بیماریوں کی وجوہات اور بچنے کے طریقے ؟

سائنس کی کبھی نہ ختم ہونے والی تحقیق جاری ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا کہ ہے اس صدی کے وسط تک وہ اس حد تک آگے جا چکے ہونگے کہ انسان پر بڑھاپا ہی نہیں آئیگا اور اسکے علاوہ یہ کہ انسان کے منہ سے نکلنے والی ہوا کے ذریعے اسکی بیماری کی شناخت ممکن ہو سکے گی۔تخلیقِ کائنات کا راز جانا جا چکا ، بگ بینگ کا تجربہ ہو چکا ، انسانی جسم میں موجود سیل کی وجہ سے اسکے تخلیق ہونے کاراز اور انسانی ڈی این بھی دریافت ہوچکا، انسان کی کاپی بنانا بھی ممکن ہوچکا، روبوٹک انسان بھی تخلیق کیے جاچکے، پر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا واقعی سائنس نے اتنی بہت سی ترقی کر لی ہے؟؟ ۔ کیا وجہ ہے کہ مذکورہ ایجادات کے ساتھ ساتھ انسان کو لگتی سینکڑوں قسم کی بیماریوں کا خاتمہ کیوں کر ممکن نہ ہوسکا ہے؟؟۔ جہاں حضرتِ انسان نے سائنس کی ترقی کی بدولت بہت سی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے وہیں آئے روز یہ پانچ چھ فٹ کا انسان نت نئی بیماریوں کا بھی شکار بھی ہوا چلا جارہا ہے۔ ایک بیماری کی دوا ایجاد ہوئی تو ایک نئی پیدا ہو جاتی ہے۔ کہیں چھ طرح کا یرقان ہے تو کہیں ایڈز، کہیں نئی طرح کا فالج تو کہیں دوائیں پلانے کے باوجود پولیو کی دوبارہ ایجاد یا۔ ایک حفاظتی ٹیکہ لگوا لیا جائے تو کئی روز بخار نہیں جاتا، جسم اکڑ جاتا ہے اور انسان اپنے سے انسان کو کھانے کو دوڑتا ہے ۔ خصو صا چھوٹے بچوں کو حفاظتی ٹیکہ لگوا دو تو تین روز بخار نہیں اترتا ، بچہ گود سے نہیں اترتا ۔ یرقان کے علاج کے لیے سال بھر ٹیکے لگوا لگوا کر اچھا بھلا انسان ادھ موا ہوجاتا ہے اور کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ مگر ڈاکٹروں کے بقول اسکا وائرس پھر بھی نہیں مرتا، موزوں موسمی حالات ملتے ہی دوبارہ حملہ آور ہو جاتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بیماری دسیوں ٹیسٹ کرانے کے با وجود بھی ڈاکٹر وں کی سمجھ میں ہی نہیں آتی یا پھر ڈاکٹر خود ہی جواب دے دیتے ہیں کہ مریض لا علاج ہے۔ کینسر کا کوئی مستقل علاج نہیں۔ کینسر کا مریض درد سے تڑپتا ہے اور علاج کے دوران پورا جسم فارغ البال ہوجاتا ہے،مریض چند سال بعد اﷲ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ انگریزی دوائیں ایسا ری ایکشن کر جاتی ہیں کہ انسان الٹا مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ ہارٹ، بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر مستقل امراض کی دوائیں کچھ عرصہ بعد اپنے اثر ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات نزلہ کھانسی میں بھی آدھا درجن دوائیں لکھ دیتے ہیں کہ کوئی تو لگے گی۔ دل، شوگر ، بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد، فالج وغیرہ کی دوائیں روزانہ تینوں ٹائم روٹی کھاؤ نہ کھاؤ دوائی کھانی پڑگی ہے۔اسی طرح ڈیپریشن ، ٹینشن، انگزائیٹی کی دوا سالوں کھانی پڑتی ہے، بیماری پھر بھی نہیں جاتی، الٹا انسان پھول کر کپا ہو جاتا ہے ۔ یا پھر دوائی چھوڑو تو وہی بیماری دوبارہ سے جسم پر ڈیرہ جما لیتی ہے۔

آخر کیا و جہَ؟آخر یہ کونسی سائنس اور ترقی ہے جو کہ چاند پر تو پہنچ گئی ، چاند پر عام آدمی کے لیے شٹل بس چلانے اور مزید ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی بھی خواہاں ہے، بڑھاپا نہ آنے کی نوید ہے پرچھ فٹ کا ایک حضرتِ انسان اسکے قابو میں نہیں کہ آئے روز نت نئی بیماریوں کا شکار ہوتاجاتا ہے ۔ یہ سائنس انسان اور کائنات کی تخلیق کا راز تو جان چکی پر آجتک کوئی ایسی دوا کیوں ایجاد نہیں کر سکی جو انسانوں کو بیمار ہی نہ ہونے دے یاتمام بیماریوں سے پاک کر دے ۔ کیا وجہ ؟کچھ سمجھ آتا ہے آپکو؟

بیماریوں کی وجوہات کی بات کریں تو بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں مثلا:کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ حضرتِ انسان روز نت نئے وائرس ایجاد کر کے خود ہی ا پنے سے انسان کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے؟ گندے پانی کی فصلیں، سبزیاں اور پھل کھارہا ہے، پیداوار بڑھانے کے نام پر کھادوں اور کیمکل کی پرورش زدہ اجناس ، پھل اور جانور، دیگر ملاوٹ شدہ اشیاء ،تازہ کی بجائے فریج کی لگی فروزن اور باسی اشیاء اس کے خمیر کا حصہ ہیں، پھر صحت کہاں ؟ ۔ یا پھر کہیں قدرت کے کاموں میں مداخلت؟جی ہاں! میرے خیال سے مذکورہ تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت سے لڑائی اور اسکے کاموں میں عمل دخل اور اسلامی طور طریقوں سے فراربھی ہے۔ حدیثِ قدسی کے مطابق انسان کو اپنی چاہت کو اﷲ کی چاہت پر قربان کرنا ہے مگر انسان اپنی خواہش اﷲ پر مسلط کر کے اسکے حکم کی مسلسل خلاف ورزی کر رہاہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی کر رہا ہے پر پھر بھی اسکی رحمت کا طلبگار رہتا ہے ؟کیوں؟ اپنے اندر جھانکیے کہ اتنے بہت سے گناہ کرنے کے باوجود بھی کیا ہم ان تما م رحمتوں کے واقعی مستحق ہیں جو خداوند قدوس ہیں دے رہا ہے؟؟۔ اسکے علاوہ سہل پسندی ، حسد، جسمانی مشقت اور ورزش سے دوری بھی بیماریوں کی وجوہات میں شامل ہے۔

مزید دنیا داری کی دیگر وجوہات دیکھیں کہ انسان کتنی ذرا ذرا سی بات دل کو لگا کر اپنے آپ کو بیمار کرتا ہے کہ مثلا: قطرینہ کیف کہے کہ میں نے تیس سال تک شادی نہیں کرنی تو نوجوانوں کو یہ بات دل سے لگا کر بیمار ہونے کی کیا ضرورت؟۔ جیسے فلم میں سکرین بیوٹی ہوتی ہے اسی طرح یہ میڈیا کی صرف بیان بیوٹی ہے۔ یا یہ کہ وینا ملک سارا جہان چھوڑ کر سویڈن کے باشندے پر فدا ہو تو ٹینشن لینے کی کیا بات؟ ، شکیلہ ، جمیلہ کے گھر نیا فر نیچر اور فریج آگیا، صائمہ میاں کے ساتھ فارن ٹور پر تو جیلسی کیوں؟ لکشمی متل اپنی بھتیجی کی شادی پر پانچ ارب لگا دے تے سانوں کی؟ا عارفہ صدیقی بڈھے سے شادی کر کے لاپتہ ہو جائے تو کیا انہونی؟ فلاں کا عہدہ بڑھ گیا، فلاں کی ترقی جلد ہو گئی ، تو بھائی اسکی قسمت، جاوید کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو کیا پریشانی ۔ خالد اچھے ادارے میں ملازم ہے تو اسکی قسمت۔ بیٹیوں کی شادی نہیں ہو رہی، بیٹوں کو نوکری نہیں مل رہی، گھر والی اچھے مزاج کی نہیں، اولاد نافرمان اور نالائق، باس کی ڈانٹ ڈپٹ بہت زیادہ ۔ کاروبار نہیں چل رہا، یہ سب تو اﷲ کی مرضی کے کام اور ہمارے اپنے اعمال کی سزا یا پھر دنیا کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان تمام اور دیگر بہت سی باتوں کو دل سے لگانے کی بجائے اوپر اوپر ہوا میں اڑا دیں، ٹینشن بلکل نہ لیں۔

قصہ مختصر! آجکل کا انسان اگر دکھ پریشانیوں اور بیماریوں اور مصائب کا شکار ہے اور اتنی سائنسی ترقی کے بغیر بھی پنپ نہیں پارہا تو یہ سب اسکے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ اگر انسان نے بیماریوں سے بچنا ہے تو اپنی زندگی کو قدرت کے طور طریقوں کے مطابق گزار ے ، صاف ستھری ، سادہ اور صحت بخش خوراک استعمال کرے تو وہ ضرور بہت سی برائیوں ، بیماریوں اور گناہوں سے از خو د محفوظ رہ سکتا ہے۔اسکے علاوہ ایک جہاندیدہ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جہاں میدان آباد ہوں وہاں ہسپتال ویران اور جہاں میدان ویران ہوں وہاں ہسپتال آباد رہتے ہیں ۔ جدید تحقیق کہتی ہے کہ ورزش انسان کے لیے دواؤں سے زیادہ فائدہ مند ہے ۔ لہذ ا اپنی مصروف زندگی سے ورزش کے لیے چوبیس گھنٹے میں سے کم از کم ایک گھنٹہ ضرور نکالیں ۔درود شریف کے ورد کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تاکہ ہماری تمام بیماریاں اور پریشانیاں دور ہو سکیں۔اسکے ساتھ ساتھ اس ناچیز کو بھی اپنی دعاؤ ں میں یاد رکھیں۔ شکریہ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234127 views self motivated, self made persons.. View More