قارئین محترم کو سال ۲۰۱۴ء مبارک
ہو۔۔۔!!! یاد ماضی سے پہلو تہی ممکن نہیں مگر مستقبل سے مایوسی گناہ سے کم
بھی نہیں ، آج پوری قوم نئے سال کا آغاز کررہی ہے ،یہ خوش بختی ہے کہ اﷲ
تعالیٰ نے ہمیں زندہ رہنے کا موقع بخشا،اقتدار و طاقت،دولت و عزت ، شہرت و
اختیار سبھی اﷲ تعالیٰ کی عنایات باعث آزمائش رہی اور رہیں گیئں،انسان دنیا
میں جو وقت گزارنے آتا ہے اس کا جامع فلسفہ یہ ہے کہ وہ کچھ بو ئے گا وہ
اسے اور آنے والی نسلوں کو کاٹنا پڑے گا۔احتیاط و احساس بنیادی طاقت ہیں جس
پر چل کر عملی زندگی اور بعد از حیات اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس وقت وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے اس کا مختصر خلاصہ
مہنگائی،بیروزگاری،غربت و جہالت،بد عنوانی،بد نظمی،سطحی و روایتی منصوبہ
بندی،توانائی کی بڑھتی ہوئی کمی اور ان بحرانوں سے جنم لینے والے دہشتگردی
و یگر جرائم نے معاشی و سماجی ناہمواری پیدا کر رکھی ہے۔بلا مبالغہ پی پی
پی کی سابق حکومت نے پوری قوت سے ان حالات کا مقابلہ کیا مگر پیدا شدہ
امراض کا کسی بھی سطح علاج ممکن نہ ہو سکا ،ماضی کے حکمرانوں کی جاہ پسندی
اورہوس اقتدار نے عوام کو سکتے میں لا کھڑا کر دیا۔ان ہی ورثہ میں ملے ہوئے
بحرانوں کا موجودہ جمہوری حکومت کو بھی سامنا ہے۔عوام کی غالب اکثریت نے
گذشتہ عام انتخابات میں جن امیدوں اورسنہرے خوابوں کی تعبیر وزیر اعظم میاں
نواز شریف کو قرار دیا اور انہیں نجات دہندہ سمجھ کر ’’شیر‘‘ بنایا،یقیناً
عوام کی خواہشات کا مرکز و محور ہے کہ وہ ملک کی موجودہ صورت حال کو بدلنے
کی قسم اٹھا بیٹھے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو ’’چانس‘‘ دیا ہے کہ
وہ کچھ تاریخی اقدامات کر لیں ۔اگرچہ حکومت کی ششماہی کارکردگی تسلی بخش
نہیں مگر نامیدی حرام ہے ۔مسائل و معاملات اس قدر گمھبیر ہیں کہ ان سے
نکلنے کے لئے وقت درکار ہے۔الٰہ دین کا چراغ لاڑکانہ اور نہ ہی رائیونڈ میں
ہے کہ آن واحد میں سب تبدیل ہو جائے،مگر اس کا یہ مطلب و معنی بھی نہیں کہ
’’سب ٹھیک ہے‘‘کے فارمولے پہ وقت کا ضیاع کیا جائے۔
ملک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عنان حکومت ایک ایسے شخص کے ہاتھ ہے جو سیاہ و
سفید ،مشکلات و مسائل اور عروج و زوال کے اسباب و محرکات سے آگاہی رکھتا
ہے۔لیکن قدرت نے جن حالات میں اس بار ’’شیر‘‘ کو کچھار سے باہر شکار کے لئے
جن اسباب و معالات سے واسطہ پڑا ہے وہ ماضی سے قدرے مختلف ہیں ۔اب عوام
بیدار ہو چکی ہے ،بیداری نے ہی پانچ سالہ پہلی جمہوری حکومت کو جو ’’صلہ‘‘
دیاوہ س’’مجھداروں‘‘ کیلئے کافی ہے۔پی پی پی پی کی حکومت عوام کو ریلیف
نہیں پہنچا سکی مگر ششماہی عرصہ میں جس انداز سے عوام کو مہنگائی نے بلڈوز
کیا ،جس ردعمل سے چار سال بعد پی پی والوں کو سامنا کرنا پڑا وہ تیزی کے
ساتھ ن لیگ کے گلے پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔عمران خان ،ڈاکٹر طاہر القادری
اور اب مشرف کیس کا تکونی محاذ بہت سے خطرات و خدشات پیدا کر رہا ہے۔آخریہ
ردعمل کیوں اس قدر تیزی سے ابھر رہا ہے اس بارے ’’کریک ڈاؤن ‘‘ میں آئندہ
قارئین کو آگاہی ہو گی،تاہم خلاصہ کل یہ ہے کہ اب حکمرانوں کو آنکھیں کھول
دینی چاہئیں ۔حکمرانی کا تصور بدلنا پڑے گا۔پانچ سال کی آس و امید پر قوم
کو تختہ مشق بنانے کی روایتی حکمت عملی ترک کرنا ہو گی۔اب ’’آج کا دن
‘‘سمجھ کر حکومت کرنے کا سلیقہ اختیار کرنے سے ہی زندہ رہنا پڑے گا ورنہ
پروٹوکول ،لاؤ لشکر ماضی کے حکمرانوں کا دیکھ لیں ،جنہیں ہمارے لئے ایسا
مثال عبرت بنا دیا کہ ہم راہ راست اختیار کر سکتے ہیں۔
بلاشبہ خرابیاں ،خامیاں اس قدر تناور ہیں کہ انہیں جڑ سے اکھاڑنا بڑا مشکل
ہے مگر یہ بات بھی ذہین نشیں رکھیں کہ تاریخ میں جن بڑی شخصیات کا نام عزت
و احترام کے لائق سمجھا جاتا ہے انہوں نے بد تر حالات میں اپنی وم کو
خوشحالی کی جانب گامزن کیا۔انقلابی بننے کیلئے بد تر حالات کا ہونا ضروری
ہوتا ہے ۔حکمرانوں کو غیر عوامی مسائل جن کا عوام کے مفادات سے کوئی تعلق
نہیں ان سے باہر نکلنا پڑے گا۔مثلاً جنرل پرویز مشرف کیس کا براہ راست
مہنگائی ،بے روزگاری ،بد امنی ،دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ،طاہر القادری
کی لاہور ریلی کے خلاف کیسز کا کوئی پبلک ایشو نہیں،سندھ ،آزادکشمیر ،خیبر
پختونخوا ،گلگت بلتستان حکومتوں کی متوقع اکھاڑ پچھار سے عوام کا کوئی لینا
دینا نہیں،شہید یا ہلاک کے فتوؤں کا عوام سے کیا تعلق،یہ سب نان ایشوز ہیں
جو حکمرانوں کی توجہ ہٹانے کیلئے پیدا کئے جاتے ہیں ۔یہ سادہ سی بات سمجھ
لینے کی ضرورت ہے کہ حکمرانوں کو ’’کچھ ڈیلیور‘‘کرنا ہوگا،ورنہ ان کے گرد
جو جال پروئے جا رہے ہیں اس پُر خطر صورت حال کا مقابلہ عوامی مفادات کے
تحفظ میں مضمر ہے۔
حکومت نے بے روزگاری کے آگے بند باندھنے کیلئے یوتھ سکیم کا اجراء کیا جو
لائق تحسین امر ہے مگر یہی کافی نہیں ،ہمارے قومی اداروں کی مجموعی
کارگردگی لمحہ فکریہ ہے ، کرپٹ فافیا نے ایسا حصار بنا رکھا ہے کہ نظام کار
مفلوج نظر آتا ہے ۔اگر کھڑے جہاز کا لاکھوں روپے روزانہ خسارہ ہو تو خود
اندازہ کریں کہ ہمارے اداروں کی کیا کارکردگی رہ جاتی ہے۔ریلوے کی خستہ
حالی سب کے سامنے ہے اسی طرح جسے بھی دیکھیں ہر طرف لوٹ سیل لگی دکھائی دے
گی۔اس خرابی کو پکڑ کر نظام بدلنا پڑے گا۔ وزراء اعلیٰ پنجاب اور کے پی کے
نے موثر انداز سے کرپٹ مافیا کو نشانہ بنا رکھا ہے جو مستحسن اقدام ہے۔وزیر
اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پٹوار نظام کو کمپیوٹرائز کرنے کا بہترین
فیصلہ کیا ہے مگر یہ سب کا وشیں پانی کا ایک قطرہ ہیں جبکہ آگ نے گھیرا ہوا
ہے جس سے نکلنے کیلئے ثابت قدمی،ہوشمندی اور دلیری کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ
حکمران ماضی کے تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی اختیار کریں
گے ،نیا سال شروع ہوتے ہی ہر روز کی بنیاد پر عوام کو ان کی خواہشات کے
مطابق حکمران ’’آج کا دن‘‘ سمجھ کر اپنے اقدامات سے عملی طور پر باخبر
رکھیں گے ۔ |