منزل کی تلاش

کتاب کا نام: منزل کی تلاش
مؤلف: مولانا عطاء اللہ شہاب
ناشر : دارالکتاب ' کتاب مارکیٹ ، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور
سن اشاعت: جنوری 2005ئ
قیمت: 140روپے

منزل کی تلاش اپنے موضوع پر انوکھی کتاب ہے۔ یہ سرگزشت ہے ان سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی جنہوں نے وادی بے آئین گلگت بلتستان کی شناخت اور وادی جنت نظیر کشمیر کے ساتھ شمالی علاقوں کی تاریخی و تقافتی اور مذہبی اورآئینی و قانونی اور جغرافیائی اتحاد واشتراک اور اٹوٹ انگ اور شہِ رگ کا رشتہ تلاش کرنے کے لیے تگ و دو کی ہیں۔ یہ کتاب روئیداد ہے گلگت بلتستان(سابق شمالی علاقہ جات) کے تمام سیاسی و مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کے اتحاد و اشتراک سے بنی جی بی این اے(گلگت بلتستانیشنل الائنس) کی اس جدوجہد کی جو انہوں نے دو نکاتی ایجنڈے پر اتفاقیہ طور پر کی ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کی اہل سنت عوام کی اکثریت اس ایجنڈے سے متفق نہیں ہے اور اہل سنت عوام کی نمائندہ جماعت '' تنظیم اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان'' نے روز اول سے اس ایجنڈے سے بھرپور اختلاف کیا ہے اور کھل کر اپنے خدشات و اشکالات اورپالیسی کا اظہار بھی کیا ہے۔ باوجودیکہ جی بی این اے میں اہل سنت عوام رہنماؤں کی ایک معقول تعداد شامل رہی ہے۔ بلکہ چیئرمین شب اور وائس چیئرمینی بھی اہل سنت کے حصے میں آئی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے گلگت بلتستان کی تاریخی اور تاریکی حیثیت کھل کر نظر آتی ہے۔عمیق نظر سے کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگرکشمیر پاکستان کا شہِ رگ ہے تو گلگت بلتستان کشمیر کا شہِ رگ ہے۔ یہ کتاب گلگت بلتستان کے نامور قلم کار' مفکر عالم دین' خطیب'کتاب دوست انسان اور علاقائی و ملکی حالات و سیاسیات پر نظر رکھنے والے عالم دین مولانا عطاء اللہ شہاب صاحب کے قلم معجز رقم کی تراوش ہے۔ انہوں نے بے حد خوبصورتی سے وفاق میں دھرتی بے آئین کا مقدمہ پیش کیا ہے۔یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ حالیہ دنوں میں مولانا موصوف نے گلگت بلتستان کی ائینی و جغرافیائی اور تاریخی حیثیت کے حوالے سے کچھ ایسے اخباری بیانات دیے جس اہل سنت عوام کو تو مایوسی ضرور ہوئی البتہ ا پنی کتاب میں بیان کردہ ا پنے مؤقف سے بھی واضح انحراف نظرآرہا ہے۔مولانا نے گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقوں کو پاکستان کا باقاعدہ پانچواں صوبہ بنانے کی واضح حمایت کی اور کھل کرا س امر کا اعلان بھی کیا۔ یہ مؤقف گلگت بلتستان کے کسی بھی اہل سنت پارٹی و آد می کا نہیں' اگرچہ ایک مخصوص سیاسی مکتبہ فکر اس آس میں جی رہاہے اور وقت بے وقت اس کا راگ بھی الاپ رہا ہے۔ مولانا شہاب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ، انہوں نے وقتی ضرورتوں اورمصلحتوں کی بنا پر یہ اعلان کیا ہوگا، ورنا نہ جمیعت علمائے اسلام گلگت بلتستان کا یہ مؤقف ہے نہ مرکزی قیادت و پارٹی کا یہ مؤقف ہے۔گلگت بلتستان کے حوالے سے مجھے ذاتی طور پر پاکستان کے نامور سیاسی ومذہبی لیڈروں کو سننے کا موقع ملا ہے۔ میں برملا کہ سکتا ہوں کہ ان علاقوں کی علاقائی' ملکی اور بین الاقوامی حیثیت سے جو واقفیت قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان کو ہے وہ کسی کو نہیں۔ غالباََ 2010 ء میں کراچی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال بحیثیت چیف گیسٹ مولانا نے کشمیر' گلگت بلتستان 'پاکستان اور اقوام متحدہ کی گزشتہ ساٹھ سالہ کارکردگی کو بیان کیا تھا اور اس متنازعہ علاقے کا جو حل پیش کیا تھا وہ نہ کسی سیاسی رہنماء کی بس کی بات ہے نہ ہمت۔مجھے امید ہے کہ مولانا شہاب صاحب جلد اپنے اس مؤقف سے برأت کا اظہار کریں گے۔ بہرصورت ''منزل کی تلاش'' میں آپ کو بہت کچھ ملے گا۔ اگر بنظر غائر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو گلگت بلتستان کی محرومیوں میں اپنوں کی ریشہ دوانیاں بھی نظر آئیں گی اور غیروں کی خرمستیاں بھی۔ علاقے کی سیاسی قیادت کی سستی ' نااہلی اور وفاقی قیادت و حکمران طبقے کی بدنیتی اور آفسر شاہی کی ستم کاری اور اہلیان کشمیر اوران کی عوامی و سیاسی سیادت کی بے مروتی اور ہر دور کے کشمیری حکام کا دوغلا پن بھی نظر آئے گا۔ کتاب کا انتساب بہت ہی نرالا ہے لو آپ بھی ملاحظہ فرمائے۔'' ہمالیہ' قراقرم اور ہندوکش کے دامن میں بسنے والی ''نئی نسل'' کے نام! جن سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں''۔ تو اس کتاب کا مطالعہ پیروں کے ساتھ جوانوں کو بھی کرنا ہوگا اور جوانوں میں مرد و زن کی کوئی تمیز نہیں۔ہر ایک خوشے سے مئے کشید کر سکتا ہے۔
٭٭٭
 
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434268 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More