بنگلہ دیش میں خانہ جنگی کا خطرہ

بھارت نواز حسینہ واجدکی جانب سے محب پاکستان عبدالقادر ملا کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بنگلا دیش احتجاج اور مظاہروں کی زد میں ہے۔ بدامنی کے باعث سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے مسلسل بند رہنے سے ملکی معیشت کا جنازہ نکلنے کو ہے۔بنگلہ دیش کی تاجر برادری احتجاج کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔پورا ملک مفلوج ہوکر ر ہ گیا ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہروں میں دن بدن تشدد بڑھتا جارہاہے۔
حکمران جماعت کی انتقامی کارروائیوں کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں رواں سال اب تک 273 لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں سے بیشتر افراد آخری دو ماہ حکمران جماعت کے مسلح کارکنوں اور پولیس کی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ذرائع کے مطابق حسینہ واجد اپنی شکست سے بچنے کے لیے فسادات کے ذریعے بنگلا دیش کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کی سازش کررہی ہے۔عوامی لیگ کے مسلح کارکن اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماو ¿ں کے گھروں پر حملے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جوں جوں حسینہ واجد کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کا مقررہ دن 5جنوری قریب آرہا ہے، توں توں احتجاج، ہڑتالوں اور جلاﺅ گھیراﺅ میں مزید اضافہ ہورہا ہے اور ہلاکت خیز کیفیت بڑھ رہی ہے ،کیونکہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاءکی سربراہی میں 18جماعتی بنگلا دیشی اپوزیشن اتحاد کا مطالبہ ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل شیخ حسینہ واجد کی حکومت مستعفی ہو جائے اور ایک عبوری حکومت کے زیر انتظام انتخابی عمل مکمل کرایا جائے۔ بی این پی کے ترجمان فرخ الاسلام کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ”حسینہ واجد کی حکومت میں الیکشن منصفانہ نہیں ہو سکتے ہیں، اس لیے انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ہم انتخابات کے شیڈول کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہوئے کہ جب تک ملکی سیاسی جماعتیں کسی سیاسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ جاتیں، تب تک انتخابی عمل معطل کر دیا جائے۔“شیخ حسینہ واجد عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کو مسترد کر چکی ہے ۔گزشتہ دنوں ایک کثیر الجماعتی کابینہ تشکیل دی تھی، جس میں زیادہ تر حکمران پارٹی عوامی لیگ کے ہی سیاستدان شامل تھے، بی این پی کو اس کابینہ میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی، تاہم اپوزیشن نے اس عبوری کابینہ کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

اپوزیشن اتحاد نے اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے تک الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بائیکاٹ اتنا موثر ہے کہ عوامی لیگ کو اپنے مقابل کرائے کے امیدوار بھی دستیاب ہونے مشکل ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حسینہ واجد کو اپنی اتحادی جاتیو پارٹی کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔اس بائیکاٹ کے باعث عوامی لیگ اکثر نشستوں پر اپنے مقابل امیدوار کی غیر موجودگی پر پریشان ہے۔بائیکاٹ کے اعلان کے بعد سے خالدہ ضیاءکو نظر بند کردیا گیا تھا، حکومت ان کو بلیک میل کرکے زبردستی الیکشن میں شریک کرانا چاہتی ہے، لیکن اپوزیشن نےحسینہ واجد کی ہٹ دھرمی کو قبول نہ کرتے ہوئے حکمران جماعت کے خلاف طویل احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ملک کے 64 میں سے 59 اضلاع میں فوجیوں کو تعینات کردیا ہے۔ فوج اور الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکار ملک بھر میں نو جنوری تک تعینات رہیں گے۔ حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اپوزیشن نے اتور کے روز ”جمہوریت کے لیے مارچ“ کے نام پر مارچ کیا،جس میں امید ظاہر کی جارہی تھی کہ لاکھوں افراد شریک ہوں گے،مارچ کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے سخت انتظامات کررکھے تھے،تقریباً گیارہ ہزار پولیس اہلکاروں اور ایلیٹ ریپڈ ایکشن کے افسران مارچ کو روکنے کے لیے دارالحکومت میں گشت کرتے رہے۔ پولیس نے سیکڑوں مظاہرین کو احتجاج شروع ہونے سے قبل ہی گرفتار کرلیا تھاجبکہ گیارہ سو مظاہرین کو اتوار کے روز گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر تیز دھار پانی پھینکنے کے ساتھ ساتھ فائرنگ کا سہارا بھی لیا۔ حکام نے ڈھاکا آنے والی بس، کشتی اور ٹرین سروس بھی معطل کر دی تھی۔ حکومت کے اس اقدام سے ڈھاکا ملک کے دوسرے شہروں سے عملاً کٹ کر رہ گیا تھا۔سپریم کورٹ اور پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنے والے اپوزیشن کے حامی وکلاءاور کارکنان کولاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مسلح عوامی لیگ کے غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ پولیس بھی اس تشدد میں عوامی لیگ کے مسلح لوگوں کا ساتھ دیتی رہی۔تصادم کے نتیجے میں متعدد افراد مارے بھی گئے۔نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے حکمران پارٹی کے حامیوں پر زور دیا تھا کہ وہ احتجاج کا مقابلہ لاٹھیوں سے کریں۔پولیس اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں نے مارچ سے پہلے اپوزیشن حامیوں کو گرفتار کرنے کے غرض سے ملک بھر میں چھاپے مارنے کے ساتھ ساتھ ٹرینوں اور بسوں کی بھی تلاشی لینے کے علاوہ ڈھاکا شہر کے داخلی رستوں پر خصوصی چیک پوسٹیں بھی قائم کی تھیں۔اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین ڈھاکا میں اپوزیشن جماعت کے صدر دفتر اور دیگر مقامات پر جمع ہونے کی کوششوں میں پولیس سے ٹکراگئے۔

جمہوریت مارچ سے اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاءنے خطاب کرنا تھا لیکن وہ کئی روز سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں،ان کو خطاب سے روکنے کے لیے حکومت نے بے شمار سیکورٹی اہلکار اور ریت سے بھرے پانچ ٹرک خالدہ ضیاءکے گھر کے باہر کھڑے کیے گئے تھے، تاکہ وہ اپنے گھر سے نہ نکل سکیں۔ برطانوی ہائی کمشنر روبرٹ گبسن نے ان سے گھر میں ہی ملاقات کی ہے۔ سیکورٹی فورسزنے سابق وزیراعظم اور اپوزیشن رہنماخالدہ ضیاکو مظاہرے کی قیادت سے روکنے کے لیے گھرسے باہرنہیں نکلنے دیا توخالدہ ضیاکی پولیس اہلکاروںسے لفظی جھڑپ بھی ہوئی۔ انہوں نے اپنے گھرکے گیٹ پرجمع ہونے والے اخباری نمائندوںسے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت غیرقانونی ہے اور جمہوریت مردہ ہوچکی ہے۔ اس لیے حکومت فوری طورپر مستعفی ہوجائے۔لہٰذا اتوار کے روز مارچ ناکام ہونے پر خالدہ ضیاءنے اگلے روز بھی مارچ کال دی۔پیر کے روز بھی حکومت مخالفین نے بھرپور احتجاج کیا،اس احتجاج میں پولیس اور حکمران جماعت کے ارکان نے مظاہرین پر تشدد کیا، جس سے سیکڑوں مطاہرین زخمی ہوگئے۔جماعت اسلامی کے ایک مقامی رہنما کو عوامی لیگ کے غندوں نے شہید کردیا۔دوسرے ر وز بھی تجارتی مراکز، ٹرانسپورٹ اور دوسرے ادارے بند رہے۔ مارچ کے دوسرے روز اپوزیشن جماعت بی این پی کی تین خواتین رہنماﺅں کو گرفتار کیا گیا۔ بی این پی کی نائب چیئرپرسن سلیمہ ہاشمی، اراکین پارلیمنٹ رشیدہ بیگم اور نواز حلیمہ کو سابق وزیراعظم خالدہ ضیاءکی رہائش گاہ کے سامنے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ احتجاج کے دوران عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے اپوزیشن مظاہرین میں شامل کچھ خواتین کی بے حرمتی کی اور ان کو زدکوب کیا۔دوسری جانب عوامی لیگ کے کارکنوں نے ڈھاکا میں انتخابات کے حق میں ریلی نکالی، اپوزیشن کے کارکن بھی میدان میں آگئے،ڈھاکا ہائیکورٹ کے باہربی این پی اور عوامی لیگ کی خواتین کارکنوں نے ایک دوسرے پر پتھراﺅ کیا۔ حکومتی اور اپوزیشن کارکنوں نے ایک دوسرے پر ڈنڈے بھی برسائے۔18جماعتی اپوزیشن اپنے فیصلے پر قائم ہے اورغیر معینہ مدت تک پہیہ جام ہڑتاک اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرچکی ہے۔حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں ہزاروں کارکنان کی گرفتاریوں اور حکومت کے تشدد کے باوجود اس ضد کو ماننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں،احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کے حالات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں،اگریہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بنگلادیش میں کانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.