بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب رسول اﷲ ا سے درخواست کی کہ آپ میرے گھر میں ایک جگہ نماز پڑھیں میں اسی جگہ پڑھا کروں گا۔اس کا مطلب واضح طور پر حصولِ تبرّک تھا مگر رسول اﷲ ا نے ان کے جذبے اور عقیدے کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی درخواست کے مطابق ان پہ کرم فرمایا۔

اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا عقیدہ بہت واضح ہے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ عجم سے عرب کی زمین افضل ہے اور سرزمین عرب میں حرمین شریفین کی زمین افضل ہے۔حرم مکہ شریف سے مسجد حرام افضل ہے اور مسجد حرام سے خود کعبۃ اﷲ کہیں زیادہ افضل ہے۔ مرکز انوار و تجلیات ہے۔ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کعبۃ اﷲ کے اندر بھی اس مقام کو زیادہ متبرّک سمجھتے تھے جہاں رسول اﷲ ا کے قدم لگے ہیں حصولِ برکت کیلئے وہاں نماز پڑھتے تھے۔حضرت عبد اﷲ بن عمرصکے بارے میں مروی ہے’’آپ جب کعبہ میں داخل ہوتے تھے سامنے چلتے تھے اور کعبہ شریف کے دروازے کو پشت کے پیچھے رکھتے تھے پس یہاں تک چلتے تھے کہ ان کے اور اس دیوار کے بیچ میں جو ان کے سامنے ہوتی تقریباًتین گز کا فرق رہ جاتاتھا وہاں پہنچ کے نماز پڑھتے تھے۔وہ اپنے اس عمل سے اس جگہ کا ارادہ کرتے تھے جس جس کے بارے میں حضرت بلال صنے حضرت عبداﷲ بن عمرص کو بتایا تھا کہ اس جگہ فتح مکہ والے دن رسول اﷲ ا نے نماز پڑھی تھی۔(بخاری شریف حدیث نمبر506)

حضرت عبد اﷲ بن سائب ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جب آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور مکہ شریف میں رہا کرتے تھے میں ان کی خدمت میں رہتا تھاکہیں آنا جانا ہوتا میں ان کی انگلی پکڑ لیتا تھا۔حدیث شریف میں ہے (سنن نسائی : ج 3 ، ص 220 )’’حضرت عبداﷲ بن سائب صحضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو بیت اﷲ کے تیسرے کونے کے پاس کھڑا کرتے تھے جو حجرِ اسود سے ملا ہوا ہے ۔وہ حجرا سود جو دروازۂ کعبہ کے قریب ہے۔ تو حضرت عبد اﷲ بن عباس ص فرماتے کیا تجھے بتایا نہیں گیا کہ رسول اﷲ ااس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے؟ تو حضرت عبداﷲ بن سائب صکہتے تھے ہاں! تو حضرت عبد اﷲ بن عباس ص آگے بڑھتے اور اس جگہ نماز پڑھتے۔حضرت عتبان بن مالکص والی حدیث کے تحت دیوبند کے عالم شبیر احمد عثمانی نے اپنی شرحِ مسلم میں لکھا ہے: ’’امام نووی نے کہا اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ صالحین اور ان کے آثار سے تبرّک حاصل کرنا جائز ہے۔نیز جن مقامات پرصالحین نے نماز پڑھی ہو وہاں نماز پڑھنا اور وہاں سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا رسول اﷲ ا کے آثار کو ، آپ کی نماز کی جگہوں کو ڈھونڈنا صحیح بخاری کے باب المساجد بین مکۃ و المدینۃ میں موجود ہے۔ہم پہلے اِسراء والی حدیث میں اس بات کو ذکرکر آئے ہیں کہ رسول اﷲ ا سے حضرت جبریل علیہ السلام نے درخواست کی آ پ سواری سے اتر کر یثرب میں جس کی طرف آپ نے ہجرت کرکے آناہے (یہاں)نماز پڑھ لیں۔

طورِ سینا جہاں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا وہاں بھی نماز پڑھیں، مدین جو حضرت شعیب علیہ السلام کا مسکن ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وارد ہونے کی جگہ اور بیت اللحم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ ولادت کی جگہ پر نماز پڑھیں۔ یہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غلو اور تجاوز کے بغیر آثار صالحین سے تبرّک جائز ہے۔1344ھ میں جب ہم مکہ شریف میں جمیعت علماء ہند کے مند و بین کی حیثیت سے موتمر عالم اسلامی میں شریک ہوئے ہم نے سلطان عبدالعزیز بن فیصل آلِ سعود اور کبار علماء نجد جن میں زیادہ مشہور عبداﷲ بن بلیہد تھے اس موضوع پر بات کی ۔ ہم نے ان کے اس مؤقف پر کہ’’ متبرک مقامات سے تبرّک بدعت اور ناجائز ہے‘‘پر بخاری و مسلم کی یہ احادیث پیش کرکے رد کیا ،تو وہ کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے۔ جوابی طور پر وہ صرف درخت کاٹنے کا قصہ جسے ابن سعد نے طبقات میں نافع عن عمر کی سند سے درج کیا پیش کرتے رہے حالانکہ اس قصہ کے کئی جواب ہیں:﴿1﴾یہ قصہ منقطع ہے کیونکہ حضرت نافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر ص کا زمانہ نہیں پایا۔ جس طرح تہذیب میں ہے۔ ﴿2﴾یہ مرفوع نہیں ہے یہ رسول اﷲا کا فرمان نہیں ہے۔ بلکہ حضرت عمرص کے اجتہاد سے ہے۔ یہ ان کا فعل وقتی مصلحت کیلئے تھا جس کو انہوں نے اس وقت راجح سمجھا، یہ بیانِ مسئلہ نہیں تھا۔(شبیراحمد عثمانی ،فتح الملہم شرح صحیح مسلم جلد 2صفحہ 223)

امت مسلمہ امت توحید ہے جس نے ہر دور میں کفرو شرک کے اندھیرے مٹانے میں جاندار کردار ادا کیا ہے ہم عقیدہ توحید کے پلیٹ فارم سے وہی دعوت عام کرنا چاہتے ہیں جو تمام انبیاء کرام علیم السلام کی مشترکہ دعوت ہے ۔یہی دعوت دینا کے سب سے بڑے انقلاب کا باعث بنی ہے ۔اسی سے ہر دور میں کانٹے گلاب اورذرے آفتاب بنتے رہے۔ آج کے بے چین اور مضطرب ماحول کے لیے عقیدہ توحید سیمینار ابر کرم ثابت ہو گا ۔افراد امت کو ہر گز مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ باطل کی طرف سے رکاوٹیں عارضی ہیں بلآخر ہر طرف حق کا دور دورہ ہوگا ۔

کار کن عقیدہ توحید و رسالت کا پیغام لے کر گلی گلی اور نگر نگر پھیل جائیں آج کے اندھیروں کا مقابلہ توحید ورسالت کے نور ہی سے کیا جاسکتا ہے ۔معاشرتی ناہمواریوں کا علاج صرف اورصرف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے ۔دین اسلام ہی دونوں جہاں کی سعادتوں کا ضامن ہے اور وعدہ قرآنی کے مطابق یہ غالب آ کے رہے گا۔ادارہ صراط مستقیم پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے ملت کی متاع گراں مایہ کی حفاظت کیلئے تحقیقی سیمینار ز کا سلسلہ شروع کیا جس نے اسلام کی اعتقادی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ایک تابناک کردار ادا کیا ہے ۔اسی پر نورسلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے 23مارچ کو ہونے والا پانچواں مرکزی عقیدہ توحید سیمینار ملت کی نظریاتی پختگی میں جاندار کردار ادا کریگا ۔توہُّم پرستی اور الحادی سوچوں کا علاج صرف اورصرف اسلامی عقائد ہی سے کیا جا سکتا ہے ۔عقیدہ توحید سیمینار قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کی ایک تحریک ہے یہ سیمینار پاکستان سے دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے لیے کلیدی کردار ادا کرے گا۔
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118511 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More