ہندوستانی مسلمانوں کا بھی عجیب المیہ ہے ہندوستانی مسلمانوں نے آزادی کا
پروانہ حاصل کرنے کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی تھی اور لاکھوں
مسلمانوں نے جنگ آزادی میں اپنی جانیں قربان کر دیں تھیں دہلی کی جامع مسجد
سے لیکر چاندنی چوک تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پرکسی مسلمان کا سر نہ
لٹکتا رہا ہو۔لیکن اس کے باوجود آج ہندوستانی مسلمانوں سے وطن پرست ہونے کا
سرٹیفکٹ دینا پڑتا ہے ملک میں انہیں دوسرے درجہ کا شہری گردانا جاتا
ہے۔خصوصا ان علاقوں میں جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہیں نہایت کسمپرسی کی
زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں پرمسلمانوں کونیست ونابود کرنے کے لئے آر ایس
ایس کے ممبران ہمہ تن کوشاں رہتے ہیں۔اس وقت اتر پردیش کے دیوریا،کشی
نگر،بلیا،مہراجگنج،بلرامپور میں مسلسل مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا
ہے۔شدت پسند خود ساختہ سادھو یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر
افشانی کرتا رہتا ہے ۔یوگی تاریخ کو مسخ کرکے ہندؤوں کے جذبات کو بھڑکا کر
مسلمانوں کے خلاف صف آراء کرنا چاہتا ہے تاکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب
ختم ہو جائے۔اور یہ سب آج سے نہیں ہو رہا ہے بلکہ آزادی کے قبل ہی مسلمانوں
کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے آر ایس ایس کوشاں رہا ہے۔تاریخ شاہدہے کہ جنگ
آزادی کے دوران جب تمام ہندوستانی انگریزوں کے خلاف مورچہ لئے ہوئے تھے اور
ہندوستانی ایک ایک کرکے اپنے سروں کو قربان کر رہے تھے ۔اس وقت کچھ غدار جن
میں سوامی شردھانند کا نام پیش پیش ہے ۔وہ ہندوستانیوں کے اتحاد کو توڑ کر
انگریزوں کو دست بازو کو مضبوط کر رہے تھے۔1922میں سوامی نے ایک نعرہ دیا
تھا کہ ہندوستان ہندؤوں کا ہے ۔مسلمانوں کے لئے ملک میں کوئی جگہ نہیں
ہے۔اس نے ایک ایسی نفرت کی بیج بوئی جس نے مسلمانوں کا جینا محال کر دیا
تھا اس وقت پورے ملک میں مسلمانوں سے نفرت کی جانے لگی تھی اور یہ لوگ شدھی
کرن کرکے مسلمانوں کو ارتداد میں لانے لگے تھے ۔آج بھی یہی کام یوگی آدتیہ
ناتھ اپنے چیلوں کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں ۔آج آر ایس ایس جگہ جگہ اپنے
ممبروں کو بھیج کر مسلمانوں کے صفوں میں انتشار کی بیج بو رہا ہے ۔اور یہ
بات اس کے ایجنڈہ میں ہے کہ مسلمانوں کو ملک سے در بدر کردو یا پھر ان کو
اتنا کمزور کر دو کہ یہ کسی بھی قابل نہ رہ جائیں۔لہذا مسلمانوں کو چاہئے
کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں اپنے آپ سے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان شدت
پسندوں کو کسی طرح کی عمل شنیع کرنے کا بہانہ ملے۔ |