اکثر حضراتسابق وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اقتدارکا پجاری کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ
اقتدار حاصل کرنے کے لئے سکندر مرزا اور ایوب خان کے ساتھ گیم کی ۔فوجی
جنرلز کے ساتھ ہمیشہ تعلقات بہتر رکھے۔اسی وجہ سے فوج انہیں اقتدار حاصل
کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔وہ ہمیشہ فوج سے خوف زدہ رہے،1973 کے آئین میں
اسی وجہ سے آرٹیکل 6کی شمولیت کی گئی ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بھٹو مرحوم
لیڈر بننے کے قابل نہیں تھے؟ایسا کہنا ناانصافی ہوگی۔بعض لوگ اپنی اغراضکے
لئے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بعض اپنے نام کو تاریخ میں لکھوانے کے
لئے اس مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں ،جہاں اپنی صلاحیتوں کے بِل پر ملک و قوم
کے لئے کچھ کر گزرے تاکہ انہیں مستقبل میں دیر تک یاد رکھا جائے۔دنیا کی
انہیں قیادتوں میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم،محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام آتا
ہے ۔ جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بے شمار قربانیوں کے ساتھ سنگین غلطیاں
بھی کیں ہیں،لیکن ان کا مقصد ملک و قوم کو نقصان پہنچانا ہر گز نہیں کہا جا
سکتا۔
بھٹو مرحوم کے دور کے بعد اگر ملک کی قیادتوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہر
جانب ذاتی مفادات ہی نظر آتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ کے تمام ریکارڈ ٹوٹے ۔اپنے
مفادات کو حاصل کرنے کے لئے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا جہاں بیرونی و
اندرونی دشمن طاقتیں کہنے لگیں ہیں کہ پاکستان کے جلد ٹکڑے ہو جائیں
گے۔بھارت ہمیشہ سے ہمارا دشمن رہا ہے ،جس نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں
کیا ،وہ ابھی بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔اسے خبر نہیں کہ پاکستان کا تو
خدا وارث ہے،اس کا قائم رہنا زیادہ مشکل ہے،جو کہ شاید پاکستان کے لئے بھی
کوئی اچھی بات نہیں ہے۔اسی لئے ہر پاکستانی قیادت نے بھارت کے ساتھ تعلقات
بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ۔
ہمارے ملک کے بہت سے مسائل ہیں جن کا جلد حل کرنا ملک کی سلامتی اور امن کے
لئے بہت ضروری ہے ۔فرقہ واریت نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا ۔اس کی ایک
وجہ تو مٹھی بھر لوگوں کے ذاتی مفاد ہیں جنہیں بیرونی اور اندرونی دشمن
عناصر ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں،لیکن اس مسئلہ کو حل
کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔با اختیار شخصیات کی عدم توجہ کی وجہ سے ہر
چھوٹا مسئلہ بڑا ہوتا جاتا ہے۔اقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں دور اندیشی کا
فقدان ہونے کی وجہ سے گمبھیر صورتحال بن جاتی ہے۔یہ ذوالفقار علی بھٹو
مرحوم جیسی قیادت تھی جس نے قادیانیوں کا مسئلہ حل کیاتھا۔عرصے سے سنی،شعیہ
مسئلہ طول پکڑ رہا ہے لیکن حکومت بے بس نظر آتی ہے ۔اس کا حل نکالنے کی
بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔دلیرانہ
اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔اگر ریاستی مفاد میں ان کو اپنے طریقے سے مذہبی
رسومات عبادت گاہوں کے اندر رہ کر ادا کرنے پر زور دیا جائے ،اس کے لئے
دونوں جانب مزاکرات ،مشاورت یا سختی کوئی بھی طریقہ اپنانا چاہئے،تاکہ بے
گناہ لوگوں کی جانیں بھی بچیں اور ملکی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آئے۔ اگر سب
کو خوش رکھنے کی پالیسی ہو تو پھر ریاست کی رِٹ کہا رہے گی۔
اسی طرح حکومت پنجاب کی جانب سے تین اضلاح میں واقع 10سرکاری تعلیمی اداروں
کو جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا،
قادیانی جماعت کو دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہاں
80فیصد مسلمان طلبہ متاثر ہونگے اور اس علاقے میں امن و امان کی صورت حال
انتہائی خطرناک ہو گی۔ اب اس طرح کے فیصلوں سے مذمت توہو گی ،ملک گیر
تحریکیں بھی چلیں گیں ،لیکن برسرِاقتداراپنے مفاد اور طاقت کے نشے میں چند
لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایسے فیصلے کرتے ہیں ، جن سے ان کو آخر میں
شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف اور عمران خان کو طالبان حامی قرار
دے دیا ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بزدل خان کا خطاب دیتے ہوئے
حکیم اﷲ محسود کا غمزدہ کہا۔ابھی بلاول صاحب نے باقاعدہ سیاست میں قدم نہیں
رکھا اور تنقید برائے تنقید کی پالیسی اپنا لی ہے۔انہیں شاید بالکل اندازہ
نہیں کہ ملک کہاں کھڑا ہے،یہاں بیانات یادوسروں کو نیچا دکھانے کی سیاست
نہیں بلکہ یکجہتی کی ضرورت ہے۔
تمام سٹیٹ ہولڈرز کا سر جوڑ کر سوچنے کا مقام ہے۔سیاست کے لئے بہت وقت مل
جائے گا۔اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے جدوجہد کی بجائے یہ کہنا کہ عوام کو
سابق صدر زرداری کا شکریہ کرنا چاہئے کہ بے نظیر بھٹو کی لاش صحن میں پڑے
ہونے کے باوجود پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم ملک
توڑ سکتے تھے نہیں توڑا ۔آپ لوگوں پر احسان کیا ہے،کیونکہ عوام کو بے وقوف
بنانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یعنی اگر ضرورت پڑی تو ایسا کر سکتے
ہیں۔ اب یہ ان سے کوئی کہلوا رہا ہے یا خود کی سوچ ہے ،انتہائی غلط روش ہے۔
ہمارے ملک کو اس موروثی سیاست نے سنگین نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہم 20کروڑ
عوام کی قیادت کے لئے کن لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں یہ سوچنا ہوگا……!
موجودہ حکمرانوں کے لئے عوام نے ان کی خواہش کے مطابق انہیں بھرپور کامیابی
دلوائی لیکن 7ماہ میں عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری گیس کے بحران اور بے
شمار مسائل بدلے میں ملے۔عوام بے حال ہو کر رہ گئی ہے،لیکن خوشامندیوں کے
نرغے میں ’’سب اچھا‘‘کی آواز سننے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔کوئی سسٹم نہیں
، چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ ہو تو وزیر اعظم ، وزیر اعلٰی پنجاب یا ان کے کسی
رشتے دار کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ ان تک رسائی نا ممکن ہے ،ایسے
حالات میں بے بس عوام کیا کرے؟سوائے خود کشیوں کے۔
اچھی قیادت وہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے ملک اور عوام کا سوچے،اپنے پہلے
قائدین کی غلطیوں کو اچھال کر اپنی غلطیوں کو دبانے کی بجائے ان سے
سیکھے،تاریخ غلطیوں ،کوتاہیوں سے بھری پڑی ہے،اُن سے سبق سیکھ کر دہرانے کی
بجائے بچا جائے۔انہیں حکمرانوں کی بار بار غلطیوں کو دہرانے کی وجہ سے عوام
میں وہ جذبہ اور وہ اضطراب باقی نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا، لیکن
ابھی لوگ بالکل ختم نہیں ہوئے جن کے دلوں میں جذبۂ حبّ الوطنی موجود ہے ۔
اسی طرح کے لوگ جب تک زندہ ہیں قوم باطل کے خسو خاشاک سے نہیں دب سکتی ۔بہت
سے دردِ دل رکھنے والے تحریریں ، مشاہدات و تاثرات کرتے رہتے ہیں،لیکن ان
کی نظریں مشاہدے سے سیر ہوتیں ہیں ،نہ دل اپنے تاثرات کو دوسروں تک پہنچا
کر مطمئن ہوتے ہیں ،بلکہ ملک و قوم کے حالات انہیں اطمینان قلب بخشنے کی
بجائے زیادہ افسردہ کر دیتا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں عقل و خرد بصیرت وآگہی
رکھنے والی قیادت ملے ،جن کے دلوں میں انسانی سربلندی کے لئے تڑپ ہو ،جو
قوم کو بے نظیر و بے مثل بنا دے،مگر افسوس ابھی تک ایسا ہو نہیں سکا۔ |