مودی کو ’کلین چٹ‘ کہاں ملی؟

27دسمبر کواحمدآباد کی ایک ذیلی عدالت نے گجرات میں 2002 کے فسادات کی ایس آئی ٹی رپورٹ کے خلاف ذکیہ جعفری کی پٹیشن کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ مذکورہ رپورٹ میں جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے عدالت کا خیال ہے کہ وہ مناسب (appropariate)ہے۔ ‘اس فیصلے پر میڈیا میں یہ شور مچا کہ مودی کو ’کلین چٹ‘ مل گئی ہے۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کم ہی مبصرین نے فیصلے کو پورا پڑھا ہوگا۔ اس فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ ایس آئی ٹی کا یہنتیجہ اخذ کرنا عدالت کی نظر میں درست ہے کہ گجرات فساد میں مودی کے رول کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔

ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں یا عدالت نے اگر یہ کہا ہوتا کہ مودی کو فساد میں ملوث ہونے کے الزام سے باعزت بری کیا جاتا ہے، تب ہم کہتے کہ عدالت سے مودی کو کلین چٹ مل گئی ۔ کلین چٹ دئے جانے اور پختہ ثبوتوں کی ’عدم موجودگی ‘میں ملزم کو مجرم قرار نہ دئے جانے میں بنیادی فرق ہے، مگر سنگھ نواز میڈیا نے اس فرق کوپس پشت ڈال دیا اور پھر یہ شور مچ گیاکہ مودی کو عدالت سے کلین چٹ مل گئی۔ حالانکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ چنددرچند وجود سے اب تک ریاست کے بے بس باشندوں کی خونریزی میں مودی کے رول پر گرفت نہیں ہوسکی ہے۔یہ کوئی عجوبہ نہیں، تاریخ عالم شاہد ہے کہ درجنوں حکمرانوں نے اپنے عوام پر ناقابل بیان مظالم توڑے ،ان کی لاشوں کے انبار لگادئے، مگر جیتے جی ان کو نہ ان کے مظالم کے لئے ذمہ دار قراردیا جاسکا اور نہ کوئی مواخذہ ہوا۔لیکن تاریخ نے ان کو کبھی معاف نہیں کیا ۔ چنانچہ جب بھی ان کا نام آتا ہے ان کے دامن کے داغ دھبوں کو ذکر بھی آتا ہے۔ مودی کا نام ابھی تک ایسے ہی حکمرانوں کی فہرست میں جڑا ہوا ہے۔محترمہ ذکیہ جعفری اور محترمہ تیستا سیتلواڈ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان دونوں خواتین نے ابھی تک نظام حکومت کی اس شقاوت سے ہار نہیں مانی ہے۔انہوں نے اعلان کیا ہے اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی جائیگی۔

اس کیس کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ استغاثہ نے گجرات فساد کی ’وسیع ترسازش میں‘ مودی کے رول پر اصرار کیا تھا، جب کہ ایس آئی ٹی نے’ فساد کی وسیع تر سازش‘ کے پہلو پر سرے سے کوئی چھان بین ہی نہیں کی تھی۔ وسیع تر سازش کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے گودھرا ٹرین آتشزدگی میں سنگھیوں کی سازش کا پردہ فاش کیاجائے اور اس کے بعد فسادات بھڑکانے اور کرانے میں مودی کے رول کو ثابت کیا جائے۔ جب کہ جانچ صرف اس پہلو پر ہوئی کہ فساد بھڑک اٹھنے پر مودی کے تحت انتظامیہ نے جس طرح کھلی چشم پوشی سے کام لیا، ان کی پارٹی اور پریوار کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کو مسلم کشی میں حصہ لیا ، اس میں خود وزیراعلا کی حیثیت سے مودی کا کیا رول تھا؟

فسادات کے بعد جو مقدمات قائم ہوئے، ان میں جس طرح کی جانچ ہوئی، جس طرح سرکاری وکیلوں نے ان میں عدالتوں کو گمراہ کیا اورجس طرح ایک کے بعد ایک کیس میں ملزمان بری ہوتے گئے ،اس سے مودی کی سربراہی میں گجرات انتظامیہ کا جانبدارانہ رول ثابت ہوچکا ہے۔ فسادات کی رودادوں سے بھی پولیس اورانتظامیہ کی جانبداری اور اس کے رول کے ثبوت ملے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کی نگرانی میں جب وہی کیس دوبارہ کھولے گئے اور ان میں مودی کے قریبی مایا بین کوڈنانی اور بابو بجرنگی جیسے ملزموں کو سزائیں ہوئیں، اس سے مودی سرکار کے جانبدارانہ رول کی مزید تصدیق اور توثیق ہوگئی ۔ اس کا منطقی نتیجہ اگر کچھ ہوسکتا ہے تو یہی ہے کہ ان سب کالے کرتوتوں کے لئے براہ راست اور بالواسطہ نریندر بھائی مودی ذمہ دار ہیں، ان کو عدالت میں مجرم قرار نہ دئے جانے سے کلین چٹ نہیں مل جاتی۔ یہی آواز ملک کے انصاف پسند طبقے کی بیرون ملک سے بھی آرہی ہے۔

آج نریندر مودی فرقہ پرستوں اور سنگھ پریوار کی آنکھوں کا تارہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اسی لئے نا کہ انہوں نے سنگھ کے مسلم دشمنی کے ایجنڈے میں رنگ بھردیا اور گجرات میں بڑی چاپک دستی سے مسلم اقلیت کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیا ۔ اب اگر وہ کچھ للو چپو اور ضیافت بعض مسلم لیڈروں کی کررہے ہیں تو اس سے یہ حقیقت بدل جانے والی نہیں اور ان کے دامن سے فساد کے داغ دھل جانے والے نہیں ہیں۔

زیرتبصرہ عدالتی فیصلے کے مطالعے سے ایک انکشاف اور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ معزز مجسٹریٹ نے مودی کی دفاع کرنے والے وکیل کی بعید از واقعہ دلیلوں کوہی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا اور جا بجا اس کے حوالے دئے ،جب کہ شکایت کنندہ کے مضبوط دلائل پر کوئی توجہ نہیں فرمائی۔ اس میں بھی کوئی حیرت کا پہلو نہیں۔ عدالتوں میں بھی تو آخر ہرفکر و ذہن کے کرسی نشین موجود ہیں۔ہمارے ملک میں عدالتی لڑائی دہائیوں تک چلنے کا ریکارڈ ہے۔ اس لئے اگر یہ لڑائی ابھی دس بیس سال اور چلیتو حیرت نہیں ہوگی۔ دیکھنے والے دیکھیں گے کہ ابھی اس میں اور کیسے کیسے اتارچڑھاؤ آتے ہیں۔ آخر ہماری عدالتوں میں ایسے منصف مزاج جج بھی تو ہیں جو دودھ کا ددودھ اور پانی کا پانی کردیتے ہیں، جیسا کہ نرودا پاٹیا اجتماعی قتل کیس میں ہوا ہے۔

اردو کا جادو
کرناٹک کے وزیراعلا سدارمیاہ نے پولیس کو عوام کے ساتھ شائستہ اور شریفانہ انداز اختیار کرنے کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے اپنی ریاست کی پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ عوام سے شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کے لئے اردو سیکھیں۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ (۳۱جنوری)کے مطابق وزیراعلا نے پولیس افسران سے خطاب میں کہا: ان کو اردو لازماً سیکھنی چاہئے، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ شائستہ اور مہذب انداز گفتگو کیا ہے ، جس سے عوام ان کے قریب آئیں اوروہ ان کے دل جیت سکیں ۔ اگر وہ اردو سیکھ لیں گے تو عوام کی تائید اور تعریف ان کو حاصل ہوگی۔ آپ ہرانسان کے ساتھ ایک جیسا ہی انداز گفتگو اختیار نہیں کرسکتے۔‘‘

کرناٹک کے وزیراعلا کی یہ اردو شناسی لائق صد تحسین ہے اور اس پر وسیع تر عمل آج ہمارے سماج کی اہم ضرورت ہے۔ اردو ایک بولی ہی نہیں بلکہ ایک شائستہ تہذیب بھی ہے۔اس تہذیب کو گزشتہ صدی میں تعلیم یافتہ غیر مسلم طبقوں نے بڑا ہی فروغ دیاتھا۔اردو تہذیب کی ایک نمائندہ ہستی پنڈت پنڈت گلزارزتشی دہلوی کا قول ہے کہ ایک زمانہ میں کائستھ برادری اردو تہذیب کی بڑی دلدادہ تھی اور شادی بیاہ کی رسموں میں یہ تہذیب نمایاں حیثیت رکھتی تھی ۔آج بھی شادیوں میں شیروانی کا چلن اسی تہذیب کی علامت ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہ تہذیب اور یہ روایات انحطاط پذیر ہیں۔ گزشتہ صدی کے نصف آخرکی دوتین دہائیوں میں درجنوں فلمیں اس لئے مقبول ہوئیں کہ ان میں اس تہذیب کی عکاسی کی گئی تھی۔ اردو غزل کی مقبولیت آج بھی ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں فلموں، سیریلس اور بچوں کے کارٹونس میں جو زبان استعمال ہورہی ہے ،وہ نہایت غیر شائستہ بلکہ بیہودہ ہے۔اس سے پورا معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تفنن طبع کی ان جدید سہولتوں کی زد مطالعہ کے ذوق پر بھی پڑی ہے حالانکہ معروف دانشور سید حامد کا کہنا ہے کہ ادب عالیہ کا مطالعہ تہذیب واخلاق کے گر سکھاتا ہے اور ذہنی افق کو بلند کرتا ہے۔بہرحال ہم جناب سدارمیاہ کو اس اردوشناسی کے لئے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں دیگر حکمراں بھی اس نکتہ پر توجہ دیں گے جو انہوں نے بیان کیا ہے۔

کیجریوال کی جگلری
ان دنوں اروندکیجریوال کا جادو عوام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔اس نئی طاقت سے کانگریس اور بھاجپا دونوں کے ہواس فاختہ ہوگئے ہیں۔انہوں نے دہلی میں وزیراعلا کا منصب سنبھالتے ہی اعلان کردیا کہجو پریوار یومیہ 677لیٹر سے کم پانی خرچ کریگااس کو اس کی قیمت ادا نہیں کرنی ہوگی۔ لیکن اگر یہ مقدار پورے مہینہ میں اگر ایک لیٹر بھی بڑھی تو پھر پورے پانی کا بل دینا ہوگا۔ اس سے پانی کی بچت کی عادت تو پڑیگی مگر عوام کی تکلیف دور نہیں ہوگی۔ دہلی میں مسئلہ پانی کی قیمت کا نہیں ، اس کی فراہمی کا ہے۔ بہت سی آبادیوں تک پانی پہنچا ہی نہیں۔دوسرے پانی کا استعمال سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ ہوتا ہے، کچھ لحاظ اس کا بھی رکھنا چاہئے ۔ قیمت میں کٹوتی کا فائدہ صرف چھوٹے خاندانوں کو ہی نہیں، درمیانی طبقہ کے بڑے مشترکہ خاندانوں کو بھی پہنچنا چاہئے۔ ان کے پاس اتنی گنجائش کہاں کہ کئی کئی گھر بنائیں ۔اس لئے ایک ہی گھر میں اور بسا اوقات ایک یا دوہی کمرے کے مکان میں میں کئی کئی پریوار گزارہ کرتے ہیں۔ ان کی فکر بھی ہونی چاہئے۔

انہوں نے 400یونٹ ماہانہ تک بجلی خرچ کرنے والوں کے لئے بھی 50فیصد سب سیڈی کا اعلان کیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران پارٹی نے یہ تاثردیا تھا کہ بجلی کی شرحیں غیر حقیقی طور سے بڑھائی ہوئی ہیں اور بجلی کمپنیوں کو ناجائز طور پر فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ اصل کام تو یہ ہے کہ بدعنوانی کا یہ دروازہ بند ہو۔ سب سیڈی اس کا علاج کہاں؟ یہ تو ایک طرح بدعنوانی پر بند لگائے بغیر سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالنا ہوا، جس سے یقینا ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈ ز کی دشواری پیدا ہوگی۔

ایک دوست کی یاد میں
یوپی کے سابق وزیر نواب کوکب حمیدخان آف باغپت کے ہم جماعت ، ہندستانی فوج کے سابق ڈپٹی چیف اورمسلم یونیورسٹی کے موجودہ وی سی، ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ کے سمدھی اور پشتوں سے خاندانی تعلق سے ہمارے قریبی دوست جناب ارشد علی خاں کا گزشتہ پیر عارضہ کینسر میں انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین آبائی قصبہ کوتانہ (باغپت )میں ہوئی۔عمر ساٹھ سال سے بھی کم تھی۔ ان کے والد ماجد مرحوم خانصاحب عبدالرشید خاں اپنے دور کے بڑے وضعدار، جری اور بااثر شخصیت تھے۔ ارشد ان کی واحدزندہ اولاد تھے اور اپنی ذات میں نہایت شریف ، مہذب اور لائق فرد تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا، ایک بیٹی ہے جو جنرل ضمیر شاہ صاحب کے بیٹے سے منسوب ہے۔اﷲ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل دے۔ آمین۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.