سال رفتہ میں بہت سی تبدیلیاں آئیں خیبر پختونخوا کی مقبول جماعتوں کو
شکست فاش ہوئی بڑے بڑے برج اُلٹ گئے، تحریک انصاف نے پشاور میں بڑی فتح
حاصل کی اسمبلی میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدل
دیا،البتہ جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ نواز کی پوزیشن
بہتر ہوئی۔فتح کا تاج تحریک انصاف کے سرسجاجس نے قومی وطن پارٹی ،جماعت
اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت بنائی لیکن
صرف چھ ماہ کے اندر ہی راہیں جداہوگئیں ۔ 2 وزراء پر کرپشن کے الزامات لگے
جو دونوں جماعتوں کے مابین جدائی کا سبب بنے ۔ صوبائی وزیرسمیت3 اراکین
صوبائی اسمبلی خودکش دھماکوں میں جاں بحق ہوئے ۔صوبائی وزیرقانون اسرار
اللہ گنڈاپور کی شہادت پی ٹی آئی کیلئے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوئی ،نئی
حکومت کو ابتداء ہی سے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی جیسے مسائل کا سامنا
کرناپڑا۔ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں ڈرون حملہ کیاگیا ۔حملے کیخلاف صوبائی
حکومت نے صرف امریکی قونصلیٹ کے سامنے احتجاج پر اکتفا کیاتاہم عمران خان
کی ہدایت پر نیٹوسپلائی کیلئے دھرنا شروع کردیاگیا جو5 جنوری تک جاری رہے
گا۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے باعث طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع نہ ہو
سکا۔ امن وامان کی مجموعی صورتحال میں قدرے بہتری آئی تاہم حکومت اس کا
خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھاسکی ۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں عوام کو سہولیات
دینے کے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا ،تبدیلی کا نعرہ لے کر آنے والے
حکمرانوں کی گزشتہ 7 ماہ کی کارکردگی غیر مطمئن بخش ہے، وزراء کی جانب سے
بیانات داغے جاتے رہے لیکن اپنے حلقے کے عوام سے ملنے کا ٹائم نہیں سابق
حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی بنکرز میں بیٹھے ہیں۔پی ٹی آئی کے
وزراء سے ملنا ناممکن ہو چکاہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاجی مظاہرے
بھی کئے گئے صوبے کی دیگر جماعتوں کیلئے گذشتہ سال کافی مشکل رہا ۔ پیپلز
پارٹی اندرونی اختلافات کے باعث سمٹ کررہ گئی، اس وقت جہاں دیگر جماعتیں
بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اے این پی اپنے اندرونی جھگڑوں
کو نمٹانے میں مصروف ہے ، بلدیاتی انتخابات کیلئے پشاور میں پہلی بار
بائیومیٹرک سسٹم کا تجربہ بھی کیاگیا لیکن اس میں کئی خامیاں بھی سامنے
آئیں جنہیں دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ حکومت نے الیکشن کمیشن
سے بلدیاتی انتخابات بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کرانے کا مطالبہ کررکھا
ہے۔سیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہیں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے پشاور میں
اتحاد کا اعلان کیا ۔اپوزیشن جماعتوں اے این پی ،پیپلزپارٹی اور جمعیت
علمائے اسلام نے بھی صوبے بھر میں مشترکہ امیدوار سامنے لانے کا اعلان کیا
ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں حکمران اتحاد کو متحدہ اپوزیشن کاسامنا
کرناپڑسکتا ہے جماعت اسلامی،اے این پی اورپیپلزپارٹی اس سے قبل بھی دو
ادوار میں بلدیاتی نظام حکومت کا حصہ رہ چکی ہیں۔ تحریک انصاف کیلئے یہ
پہلا تجربہ ہوگا ،پی ٹی آئی یقیناسبقت حاصل کرنا چاہے گی ایک طرف بلدیاتی
انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام نے 26جنوری
کو مہنگائی اور لاقانونیت کیخلاف دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات
سے قبل اپوزیشن کا دھرناانتخابات پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ حکومت صوبے میں
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی اور مہنگائی کم کرنے میں خاطرخواہ کامیابی
نہیں حاصل کرسکی ۔ دھماکے معمول بن چکے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ بھی نہیں رک
سکی ۔ بھتہ خوری کا ناسور پشاور میں تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اب تک درجنوں
تاجروں سے بھتے وصول کئے جاچکے ہیں۔ بھتہ وصولی پولیس کیلئے درد سر بن چکی
ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی پولیس اورپٹواری کلچر میں
تبدیلی کا اعلان کیاتھا تاہم ان میں سے دونوں اعلانات کے زیادہ مثبت نتائج
سامنے نہیں آسکے۔قومی وطن پارٹی کی جانب سے بھی حکومت سے علیحٰدگی کے بعد
اس کی کارکردگی پر تنقید تیز ہوگئی ہے ،2014ء صوبائی حکومت کیلئے چیلنجنگ
ثابت ہوگا حکومت کو نہ صرف بدامنی، لاقانونیت،مہنگائی اور بدعنوانی کاخاتمہ
کرنا ہے بلکہ انتخابات سے قبل عوام سے کئے گئے وعدے بھی پورے کرنے ہوں
گے۔پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی دونوںجماعتوں کے انتخابی منشور میں تعلیم
اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سرفہرست تھی لیکن حکومت میںآنے کے بعد
نیٹوسپلائی کے خلاف دھرنا ہی ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور ایسا لگتا ہے
کہ باقی شعبوں میں اصلاحات کو سردخانے کی نذر کردیا گیاہے تبدیلی کا نعرہ
لگانے والے فوری تبدیلی نہ لاسکے تو انہیں ضمنی انتخابات میں اس کا خمیازہ
بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست این اے ون پر بھی پی ٹی
آئی کو شکست کا سامنا کرناپڑاتھا اور یہی صورتحال بلدیاتی انتخابات میں
بھی سامنے آسکتی ہے۔پی ٹی آئی کو قومی وطن پارٹی کی جدائی سہنے کے بعد اب
جماعت اسلامی کو نہایت خندہ پیشانی اور تدبرکے ساتھ اتحادی جماعتوں کو ساتھ
لے کر چلنا ہوگا،عمران خان کو اپنے وزراء کو صوبے میں رہنے اور عوامی مسائل
حل کرنے کی بھی ہدایات دینی ہوں گی وگرنہ پی ٹی آئی اور عوام کے مابین
فاصلے بڑھتے جائیں گے ۔ |