اتر پردیش کی نااہل حکو مت

اتر پردیش میں جس دن سے سماجوادی پارٹی کی حکومت بنی ہے نااہلیوں کی انتہا ہوگئی ہے۔نااہلی تو ایک طرف ،ریاست بھر میں فسادات،آپسی رنجشوں ،غنڈہ گر دی ، بھیانک وارداتوں اور جھگڑوں کا دہانہ کھلا ہوا ہے ۔ایک کے بعد ایک بھیانک سے بھیانک حادثہ باشندگا ن یوپی کو تحفے میں مل رہا ہے ۔صورت حال یہ ہے کہ ایس پی حکومت نے بہت کم عرصے میں زیادہ فسادات کر انے کا سرٹیفکٹ حاصل کر لیا ہے ۔اس پر بھی بجائے اس کے اسے احساس ہویا کسی طرح کے اصلاحی اقدام اٹھا ئے جائیں، حکومت مسلسل بے حسی کی شکار ہے اور فساد متاثرین کے زخموں پر زخم لگا رہی ہے۔کبھی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ کا بیان آتا ہے تو کبھی اکھلیش یادو کا ۔ان کی بات تورہنے دیجیے چھو ٹے چھوٹے وزرا بھی جلتی پر تیل ڈالنے اور زخموں پر نمک پاشی سے بازنہیں آتے۔

یوں تو یوپی میں ایس پی حکومت کے دور میں متعدد فسادات ہوئے ہیں مگر مظفر نگر فساد ات نے نہ صرف یوپی بلکہ ہندوستان کی ہی تاریخ کو بدل دیا ۔حالیہ فساد اس لیے بھی دردناک ہے کہ دوران فساد اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا فساد کے بعد دیکھنے کو ملا ہے۔بار بار توجہ دلانے کے باوجود بھی آج تک راحتی کیمپوں میں بنیادی سہولیات کافقدان ہے۔ٹھنڈاور گند گی کے با عث آئے دن بچے اور کمز ور ا نسا ن لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں۔حد تو اس وقت ہوتی ہے جب حکومت کی توجہ اس جانب دلائی جاتی ہے تو اس کے وزیر صحت اورداخلہ سکریٹری ایرا ن توران اور سائبر یا کی باتیں کر کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ریاست کے وزیر اعلا اور پارٹی کے سربراہ الٹے سیدھے بیان دے کر زخموں پر زخم لگاتے ہیں اور فساد متاثرین کے درد ،تکلیف اور پریشانی کا خیال کر نے کے بجائے عیش و مستی کر تے نظر آتے ہیں ۔ملائم اور اکھلیش کے اس غیر انسانی عمل کو سب نے دیکھا تھا کہ مظفر نگر کے کیمپوں میں لوگ ٹھنڈ سے مر رہے تھے اور وہ دونوں باپ بیٹے اپنی بنائی ہوئی جنت سیفئی میں شراب و کباب میں مست تھے ۔انھیں ان مظلوموں کی آہوں ،کراہوں اور مصیبتو ں کا احساس نہیں تھا جو قہربرساتی سردی کا سامنا کر رہے تھے۔

کسی ریاست کا سربراہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے کسی کی پرواہ نہ ہونی چاہیے یا اس کے اور عوام کے درمیان فاصلے ہیں جنھیں پاٹنا بدتمیزی اورقابل جرم عمل ہے اور ہمار عیش وآرام سب سے مقدم ہے۔ اقتدار کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ عوام کی خدمت کر نا نیز حکومتو ں کے سربراہوں کی اور سرپرستوں کی یہ آئینی،اخلاقی اور انسانی ذمے داری بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عیش و آرا م کو چھوڑ کر اپنے عوام کے عیش و آرام کی فکر کریں اور ان کے لیے اس قدر دوڑ دھوپ کر یں کہ انھیں احساس ہو کہ ان پر کسی کا ہاتھ ہے اور کسی کا آسرا و سہارا انھیں حاصل ہے ۔مگراتر پردیش کی حکومت نے اپنی اس ذمے داری سے مسلسل لاپرواہی برتی ہے اورآئین ،اخلاق نیزانسانیت کے مذہب کی تو ہین کی ہے ۔ہم باشندگان ہند آئین کی روشنی میں ایسی تمام حکومتوں کے مخالف ہیں جو اپنے فرائض سے غافل ہوں اور ریاستوں میں فسادات کر اتی ہیں ۔وہ چاہے گجرات کی حکومت ہو یا اتر پردیش کی۔مگر افسوسناک بات تو یہ ہے کہ نہ مرکزی حکومت ان بدعنوان حکومتوں پرِِشکنجہ کستی ہے اور نہ انھیں پابند کرتی ہے بلکہ انتہاکر نے پر بڑھاوادیتی ہے اورغریب و بے بس عوام پر ظلم و ستم ڈھانے کی اجازت بھی۔عدالتیں بھی گمراہی کے راستوں پر گامزن ہیں یا انھیں لیڈران کی رکھیل بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیڈران انکے احکامات کی کھلے عام دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں اور اس کے فیصلوں کی علی الاعلان توہین کر تے ہیں اور وہ اپنی اس شرمناک توہین پر خاموش بت بنی سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں۔

یوپی حکومت کی اس نااہلی اور عوام کی خدمت کر نے کے بجائے عیش کوشی پر آج ہر شخص سوال کر رہا ہے کہ کیا آج سے دوسال قبل اترپردیش کے عوام نے ملائم سنگھ کا ہاتھ اسی لیے مضبوط کیا تھا کہ وہ ان کی ریاست کو جہنم کدہ بنا دیں ؟کیا ان کی پارٹی کو اسی لیے اکثریت دی تھی کہ وہ غریبوں پرظلم کریں ؟کیا اسی لیے اعتماد کیا تھا کہ وہ ان کا بھرم توڑدیں ؟عوام اس طرح کے نہ جانے کتنے سوال پوچھ رہے ہیں مگر افسوس کہ ان کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے بلکہ وہ جواب دینے پر سنجیدہ بھی نہیں ہے۔اگر کو ئی پوچھنے کی ہمت بھی کر تا ہے تو ملائم اینڈ کمپنی اس کا جواب تشدد سے دیتی ہے۔

مظفر نگر کے اندوہناک فسادات کوکئی مہینے گذرگئے مگر آج تک ان کے زخم تازہ ہیں اور دن بد ن ان زخموں کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پناہ گزین کیمپوں کی حالت انتہا ئی ناقابل بیان اور عبرت ناک ہے۔آج کل تویوپی حکومت انھیں اجاڑنے پر بھی تلی ہوئی ہے اور بزور مکینوں سے ان کے آشیانے چھینے جارہے ہیں۔یہ ہردن کا معمول بن گیا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی سربراہی میں پولیس کے جوان لاٹھیاں برسا کر لوگوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔یوپی حکومت نے اس بات کے کڑے انتظامات کیے ہیں کہ اس تشدد و بر بریت کی خبر میڈیا میں نہ جانے پائے اس کے لیے اس نے ٹی وی چینلوں اور اخبارو ں کو ایک خطیر رقم دی ہے اور ان سے اپنے گن گان کا وعدہ کیاہے جسے وہ انسانیت دشمن سارے زمانے میں گاتے پھر رہیں ۔

اس کے علاوہ اگرجب کوئی سیاسی لیڈر اورقوم کا ہمدرد، فساد متاثرین سے ملا قات کر تا ہے اور ان کی حالت زار پر افسوس کر تا ہے تو یوپی حکومت اس پر بری طرح برستی ہے اوراسے یہ کہہ کر خاموش کر نے کی کوشش کرتی ہے کہ ’مظفر نگر فسادات ‘پرسیاست مت کرو نیز یہ یوپی حکومت کا معاملہ ہے اس میں ہم کسی باہر ی شخص کی مداخلت ہر گزبرداشت نہیں کر یں گے۔‘

تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ یوپی حکومت بجائے اس کے کہ اپنے کیے پر پچھتاتی اوراپنی پالیسی بدلتی، الٹی ڈھیٹ بنی ہوئی ہے اور کبرو نخوت سے اس کی گردن اکڑی ہوئی ہے ۔ملائم سنگھ اوران کے صاحبزادے شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’ہمارا کو ئی کچھ نہیں بگاڑنے والا ہے ،ہم ہر اس آواز کو پیروں تلے کچل دیں گے جو ہمارے خلاف اٹھی گی۔یوپی کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اوروہ کسی کے بہکاوے میں آنے والے نہیں ہیں،عوام ہماری کا کر دگیوں سے مطمئن ہیں یہی وجہ ہے وہ ہمارے خلاف کچھ نہیں بولتے ۔ ابھی تو ہم یوپی کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں کل ہندوستان پر بھی ہمارا قبضہ بھی ہوگا ۔‘لیکن یہ دونوں باپ بیٹے اقتدار کے نشے میں چور ہو کر یہ باتیں کر رہے ہیں، کل جب وقت بدلے گا اور عوام اپنی سب سے بڑی جمہوری طاقت ’ووٹ‘کا استعمال کر یں گے تو انھیں پتا چلے گا۔تاریخ اور وقت ان کا ناقابل بیان حشر دیکھے گا اور عبرت ناک انجام ۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وقت ان ہی کا ہوتا ہے جو اس کا درست استعمال کر تے ہیں اور اسے مناسب طریقے سے بر تتے ہیں اور وہ لوگ جواس کاغلط استعمال کر تے ہیں اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں نیز اس کے ذریعے دوسروں کے لیے مصیبت کھڑی کر تے ہیں ،وقت ان سے عبرتنا ک انتقام لیتا ہے ۔انھیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ جولوگ وقت کا اس طرح استحصال کرتے ہیں وہ یہ آئینہ دیکھیں اور اپنا احتساب کریں۔ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر میں یہ کہوں گا کہ ملائم سنگھ اور اکھلیش یا دو یا خود کو یوپی کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ وقت کی ہوا سمجھیں اور اس کا رخ دیکھیں ۔الٹے سیدھے بیانوں سے بازآئیں اور متاثرین کے درد کو سمجھیں ،مظفر نگر پر کسی کو سیاست کر نے کو موقع نہ دیں ورنہ ․․․․․تمہاری داستانیں بھی نہ ہوں گی داستانوں میں ۔گمنامی کے ناگ تمھیں ڈس جائیں گے۔

احساس
یوپی حکومت کی اس نااہلی اور عوام کی خدمت کر نے کے بجائے عیش کوشی پر آج ہر شخص سوال کر رہا ہے کہ کیا آج سے دوسال قبل اترپردیش کے عوام نے ملائم سنگھ کا ہاتھ اسی لیے مضبوط کیا تھا کہ وہ ان کی ریاست کو جہنم کدہ بنا دیں ؟کیا ان کی پارٹی کو اسی لیے اکثریت دی تھی کہ وہ غریبوں پرظلم کریں ؟کیا اسی لیے اعتماد کیا تھا کہ وہ ان کا بھرم توڑدیں ؟عوام اس طرح کے نہ جانے کتنے سوال پوچھ رہے ہیں مگر افسوس کہ ان کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے بلکہ وہ جواب دینے پر سنجیدہ بھی نہیں ہے۔اگر کو ئی پوچھنے کی ہمت بھی کر تا ہے تو ملائم اینڈ کمپنی اس کا جواب تشدد سے دیتی ہے۔
 
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62229 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More