وہ شاعر بھی تھے،ڈرامہ رائٹر بھی ،کہانی لکھنے میں
بھی کمال مہارت رکھتے تھے چوٹی کے کالم نگاربھی افسانہ اور نثر یہاں تک کہ
ادب کے ہر میدان میں ان کو دسترس حاصل تھی بہت سی کتابوں کے مصنف اور شاعری
کی بہت سی کتب کے مالک تھے انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی وہ پیشے کے
اعتبار سے درس وتدریس کے شعبہ سے منسلک تھے کشمیر بھر کے مختلف کالجوں میں
وہ پروفیسر رہ چکے تھے ،وہ شفیق عاجز اور کمال کے انسان تھے وہ پہلے میرے
استاد اور پھر دوست بن گے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ کشمیر کے منفرد اور
نامور کالم نگار بنو گے وہ اکثر میرے کالم پڑھتے اور میری رہنمائی کرتے ،انہیں
جب بھی اپنے دوستوں کی طرف سے کسی مشاعرے ،یا کسی تقریب میں دعوت ہوتی تو
وہ مجھے ساتھ لے کر ضرور جاتے ۔ان کے شاگرد آج بڑے بڑے عہدوں پر فائز
ہیں،ان کو کشمیر بھر کی عوام خاص کر کے طالب علم بہت اچھی طرح جانتے ہیں ان
کا نام افتخار مغل تھا۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اﷲ ان کے درجات بلند کرے
آمین۔ایک دفعہ پنڈی میں ایک کتاب کی تقریب رنمائی میں ہم ساتھ تھے رات کو
ایک دوست کے ہاں ٹھہرے وہاں پر انہوں نے اپنی زندگی کا ایک مشکل ترین واقعہ
سنایا ،ان کا کہنا تھا کہ میں نے کشمیر بھر کے کالجوں میں امتحانات کے
دوران نگران اعلیٰ کے فرائض سر انجام دیے ،میں اکثر اپنی ڈیوٹی کے دوران
نرم مزاج ہوتا تھا طالب علموں پر اتنی سختی نہیں کرتا تھا ۔زندگی میں کچھ
ایسے موڑ آتے ہیں جب انسان اپنا نظریہ اور طرز عمل تبدیل کرتا ہے میں نے
بھی اپنی زندگی کا ایک فیصلہ کیا کہ ائندہ میں جہاں بھی ڈیوٹی کروں گا تو
سو فیصد دیانتداری سے اور کسی بھی حوالے سے کسی کی کوئی سفارش نہیں مانوں
گا ،ایک دفعہ میری ڈیوٹی ڈگری کالج باغ میں بطور نگران اعلیٰ لگی میں اپنی
ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچا مقررہ وقت پر بچوں کے پیپر شروع ہوئے میں نے سب کو
یہ فرمان جاری کر دیا کہ اس سنٹر میں کوئی بھی نقل نہیں کرے گا اگر کوئی
ایسی حرکت کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس کو قانونی سزا دی جائے گی۔سنٹر میں
پہلا پیپر ہوا تو تمام ڈگری کلاسوں کے طالب علموں پر سختی کی گی اسی دوران
ایک طالبہ نے نقل کرنے کی کوشش کی جس کو روک دیا گیا اس پر احتجاج کرتے
ہوئے اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ آپ جانتے نہیں میں کون ہوں پھر
خود ہی بولی میں وزیر تعلیم کی پرچی ہوں میں نے یہ سنا تو اسے سختی سے منع
کیا اور اس پر نظر رکھنے کی مذید ہدایات جاری کر دیں دو دن گزرے تیسرے دن
اس وقت کے وزیر تعلیم میرے پاس کالج میں آئے مجھ سے ملے اور کہا کہ تم
جانتے ہو میں کیوں آیا ہوں،میں نے کہا جی میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں آپ
کا دیوانہ ہوں آپ میرے آئیڈیل ہیں میں دل و جان سے آپ کی قدر کرتا ہوں بولے
آپ کیوں آئے اس پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اس وقت میرے
کمرے میں ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوتا مگر میں بھی مغل ہوں اور تم بھی مغل ہو میں
صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ آپنا ہاتھ ہلکا رکھے اور فلاں طالبعلم میرا خاص
بندہ ہے اس کا خیال رکھنا ہے یہ اس کے کیریر کا مسئلہ ہے یہ بات سنتے ہی
میں نے کہا سوری سر آگر آپ کچھ اور کہتے تو میں ایک ٹانگ پر بھی کھڑا
ہوجاتا مگر یہ جو بات آپ نے بتائی یہ اس وقت میرے لئے ممکن نہیں اس پر وہ
حیران ہوئے اور بولے تمہیں پتہ ہے میں اس وقت کیا ہوں اگر تم یہ کام کر دو
تو میں تمہاری اپنے شعبے میں ہر خواہش پوری کر سکتا ہوں، تمہیں ترقی دے کر
کیا سے کیا بنا سکتا ہوں،تمہاری ہر بات مان سکتا ہوں، میں نے ان کی یہ آفر
بھی ٹھکرا دی جس پر وہ دھمکی کے انداز میں بولے کہ پھر اس کا انجام جانتے
ہو میں تم سے بات اس لئے کر رہا ہوں کہ تم اپنی برادری کے ہو اگر تمہاری
جگہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی افتخار مغل
کا کہنا تھا کہ میں نے ان کی اس معاملے پر ہرا بات ماننے سے انکار کر دیا
جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سب کچھ کروانا ہے مجھے کوئی حل بتاو تم ایسا
کرو کہ چھٹی پر چلے جاو اگے میں سب کچھ سنبھال لوں گا یا تم کسی بیماری کا
بہانہ کر لو میں نے سب کچھ سے انکار کر دیا البتہ میں نے ان کو ایک بات
بتائی کہ اگر آپ راتون رات میری ٹرانسفر کسی دوسرے سنٹر میں کر دیں تو میں
مان سکتا ہوں ورنہ میں اپنی موجودگی میں اسی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں
چاہئے اس کی جو بھی سزا آپ دے سکتے ہیں مجھے قبول ہیں ،جناب وزیر تعلیم اس
وقت کے بادشاہ محکمہ تعلیم نے راتوں رات اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے
میری پوسٹنگ کردی ،میں نے اسے خاموشی سے قبول کر دیا پھر کیا ہوا اس سنٹر
میں وہی کچھ ہوا جس کے لئے مجھے وہاں سے ٹرانسفر کیا گیا۔ اس کے بعد پھر
میرے ساتھ جو ہونا تھا اس کے لئے میں تیار تھاوہی ہوا جو اس ملک کے با
اختیار لوگوں کا وطیرہ ہے وہی کچھ جو یہاں پر ہوتا ہے پھر نہ مغل دیکھا گیا
نہ پروفیسر ،نہ دیانت داری نہ ایمانداری بس میری تنخواہ بہت سے الزامات لگا
کر روک دی گئی ،ایک سال تک میری تنخواہ مجھے نہ ملی میں اپنے فرائض سر
انجام دیتا رہا یہی نہیں بلکہ بار بار پوسٹنگ کر کے مجھے تنگ کیا گیا میرے
اوپر بہت سے چارجز لگائے گئے مگر میں ان تمام سزاوں کو خوشی سے قبول کرتا
رہا کیوں کہ وہ میرے محسن نے مجھے دی میرا ضمیر مطمئن تھا کہ مجھے دیانت
داری اور ایمان داری کی سزا دی جا رہی ہے ، بدقسمتی سے یہی ہمارے ملک کا ،اداروں
کا محکموں کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ جو دیانت داری ، ایمانداری سے اپنا کام
کرے جو بادشاہ وقت کی من مانی مانے سے انکار کر دے اس کو ایسی سزا دی جائے
کہ وہ زند گی بھر یاد رکھے ،یہاں پر تعلیم کا محکمہ ہو یا نادرا کا ،پیمرا
کا ہو یا نیب کا،برقیات کا ہویا عدلیہ کا، بلدیہ ہو یا کوئی پرائیویٹ آفیس
، نجی ادارہ یاکسی کا ذاتی کاروبار ، یا پھر کوئی کمپنی کا مالک،کسی بھی
سینئر کی نوکری اس کی غلامی کرنا ضروری ہے ۔ جاری ہے- |