شفیع عقیل(شین۔عین) بھی رخصت ہوئے۔۲۰۱۳ء
میں ہمارے کئی ادیب و شاعر ہم سے جدا ہوگئے ، ابھی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو
دنیا سے رخصت ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ آج ۷ ستمبر کو یہ خبر بھی پڑھی کے
ش ۔ع بھی چلے گئے۔ شفیع عقیل بلا شبہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کے
ادیب اور لوک داستانوں کو قلم کی زبان دینے کے ماہر تھے۔عرصہ دراز سے
روزنامہ جنگ میں کتابوں پر تبصرے کر رہے تھے۔ اس فن میں مہارت حاصل ہوگئی
تھی اور اس حوالے سے بلند مقام پر فائز تھے ۔ان کا خاندانی نام محمد شفیع
اور ادبی نام شفیع عقیل لیکن عرصہ ہوا انہوں نے شین عین کو ہی اپنی پہچان
بنا لیا تھا۔۱۹۳۰ء میں لاہور چھاونی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ’’تھینہ‘‘
میں پیدا ہوئے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اب یہ گاؤں موجود نہیں۔ انہوں نے اپنی
زندگی کا ابتدائی دور لاہور کے علاقے دھرم پورا جس کا نیا نام مصفطیٰ آباد
ہے میں گزارا۔ ۱۹۵۰ ء میں لاہور سے کراچی تشریف لے آئے۔ان کی تعلیم روایتی
تھی ادیب عالم اور پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں منشی فاضل کا امتحان پاس
کیا ہوا تھا۔ کراچی میں رہتے ہوئے ان کے پاس یقینا موقع تھے کہ وہ اپنی
تعلیم کو آگے بڑھا تے لیکن نہیں معلوم کیا مجبوریاں اور رکاوٹیں تھیں۔ ان
کی تحریر کی پختگی اور رچاؤ ایک منجھے ہوئے مصنف کا پتا دیتی ہیں۔
شفیع عقیل مستقل مزاج انسان تھے کراچی آئے تو کراچی کے ہی ہو رہے، صحافت کا
پیشہ اختیار کیا تو صحافی کے حیثیت سے ہی دنیا سے رخصت ہوئے ، روزنامہ جنگ
سے ۱۹۵۰ء میں وابستہ ہوئے تو اپنی زندگی کے ۶۴ سال اسی ادارے میں گزار دئے
اور اسی ادارے سے منسلک رہتے ہوئے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ادارہ جنگ
کے تحت ہی اخبار ِ جہاں کے لیے بھی کام کیا۔ جنگ کے میگزین کی ادارت بھی کی۔
بھائی جان کے لقب سے معروف ہوئے۔ رسالہ ’بھائی جان‘ ، ہفت روزہ ’’ماحول‘‘
کے مدیر بھی رہے۔ مجید لاہوری مرحوم کے ساتھ پندرہ روزہ ’’نمکدان‘‘ کے نائب
مدیر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مجید لاہوری اور شوکت
تھانوی کے ساتھ ہی کیا تھا۔ مجید لاہور پر دو کتابیں ’مجید لاہوری فن اور
شخصیت ‘ اور مجید’لاہوری کی حرف و حکایت، ۱۹۷۱ء‘ میں مرتب کی، شوکت تھانوی
پر ان کا ایک مضمون ’’ظرافت نگاری کی شان: شوکت تھانوی‘‘ شائع ہوا۔و ہ آ رٹ
کے نقاد کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔
شفیع عقیل کو ان کی ادبی و تصنیفی خدمات پر اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
۱۹۶۸ء میں انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ سے نوازا گیا، ۱۹۷۶ء میں حبیب
ادبی ایوارڈ، ۱۹۷۸ء مین بک کونسل ادبی ایوارڈ، ۱۹۹۰ء میں خوش حال خان خٹک
ایوارڈ اور سر عبدالقادر ایوارڈ ملا، ۱۹۹۵ء میں خدمت صحافت ایوارڈ، ۲۰۰۴ء
میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسنں کارکردگی دیا گیا، ۲۰۰۵ء میں لائف
ٹائم اچیو منٹ ایوراڈاور لائف فیلو ورلڈ پنجاب کانفرنس، ۲۰۰۹ء میں کراچی
پریس کلب کا نشان سپاس دیا گیا اسی سال لائف فیلو’ اکادمی ادبیات پاکستان ]
اور کتاب ’پنجاب رنگ‘ پر داؤد ادبی انعام سے بھی انہیں نواز گیا۔
شفیع عقیل مرحوم لوک کہانیوں، لوک داستانوں اور پنجاب کی لوک کہانیوں کے
حوالے سے بلند مقام رکھتے تھے۔انہوں نے مختلف زبانوں کے ادب خاص طور پر
پنجابی ادب کو اردو میں ترجمہ کر کے اردو پڑھنے والوں کو پنجابی ادب سے خوب
خوب متعارف کرایا، ان کی یہ ادبی خدمت تادیر یاد رکھی جائے گی۔ اس حوالے سے
انہوں نے متعدد کتابیں تحریر کیں۔ ان میں پنجابی لوک کہانیاں (۱۹۶۳ء)،
پنجاب لوک داستانیں (۱۹۷۵ء)، پنجاب رنگ (۱۹۶۸ء)، جاپان لوک کہانیاں، ایرانی
لوک کہانیاں، چینی لوک کہانیاں ۱۹۷۵ء، جرمن لوک کہانیاں، جرمن لوک
داستانیں، جاپانی لوک حکائتیں، دوستی کا پھل (لوک کہانی)، سوچاں دی زنجیر
(۱۹۷۵ء)، سسی پنوں (۲۰۰۲ء) شامل ہیں ۔
شفیع عقیل کی تصانیف کی کل تعداد ۳۷ ہے ۔ ان کی اولین کتاب ۱۹۵۲ء میں
’بھوکے (افسانے)کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ گویا انہوں نے تصانیف کی ابتدا
افسانوں سے کی۔ اس اس کے بعد اردو اور پنجابی میں تصانیف و تالیفات کا
سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’ایک آنسو ایک تبسم ‘(طنز و مزاح)
۱۹۵۳ء، ’ڈھل گئی رات (ناول) ۱۹۵۷ء، ‘،’مجید لاہوری فن اور شخصیت‘ ۱۹۵۸ء،
تیغ ستم (طنز و مراح) ۱۹۶۳ء، ہماری منزل غازی یا شہید (رپوتاژ) ۱۹۶۸ء،
’پنجاب رنگ ۱۹۶۸ء‘، ’غالب جنھوں ہر کوئی چنگا آگھے (پنجابی ترجمہ) ۱۹۶۹ء، ’
’پنجاب کے پانچ قدیم شاعر ۱۹۷۰ء، ’’ مجید لاہوری کی حرف و حکایت ۱۹۷۳ء، سیر
و سفر ۱۹۸۰ء، ’ زہر پیالہ‘ (۱۹۸۰ء)،سیف الملوک ۱۹۹۰ء،’ تنقید و آگہی
‘(۱۹۹۵ء)، قائد اعظم محمد علی جناح تقریریں تے بیان ۱۹۹۷ء ’نامور ادیبوں
اور شاعروں کا بچپن ‘(۱۹۹۸ء)،نامور ادیبوں کی نایاب کہانیاں اور درامے
۱۹۹۸ء، ’نا مور شاعروں کی نایاب منظومات ‘ (۱۹۹۹ء)،نا’مور ادیبوں اور
شاعروں کے نایاب مضامین ‘ (۲۰۰۲ء)ادیب اور ادبی مکالمے ۲۰۰۲ء، دو مصور بشیر
مرزا اور آزر زوبی ۲۰۰۳ء، مشہور اہل قلم کی گمنام تحریریں ۲۰۰۴ء، پیرس تو
پھر پیرس ہے۲۰۰۴ء، سلطان بانوں ‘(۲۰۰۴ء)، سلطان باہو : حیات و فن ۲۰۰۴ء،
زندگی پھر کہاں چھ مما لک کا سفر نامہ ۲۰۰۹ء، سرخ سفید سیاہ ‘(۲۰۰۹ء)،
سفرنامہ مغربی جرمنی ‘چار جدید مصور، تصویر اور مصور، مصور اور مصور شامل
ہیں۔شفیع عقیل کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ان کی کتاب ’’پنجابی لوک
کہانیاں‘‘ یونسکو کی جانب سے سات زبانوں میں شائع ہوئی ۔ ان میں سے تین
جرمن زباں میں ترجمہ ہوئیں۔ پاکستان رائیٹر گلڈ کی جانب سے ان کی کتاب
’’پنجاب رنگ ‘‘ پر انہیں داؤد ادبی انعام سے روازا گیا۔
تبصرہ نگاری ادب کی ایک معروف صنف ہے۔ عرصہ دراز سے پڑھنے والے شفیع عقیل
کو کتابوں پر تبصرے کے حوالے سے ہی جانتے تھے۔ روزنامہ جنگ میں ’ش ع‘ کے
نام سے ہر ہفتہ کئی کتابوں پر تبصرے شائع ہونا بنیادی وجہ تھی۔ تبصرہ اپنے
معنی وسعت کے اعتبار سے اہمیت لیے ہوئے ہے۔ تبصرہ پڑھ کر کتاب کے بارے میں
بڑی حد تک اندازہ کرلینا کہ اس میں کیا کچھ ہے آسان ہوتا ہے ۔ ایک مغربی
مفکر نے تبصرے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ’ ’تبصرہ دستاویز یا کتاب کے متن
کو مختصر اور صحیح طو ر پر اس انداز سے بیان کرنا کہ وہ اصل دستاویز معلوم
ہو‘‘، گویا تبصرہ اصل دستاویز کا نچوڑیا حاصل ہوتا ہے۔شفیع عقیل مرحوم کتاب
پر تبصرے کے فن سے خوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے اس فن میں انفرادیت قائم کرلی
تھی۔ ان کے لکھے ہوئے تبصرے پڑھنے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے معاون ثابت
ہوتے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری سوانحی خاکوں پر مشتمل کتاب ’’جھولی
میں ہیرے اور موتی‘ جو ۲۰۱۲ء مین شائع ہوئی تھی پر شفیع عقیل مرحوم نے
تبصرہ تحریر کیا۔ یہ تبصرہ روزنامہ جنگ کراچی کی اشاعت مورخہ ۶ جنوری ۲۰۱۳ء
میں شائع ہوا۔انہوں نے لکھا کہ ’’اصناف ِ ادب میں خاکہ کسے کہتے ہیں؟ خاکہ
نگاری کے اصول یا حدود و قیود کیا ہیں؟ کیا شخصیات کے بارے میں تعریفی
توصیفی مضامین کو خاکہ کہا جائے گا؟ یا پھر عصمت چغتائی کا ’’دوزخی‘‘ خاکے
کی تعریف میں آتا ہے؟ یہ ایک بحث طلب مسٔلہ ہے جس پر بہت کچھ کہا جاسکتا
ہے۔بہر صورت اردو ادب میں اکابرین نے بھی خاکے تحریر کیے ہیں اور موجودہ
دور میں بھی بہت سے ادیب لکھ رہے ہیں۔یہ سلسلہ مولونامحمد حسین آزاد کی
’’آبِ حیات‘‘ سے بھی بہت پہلے اردو کے قدیم تذکروں میں کسی نہ کسی صورت میں
ملتا ہے۔ اس طرح اگر خاکہ نویسوں کی فہرست ترتیب دی جائے تو طویل ہوجائے
گی۔ در اصل ہمارے ہا ں خاکہ نویسی کا کوئی امتیاز نظر نہیں آتا، چنانچہ
یادنگاری بھی اس میں شامل ہوگئی ہے۔سوانح نگاری بھی در آئی ہے، آراء نویسی
بھی اس کا حصہ بن گئی ہے اور مصنف کے گزشتہ حالات و واقعات بھی اسی میں
شریک ہوجاتے ہیں۔بہر صورت خاکوں پر مشتمل کئی کتابیں اردو کا سرمایہ بن گئی
ہیں اور حوالے کے طور پر ان کا تذکرہ آتا ہے۔ ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘
میں بھی شخصی خاکے شامل ہیں۔مصنف پاکستان کی مختلف جامعات میں رہے ہیں، اس
لیے ان کا مختلف علمی و ادبی شخصیات سے تعلق رہاہے، جن میں سے بعض کے انہوں
نے خاکے تحریر کیے ہیں۔ان خاکوں میں سوانحی پہلو بھی ہیں اور خود مصنف کی
اپنی یادداشتیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ان شخصیات کو جیسے دیکھا، ان کے
مشاہدے میں کیا کیا باتیں آئیں؟ ان باتوں کا اظہار اس کتاب میں ہے‘‘۔ تبصرہ
نگار کی خوبی اور مہارت دیکھئے کہ اس نے کتاب ، صاحبِ کتاب اور اس موضوع پر
مختصر اظہار خیال خوبصورت انداز سے کیاہے۔ یہی ایک اچھے تبصرے کی خوبی بھی
ہوتی ہے۔ تبصرہ کتاب کی تعریف و توصیف بیان کر نے کا نام نہیں ساتھ ہی غیر
ضروری تنقید بھی تبصرہ نہیں کہلاتی اس میں میانہ روی اور غیر جانب داری کی
چاشنی کا پایا جا نا تبصرے کی اصل روح ہے۔
شفیع عقیل نے علمی ، ادبی خدمت کے جو چراغ اپنے خون پسینے سے روشن کیے ہیں
وہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔پانچ دریاؤں کی سرزمین پر طلوع ہونے والا یہ ستارہ
۸۳ برس اپنی آب و تاب دکھا کر کراچی شہر کی مٹی میں۷ ستمبر ۲۰۱۳ء بروز جمعہ
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہوگیا۔اﷲ مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین۔
(شائع شدہ روزنامہ جنگ ،سنڈے میگزین ۲۲ ستمبر ۳ ۱ ۲۰ء) |