تحریر: علی عمران شاھین
پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب میاں شہباز شریف نے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دورہ بھارت میں وہاں بھارتی
وزیراعظم من موہن سنگھ سمیت تمام بھارتی حکام پر یہ واضح کیا کہ جب تک
کشمیر، پانی اور سیاچن وغیرہ کے مسائل حل نہیں ہوتے، امن کا خواب ادھورا ہی
رہے گا۔ انہوں نے وہاں کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ 67 سال میں بھی
ہمارے درمیان حل طلب مسائل میں سے کوئی حل کی منزل تک پہنچ کر مکمل نہیں
ہوا۔ پھر معاملات آگے کیسے چل سکتے ہیں؟ ان کے اس بیان کے دوران وزیر پانی
و بجلی و دفاع خواجہ آصف کا بیان سامنے آیا کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی
پاسداری نہیں کر رہا ہے اور اس سے یہ پاسداری کروائی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔
میاں شہباز شریف کے اس بیان کی ہر پاکستانی دل سے حمایت و تائید کرے گا کہ
بھارت کے ساتھ حل طلب مسائل میں سے آج تک کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ
ہم تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہی سب کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض
کرتے ہیں کہ بھارت نے تو کوئی مسئلہ حل کرنے کے بجائے الٹا اس عرصہ میں
مزید مسائل بڑھائے اور الجھائے ہیں۔ دور کیا جائیں، عین اس وقت جب میاں
شہباز شریف بھارت کا دورہ کر رہے تھے، بنگلہ دیش میں قائم بھارت نواز اور
بھارتی اشاروں پر ناچنے بلکہ ان کی کٹھ پتلی حسینہ واجد کی حکومت پاکستان
سے وفا و محبت کے جرم میں اپنے ہی شہری عبدالقادر ملا کو تختہ دار پر لٹکا
رہی تھی اور بھارت کا ہائی کمشنر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کر رہا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف کے کشمیر کے بارے میں بیانات اورتحرک لائق تحسین ہے اور
ہم اس کی قدر کرتے اور اسے سلام پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا
چاہئے کہ ہمارے یہ بنیادی اور اہم ترین مسائل جس ملک کے ساتھ جڑے ہوئے اور
جس کے ساتھ حل طلب ہیں وہ تو ہمارا وجود ہی ماننے کو تیار نہیں۔ کیا 1971ء
میں یہ ہی دسمبر کا مہینہ نہیں تھا، جب بھارت کی فوجیں ہمارے مشرقی بازو کو
کاٹ رہی تھیں۔ بھارت نے کئی سال پہلے بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہاں
علیحدگی کی تحریک کو پروان چڑھانا شروع کر رکھا تھا اور پھر اگرتلہ سازش سے
لیکر مکتی باہنی کے قیام اور پھر بنگلہ دیش کی نام نہاد جلاوطن حکومت کو
تسلیم کرنے سے لے کر دنیا کے تمام ضوابط و اخلاق و قوانین کو روندتے ہوئے
ہماری سرحدوں پر چڑھائی کی۔اس کے بعد ہماری فوج سے ہتھیار ڈلوانے، 90ہزار
جوانوں اور پاکستانی لوگوں کو قیدی بنانے تک کے خوفناک واقعات و حالات کیسے
بھولے جا سکتے ہیں۔ بھارت تو آج بھی ہمیں دولخت کرنے کا باقاعدہ جشن فتح
مناتا ہے ۔اس سال بھی اسی سلسلے میں ایک خصوصی تقریب نئی دھلی میں منعقد کی
گئی تھی جس کا نام ــ وجے دیواس یعنی بڑی فتح رکھا گیا تھا اور اس میں اعلیٰ
فوجی حکام کے ساتھ بھارتی زیر دفاع نے بھی خصوصی شرکت کی تھی۔ تو کیا ان
حالات میں اس کے ساتھ معاملات سیدھے ہو سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔
بھارتیوں کی سیاسی پالیسی عجیب ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کے لئے
تجارت کے سارے راستے کھول دے۔ بھارتی مصنوعات سے اپنی مارکیٹیں اور بھارتی
زرعی اجناس سے اپنی منڈیاں بھرے، بھارت کو افغانستان اور پھر وسط ایشیا تک
جانے کے لئے اپنا زمینی راستہ دے دے۔ وسط ایشیا سے گیس لائن کو اپنے ملک سے
گزار کر اس کے ملک کے اندر تک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ بنانے اور رکھنے کی
ضمانت کے ساتھ پہنچانے کا اہتمام کر دے۔ کشمیر اور کشمیریوں کی حمایت و
تعاون کا نام تک لینا چھوڑ دے۔ اگر بھارت اس کا پانی بند کرتا ہے تو اس کا
کہیں تذکرہ نہ کرے۔ سیاچن سے فوجیں ہٹا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بھارت کے
ہی حوالے کر دے۔ اور کبھی کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے نئی دہلی سرکار
بھارتی عوام یا وہاں کے کسی بھی طبقے کو معمولی سی بھی تکلیف پہنچتی ہو۔ بس
اس طرح دوستی ہو گی اور پھر امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔
اب بھلا کوئی انصاف سے بتائے کہ کیا اس طرح ہونا ممکن بھی ہے کہ نہیں۔ اور
کیا پاکستان کیلئے یہ سب کچھ کرنا ممکن بھی ہے کہ نہیں۔ ظاہر ہے اس کا جواب
تو ’’نہ‘‘ میں ہی ہو گا تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنا حق لینے کیلئے
آپ کبھی کمزور زمین پر کھڑے ہو کر اور کمزور موقف کے ساتھ کامیاب نہیں
ہوسکتے۔ بھارت نے اگر 67سال میں ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا تو آپ آخر سمجھ
کیوں نہیں جاتے کہ بھارت مسئلے حل کرنا ہی نہیں چاہتا، تو پھر ہم کیوں اس
کی دوستی کی خاطر مرے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں اس سے ہر صورت بلکہ اپنا سب
کچھ اس کے حوالے کر کے بھی بس صرف اور صرف دوستی کے تذکرے ہوتے اور اس کی
کاوشیں ہوتی ہیں۔ یہ تماشا اب حقائق ہر طرح سے سامنے آنے کے بعد بند ہو نا
چاہئے اور اب بھارت کے ساتھ ہر لحاظ سے دو ٹوک بات کی جائے کہ وہ ہمارے
حقوق ہمیں دے، ورنہ خواہ مخوا کی دوستی اور امن کی پکار کسی طرح کامیاب
نہیں ہو سکتی۔ان حالات میں تقاضہ ہی یہ بنتا ہے کہ ہم اپنے حق کے حصول
کیلئے خود مضبوط موقف پر کھڑے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ہماری نہ
ہو۔
یا بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت انتہائی مکار لیکنساتھ ہی بزدل ملک
ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس کا سری لنکا جیسے ملک کے سامنے لیٹ جانا ہے
جہاں اس نے پہلے تامل باغیوں کی مدد کی اور پھر سری لنکن حکومت کا انتہائی
سخت و دلیرانہ موقف دیکھ کر ان کے خلاف سری لنکن حکومت کی مدد کے لئے میدان
میں آ گیا۔ سری لنکا تو محض سوا کروڑ افراد کا چھوٹا سا ملک ہے جبکہ
پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی عسکری و ایٹمی قوت ہے۔ اگرہمارے حکمران مضبوطی
سے کھڑے ہو جائیں تو مسائل حل کرنا مشکل نہیں ہو گا لیکن افسوس کہ یہ بات
آج تک کسی حکمران کوسمجھ نہیں آ سکی۔اب حالات یہ ہیں کہ امریکی اشاروں پر
بھارت اب پاکستان کو گھیرنے کے لئے افغانستان میں اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔
امریکہ اور اس کے سارے اتحادی اس کام کے لئے اس کے پشت پناہ ہیں۔ بھارت نے
اب افغان فورسز کو بھی تربیت دینے اور اپنے ساتھ جنگی مشقوں میں شریک کرنے
کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے اور اب وہ افغان فوج کو ہتھیار بھی فراہم کر رہا
ہے جو کہ صرف اور صرف ہمارے لئے خطرناک ہے۔ ہمیں اس خطرے کا بھی تدارک کرنا
ہے۔ افغانستان میں لڑنے والی جہادی قوتوں نے بھارت کو وہاں کبھی قدم جمانے
کا موقع نہیں دیا، یہ ان کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے اور ہمیں اس روش و
پالیسی کو لے کر چلنا ہے کیونکہ اس سے ہمارا دفاع مضبوط اور اس سے ہمارے
مسائل حل ہوں گے۔ دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ حق تبھی ملتا ہے جب آپ اس کے
لئے میدان میں پوری قوت کے ساتھ آئیں ۔ورنہ پہلی پالیسیوں کا انجام ہمارے
سامنے ہے۔ |