مظفر نگر کے خونیں فسادات کے بعد فساد سے متاثر ہونے والے مصیبت زدوں کے
آلام اور مسائل پر ہمارے سپاہی قائدین اور خاص طور پر مسلمان قائدین کا
رویہ اندوبناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت ہے کیونکہ مصیبت زدہ افراد کو راحت
پہنچانے کی کوششوں سے زیادہ بیان بازی کا زور ہے۔ تمام سیاسی قائدین اور
خاص طور پر مسلمان قائدین کا رویہ نہ صرف غیر صحت مند ہے بلکہ تدبر سے خالی
ہے ۔ فساد متاثرین کی حالت زار پر اور ان کی مدد کے لئے عدالت عظمیٰ کے
واضح احکام کے باوجود اس بارے میں ریاستی حکومت کوئی خاص توجہ نہیں کررہی
ہے۔ اس المیہ کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ بے حسی بلکہ
بے غیرتی اور بے شری کا مظاہرہ (یو پی کی حکمران جماعت سماج وادی پارٹی کے
مسلمان وزرا، ارکان پارلیمان، ریاستی کونسل اور اسمبلی کے علاوہ دیگر
قائدین) کررہے ہیں۔ امداد کا جو کچھ کام ہورہا ہے وہ غیر سرکاری فلاحی
ادارے کررہے ہیں۔ ریاستی و مرکزی حکومتیں قطعی لا تعلق نظر آتی ہیں۔ قومی
میڈیا کو بھی مظفر نگر کے مسلمان مصیبت زدوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
اگر صرف بیان بازی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں گی کہ
برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے قائدین تمام برسر اقتدار جماعتوں کے قائدین
کی طرح اپنی حکومت کے دفاع میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے محض کھوکھلے
دعوے کررہے ہیں۔ حزب مخالف کے لئے حکومت اور سماج وادی پارٹی پر اعتراضات
اور تنقیدوں کا یہ بہر حال ایک سنہری موقعہ ہے۔ بی جے پی مظفر نگر کے
فسادات کے حوالے سے گجرات کے 2002ء کے فسادات میں اپنے جرائم کی اہمیت اور
سفا کی کو گھٹانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کانگریس اور بی ایس پی فسادات کے
ذمہ داروں کو سزادینے اور فساد کے متاثرین کی مدد کے مطالبات سے زیادہ
حکومت اور ایس پی پر تنقید کرنے کے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں
مثلاً یہ ’’غنڈہ راج‘‘ ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست ہے، ملائم نے مسلمانوں کو
دھوکا دیا وغیرہ وغیرہ۔ بہت کم بیانات میں کوئی مثبت یا مصیبت کے ماروں کے
لئے کوئی مطالبہ یا ان کی مدد کے لئے کوی معقول تجویز پیش کی جاتی ہے۔ ہر
طرف صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ ایک طرف ملائم سنگھ کیمپس کے حالات بہتر بناے
کی جگہ کیمپس میں مقیم پناہ گزینوں کو بی جے پی اور کانگریس سے متعلق افراد
قرار دیا دوسری طرف مخالف ملائم سنگھ قائدین بجائے اس کے کہ فساد سے متاثر
افراد کی مدد اور کیمپوں کے حالات کو بہتر بنانے اور ان کے گھر واپس ہونے
کے لئے تحفظ فراہم کرنے کا تیقن دینے پر زور ڈالتے دباؤ ڈالتے حکومت کی بے
عملی پر موثر احتجاج کرتے وہ ساری توجہ اس بات پر دے رہے ہیں کہ مسلمانوں
کو سماج وادی سے نفرت دلاکر ان کے ووٹس حاصل کرنے کی تدبیر کی جائے جبکہ
مسلمان یوں ہی سماج وادی پارٹی سے بے حد ناراض ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ
کیمپس کے بد سے بد تر حالات کو بہتر بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ فساد سے
متاثر مصیبتوں کے شکار ہزاروں افراد پر ملائم سنگھ نے جو الزام لگایا ہے وہ
لازماً لائق مذمت ہے۔ اتنے حساس مسئلہ پر ملائم سنگھ بدتر ین سیاست کررہے
ہیں۔ اس طرح مسلمانوں میں وہ رہی سہی عزت بھی کھوچکے ہیں لیک حزب مخالف کے
لئے ضروری ہے کہ وہ ملائم سنگھ کو غلط ثابت کریں کیمپوں کی حالت زار پر
بیان بازی کے بجائے کیمپوں کے حالات کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے وہاں مقیم
افراد کے مسائل و مصائب ان سے دریافت کرکے اس کی روشنی میں درکار ضروری
اقدامات کا ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا جائے۔ مطالبہ پورانہ ہونے کی صورت
میں پرامن احتجاجی طریقے اختیار کئے جائیں۔
آزادی کے بعد ملک میں آئے دن فسادات ہوا کرتے تھے۔ مولانا حفظ الرحمن مرحوم
آج کے مولاناؤں کی طرح بیان بازی نہیں کرتے تھے۔ جہاں فساد ہوتا وہاں پہنچ
کر حالات معلوم کرتے فساد سے متاثر ہونے والوں کی ممکنہ حدتک مدد کے لئے
انتظامیہ پر زور ڈالتے، بے قصور افراد کی رہائی پر زور دیتے (سیکولر ریاستی
حکومتوں کی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ فسادات کے بعد مسلمانوں کو گرفتار کرکے
ان پر مقدمات قائم کرکے مسلمانوں پر مزید مظالم کئے جاتے تھے۔ آج کوئی
مولانا حفظ الرحمن جیسا نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بیان بازی کی بھی
جائے تو مصیبت کے ماوں کیلئے ضروری مطالبات کرنے کے لئے ان کو پور کروانے
کے لئے ذور ڈالا جائے۔
سماج وادی کی حکومت، ملائم سنگھ اور اکھلیش بھلے ہی فرقہ پرست نہ سہی لیکن
ان کی جماعت کے چند قائدین ہندوتوادی ہیں۔ انتظامیہ میں ہر سطح پر عہدیدار
بہت زیادہ نا اہل ہی نہیں بلکہ پرلے درجے کے ہندوتوادی اور مسلم دشمن بھی
ہیں۔ ان پر گرفت کرنے میں اکھلیش کی ناکامی خواہ وہ عمداً ہویانادانستہ
ہونا قابل معافی ہے اور اس کے خمیازہ بھی ان کو بھگتنا پڑے گا۔ ملائم،
اکھلیش اور سماج وادی پارٹی کو نتائج اور عواقب سے ڈرانے اور دھمکیاں دینے
کا یہ وقت ہر گز نہیں ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ فساد متاثرین کی مدد اور
ان کو تکالیف اور ہر قسم کی اذیتوں سے بچانے کا ہے۔
فساد سے متاثر ہونے والوں کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہ صرف بے حد اہم بلکہ
فوری نوعیت کی ہے۔ ان کیمپوں میں رہنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو عزت اور
تحفظ کے بھر پور احساس کے ساتھ بہر حال انشاء اﷲ العزیز جلد ہی واپس ہونا
ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا راہول گاندھی نے سمجھ رکھا ہے۔ یہ بالکل
وہی بلکہ اس سے بھی بدترین صورت حال ہے جو کہ گجرات 2002ء کے فسادات میں بے
گھر ہونے والوں کو درپیش ہوئی تھی۔ گجرات میں تو ہندو توادی غنڈوں نے تو
ناقابل قبول شرائط کے ساتھ واپسی کی اجازت دی تھی لیکن یہاں تو کسی شرط پر
بھی واپسی کی اجازت نہیں ہے۔ الٹا حکومت علی الحساب 5 لاکھ دے کر مسلمانوں
کو ان کے اثاثوں سے محروم کررہی ہے۔ اس مسئلہ پر کوئی نہیں جانتا ہے کہ
مسلم قیادت، مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے کس طرح احتجاج
کیا ہے اور کیا اقدامات کئے ہیں۔ خاصی تلا ش کے بعد ہم نے رکن پارلیمان
محمد ادیب کا ایک بیان ضرور دیکھا ہے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی اور بے عملی
کی خاص وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے لئے یو پی میں ملائم سنگھ کے مسلمانوں
پر مظالم سے زیادہ اہمیت مرکزی حکومت کے لئے سماج وادی پارٹی کی حمایت
زیادہ اہم ہے۔ کسی بھی جگہ قیام کرنا وطن میں زندگی گزارنا ہر شہری کا حق
ہے اور اس حق کو چھین لینا دستور کی توہین ہے۔ مرکزی حکومت اس مسئلہ میں
مداخلت کرسکتی ہے لیکن یہ سب نہ کرکے راہول گاندھی نے تجاہل عارفانہ سے کام
لے کر مشورہ برائے مشورہ دے کر اپنی کم فہمی کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔
اگر یو پی کی حکومت مسلمانوں کو دھمکیاں دینے والوں کو گرفتار کرکے اور ان
کو عجلت سے سماعت کرنے والی عداتوں کے ذریعہ سزائیں دلانے کا انتظام کرے تو
مسلمانوں میں احساس تحفظ پیدا ہوگا۔ حکومت اگر ’’آہنی ہاتھ‘‘ سے کام لے تو
بڑی سی بڑی دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف سونیا گاندھی مسلم دشمن
جاٹوں سے ملاقات کرکے ان کو ان کے طلب کردہ تحفظات دلانے کا یقین دلارہی
ہیں۔
مظفر نگر کے پنا ہ گزینوں کے کیمپس میں جو بدترین حالات ہیں ان کو بہتر
بنانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ بیان بازی سے حل نہیں ہوگا۔
راہول گاندھی اگر کابینہ کا فیصلہ ’’بکواس اور پھاڑکر ردی دان میں ڈال دو‘‘
کہہ کر منسوخ کرواسکتے ہیں تو وہ مرکزی حکومت کی طرف ہنگامی حالات میں وزیر
اعظم فنڈ سے ان کیمپوں کے حالات بہتر بنانے کے لئے خیموں، ڈاکٹروں، دواؤں،
بچوں کے لئے دودھ کا انتظٓم بڑی آسانی سے کرواسکتے ہیں۔ ریاستی اسمبلی کے
انتخابات سے قبل راہول جی نے کیمپ والوں کے آئی ایس آئی کے ایجنٹوں سے
روابط کا ذکر بڑے طمطراق سے کیا تھا۔ انتخابات میں کانگریس کی شرمناک
شکستوں کے بعد راہول ’’خالی ہاتھ‘‘ زبانی جمع خرچ کرکے مسلمانوں کو بے وقوف
بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مسلم قائدین اپنی اپنی پارٹیوں کی وفاداری سے بالا تر ہوکر یو پی کے مسلمان
وزرا، ارکان پارلیمان و مقننہ کو مجبور کریں کہ وہ حکومت اترپردیش پر زور
ڈال کر کیمپس کے حالات بہتر بنائیں، اگر یو پی کے مسلمان قائدین ساتھ نہ
دیں تو ان کی غداری کا احوال قوم کو بتائیں اور خود دھرنا دیں۔ ریلی کریں
ستیہ گرہ کریں ’’بند‘‘ کروائیں۔ مسلمان قائدین ہی نہیں بلکہ علماء اور
اکابرین کچھ کرکے بتائیں۔ جمعیت العلماء کے قائدین خاص طور پر مولانا ارشد
مدنی اور مولانا محمود مدنی صاحبان مولانا حفظ الرحمن مرحوم کی تقلید کریں۔
وہ تمام لوگ جو ملائم، ایس پی کو مطعون کررہے ہیں ان کا پہلا فرض ہے کہ وہ
یو پی کی حکومت کو کیمپس کی حالت بہتر بنانے پر مجبور کریں اور اگر ملائم
کچھ فوراً نہیں کرتے ہیں ان کی بے عملی اور بے حسی کا باضابطہ پروپگنڈہ
کرکے ان سے وہی سلوک کرنا چاہئے جو بی جے پی سے کیا جاتا ہے اور جو مسلمان
سماج وادی پارٹی میں ہوں ان کا مقاطعہ اسی طرح کرنا چاہئے جو کہ ہم شاہنواز
حسین اور مختار عباس نقوی سے کرتے ہیں۔
مسلمانوں کواسی طرح مجبور رکھنے کے لئے آزادی کے فوری بعد قوم پرست مسلمان
قائدین نے قوم سے غداری کرکے پوری شدت سے مسلمانوں کے لئے ’’الگ سیاسی
جماعت‘‘ یا تنظیم کی مخالفت کی تاکہ مسلمان متحد ہوکر اپنی آواز بلند نہ
کرسکیں۔ اور مسلمانوں کا نہ کوئی مرکز ہو نہ مشترکہ محاذ ہو۔
ان حالات میں مسلم پرسنل بورڈ کا فرض ہے کہ وہ چند بے باک مسلم قائدین
(مثلاً اسد الدین اویسی، محمد ادیب اور شفیق الرحمن برق وغیرہ کو ساتھ لیکر
یو پی کے سماج وادی پارٹی کے مسلم وزرا ارکان پارلیمان و مقننہ کو ساتھ لے
کر ملائم سنگھ اور اکھلیس سنگھ سے مل کر مظفر نگر کیمپس حالات کو سدھارنے
کا مطالبہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ مرکزی حکومت پر کچھ عملی اقدامات فوراً
کرنے کے لئے جارحانہ انداز میں زور ڈالیں اور روایتی مصلحت پسندی سے کام نہ
لیں اور تمام مسلم دوست حقیقی سیکولر جماعتوں سے مل کر ان کو بھی اپنے
مطالبات کا ہم نوا بنائیں۔
مظفر نگر کے حالات میں بہتری لانے کے لئے اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو تاریخ
ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یو پی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت پر فسادات یا
مابعد فسادات راحت کاری اور بازآبادکاری کے کام نہ ہونے پناہ گزین کیمپوں
کے بدترین حالات کی جتنی ذمہ داری سماج وادی پارٹی اور یو پی کی حکومت پر
ہے اس سے زیادہ ذمہ داری یو پی کے مسلمان وزیروں اور ارکان مجالس قانون ساز
پر بھی ہے اور اس سے زیادہ ذمہ داری ملک کے مسلم قائدین پر ہے جنہوں نے
بیان بازی تو بہت کی لیکن ملائم اور اکھلیش سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہ بات
کی اور نہ ہی فوری اقدامات کا مطالبہ ان سے مل کر کیا۔ بیان بازی بھی سیاست
کا تقاضہ ضرور ہے لیکن بدترین حالات کا شکار مسلمانوں کی مدد اور ظالم کو
ظلم سے روکنا اخوت اسلامی اورانسانیت کا تقاضہ ہے اور ہم یہی نہیں کررہے
ہیں۔ |