کتاب انسانی تہذیب و تمدن کا
منبع تصور کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا طاقت ور آلہ ہے جو دنیا میں تغیر و
تبدیلی لانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ معروف مصنف و مولف رابرٹ بی ڈأنز
نے کتابوں کو دنیا کو تبدیل کرنے والی قوت کہا ہے۔ ڈأنزنے ایک کتاب بعنوان
’’عظیم کتابیں جنہوں نے دُنیا بدل ڈالی‘‘ بھی مرتب کی۔ وہ کہتا ہے کہ
’’کتابیں بے کار، بے حیثیت اور بے اثر نہیں بلکہ یہ متحرک اور زندہ قوتیں
ثابت ہوئی ہیں جنہوں نے حالات اور واقعات کا دھارا بدل ڈالا ہے۔ کتاب ایک
مسلمہ حقیقت ہے اسے ہر دور ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ حکیم محمد سعید
شہید کے مطابق ’’کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں
ہوتی ہیں۔ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں
روح نہ ہو، درحقیقت کتاب ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو
کسی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا‘‘۔سقراط کا کہنا تھا کہ’’ جس گھر میں اچھی
کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوں
کا قبرستان ہے‘‘۔ فلسفی ایمرسن کے مطابق ’’اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو
ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے‘‘ کارلائل کے خیال میں ’’اچھی
کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے‘‘ ۔ ملٹن کا کہنا تھا کہ
’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے
کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے‘‘
۔بے شک کتاب سے اچھا کوئی دوست نہیں۔ کتاب سے دوستی اور عقیدت انسان کی
زندگی پر خوش گوار اثرات ڈالتی ہے۔ کتاب سے عشق کرنے والوں کی زندگی
خوشگوار اور مطمئن ہوتی ہے ۔ معروف شاعر صہبا اختر نے کتاب کو شاعرانہ نقطہ
نظر سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ کتاب اُجالوں کی دم ساز ، ستاروں کی آوازہے،
صحیفہ ہے، اوستا و گیتا ہے،گرونانک کا وجدان ہے، گوتم کا نروان ہے، دبستان
علوم ہے، شبستانِ ماہ و نجوم ہے، تہذیب و آداب کا صحیفہ ہے، کمال چرغِ
ہُدیٰ ہے ، تمنائے قرب ِخدا ہے ، اذنِ زمیں وفا ہے، آوازِ کوہِ صفا ہے،
افکار کا خزینہ ہے ، اجالوں کی پیغامبر ہے ، ستاروں کی نورِ نظرہے، رخ زیست
کا آب و رنگ ہے، دانش کا دل ہے، ہنر کا دماغ ہے، تمدن کی روحِ رواں ہے اور
یہ بھی کہ کتابیں ازل ہیں کتابیں ابد۔
ایک خاتون لائبریرین شاعرہ امتہ لودودروحی ؔ کا کہنا ہے
ہنر مندی و تحقیق سکھاتی ہے کتاب آدمی کو انسان بناتی ہے کتاب
جو کرتے ہیں محبت کتابوں سے روحیؔ
ہر لمحہ نیا فہم سکھاتی ہے کتاب
کبھی میَں نے کہا تھا
حصول علم ہے ہر اِک فعل سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
کتاب لکھنا کس قدر دشوار گزار کام ہے اس کا اندازہ اہل قلم ہی کرسکتے ہیں۔
کتاب کی اہمیت ہی قلم کار کو اس قدرمحنت اور ذہنی اور جسمانی مشقت پر آمادہ
کرتی ہے۔کتاب مصنف کی سوچ ، تفکر، تحقیق و جستجوکا حاصل ہوتی ہے۔ نثر نگار
یا شاعر اپنا مافی الضمیر الفاط میں بیان کرکے جس قدر اطمینان اور سکون
محسوس کرتا ہے ۔ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے ، بقول شاعر
لکھنے والا ہی جان سکتا ہے
حرف لکھنے میں جو قیامت ہے
سیدمحمد اصغر کاظمی ادب کی دنیا میں تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کی لکھنے کی
عمر کم ضرور ہے لیکن اس کم عمری میں انہوں نے جس قدر لکھا جو چھپ کر ہمارے
سامنے آیا ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصغر کاظمی کی لکھنے کی
عمر جب پچاس ساٹھ کی ہوگی تو ان کی تصنیفات و تالیفات کا کیا عالم ہوگا۔
میَں نے اپنے کالج (گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد )میں شاید اکتوبر
۲۰۰۷ء میں ایک دھان پان سے انسان کو دیکھا ، شکل صورت سے معصوم سا لگ رہا
تھا، سادہ لباس، چشمہ لگا ہوا، گندمی رنگ، سیاہ بال اپنے کام سے کام رکھا
کرتا، کلاس لی خاموشی سے اسٹاف روم میں آیا ، کلاس کا وقت ہوا پھر کلا س
لینے چلا گیا، ایک دن اس سے قربت حاصل ہوہی گئی معلوم ہوا کہ یہ نوجوان
اردو کے استاد ہیں، تفصیلی تعارف بھی ہوا، اطمینان ہوا کہ یہ صرف ایک استاد
ہی نہیں بلکہ لکھنا پڑھنا بھی کیا کرتے ہیں، شام کے اوقات میں حسرت موہانی
میموریل لائبریری ، نارتھ ناظم آباد سے وابستہ بھی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ
ایک معروف ادبی جریدے ’’نگارِ پاکستان‘‘ سے بھی بطور مدیر منسلک ہیں ۔ جس
کے سرپرست اور مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور یہ اس کے
مدیرہیں۔ کیونکہ میَں بھی لکھنے کے مرض میں مبتلا ہوں اس حوالے سے
اصغرکاظمی سے ملاقاتیں رہنے لگیں۔ لیکن میں جلد ہی اپنی ملازمت کی مدت پوری
ہونے پر ریٹائر ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ شروع میں جامعہ سرگودھا چلا گیا ایک
سال بعد چند ماہ کے لیے سعودی عرب میں قیام رہا ۔ اس طرح اصغر صاحب سے
ملاقات میں طویل وقفہ آگیا۔ واپسی ہوئی اور کالج کبھی کبھار جانا شروع کیا
تو اصغرصاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ ان ہی کی توسط سے میری
کچھ تحریریں نگار پاکستان میں شائع ہوئیں۔ ایک دن حسرت موہانی میموریل
لائبریری جانا ہوا، باتوں باتوں میں اصغرکاظمی نے خیال ظاہر کیاکہ میَں ان
کی کتابوں پر ایک مضمون لکھوں۔ کتاب ہی تو میرا موضوع ہے میَں نے آمادگی
ظاہر کردی، اس بندہ خدا نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسی وقت اپنی ڈھیر ساری
کتابیں میری گاڑی میں رکھ دیں۔ اب مجھ پر لازم ہوگیا کہ میں ان کی تصانیف و
تالیفات کا پوسٹ مارٹم کروں اور ایک تحقیقی مضمون لکھوں۔ کتاب لکھنے والوں
کے لیے معروف شاعر صہبا اختر نے کیا خوب کہا ہے
مصنف کتابوں کے ویراں سہی
حقیر و غریب ، و پریشان سہی
مگر ان کو حاصل ہے وہ سلطنت
کہ پرچم کشا ہے جہاں تمکنت
صہبا اختر نے پھر یہ بھی کہا جو حقیقت پر مبنی ہے
کتابوں کا افسوں نہیں ٹوٹتا
کبھی ان کا سورج نہیں ڈوبتا
ادب میں اصغرکاظمی کا میدانِ عمل تنقید و تحقیق ہے ، میری طرح شخصیات بھی
اس کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اسی حوالہ سے اصغرکاظمی نے بے شمار ادبی شخصیات کو
اپنا موضوع بنا یا۔ انہوں نے مضامین بھی بے شمار لکھے لیکن جو کتابیں اب تک
شائع ہوچکی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہکاظمی صاحبنے کتابوں کے حوالے سے
تدوین کا کام زیادہ کیا ہے۔ میرے خیال میں لکھنے سے زیادہ لوگوں سے لکھوانا
یا مطلوبہ موضوعات پر شائع شدہ تخلیقات کی تلاش، جان جوکھوں میں ڈالنے کے
مترادف ہے۔ فاضل مولف اپنے اس مقصد میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ بقول
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’ محمد اصغر کاظمی ایک با خبر نوجوان ادیب
ہیں۔ متعدد کتابوں کے مرتب و مصنف ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش رکھے اور
تحقیق و تنقید کے حوالے سے وہ تادیر ادب کی خدمت کرتے رہیں‘‘۔میری دعائیں
بھی اس نوجوان تخلیق کار کے لیے ۔اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ فاضل مولٔف کے
موضوعات میں پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مولانا حسرت موہانی ، بیگم حسرت
موہانی اور اشتیاق اظہر شامل ہیں ۔ان کے علاوہ تنقید، خطوط اور اداریوں کے
حوالے سے بھی تالیفات مرتب کی ہیں۔ذیل میں اصغر کاظمی کی ان تمام تصانیف و
تالیفات کا تحقیقی جائزہ لیا گیاہے ۔ کسی بھی لکھاری کی کل کائنات اس کی وہ
تحریر ہوا کرتی ہے جو طبع شدہ صورت میں عوام الناس کے سامنے آجائے۔ چناں چہ
فاضل مصنف جو گزشتہ کئی برسوں سے تصانیف و تالیفات کے میدان میں مصروف عمل
ہیں کی کل مطبوعات کا ایک اجمالی جائزہ لیا گیا ہے تاکہ اصغر کاظمی کی
شخصیت میں چھپے تخلیقی راز افشاں ہوسکیں۔سید محمد اصغر کاظمی کے لکھنے اور
چھپنے کی عمر تو زیادہ ہوگی لیکن تصنیف و تالیف کی اشاعت ایک مختصر سی کتاب
سے ہوئی جو ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ کتاب تنقید کی ایک مختصر سی کتاب
تھی جوداستان سب رس اور رانی کیتکی سے متعلق ہے ۔
سب رس اور رانی کیتکی کی کہانی کا تنقیدی جائزہ‘؍ سید محمد اصغر کاظمی
امروہوی اور ایم اے راقم کھو کھر․۔ کراچی: کھوکھر پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ء، ۹۶ص۔
اردو میں داستان گوئی کو منفرد مقام حاصل ہے، اس فن کے خالق اسد اﷲ تھے جو
ملاوجہی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ ملا وجہی کی تحریر کردہ شہرہ آفاق
داستان ’’سب رس‘‘ہے جو ۱۶۳۵ء میں تخلیق ہوئی اور مولوی عبد الحق بابائے
اردو نے اس داستان کو ۱۹۳۶ء میں پہلی بار شائع کیا۔یہ داستان دکن کے قطب
شاہی خاندان کے عبد اﷲ قطب شاہ کے کہنے پر لکھی گئی تھی۔محققین کا خیال ہے
کہ اردوکی یہ داستان نیشا پور کی فارسی مثنوی ’’دستور عشاق‘‘ اور اس کے
نثری خلاصہ ’شبستان خیال ‘اور ’’حسن و دل سے ‘ماخوذ ہے۔ تصنیف داستان ’’سب
رس‘‘ اورسید انشاء اﷲ خان انشاء کی تخلیق ’’رانی کیتکی ‘‘ کی تلخیص ان کے
سوانحی خاکے اور کہا نی پر تنقیدی تبصرہ پر مشتمل ہے۔یہ مختصر کتاب اردو کے
طلبہ کی نصابی ضروریات کی تکمیل کے لیے تحریر کی گئی تھی، خوشی کی بات یہ
ہے کہ مصنفین اپنے اس مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں۔پروفیسر علی حیدر ملک
جنہوں نے کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا کے خیال میں یہ کتاب طلبہ اور اساتذہ
کے لیے یقینا کارآمد اور مفید کام ہے۔ اس کی نوعیت گویا درسی ہے۔ درسی
نوعیت کی کتابوں کا شمار اعلیٰ تنقید ی اور تحقیقی کتابوں میں نہیں ہوتا۔
لیکن اس طرح کی کتابیں نہ صرف یہ کہ نصابی ضروریات کو پورا کرتی ہیں بلکہ
تحقیق و تنقید کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں‘۔
خطوط احباب ’’جہان حمد‘‘ اور ارمغانِ حمد میں شائع شدہ خطوط پر مبنی
انتخاب؍از سید محمد اصغر کاظمی اور حافظ محمد نعمان طاہر․۔ کراچی: جہانِ
حمدپبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء، ۳۳۶ص۔
تاریخِ انسانی شاید ہے کہ خط، مراسلت یا مکتوب رسانی حضرت انسان کے مابین
باہمی تعلق کا ذریعہ رہا ہے۔فاصلو ں پر رہتے ہوئے خط ہی وہ واحد سہارا تھا
جو دو دلوں کے درمیان دوری کو کم کرنے کا ذریعہ تھا۔ وقت اور ترقی کے ساتھ
خط نے بھی اپنی ہیئت یعنی شکل صور ت بدلی، جب تحریر ایجاد نہیں ہوئی تھی اس
وقت یہی خط یا مکتوب اپنی اولین صورت’ تصویری خط ‘ دور رہنے والوں کے
درمیان ایک دوسرے کی بات کو پہچانے کا ذریعہ تھا۔تصویر کشی فن تحریر یا
خطاطی کا سنگِ بنیاد اور خطاطی و مصوری کا سرچشمہ تصو ر کی جاتی ہے۔تاریخ
میں ایک ترکستانی دوشیزہ کا محبت نامہ گویا خط مشہور ہے ، یہ خط اس وقت کا
ہے جب گفتگو کے لیے کوئی زبان وجود میں نہیں آئی تھی ۔ اس دوشیزہ نے ایک
تھیلے میں چند چیزیں رکھ کر اپنے سے دور رہنے والے اپنے محبوب کو بھیج دیں۔
یہ اس دوشیزہ کا اس زمانہ کا خط تھا ،اپنے محبوب کے نام۔ اس تھیلے میں رکھی
ہوئی ہر چیز ایک خاص مفہوم ظاہر کرتی تھی مثلاً بھوسے کا تنکا: تمہاری محبت
میں میرارنگ زرد ہو گیا ہے، سرخ گلاب: جب میں تمہارا تصور کرتی ہوں تو میرا
چہرہ سرخ ہوجاتا ہے، سوکھی ہوئی خوبانی یا کوئی اور سوکھا ہوا پھل: میں اس
پھل کی طرح سوکھ گئی ہوں،جلاہوا کوئلہ: میرا دل تمہاری محبت میں سلگ رہا
ہے،ایک خوشنما پھول: تم حسین ہو، شکریا میٹھی کوئی چیز : تم شیریں ہو،پتھر
: کیا تمہارا دل پتھر کا ہو گیا ہے، باز یا کبوتر کا پر: اگر میرے پر ہوتے
تو میں تمہارے پاس اُڑ کر پہنچ جاتی، اخروٹ کی گری: میں اپنے کو تمہیں
سونپتی ہوں۔زبان اور تحریر کی ایجاد کے بعد خط نے اپنے ہئیت بدلی اور یہ
صورت آج تک رائج ہے لیکن اب اس نے ایک نئی صورت اختیار کرلی ہے وہ ہے انٹر
نیٹ پر ای میل، موبائل پر ایس ایم ایس۔ لیکن اس کی اہمیت اور افادیت میں آج
تک کمی نہیں آئی۔
مکتوبات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کے خطوط، حجاج
بن یوسف کا خط، حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کے خطوط، شیخ شرف الحق
احمد یحییٰ مینری رحمت اﷲ علیہ کے مکتوبات اور اسی طرح دیگر علمائے دین کے
خطوط تاریخ میں زندہ و جاوید ہیں۔ ادب میں بھی خطوط کا اعلیٰ مقام ہے۔عبد
الرحمٰن چغتائی نے غالب کی مکتوب نگاری کو غالب کی شاعری سے کہیں اعلیٰ
درجہ کی تخلیق قرار دیا
ہے۔بقول غالب
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر کوئی پیغامِ زبانی اور ہے
خطوط نگاری میں مولانا آزادکا مقام بھی بلند ہے ۔ ’’غبارِ خا طر‘‘ ان کے
مکتوبات کا مجموعہ ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط کا اپنا ایک مقام ہے، ڈپٹی نذیر
احمد کے خطوط ادبی تاریخ میں اہم ہیں۔ زمانے نے کروٹ لی ،نئی ایجادات یعنی
کمپوٹر، انٹر نیٹ، موبائل اور ابلاغ عامہ نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا،
خطوط لکھنے اور بھیجنے کا رواج دم توڑ تا جارہا ہے۔ شاعروں ، دانشوروں کے
مابین مکتوبات کا جو تبادلہ ہوا کرتا تھا
ان میں بڑی حد تک کمی آگئی ہے۔ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں کے خطوط ہماری
ادبی تاریخ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔راغب ؔ مرادبادی کے بقول
دل دادہ کتابوں کے ہیں جو صاحبِ ذوق
پڑھتے ہیں خطوط ‘ اہل دانش کے بشوق
جناب طاہر حسین طاہر سلطانی ادبی جریدے ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد ‘‘ اورسہہ
ماہی ’’جہان حمد‘‘ کو مدیر کی حیثیت سے شائع کر رہے ہیں یہ جریدے حمد و
نعتیہ ادب کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔جناب محمد اصغر کاظمی
اور حافظ محمد نعمان طاہر کی مرتب کردہ یہ کتاب ان خطوط کا مجموعہ ہے جو
مختلف مشاہیر نے جناب طاہر حسین سلطانی کو تحریر کیے۔ یہ خطوط سلطانی صاحب
کے علمی ادبی تحقیقی اور تنقیدی دائروں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ان خطوط سے
ان کی ادبی کاوشوں کا ادراک بخوبی ہوتا ہے۔
جناب طاہر حسین سلطانی کے ہی حوالے سے کاظمی صاحب نے عمدہ کام کیا ہے ۔
طاہر سلطانی صاحب نے ارمغانِ حمد کے مدیر اعلیٰ کیحیثیت سے اداریے تحریر
کیے ان کو کتابی صورت میں یک جا کردیا۔ ادریوں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ
تشکیل پا گیاجو اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔
طاہر باتیں ـ: ماہنامہ ارمغارنِ حمد کے فکری و اصلاحی ادارئے؍مرتبہ اصغر
کاظمی اور حافظ محمد نعمان طاہر․۔ کراچی: جہان حمد پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء،۲۸۰ص
’’ارمغانِ حمد ‘‘کراچی سے شائع ہونے والا جریدہ ہے جس کے مدیر اعلیٰ طاہر
حسین سلطانی صاحب ہیں۔ مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے نہوں نے آٹھ سالوں ( ۲۰۰۴ء
تا ۲۰۱۱ے)میں جو اداریے تحریر کیے پیش نظر کتاب اُن اداریوں کا مجموعہ ہے۔
کسی بھی اخبار یا رسالے میں اداریے کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے ۔ مولٔفینِ کتاب
نے اداریے کے لغوی معنی ’’مدیر کی تحریر‘‘ یا مدیر کے انداز میں اظہار خیال
کے لکھے ہیں۔ انہوں نے مغربی مفکر سر جیمزبیری اور میکس لرنر کی تعریفیں
بھی بیان کی ہیں ۔ جیمز بیری کے مطابق ’’اداریہ رائے کو متاثر یا قاری کو
محظو ظ کرنے کے لیے تحقیق اور نقطہ نظر کو مختصر ، منطقی اور خوشگوار انداز
میں پیش کرنے کا نام ہے ‘‘۔ جب کہ میکس لرنر کا کہنا ہے کہ ’’اداریہ ان
رجحانات پر تبصرے کا نام ہے جو روز مرہ کے واقعات کی تہہ میں کارفرما ہوتے
ہیں‘‘۔ ان تعریفوں کی روشنی میں اداریے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
اداریہ کسی بھی اخبار یا جریدہ کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ یہ مدیر کا نقطہ نظر
، خیالات یا پالیسی بیان بھی ہوتا ہے۔ بعض مدیران اداریے میں صرف اس بات کا
اظہار کرتے ہیں کہ پیش نظر شمارہ میں کیا کچھ ہے گویا جریدہ میں شامل
مندرجات کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ بعض اداریہ نویس جدید مسائل کو بھی اپنا
موضوع بناتے ہیں، ایسے اداریے اپنے طور پر ایک مضمون ہی ہوتے ہیں۔’ ارمغانِ
حمدکی خصو صیت یہ ہے کہ یہ کراچی سے شائع ہونے والا ایک ایسا جریدہ ہے جو
صرف حمد باری تعالیٰ کے لیے وقف ہے۔ اس میں حمد باری تعالیٰ سے متعلق
مضامین ہی شائع ہوتے ہیں۔کسی بھی ایک موضوع پر رسالے کی اشاعت ایک مشکل کام
ہوتا ہے۔ ایسے جریدے توکئی ہیں جو صرف حمد اور نعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ
وسلم کے لیے وقف ہیں لیکن حمد باری تعالیٰ کے لیے و قف شاید یہ اپنی نوعیت
کا واحد جریدہ ہے۔ طاہر سلطانی صا حب جو حمد و نعت کے شاعر ہیں کا بڑا عزاز
ہے کہ انہوں نے رسالہ ’ارمغان حمد‘ کوفروریء ۲۰۰۴ء سے جاری رکھا ہوا ہے
گویا یہ مجلہ اپنی اشاعت کے آٹھویے سال میں ہے۔ مولٔفین کتاب نے ’ارمغان
حمد‘ کے اداریوں کی اہمیت کے پیش نظر ان تمام اداریوں کو جو۲۰۰۴ے سے ۲۰۱۱
کے درمیان تحریر کیے گئے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ کتاب کے آخر میں
منظر عارفی کا یک مضمون بہ عنوان ’’ارمغان حمد‘‘شامل ہے جس میں کتاب کا
عنوان ’فکر طاہر‘ لکھا ہوا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ مو لٔفین نے ابتدا میں
کتاب کاعنوان یہ رکھا ہوگا بعد میں اسے تبدیل کردیا گیاوہ بھی اجلت میں۔
یہی وجہ ہے کہ کتاب کے سر ورق پر جو عنوان شائع ہوا ہے وہ فکر طاہر سے
زیادہ اچھا نہیں ۔ کتاب کا عنوان دراصل کسی بھی شخصیت کے چہرے کی مانند
ہوتا ہے اسے صاف ستھرا ، نکھرانکھرا، جاذب نظر ہوناچاہیے چہرہ ہی شخصیت کا
اولین اظہار ہوتا ہے۔ یہی صورت کتاب کی بھی ہوتی ہے ۔ عنوان سے ہی کتاب کے
بارے میں اولین رائے قائم کی جاتی ہے۔مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع پر
عمدہ اضافہ ہے۔
ادب کی دنیا کا ایک معروف و معتبر نام ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ہے۔ ڈاکٹر
صاحب بلا شبہ اردو کے استاد الا ساتذہ میں سے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری کے
مشن کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی خدمات تاریخ
میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔ آپ نے’’نگارِ پاکستان‘‘ کو بھی قائم و
دائم رکھا ہوا ہے ۔ اردو ادب کے اس جریدے کی اشاعت کو ۹۱واں سال چل رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اس جریدے کی اشاعت کا بار ڈاکٹر صاحب کے کاندھوں پر
ہے۔ آپ نے اسے خوش اسلوبی سے اٹھایا ہوا ہے ۔ اب ا صغر کاظمی بھی ان کے
شریک سفر ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصانیف و تالیفات معیار و مقدار کے
اعتبار سے بلندی کے اعلیٰ مقام پر ہیں۔ کاظمی صاحب نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری
کی تصانیف و تالیفات کو اپنا موضوع بنایا ۔ ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ پیش
لفظ، دیباچوں کو کتابی شکل دی، ڈاکٹر صاحب کی تصانیف و تالیفات پر جو تبصرے
شائع ہوئے انہیں کتابی صورت میں شائع کیا، ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ادیبوں
اور دانشوروں کی آراکو اپنی کتاب کا موضوع بنایا۔ ذیل میں اصغر کاظمی کی ان
کتب کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے حوالے سے وقفہ
وقفہ سے منظر عام پرآئیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری : ایک ہمہ جہت صاحبِ قلم؍ مرتبہ از سید محمد اصغر
کاظمی ․۔ لاہور: الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء، ۶۷۲ص، ،۔؍۱۳۵۸ روپے۔
سید محمد اصغر کاظمی اردو ادب کی ان شخصیات میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے
قلم کی روانی کو مسلسل روادواں رکھا ہوا ہے۔ مضامین کے علاوہ تصانیف کا ایک
سلسلہ ہے جس کا آغاز ۱۹۹۷ء میں ایک مختصر سی کتاب ’’سب رس اور رانی کیتکی
کی کہانی کا تنقیدی جائزہ‘‘ سے ہوا ، تنقید کے علاوہ شخصیات ان کا خاص
موضوع ہیں۔ مولانا حسرت موحانی کے علاوہ اشتیاق اظہرمرحوم اور پھر ڈاکٹر
فرمان فتح پوری ان کا خاص موضوع رہے۔
’’ڈاکٹر فرمان فتح پوری ایک ہمہ جہت صاحبِ قلم‘‘ ایک ایسی تالیف ہے جس میں
اردوکے قابل ذکر ۸۵ لکھنے والوں کے وہ مضامین شامل ہیں جو انہوں نے ڈاکٹر
صاحب کی شخصیت اور ان کے فن کے بارے میں تحریر کیے۔، ان نامور لکھنے والوں
کا تعلق پاکستان ہی سے نہیں بلکہ متعدد کا تعلق ہندوستان سے بھی ہے ۔
پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے اس کتاب میں ۱۶
مضامین ہیں، لکھنے والوں میں مرزا ادیب، رشید حسن خان (بھارت)، مالک رام
(بھارت)، نورالحسن جعفری، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹرجمیل جالبی،
ڈاکٹرسلیم اختر، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر شباہت علی خان(جرمنی)، ڈاکٹر مظفر
حنفی (بھارت)، ڈاکٹر کمال احمد صدیقی (بھارت)، ابولجیض سحر (بھارت)، ڈاکٹر
رحیم رضا (اٹلی)، اشفاق حسین (کنیڈا)، پروفسر سحر انصاری، احمد حسین صدیقی
شامل ہیں۔وجدان و عرفان کے حوالے سے ۷ مضامین ہیں لکھنے والوں میں پروفیسر
کرار حسین، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (بھارت)، ڈاکٹرجمیل جالبی، ڈاکٹر فاروق
احمد ، ڈاکٹر انوار احمد (جاپان)، ڈاکٹر رضاکاظمی اور ڈاکٹر سید جاوید
اقبال شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی تنقید و تحقیق سے متعلق ۷ مضامین ہیں لکھنے
والوں میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر خلیق انجم (بھارت)، پروفیسر نظر احمد
صدیقی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر انور سدید، حکیم نثار احمد علوی اور
ڈاکٹر آغا سہیل شامل ہیں۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی زبان و مسائل زبان کے تحت
۴ مضامین ہیں لکھنے والوں میں ڈاکٹر عرش صدیقی ڈاکٹر نعمت الحق، عبد
الرحمٰن ناصر اور پروفیسر عقیل دانش (لندن) شامل ہیں۔لغت نویسی و فرہنگ
شناسی پرڈاکٹر مسعودحسین خان (بھارت) اور مرزانسیم بیگ کا مضمون ہے۔ اصناف
و اسالیب کے تحت۸ مضامین ہیں، لکھنے والوں میں ڈاکٹر نجم الا سلام، ڈاکٹر
عاصی کرنالی، ڈاکٹر اے بی اشرف (ترکی)، ایم حبیب خان (بھارت)، پروفیسر ریاض
صدیقی، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر انصار اﷲ نظر (بھارت) اور پروفیسر آفاق احمد
صدیقی شامل ہیں۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور شخصیت شناسی کے تحت ۱۱ قلم کاروں
کے لکھے ہوئے مضامین ہیں جن میں پروفیسر وقار عظیم، ڈاکٹر سیدمعین الرحمٰن،
سیدہ اقصح وحید، ضیاء ندیم، ڈاکٹر صابر کلوروی، محمد سہیل، ڈاکٹر عقیلہ
شاہین، ڈاکٹر محمد امین، محمد حبیب صدیقی، ڈاکٹر سید معراج نیر اور ڈاکٹر
ہلال نقوی شامل ہیں۔ ماہنامہ ’نگار‘ کے عنوان سے ۴ مضامین ہیں لکھنے والوں
میں ڈاکٹر مرزاخلیل احمد بیگ (بھارت)،پروفیسر عتیق احمد، ظفر اقبال
ظفر(بھارت)، ڈاکٹر ظفر عالم ظفری شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب پر شعراء کے منظوم
تاثرات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تالیفی و تصنیفی
سرمایہ کی فہرست، ڈاکٹر صاحب کا سوانحی خاکہ اور کچھ تصاویر کتاب کا حصہ
ہیں۔اس طرح کل ۸۵ لکھنے والوں کے مضامین کتاب کا حصہ ہیں۔
اصغرکاظمی نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ان کے فن کے حوالے سے مضامین کا ایک
ایسا مجموعہ مرتب کردیا ہے جس سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور فن اپنی طرح داری
کے ساتھ خوبصورت انداز میں سامنے آگئی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب اور ڈاکٹر
فرمان فتح پوری صاحب پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید ماخذ ثابت ہوگی۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تنقیدی زاویئے مختصر مختصر؍مرتبہ سید محمد اصغر
کاظمی․۔ لاہور: الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء، ۱۵۹ص، ۔؍۴۲۵ روپے تصانیف و
تالیفات پر اپنے سے زیادہ مستندلکھنے والے ، معروف قلم کار، سینئر ادیب ِیا
صاحب کمال استاد سے کتاب کا پیش لفظ یا دیباچہ لکھوالنے کی روایت بہت قدیم
ہے۔ مصنف کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کی لکھی ہوئی تحریر عام طور پر تقریظ،
مقدمہ، پیش لفظ، پیش نامہ، دیباچہ، تعارف کے عنوان سے ہوتی ہے۔ اس کا
بنیادی مقصد پڑھنے والوں کو کتاب اور کتاب کے مصنف کے بارے میں ایک مستند
اور ماہر لکھنے والے یا استاد کے تاثرات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔تعارف یا
دیباچہ لکھنے والا جس موضوع پر کتاب لکھی گئی اس پر مختصر اپنی رائے کا
اظہار کرتاہے اور مختصر الفاظ میں کتاب کے خالق یعنی مصنف کے بارے میں بھی
اپنی رائے کا اظہار کردیتا ہے۔یہ تعارف یا دیباچے عموماً تعریفی و توصیفی
ہی ہوا کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی تعارف یا دیباچہ ایسا لکھا گیا ہو جس میں
دیباچہ نگار نے کتاب یا صاحبِ کتاب کے بارے میں اپنی منفی رائے کا اظہار
کیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ دیباچہ یا تعارف کتاب پر لکھے گئے تبصروں سے مختلف
ہوتے ہیں۔ دیباچہ یا تعارف دوسروں سے لکھوانے میں ایک مصلحت یہ بھی کار
فرما ہوتی ہے کہ مصنف اپنی اور اپنی کتاب کی تعریف از خود لکھے،یہ کسی بھی
طور اچھا نہیں لگتا، یہ خود ستائی کے زمرہ میں آجاتا ہے، چناچہ اس مقصد کے
حصول کے لیے اپنے سے سینئرلکھنے والوں، اساتذہ، دانشوروں، عالم فاضل احباب
سے اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات لکھوانے کے لیے
دیباچہ سازی نے مقبولیت حاصل کی ۔دیباچہ بنیادی طو پر جس موضوع پر کتاب
لکھی گئی اس موضوع کے ماہر قلم کار، عالم فاضل ہی سے لکھوانے کی روایت تھی
لیکن وقت کے ساتھ دیباچہ نگاروں میں ملک کی معروف شخصیات جیسے صدر مملکت،
وزیر اعظم، وزراء اکرم، معروف سیاست دانوں، معروف تاجروں کو بھی اس فہرست
میں شامل کرلیا گیا، یقناً اس کا مقصد کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرنا ہی ہے۔
لکھنے والا جیسے جیسے مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے اس کا
شمار دیباچہ نگاروں کی فہرست میں آجاتا ہے۔ اردو کے ممتاز دیباچہ نگاروں
میں مولوی عبد الحق کا مقام بلند نظرآتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بابائے اردو کے
لکھے ہوئے مقدمات محض تعریفی و توسیفی ہی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ان کے
مقدمات میں متعلقہ موضوع پر تحقیق ہوا کرتی تھی۔عہد حاضر کے تمام ہی سینئر
لکھنے والے، اساتذہ اور استاد لااساتذہ دیباچہ نگاروں کے طور پر جانے جاتے
ہیں۔ ان میں اردو کے معروف لکھاری، استاد الااساتذہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری
کا مقام و مرتبہ بلند نظر آتا ہے۔ آپ بلا شبہ موجودہ عہد کی ممتاز اور قد
آور علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔اپنی نگارشات کے بارے میں مصنفین ڈاکٹر
صاحب کے چند جملے لکھوا نے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بے شمار
تصانیف و تالیفات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور
یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نزدیک دیباچہ نگاری ایک مستقل فن ہے ۔یہی وجہ ہے
کہ ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ دیباچے ، تقریظ، تعارف ،پیش لفظ،مقدمہ ،
دیباچہ اور فلیپ نہ صرف مصنف اور کتاب کا تعارف کراتے ہیں بلکہ موضوع پر
بھر پور روشنی بھی ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں نئے لکھنے والوں کی
اصلاح، رہنمائی اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کتاب میں کمزوری محسوس
کرتے ہیں تو اس طرح اصلاح کرتے ہیں کہ مصنف کا دل بھی رکھ لیتے ہیں اور
کمزوری کی نشان دہی بھی کر جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے
جو موضوع پر مکمل گرفت رکھتا ہو۔ڈاکٹر صاحب کی دیباچہ نگاری کا انداز بھی
منفردہے۔ آپ نے حد درجہ سادہ، رواں اور عام فہم زبان میں دیباچے تحریر کیے
ہیں تاکہ قاری کو کسی قسم کی الجھن نہ ہو۔
پیشِ نظر کتاب میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے لکھے گئے ۳۱ فلیپ اور تبصرے
شامل ہیں۔ یہ کسی بھی طور مکمل نہیں ہیں ، ان کی تعداد یقینا بے شمار
ہوگی۔اس سے قبل کاظمی صاحب ڈاکٹر صاحب کے لکھے ہوئے دیباچوں کو یکجا کر کے
کتابی شکل میں ــ’’تنقید نما‘‘ جلد اول اور جلد دوم کے عنوان سے مرتب کرچکے
ہیں۔ کاظمی صاحب کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر تلاش کا سلسلہ جاری ہے اور وہ
آئندہ بھی یہ کام جاری رکھنے کا عظم رکھتے ہیں۔ایک خیال کے مطابق ڈاکٹر
صاحب اب تک سو سے زیادہ تخلیق کاروں کی نگارشات پر فلیپ اور دیباچے تحریر
چکے ہیں۔
یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ سال نو یعنی ۲۰۱۲ء میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے
پہلا فلیپ میری خاکوں کی کتب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ کا تحریر فرمایا،
حالانکہ آپ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ڈاکٹر صاحب کی محبت ہے کہ آپ نے میری کتاب
اور میرے بارے میں تحریر فرمایا ’’ڈاکٹر رئیس صمدانی کے لکھے ہوئے خاکے اس
بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کی یادداشتیں بہت مضبوط ہیں، ان کی نگاہ حقائق
اور واقعات پربڑی گہری رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی ایک باشعور صاحب قلم ہیں،
مقبولیت و عدم مقبولیت یا کسی رسالے میں چھپنے نہ چھپنے پرذرا بھی توجہ
نہیں دیتے بلکہ ادب کی خدمت نہایت سلیقے اور لطیف پیرائے میں انجام دے رہے
ہیں۔ ان کی تحریروں کی سادہ بیانی و حق گوئی میں ایسا جادو ہے کہ وہ اپنے
قاری کو پوری طرح گرفت میں لے لیتی ہیں اور قاری کتاب ختم کیے بغیر اس کے
سحر سے نہیں نکل سکتا‘‘۔ڈاکٹر صاحب کی عنایت کے انہوں نے اپنی خرابی صحت کے
باوجود میری کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘ پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمایا تھا
۔ آپ لکھا’’کتاب بلحاظ زبان و بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے
پورے غور و فکر کے بعد لکھا ہے۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور
مختصر نویسی کا حق ادا کیا ہے۔ یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس
احمد صمدانی کے نام اور کام کو بلند و بالا کرے گی۔ کتاب نہایت صاف ستھرے
انداز میں شائع ہوئی ہے اور قاری کو متوجہ کرتی ہے ۔ مضامین کی فہرست میں
کچھ تو مختصر خاکے ہیں کچھ تنقیدی جائزے ہیں اور کچھ مختصر تذکرے، مگر
اختصا ر میں بھی وہ سب کچھ آگیا ہے جو موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے ضروری
تھا‘‘۔
تنقید نما (دوسروں کی مطبوعات پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے دیباچے)؍مرتبہ
سید محمد اصغر کاظمی․۔ کراچی: فرید پبلشرر، ۲۰۰۱ء،۳۱۷ص۔
اصغر کاظمی کی مرتب کر دہ یہ کتاب ’تنقید نما‘ بھی پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح
پوری صاحب کے تحریر کردہ دیباچے ، تقریظ، تعارف ،پیش لفظ،مقدمہ ، دیباچہ
اور فلیپ پر مشتمل ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ نثری کتب کی
تعداد ۱۷ ہے جب کہ شعری کتب کی تعداد ۲۹ ہے جن پر ڈاکٹر صاحب محترم کے لکھے
گئے دیباچے شامل ہیں۔مولف ’حرفِ آغاز‘ میں رقم طراز ہیں کہ ڈاکٹر فرمان فتح
پوری نے دیباچہ نگاری کو بھی ایک مستقل فن کی حیثیت دی ہے اسی لیے وہ
دیباچہ نگاری کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی علمی و ادبی تحقیقی مقالات کو
۔ انہوں نے دیباچہ نگاری کے سلسلے میں مولوی عبد الحق کی روایت کو برقرار
رکھا ہے۔ اسی لیے ان کے تحریر کردہ دیباچے نہ صرف مصنف اور کتاب کا تعارف
کراتے ہیں بلکہ موضوع پر بھر پور روشنی ڈالتے ہیں۔اسی لیے یہ دیباچے بڑے
جاندار اورمعلومات افزا ہیں‘۔
مولٔف نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر کردہ دیباچوں کو یکجا کرکے کئی
مقاصد کی تکمیل کی ہے۔ یہ دیباچے مستقبل کے دیباچہ نگاروں کی رہنمائی کے
ساتھ ساتھ انہیں اس فن سے آگاہی بھی فراہم کریں گے۔مصنفین ، مولفین اور ان
کی تخلیقات پر ڈاکٹر صاحب کے گراں قدرخیالات کو اس تالیف میں یکجا کردیا
گیا ہے جو مستقبل کے محقق کے تحقیقی سفر میں مفید ثابت ہوں گے۔
تنقید نما : ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے منتخب دیباچے؍(جلد دوم)؍ مرتبہ
سیدمحمد اصغر کاظمی․۔ کراچی: حرا فاؤنڈیشن پاکستان، ۲۰۰۶ء، ۲۲۴ص
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر کردہ تقریظ، تعارف، پیش لفظ، مقدمہ، دیباچہ
کے سلسلے کی یہ دوسری کتاب ہے ۔اسے مؤلف نے جلد دوم کہا ہے۔ اس میں کل ۵۳
دیباچے شامل ہیں، ۱۵ نثری کتب جب کہ ۳۸ شعری کتب ہیں۔جب کہ پہلی جلد جو
’’تنقید نما‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی اس میں ۴۶ کتابوں کے دیباچے شامل
تھے ، ان کتب کی فہرست بھی جلد دوم کے اختتام پر دی گئی ہے۔ اس طرح ان
دونوں جلدوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر کردہ ۹۹ کتا بوں جن میں ۳۲
نثری کتب اور ۶۷ شعری کتب شامل ہیں۔ مولٔف کا کہنا ہے کہ اب بھی ایسی
کتابوں کی تلاش جاری ہے جن پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر کردہ دیباچے
شامل ہیں ، گویا مستقبل قریب میں اس موضوع پر تیسری جلد بھی منظر عام پر
آسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مولٔف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر کردہ فلیپ
بھی جمع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب تک سو سے
زیادہ کتب کے فلیپ تحریر کرچکے ہیں۔
بلا شبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں ، وہ اپنے عہد
کی ایک قد آور شخصیت ہیں ان کے علمی ورثہ کو خواہ کسی بھی صورت میں ہو یک
جا کرنا گویااردو ادب کی تاریخ کے قیمتی سرمائے کو محفوظ کرنے کے مترادف
ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نقا د و تذکرہ نگار ہیں، سفرنامہ ، مرثیہ نگاری، فن تاریخ
گوئی، فنِ رباعی، شخصیت نگاری، نعت شناسی، مقالہ نگاری اور تبصرہ نگاری میں
بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان تمام کے ساتھ سا تھ ڈاکٹر صاحب نے بابائے اردو
مولوی عبد الحق کی روایت کو جاری و ساری رکھتے ہوئے دیباچہ نگاری میں بھی
اعلیٰ مقام حاصل کرلیا ہے۔ موجودہ عہد کے اہل قلم اپنی نثری یا شعری کتب پر
ڈاکٹر صاحب سے دیباچہ یا فلیپ لکھوا کر انتہائی مسرت محسوس کرتے ہیں اوراسے
اپنے لیے قابل احترام گردانتے ہیں۔کتاب پر اپنے سے زیادہ علمیت کے حامل شخص
، معروف اہل دانش یا ایل قلم سے کتاب کا تعارف دیباچہ لکھوانے کابنیادی
مقصد صاحبِ کتاب سے زیادہ کتاب کا تعارف ہوتا ہے۔ دیباچہ نگار کتاب کی بعض
خصوصیات کو اچھے انداز سے بیان کردیتا ہے جو مصنف سے نظر انداز ہوجاتی ہیں
یا خود ستائی یا انکساری کے باعث انہیں بیان نہیں کرتا ، دوسری الفاظ میں
یہ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنے والا از خود اپنی تعریف نہیں کرسکتا اس کے لیے
بھی وہ دیباچہ نگار کا سہارا لیتا ہے اور دیباچہ نگار مصنف کی اس خواہش کو
خوش اسلوبی سے دیباچے میں بیان کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تحریر
کردہ دیباچے نہ صرف مصنف اور کتاب کا خوبصورت انداز سے تعارف کراتے ہیں
بلکہ موضوع پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس عمل سے
نہ صرف دیباچہ نگاری کے فن کو دوام بخشا بلکہ بابائے اردو مولوی عبد الحق
کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی، رہنمائی اور
اصلاح کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں وہ کا میاب و کامران نظر آتے ہیں۔ بقول
مولٔف ’’جہاں وہ کتاب میں کمزوری محسوس کرتے ہیں تو اس طرح اصلاح کرتے ہیں
کہ مصنف کا دل بھی رکھ لیتے ہیں اور کمزوری کی نشان دہی بھی کرجاتے ہیں‘‘۔
علم و ادب کی جو خدمت فاضل مولف کررہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ تدوین کا فن
کوئی سہل نہیں بلکہ یہ زیادہ مشکل ․ محنت طلب اور تھکادینے والا عمل ہے ۔
کاظمی صاحب مستقل مزاجی سے اس مشکل عمل کے صراط مستقیم پر عمل پیرا ہیں ۔
امید ہے وہ جلد اس میدان کے اگلی صف کے سہواروں میں اپنا مقام بنا لیں گے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری : تصنیفات و تالیفات کے آئینے میں؍مرتبہ سید محمد
اصغر کاظمی․۔ لاہور: الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء،۲۴۴ص
پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری کا علمی سرمایا تعداد اور معیار کے اعتبار سے
قابل ستائش ہے۔ ڈاکٹر صاحب بر صغیرپاک و ہند میں اردو ادب کے اہل قلم میں
بہ طور ماہر لسانیات ، نقادو محقق، تذکرہ نگار، سفرنامہ نگار ، مرثیہ
نگاری، فن تاریخ گوئی، فنِ رباعی، شخصیت نگاری، نعت شناسی، مقالہ نگاری اور
تبصرہ نگاری میں اپنی مستند علمیت اور منفرد نقطہ ہائے نظر کی بدولت بلند
مرتبہ رکھتے ہیں۔ اردو ادب کے لیے ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات خصوصاً آپ کی
تخلیقات کئی اعتبار سے آپ کو دیگر لکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصنیفات وتالیفات کی تعداد ۷۰ سے زیادہ ہے
اور بیشتر کتب کے کئی کئی ایڈیشن بھی شائع ہوچکے ہیں۔ پیش نظر تصنیف میں
ڈاکٹر صاحب کی ۶۷ تصانیف پر تبصرے شامل ہیں ۔ یہ تبصرے اہل قلم نے تحریر
کیے اور مختلف اخبارات اور ادبی رسائل و جرائدمیں شائع ہوئے۔ ڈاکٹر حب کی
یہ تصانیف ۱۹۶۲ء سے ۲۰۱۰ء کے درمیان شائع ہوئی ہیں۔ تبصرہ نگاروں میں معروف
ادبی شخصیات شامل ہیں ان میں علامہ نیاز فتح پوری،مولانا حامد حسن قادری،
ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر غلام مصطفی، ڈاکٹر نجیب، عابد علی عابد،ڈاکٹر
سلیم اختر، کرنل غلام سرور، ڈاکٹر وفا راشدی، ڈاکٹر انور سدید، مرزاادیب،
سید ذاکر اعجاز، ابو سلمان شہجہان پوری،ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر ممتاز
احمد خان، پروفیسر احمد سعید، محمود الرحمٰن، شفیع عقیل، ادیب سہیل،ارم
اجمل ملک، رئیس الزماں خان، رحیم بخش شاہین، ثناء الحق صدیقی، شفیق الدین
شارق، امراؤطارق،ڈاکٹر مشرف احمد، نصیر احمد، محمد احمد سبزواری، ثروت رضوی
قابل ذکر ہیں۔یہ تبصرے جن اخبارات اور ادبی رسائل میں شائع ہوئے ان میں
روزنامہ جنگ، نوائے وقت، ایکسپریس ، ڈان کراچی اورادبی رسائل میں ماہنامہ
قومی زبان، ادبی دنیا لاہور، اسلامی جمہوریہ، ہفت روزہ تنویر، ممبئی،
ترجمان القرآن بہ طورِ خاص قابل ذکر ہیں۔فاضل مولٔف نے ڈاکٹر فر مان فتح ٓ
ُپوری کی تصانیف و تالیفات پر شائع شدہ تبصروں کو ایک ساتھ شائع کرکے اردو
ادب کے لکھنے والوں اور ڈاکٹر صاحب کی تصانیف کا سر سری مطالعہ کرنے والوں
کے لیے آسانی پیدا کردی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
تبصرہ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تبصر ہ کتاب یا مضمون میں شامل حقائق اور موضوع
کے بارے میں نقطہ نظر کو اختصار کے ساتھ، منطقی انداز میں اور خوب صورت
انداز سے پیش کرنے کا نام ہے۔ تبصرہ کسی بھی محقق اور مصنف یا پڑھنے والے
کو مختصر الفاظ میں یہ بتا دیتا ہے کہ مکمل تحریر یا کتاب میں اس کے مطلب
کی کوئی چیز موجود ہے یا نہیں۔ بسا اوقات پڑھنے والا صرف تبصرہ ہی پڑھ کر
یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے اس کتاب کی ضرورت ہے یا نہیں۔ تبصرہ کتاب کے
تعارف یا دیباچے سے کم اہم نہیں ہوتا ۔ تبصرہ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے
میں ابتدائی اور بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔ بعض صورتوں میں تبصرہ نگار
کتاب کی خامیوں اور مصنف کی کوتاہیوں کی بھی نشا ن دہی کردیتا ہے۔ تبصرہ
نگار طویل جملوں کے بجائے مختصر جملوں میں تحریر کی تہہ میں چھپے حقائق کو
خوبصور انداز میں بیان کردیتا ہے۔کتابوں پر تبصروں کی اہمیت کے پیش
نظراخبارات اور رسائل و جرائد میں مستقل بنیادوں پر تبصرے شائع کیے جاتے
ہیں۔ صرف تبصروں پر مشتمل تخلیقات بھی شائع ہوتی ہیں، بھارت سے ’’اردو بک
ریویو‘‘ کے عنوان سے ایک ماہانہ رسالہ شائع ہوتا ہے۔ کراچی کے ڈان اخبار ہر
ہفتہ بک ریویو کے عنوان سے خصوصی ایڈیشن شائع کرتا ہے۔نیشنل بک فاؤنڈیشن نے
تبصروں پر مشتمل خوبصورت کتابچے بھی شائع کیے ہیں۔
سیداشتیاق اظہر شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قلم کار اور ایک
سیاست داں بھی تھے۔صحافت کے پیشہ سے بھی وابستہ رہے، وہ تحریک پاکستان کے
ایک ایسے سپاہی تھے جنہوں نے مولانا حسرت موہانی کی قیادت میں جدوجہد آزادی
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مجھے اشتیاق اظہر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔
اس وقت وہ روزنامہ نوائے وقت سے منسلک تھے اور میَں عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ
کالج سے وابستہ تھا۔ حاجی عبد اﷲ ہارون کی برسی کے موقع پر میں نے ایک طویل
مضمون تحریر کیا۔ خیال تھا کے اس مضمون کو جنگ اخبار میں برسی کے موقع پر
جگہ مل جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا، وقت سے قبل ہی مجھے اندازہ ہوا کہ جنگ
اخبار میرا یہ مضمون شائع نہیں کرے گا۔ میرے ایک دوست نے کہا کہ آپ روزنامہ
نوائے وقت کے دفتر جائیں اور جناب اشتیاق اظہر صاحب سے ملاقات کریں اور
انہیں بتائیں کہ عبد اﷲ ہارون مرحوم کی برسی کے موقع پر یہ مضمون شائع
ہوجائے تو اچھا ہوگا۔ میَں قائدا عظم کے مزار کے نزدیک واقع نوائے وقت کے
دفتر چلا گیا۔ اتفاق سے اشتیاق اظہر صاحب اپنے آفس میں موجود تھے۔ میرے
تعارف کرانے پر شفقت سے پیش آئے اور میری بات توجہ سے سنی ۔ مجھ سے مضمون
بھی لیا اور کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ آپ کا یہ مضمون اسی تاریخ کو جس دن
سر عبداﷲ ہارون کی برسی ہوتی ہے نوائے وقت میں چھپ جائے۔ میں مطمئن ہو کر
واپس آگیا۔مجھے خوشی ہوئی جب میرا مضمون’’حاجی سر عبد اﷲ ہارون: شخصیت ‘‘
۲۹ اپریل ۱۹۸۲ء کو روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ آٹھ پر شائع ہوا۔ مجھے بعد
میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مضمون کو شامل اشاعت کرانے میں اشتیاق اظہر صاحب
نے ذاتی دلچسپی لی۔ اس مضمون کی اشاعت کی وجہ ہی تھی کہ روزنامہ جنگ میں
ایک ماہ بعد ہی میرا ایک مضمون ’’کراچی کے کتب خانوں کا سر سری جائزہ‘‘ ۱۴
جون ۱۹۸۲ء کو شائع ہوسکا۔اشتیاق اظہر صاحب خود تو لکھاری تھے ہی دوسروں کو
خصوصاً نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔
سید اشتیاق اظہر کے حوالے سے اصغر صاحب کی دو کتابیں منظر عام پر آئیں پہلے
۱۹۹۸ء میں ـ’’اشتیاق اظہر کی صحافتی اور شعری خدمات: مشاھیر کی نظر میں ـ‘‘
اور دوسری اگلے ہی سال یعنی ۱۹۹۹ء میں ’’سید اشتیاق اظہر فن اور شخصیت‘‘کے
عنوان سے شائع ہوئی۔
ان دونوں کتب میں سید اشتیاق اظہر کی شخصیت اور خدمات نمایاں طور پر ہمارے
سامنے آجاتی ہے۔
اشتیاق اظہر کی صحافتی اور شعری خدمات: مشاھیر کی نظر میں؍مرتبہ سید محمد
اصغر کاظمی․۔ کراچی:سمیع پبلیکیشنز، ۱۹۹۸ء،۱۲۳ص۔
سید اشتیاق اظہر شاعر اور صحافی ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک ادیب، محقق، مقرر،
دانشور، تاریخ داں، سرکاری افسر، سماجی کارکن اور ایک سیاسی شخصیت بھی تھے۔
پیش نظرکتاب میں مولف نے سید اشتیاق اظہر کے حوالے سے ان مضامین کو یک جا
کردیا ہے جوسید اشتیاق اظہر کی صحافتی اور شعری خدمات کے اعتراف میں ملک کے
دانشوروں اور اہل علم حضرات نے تحریر کیے اور وہ مختلف اخبارات ، رسائل و
جرائد میں شائع ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حکیم محمد سعید،
پروفیسر سحر انصاری، حکیم محمد احسن، محمد اسماعیل ذبیع، پروفیسر حسنین
کاظمی،پروفیسر ظفر عمر زبیری، سید محمد تقی، ہارون سعد،ریئر ایڈمرل ایم آئی
ارشد،جبریل صدیقی، خواجہ رضی حیدر، شہاب دہلوی، ڈاکٹر وفا راشدی، عبد الحق
کاسنگجوی، ڈاکٹر ارشاد الحق قدوسی، ڈاکٹر فاضل زیدی، آفاق صدیقی، پروفیسر
مظہر جعفری، جمیل جبلپوری، اکرام زیبائی، صدیق طاہر، ماجد قریشی، امجد
قریشی، منور علی، محمود خاور، اعتبار ساجد، خالد ایس حسن، سر شار صدیقی،
رعنا اقبال شامل ہیں۔ سید اشتیاق اظہر نے اپنی زندگی ہی میں ایک کتاب
’’میری صحافتی اور شعری زندگی‘‘ کے عنوان سے تحریر کی تھی ۔ بیشتر اہل قلم
نے سید اشتیاق اظہر کی اس کتاب کو اپنا موضوع بنایا اور اظہر صاحب کی
صحافتی خدمات اور شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ مولف نے ان مضامین
کو ایک جگہ جمع کرکے مرحوم سید اشتیاق اظہر پر مستقبل کے محقق کے لیے اہم
اور معلوماتی مواد فراہم کردیا ہے۔ اس طرح نہ صرف اشتیاق اظہر کی شخصیت بھر
پور انداز سے سامنے آگئی ہے ۔
سید اشتیاق اظہر : فن اور شخصیت؍ مرتبہ سید محمد اصغر کاظمی ․۔ کراچی:
۱۹۹۹ء، ۳۱۸ص۔(ناشر کانام درج نہیں)
اصغرکاظمی نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن متعدد اضافوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔
بقول پروفیسر ظفر عمر زبیری جنہوں نے اس کتاب کا پیش لفظ ’’آئینہ خانہ‘‘ کے
عنوان سے تحریر کیا ہے ’’کتاب کیا ہے آئینہ خانہ ہے کہ اشتیاق صاحب کی
شخصیت کے ۳۰تیس پینتیس ۳۵ پہلو جگمگا تے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور لکھنے
والوں میں حکیم محمد سعید، مولانا اسمعیل ذبیع، حکیم محمد احسن،
پروفیسرحسنین کاظمی اور ڈاکٹر
فرمان فتح پوری سے لے کر راقم تک شامل ہیں کہ ہر لکھنے والے نے بڑی اپنائیت
اور محبت سے اپنے خیالات اور محسوسات کا اظہار کیا ہے‘‘۔
کتاب میں مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ ابتدا میں اشتیاق اظہر کی شخصیت
پر پروفیسر حسنین کاظمی، پروفیسر ظفر عمر زبیری، ڈاکٹر فرید الدین بقائی،
خواجہ رضی حیدر، صدیق طاہر، امجد قریشی اور مسعود حسن شہاب دہلوی کے مضامین
ہیں۔ جن سے اشتیاق اظہر کی شخصیت کے تقریباً تمام ہی پہلو خوبصورتی کے ساتھ
سامنے آگئے ہیں۔شخصیت اور شاعری کے عنوان سے۱۴ مضامین ہیں لکھنے والوں میں
ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر وفا راشدی، ڈاکٹرعبد الحق حسرت، پروفیسر سحر
انصاری، ڈاکٹر ارشادا لحق قدوس،ڈاکٹر فاضل زیدی، پروفیسر مظہر علی جعفری،
شہاب دہلوی، پروفیسر آ فاق صدیقی،سر شار صدیقی، اکرم زیبائی ، ماجد قریشی،
شبانہ علی اور محمود اختر کاظمی شامل ہیں۔شخصیت اور صحافت کے عنوان سے جن
لکھنے والوں کے مضامین شامل مجموعہ ہیں ان میں محمد اساعیل ذبیع، حکیم محمد
سعید، سید محمد تقی، ہارون سعد، حکیم محمد احسن، ایم آئی ارشد، جبریل
صدیقی، جمیل جبلپوری، منور علی، محمود خاور، خالد ایس حسن، رعنا اقبال، سید
محمد اصغر کاظمی، تاثیر نقوی، خان ظفر افغانی، اعتبار ساجد
اور فیروز احمد سمیع شامل ہیں۔
اس مجموعہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اشتیاق اظہر صاحب کی تحریر
کردہ ۲۳ تصانیف و تالیفات پر مختلف اہل قلم کے تحریر کردہ تبصرے بھی شامل
ہیں۔بعض شعرا کا منظوم خراج عقیدت، اشتیاق اظہر صاحب کو مختلف تقاریب میں
جو نثری اور شعری سپاس نامے پیش کیے گئے ، انٹر ویو، یادگار تصاویر اور
اعزازات کی تفصیل بھی کتاب کا حصہ ہے۔
مولانا سید فضل الحسن، حسرت موہانی کے نام سے معروف ہیں اردو ادب میں اعلیٰ
مقام اور بلند منصب و مرتبہ پر فائز ہیں۔ وہ ’سید الا حرار‘ اور’ر ئیس
المتغزلین‘ کہے جاتے ہیں۔ وہ ایک نڈر صحافی ہی نہیں بلکہ اردو صحافت کے
بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو غزل کے ممتاز شاعر ، شارح ،تذکرہ نگار، نقاد،
سیاسی رہنما ء ا ور تحریک آزادی کے صفِ اول کے رہنماؤں میں سے تھے ۔ صاف گو
اورحق پرست ہی نہیں خدا
رسیدہ صوفی اور درویش منش انسان تھے۔اپنے نام اور تخلص کے حوالہ سے ان کا
یہ شعر بہت مقبول ہے
عشق نے جب سے کہا حسرت مجھے
کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن
بابائے اردو مولوی عبد الحق نے اپنے ایک مضمون ’’مولاناحسر ت موہائی‘‘ جو
ماہنامہ ’تہذیب‘ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا ۔ مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھا
تھا کہ ’’اگر کوئی ناواقف پہلی بار مولانا حسرت کو دیکھتا تو سمجھتا کہ یہ
کوئی مخبوط الحواس شخص ہے۔ ان کی ٹوپی پر جو اکثر ترکی ہوتی تھی۔ آدھ آدھ ا
نگل چیکٹ جمع ہوتا تھا۔ داڑھی پریشان، لباس میں کوئی سلیقہ نہیں، نہ میلا
نہ اجلا، جوتے نے کبھی برش کی صورت نہ دیکھی تھی۔ آواز جھینگر سے ملتی
جلتی۔ لیکن اس بے ڈال قالب میں بے پایاں روحانی وقت، اخلاقی جرأت اور خلوص
و صداقت تھی‘‘۔
حسرت کے بارے میں بابائے اردو کی اس رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسرت علامہ
اقبال کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر تھے
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
حسرت نے سادہ زندگی گزاتے ہوئے دنیا میں جو نام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں
کو نصیب ہو سکا ہے۔ان کی اسی خصوصیت نے انہیں سید الا حرار اور تحریک آزادی
کے عظیم رہنما ء ہونے کا اعزاز بخشا۔ معروف دانش ور سر شار صدیقی نے
انہیں’’فوق البشر‘‘ کہا۔مشکل وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، جیل
میں رہے تو وقت ضائع نہیں کیابلکہ ادب اور غزل میں ایسا مقام پیدا کیا کہ
’’ر ئیس المتغزلین‘‘
کہلائے۔ جیل میں کہا ہوا ایک شعر جو بے انتہا مشہور ہے
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اِک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
اردو ادب کا کون سا ایسا بڑا ادیب اور دانشور ہے جس نے حسرت پر قلم نہیں
اٹھا یا۔ حسرت کی شخصیت سے لے کر سیاسی جدوجہد، ادب کے مختلف پہلوؤں پر
علیحدہ علیحدہ مضامین اور کتابیں لکھی گئیں اور حسرت پر مختلف زاویوں سے
تحقیق کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔حسرت کے حوالہ سے یوں تو
کئی نام لیے جاسکتے ہیں لیکن محمد اصغر کاظمی صاحب کو بلاشبہ حسرت شناسی
اور حسرت پر تحقیق و جستجو میں یقینا ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ انہوں نے
حسرت موہائی کی شخصیت، تذکرہ نگاری، حمد و نعت اور منقبت گوئی کے علاوہ
مولانا حسرت موہانی دانشوروں کی نظر میں جیسی تالیفات مرتب کر کے حسرت
شناسی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حسرت پر کئی احباب نے کام کیا ۔سرشار صدیقی کے مطابق حسرت موہانی کے سوانحی
تعارف کے طور پر سب سے پہلے ۱۹۱۸ء میں ’’حالات حسرت‘‘ کے عنوان سے جناب
عارف ہسوی نے پہلی بار تفصیلی جائزہ کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ پھر ۱۹۴۶ء
میں جناب عبدالشکور نے ’’حسرت موہانی ‘‘ کے نام سے کتاب دی، جناب محمد اسلم
ہندی نے ۱۹۵۵ء میں ’’راز دانِ حیات‘‘ تصنیف کی، اسی زمانے میں جناب عبد
القوی دسنوی نے ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘ کے نام سے کتاب چھاپی، پھر ساٹھ کی
دیہائی میں ’’حسرت کی شاعری‘‘ اور ’’مولانا حسرت موہانی‘‘ کے عنوان سے علی
التر تیب جناب داکٹر یوسف حسین خان اور جناب حکیم محمد سعید کی کتابیں شائع
ہوئیں۔حسرت موہانی کے حوالہ سے سید اشتیاق اظہر کی مطبوعات میں سید الا
حرار، مولانا حسرت موہانی حصہ اول ذاتی زندگی( اشتیاق اظہر اور نصرت
موہانی)، حسرت کی زندگی، مقا لات حسرت، مولانا حسرت موہانی کا سلسلہ سخن،
نشاط النسا ء بیگم حسرت موہانی سیرت و خطوط کی روشنی میں، حسر ت موہانی کی
منتخب نظمیں (انگریزی ترجمہ) حسرت شناسی اور حسرت فہمی کی تحریک کو ایک نئی
سمت دی۔
جناب شفقت رضوی نے حسرت پر کئی کتابیں مرتب کیں ان میں ’گلدستہء حسرت‘،
’انتخاب دیوانِ حسرت‘،’ مولانا حسرت مجاہد آزادی کامل‘،’ مطالعہ حسرت
موہانی ‘اور’ مولانا حسرت موہانی کتابیات‘ شامل ہیں۔ان مطبوعات کے بعد
کراچی میں حسرت موہانی میموریل لائبریری ایند ہال ٹرسٹ نے حسرت پر مطبوعات
کا سلسلہ دوبارہ جاری کیا ۔ ابتدا ء میں سید اشتیاق اظہر نے حسرت کے حوالہ
سے کئی تالیفات مرتب کیں ان کے اس عظیم مقصد کے لیے ’حسر ت موہانی لائبریری
و ٹرسٹ ‘ کو سید محمد اصغر کاظمی کے روپ میں ایک محنتی، جفاکش، تحقیقی ذہن
رکھنے والا ، کھوج لگانے اور جستجو کرنے کی فکر میں رہنے والا نوجوان میسر
آگیا جس نے حسرت فہمی اور حسرت شناسی کی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے حسرت سے
محبت کرنے والوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کر نے میں نمایاں کردار ادا کیا
۔بقول رئیسہ موہانی ’’اصغر کاظمی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور مولانا
حسرت موہانی کے بارے میں ان کا مطالعہ خاصا وسیع ہے ۔ انہوں نے مہینوں کی
شب و روز محنت کے بعد مولانا کے بارے میں شائع ہونے والی ایسی نادر و نایاب
تحریریں تلاش کر لیں ہیں جو علم وادب کی دنیا کے روشن ستاروں نے مولانا کے
فن اور شخصیت کے بارے میں قلم بند کی تھیں‘‘۔ ذیل میں کاظمی صاحب کی ان
تالیفات کا تذکرہ الگ الگ کیا جاتا ہے۔
سید الا حرار ․․․ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہائی: دانشوروں کی نظر
میں؍ترتیب وتدوین سید محمد اصغر کاظمی ․۔ کراچی: حسرت موہانی میموریل
لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)، ۲۰۰۲ء،۲۹۶ص۔
حسرت موہانی کے حوالہ سے اصغر کاظمی کی اولین تالیف ۲۰۰۲ء میں منظر عام پر
آئی یہ ’’حسرت موہانی دانشوروں کی نظر میں‘‘ تھی اور اس کتاب کو حسرت
موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال(ٹرسٹ) نے شائع کیا ۔کتاب کا انتساب رئیسہ
موہانی اور سید انعام الحسن موہانی کے نام ہے۔ کتاب کا ابتدئیہ ڈاکٹر فرمان
فتح پوری کا تحریر کردہ ہے اور پیش لفظ پروفیسر قیصر نجفی سابق صدر شعبہ
اردو، عائشہ باوانی گورنمنٹ کالج نے تحریر کیا ہے۔ کتاب میں پاک و ہند سے
تعلق رکھنے والے اردو ادب کے ۵۵ دانشوروں کی آراء شامل ہیں۔ان میں بابائے
اردو مولوی عبد الحق ، مولانا جمال میاں فرنگی محلی، اسماعیل ذبیع، سید حسن
مثنیٰ ندوی، سید ہاشم رضا، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر سید عبد اﷲ، ڈاکٹر عبادت
بریلوی، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید ابو الخیر
کشفی، ڈاکٹر محمود الرحمان، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، رئیسہ بیگم موہانی،
سید اشتیاق اظہر، ڈاکٹر خلیق انجم اور دیگر معروف دانشور شامل ہیں۔بلا شبہ
یہ تالیف مولانا حسرت موہانی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ہی نہیں سیاسیات،
صحافت کے علا وہ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک مفید کتاب ہے۔
مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی؍مرتب سید محمد اصغر کاظمی
․۔ کراچی: حسرت موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)، ۲۰۰۳ء،۱۷۷ص۔
حسرت موہانی کے حوالہ سے سید محمد اصغر کاظمی کی دوسری تالیف اگلے ہی سال
یعنی ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ حسرت کی حمد و نعت اور منقبت گوئی سے
متعلق ہے۔حسرت غزل ہی میں رئیس المتغزلین نہ تھے وہ حمد ، نعت اور منقبت
اور ادب کی دیگر اصناف میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر
فرمان فتح پوری ’’حسرت موہانی کا مطالعہ شعر و ادب میں چونکہ اپنے سارے
معاصرین سے وسیع ، توانا تھا اس لیے اس توانائی و وسعت کے آثار اُن کی
شاعری میں بھی نمایاں ہیں۔ انہوں نے اپنے بارے میں جو یہ کہا ہے کہ !
غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر اُستاد سے فیض
تو غلط نہیں کہا البتہ اِس فیض رسائی کے باوجود کسی اُستاد کے مقلد نظر
نہیں آتے۔انھوں نے دوسروں کے فیض و اثر کو قبول تو کیا ہے لیکن اپنے
انفرادی رنگ کو ہر جگہ برقرار رکھا ہے‘‘۔حسرت بنیادی طو ر پر غزل کے شاعر
تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام میں غزل کی جھلک نظر آتی ہے انہوں نے
اس کا اعتراف اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے
عشق حسر ت کو ہے غزل کے سوا
نہ قصیدہ نہ مثنوی کی ہوس
کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تحریر کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ
’’حسرت موہانی کی حمد و نعت کا ذخیرہ اُن کے مجموعہ کلا م میں اس طرح بکھرا
ہوا ہے کہ آسانی سے نظر نہیں آتا پھر بھی جو ئیدہ پابندہ کے مصداق جناب
اصغر کاظمی نے حسرت کی حمد و نعت اور منقبتوں کے بارے میں ایسی اطلاعات
فراہم کردی ہیں جو مولانا حسرت موہانی سے اصغر کاظمی کے لگاؤ کا ثبوت بھی
فراہم کرتی ہیں اور اُ ن کی تحقیقی و تنقیدی نظر کو معتبر بھی بناتی ہیں‘‘۔
مولانا حسرت موہانی ـ:ایک ہمہ جہت شخصیت ؍تحقیق و ترتیب سید محمد اصغر
کاظمی ․۔ کراچی: حسرت ماہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)،
۲۰۰۴ء،۳۹۲ص۔
حقیقت یہ ہے کہ حسرت شناسی اور حسرت فہمی کے حوالہ سے فاضل مولف نے جو
کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ مولاناحسرت موہانی کی شخصیت اور فکر و فن
پر ایک اہم اور قابل قدر حوالہ ہیں۔پیشِ نظر کتاب میں حسرت کی شخصیت کے
حوالہ سے ۴۴ اہل دانش کے مضامین شامل ہیں۔ سرشار صدیقی نے اپنے دیباچہ
بعنوان ’تفہیمِ حسرت اور جدید نسل‘ میں لکھا کہ ’’یہ کتاب جہاں مولانا حسرت
موہانی کے بارے میں ایک خوشگوار اضافہ ہے وہیں دوسرے حسرت پسند نوجوانوں کے
لیے ایک بھر پور تر غیب بھی ہے‘‘۔پروفیسر عزیز انصاری نے اس کتاب کو حسرت
فہمی پر ایک بڑا کام قرار دیا۔المختصر یہ کتاب تاریخ و سیاسیات ، صحافت اور
ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک نادر تحفہ اور اہل تحقیق کے لیے
حسرت پر ایک بیش بہا حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
رئیسہ موہانی نے اپنے ’‘ابتدائیہ ‘ میں لکھا ہے کہ میری نظر سے مختلف
ادیبوں کی تحریروں کا ایسا گلدستہ ابھی تک نہیں گزرا جس میں مولانا کی
شخصیت کے اتنے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہو، اس مجموعہ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں
مولانا کی سیاست ، صحافت، مکتوب نگاری، غزل گوئی، تذکرہ نویسی، نظم گوئی،
عشقیہ شاعری، نفسیاتی واقفیت نگاری، حمد و نعت گوئی، منقبت نویسی، شارح،
تنقیدی اور تحقیقی شعور، ماہرِ نکاتِ سخن، درویشی، آئین فہمی، عزم و
استقلال، دین داری، قلندرانہ مزاج، مذہبی رجحان، انقلابی شاعری، مناجات
گوئی، اور اداریہ نویسی کے ساتھ ساتھ کھیل کود سے دلچسپی ان کی شاعری کے
حّسی تلازمے اور ان کی تصانیف جیسے اہم موضوعات کے بارے میں ادیبوں کی
تحریریں شامل ہیں۔جن کی بدولت یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت اختیار
کرلے گی اور یہ کتاب مستقبل کے محققین کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
مولانا حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری؍مرتبہ سید محمد اصغر کاظمی ․۔ کراچی:
حسرت موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)، ۲۰۰۸ء،۱۷۳ص۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری کا انداز سب سے
مختلف ہے۔ ایک انفرادیت ان کے تذکروں کی یہ ہے کہ انہوں نے ہر بڑے شاعر کے
ذکر کے ساتھ اس کے تلامذہ کا سلسلے وار ذکر کیا ہے‘۔اصغر کاظمی کی کتاب
’’مولانا حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری ‘‘، حسرت فہمی اور حسرت شناسی کے
حوالہ سے قابل تعریف کام ہے۔ مولف نے محنت اورسلیقہ کے ساتھ معروف اہل دانش
اور معتبر اہل قلم کی نگارشات شامل کی ہیں۔ کسی بھی موضوع پر از خود لکھنا
اتنا مشکل نہیں جتنا کسی اور سے کسی بھی موضوع پر لکھو انا ہو تا ہے۔ اسی
طرح مضامین کے انتخاب کا مرحلہ بھی انتہائی کٹھن اور مشکل ہوتا ہے۔ بسا
اوقات یہ فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے کہ کس مضمون کو شامل کیا جائے اور کس کو
نہیں۔ مولف اس منزل میں سرخ رو نظر آتے ہیں انہوں نے تمام مقالات کا انتخاب
انتہائی ذہانت اور تدبر سے کیا ہے۔ پروفیسر ہارون
الرشید نے اس مجموعہ کو حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری پر ایک گراں قدر کتاب
قرار دیا ہے۔
کتاب میں چھ مقا لات شامل ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر احمر لاری کے مقالہ کا عنوان
ہے ’’حسرت موہانی کا نظریۂ تذکرہ نگاری‘‘، پروفیسر سید شفقت رضوی کے مقالہ
کا عنوان ہے ’’تذکر ہ نگاری اور حسرت موہانی‘‘، پروفیسر اشتیاق طالب نے
’’حسرت موہانی اور تذکرہ نگاری ‘‘ کے تحت مقالہ تحریری کیا ہے۔ ان کے علاوہ
پروفیسر ڈاکٹر سید افضال احمد بخاری، پروفیسر شفیق الرحمٰن، ایم حبیب خان
اور سید محمد اصغر کاظمی نے بھی حسرت کی تذکرہ نگاری پر مقالات تحریر کیے
ہیں۔
کتاب کے بارے میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ، لکھتی ہیں کہ ’’ان مضامین کو یک
جا کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ حسرت موہانی کی تذکرہ نویسی کے حوالے سے
تذکرۃالشعرء اُردوئے معلیٰ کی ادبی اہمیت اُجا گر ہوتی ہے‘‘۔
مولانا حسرت موہانی کی صحافتی خدمات (اردوئے معلی، تذکرۃ الشعراء، مستقل
اور استقلال کے آئینے میں؍مرتبہ سید محمد اصغر کاظمی․۔کراچی: حسرت موہائی
میموریل لائبریری اینڈ ہال(ٹرسٹ)، ۲۰۱۲ء،۱۷۶ص
پیش نظر تصنیف کے مو لٔف سید محمد اصغر کاظمی نے کتاب کے ابتدائیہ میں درست
کہا کہ ’’ مولانا حسرت موہانی ایک بلند پایہ شاعر اور تذکرہ نگار و نقاد
ہونے کے ساتھ سا تھ اردو صحافت کے ایک ایسے علمبردار تھے جن کا ہمسر نہ اُن
کے عصروں میں نظر آتا ہے اور نہ اُن کے بعد آنے والوں میں‘‘۔صحافت کے حوالے
سے مولانا کی خدمات تاریخ کا ایک انمٹ باب ہیں۔ انہوں نے اپنے ذوق کی تسکین
کے لیے مختلف ادوار میں رسائل نکالے جن میں وہ اپنے ادبی ، سماجی اور سیاسی
خیالا ت بھی پیش کرتے رہے ساتھ ہی ساتھ ادب کی خدمات بھی۔ ان کے جاری کردہ
رسائل اردوئے معلی، تذکرۃ الشعراء، مستقل اور استقلال کو اردو ادب میں
اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ان چاروں رسائل میں اردوئے معلی کومولانا کی صحافتی
زندگی میں ایک شناخت کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ رسالہ صرف مولانا حسرت موہانی کی
شناخت ہی نہیں بلکہ اردو صحافت کو اس رسالہ نے ایک شناخت دی۔ یہ ایک نیم
ادبی اور نیم سیاسی رسالہ تھا۔ اس رسالہ میں شائع ہونے والی تحریروں میں
مولانا کی بے لاگ شخصیت کا عکس نمایاں طو ر پر دیکھا جا سکتا ہے۔
’’اردوئے معلی ‘‘۱۹۰۳ء میں شائع ہوااور ۱۹۴۲ء تک شائع ہوتا رہا، یہ کئی بار
بند بھی ہوا پھر جاری ہوتا رہا ۔ اردوئے معلی کے بند ہوجانے کے بعد ۱۹۴۱ے
میں’’ تذکرۃ الشعراء‘‘ جاری کیا اس کے صرف سات شمارے ہی شا ئع ہوسکے، ۱۹۲۸ء
میں’’ مستقل ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کانپور سے جاری کیا ۔ ۱۹۲۱ ء میں
مولانا نے’’ استقلال‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ ان رسائل میں مولانا
حسرت موہانی اپنے ادبی ، سیاسی و مذہبی خیالات و افکار کا اظہار انتہائی بے
باکی سے کرتے رہے۔ ان چاروں میں جو مقام و مرتبہ اردوئے معلی کو حاصل ہوا
وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا اس کی وجہ اردوئے معلی کا طویل عرصہ تک جاری
رہنا تھا۔ یہ رسالہ انتالیس سال (جولائی ۱۹۰۳ے سے مارچ ۱۹۴۲ء ) تک جاری
رہا۔ اس کی طویل زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ، کبھی بند بھی ہوا پھر
جاری ہوا۔ یہ در اصل مولانا حسرت کی مکمل زندگی کا آئینہ دار تھا۔ اس رسالے
نے ہی اردو صحافت میں بے باکی اور بے خوفی کی روایت کو پروان چڑھایا، لوگوں
میں سیاسی شعور کو بیدار کیا ، یہی رسالہ مولانا کو قید و بند کی صعوبتیں
جھیلنے کا باعث بھی ہوا۔
پیش نظر تالیف میں مولانا حسرت موہانی کی صحافتی زندگی اور اردوئے معلی کے
حوالے سے گیارا مضامین شامل ہیں ۔ ان میں پروفیسر آلِ احمد سرور کا مضمون’’
اردو ئے معلی کی گراں قدر خدمات‘‘ ، ڈاکٹر احمر لاری کا مضمون ’’ مولانا
حسرت موہانی ایک ممتاز صحافی‘‘ ، ڈاکٹر خلیق انجم کا مضمون ’’حسرت اور
صحافت‘‘، ڈاکٹر مظفر حنفی کا مضمون ’’حسرت موہانی کی صحافت‘‘، ڈاکٹر عفیر ہ
حامد کا مضمون ’’حسرت موہانی کی صحافتی خدمات‘‘، ڈاکٹر طاہر مسعود کا مضمون
’’حسرت موہانی کی صحافت‘‘،گربچن چندن کا مضمون ’’حسرت موہانی اور اردوئے
معلی‘‘، پروفیسر سید شفقت رضوی کا مضمون ’’حسرت موہانی اور رسالہ اردوئے
معلی‘‘، ڈاکٹر افضال احمد بخاری کا مضمون ’’اردوئے معلی حسرت کی صحافت کی
ضیاء پاشی، سلیم احمد کا مضمون ’’حسرت موہانی اور اردوئے معلی‘‘، کے علاوہ
سید محمد اصغر کاظمی کا مضمون ’’مولانا حسرت موہانی کا صحافیانہ کردار ‘‘
شامل ہے۔
اصغر کاظمی اس سے قبل بھی حسرت موہانی کے حوالے سے متعدد کتب تالیف کرچکے
ہیں۔ ان سے متعلق ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی یہ رائے مناسب معلوم ہوتی ہے کہ
’’اصغر کاظمی مولانا حسرت موہانی کے عاشقوں میں ہیں‘‘۔ وہ حسرت موہانی
میموریل لائبریری سے بھی منسلک ہیں۔ دن میں کم از کم چار گھنٹے اس لائبریری
میں گزارتے ہیں۔ اردو کے استاد ہیں، لکھاری ہیں۔ایسی صورت حال میں حسرت سے
عشق ایک
فطری عمل ہے۔ کاظمی صاحب کی یہ کاوش علمی و ادبی حلقوں خصوصاً حسرت کے
چاہنے والوں میں طویل عرصہ تک مقبول و محبوب رہے گی ۔
بیگم حسرت موہانی کے بارے میں ڈاکٹر خلیق انجم نے بہت درست لکھا کہ’’ اگر
ہندوستان کی عظیم خواتین پر کتاب لکھی جائے تو بیگم حسرت موہانی کے ذکر کے
بغیر وہ کتاب مکمل نہیں ہوسکتی ۔دراصل حسرت کی چھتنار شخصیت کے سائے میں
بیگم حسرت دَب کر رہ گئیں۔ حالاں کہ وہ پہلی مسلمان مجاہدہ خاتون تھیں ،
جنھوں نے جنگِ آزادی کا علم بلند کیا۔ مولانا محمد علی کی والدہ محمدی
بیگم، بیگم حسرت موہانی کے بعد ہی جنگِ آزادی میں شامل ہوئیں‘‘۔ خواجہ حسن
نظامی نے حسرت کی شریک حیات سیدہ نشاط النساء بیگم کو مشاہیر ہند میں شمار
کرتے ہوئے ۱۹۲۳ء میں لکھا تھا ’’حسرت کی بیوی مسلمانان ہند کی عورتوں میں
بڑی وفا دار اور شوہر پرست عورت ہے ایام بلا میں ایسی وفا شعاری اس عورت سے
ظاہر ہوئی جیسے سیتا جی نے رام چندرجی کے ساتھ کی تھی‘‘۔ شاعر تنویر پھولؔ
نے ذکر نشاط کے عنوان سے بیگم حسرت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے
کہا
موہان فخر کرتا ہے حسرت کے نام پر
تاریخ ناز کرتی ہے بیگم کے کام پر
بیگم حسرت موہانی کے حوالے سے اٖصغر کاظمی نے ایک کتاب مرتب کی جسے حسرت
موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)نے شائع کیا۔
نشاط النساء بیگم حسرت موہانی : افکار و کردار؍ تحقیق و ترتیب سید محمد
اصغر کاظمی․۔ کراچی: حسرت موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال (ٹرسٹ)،
۲۰۰۵ء،۲۱۶ص
پیش نظر کتاب نشاط النساء بیگم حسرت موہانی : افکار و کردارمیں بیگم حسرت
موہانی کی شخصیت، کردار، کام، اور ان کی عظیم الشان جدوجہد اور اپنے عظیم
شوہر حسرت موہانی کی فرمابرداری اور حوصلہ افزائی کی داستان پر مشتمل مستند
اہل قلم کی نگارشات شامل ہیں۔ کتاب کا پہلا مضمون خود مولانا حسرت موہانی
کا تحریرکردہ ہے جس میں شجرہ نسب، خاندان کی تفصیل، بیگم سے قرابت، سلسلہ
علالت اور انتقال سے ایک روزقبل خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت
کی تفصیل ، صفات وغیرہ کی تفصیل ہے۔ آخر میں حسرت لکھتے ہیں کہ مجھ کو
برابر پاداش کا خطرہ لگا رہتا تھا جس کا اظہار میں نے اپنی آخری غزل میں
بایں الفاظ میں کیا ۔ اس غزل کا ایک شعر
چھوڑ کر وہ چل نہ دیں آخر ذراہِ انتقام
مجھ کو تنہا رات دن آنسو بہانے کے لیے
نشاط النساء بیگم حسرت موہانی کی صاحبزادی نعیمہ بیگم کا مضمون ’’وَالدہ
مرحومہ‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’مولانا جیل میں رہتے تھے
اوروالدہ نہ صرف یہ کہ گھر کا خرچ چلاتی تھیں بلکہ مولانا کے دیوان شائع
کرتی تھیں اور اس پر طرہ یہ کہ ان کے مقدموں کی پیروی فرماتی تھیں۔ ان
مصائب اور شدائد نے ان کی فطرت کو اور بھی نکھار دیا تھا‘‘۔ بیگم حسرت
موہانی نے ۸ اپریل ۱۹۳۷ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ حسرت نے اپنے جذبات کا
اظہار اپنی ایک غزل میں اس طرح کیا
عاشقی کو حوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر
آروزُو کی زندگی بیکار ہے تیرے بغیر
کاروبارِ شوق کی اب وہ تن آسانی کہاں
دِل پہ ذوق شاعری اِک بار ہے تیرے بغیر
جس فراغت کاتمنائی تھا میں تیرے لئے
اب وہ حاصل ہے تو اِک آزار ہے تیرے بغیر
کتاب میں بیگم حسرت موہانی کے بارے میں م
شاہیر وقت کے خراجِ تحسین شامل ہیں جن میں عارف ہسوی، خواجہ حسن نظامی، سید
سلیمان ندوی ، شورش کاشمیری، کے مختصر خیالات ہیں جو مختلف رسائل میں شائع
ہوئے۔سر دار علی صابری کا مضمون ’’بیگم حسرت موہانی کی حریت پسندی‘‘ کتاب
کا حصہ ہے جو جنگ مڈویک میں شائع ہوا تھا۔ ضیاء الدین احمدبرنی کا مضمون،
جو عظمت رفتہ میں شائع ہوا، جلیل قدوائی کا مضمون ’’فدائے حریت (حسرت
موہانی) کی شریکِ حیات‘‘ ماہنامہ ’حسرت‘ بمبئی میں شائع ہوا ، غلام احمد
فرقت کاکوروی کا مضمون، حبیب الرحمٰن حبیب کا مضمون کشن پَرشاد کول کا
مضمون ’’حسرت کی دمساز اور ساتھی‘‘، پرنسپل عبد الشکور کا مضمون ’حسرت کی
رفیق حیات‘، ڈاکٹر اشرف کامضمون ’نشاط النساء بیگم ‘، رابعہ بیگم کا مضمون
’نشاط النساء بیگم کتاب کا حصہ ہیں ۔
ادبی جریدہ’نگارِ پاکستان ‘میں شائع ہونے والے مضامین میں رابعہ بیگم کا
مضمون ’ با حوصلہ اور جری خاتون‘ اور تحسین سروری کا مضمون بھی کتاب کا حصہ
ہے۔ الحاج ڈاکٹر سید نجم الحسن موہانی کامضمون ’بیگم حسر ت موہانی ‘ جو
العلم کراچی میں شائع ہوا، رئیسہ موہانی کا مضمون ’سچائی و ایثار کا پیکر
نشاط النساء بیگم‘‘ ، سید اشتیاق اظہر کا تفصیلی مضمون ’نشاط النساء بیگم‘
جس میں آپ نے لکھا کہ ’’بیگم صاحبہ کے انتقال کی خبر کانپور میں عام ہوئی
تو سارے شہر میں لوگوں نے سوگ میں دوکانیں بند کردیں اورا سی روزانہیں
بساطیوں کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا‘۔
حکم محمد سعید کے مضمون بعنوان ’سید الا حرار مولانا حسرت موہانی ’’حیات و
کردار کا ایک دل آویز مرقع‘ سے ماخوذبیگم حسرت پر مضمون ’بیگم حسرت موہانی‘
بھی شامل کتاب ہے۔ خدا بخش لائبریری جنرل (پٹنہ) میں شائع ہونے والا مضمون
’بیگم حسرت موہانی ّنشاط النساء بیگم) جسے ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین نے تحریر
کیا تھا شامل کتاب ہے جس میں مصنفہ نے بیگم حسرت کے خطوط بیگم صاحبہ کی
وفات پر مختلف اہم قلم کے مضامین سے اقتباسات شامل ہیں۔ڈاکٹر مظفر حنفی کا
مضمون ’حسرت کی ہمدم و دمساز‘ ہے ۔ مصنف نے بیگم حسر ت اور مولانا حسرت کی
شادی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفتوں کے باوجود یہ
شادی حسر ت اور نشاط النساء کی باہمی مرضی سے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد حسرت
نے ایک غزل میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے
ہے غرض ہر سمت اک ہنگامہء شادی بپا
کچھ نہیں چلتی ملامت گر کی ، دربابِ نشاط
احمد سلیم کا مضمون ’بیگم حسرت۔ ایک وفا شعار بیوی‘، کے علاوہ ہندوستان کے
معروف اہل قلم ڈاکٹر خلیق انجم کامضمون ’نشاط النساء بیگم‘ ، بیگم حسرت پر
تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے۔یہ مضمون کتاب ’حسرت موہانی‘ سے لیا گیاہے۔
ڈاکٹر احمر لاری کا مضمون ’بیگم حسرت موہانی حق پسند اور راست گو خاتون‘‘ ،
محمودہ بیگم کا مضمون ’نشاط النساء بیگم کے تذکرے کے بغیر حسرت موہانی کا
تذکرہ مکمل نہیں ہوتا‘ ، یہ مضمون ماہنامہ ’الانسان‘ کراچی میں شائع ہوا
تھا۔ یہ مضمون اپنے عنوان ہی سے بامعنی ہے اور حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔
رومیصا موہانی کا مضمون’ نشاط النساء بیگم۔ تحریک آزادی کی سرگرم کارکن
خاتون‘ ، طالب ہاشمی کا مضمون ’ سیدہ نشاط النساء بیگم‘، ایم حبیب خان کا
مضمون ’بہادر اور حوصلہ مند خاتون‘ اور سیف اﷲ موہانی کا مضمون ’ تحریک
پاکستان کی مجاہدہ بیگم حسرت موہانی‘ جو روزنامہ ’انصاف‘ کرچی میں شائع ہوا
سید محمد اصغر کاظمی کی تحقیق کا حصہ ہیں۔
کتاب کی اہمیت فلیپ پر ذکرِ نشاط کے عنوان سے تنویر پھول کی نظم اور غالب
عرفان کی رائے سے بھی واضع ہے۔ تنویر پھول کے خیال میں
اصغر نے کارنامہ ادب میں نیا کیا
مبسوط تذکرہ ہے یہ حسرت کی زوج کا
اے پھول ! دیکھ اس میں ہے تحقیق تہہ بہ تہہ
تاریخ اس کی ’’ کشتۂ ذکرِ نشاط‘‘ کہہ
غالب عرفان نے کتاب کو ایک تحقیقی دستاویز قرار دیتے ہوئے کتاب کے بارے میں
لکھا ’’بیگم حسرت موہانی (نشاط النساء بیگم) کے افکار و کردار پر مختلف
زاویوں سے روشنی ڈالتی ہوئی یہ کتاب جسے ہمارے عہد کے جواں سال محقق اصغر
کاظمی نے بہت محنت مشقت اور نہایت عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے دراصل ایک
دستاویز ہی نہیں بلکہ مستقبل کے مورخوں اور تحقیق کے طلباء کے لیے حوالے کی
گراں قدر خدمات انجام دینے کا مر تبہ بھی رکھتی ہے‘‘۔
سید محمد اصغرکاظمی کے لکھنے کی عمر ۱۵ سال ہے، مضامین کی تعداد تو سینکڑوں
میں ہوگی، وہ اخبارات کے علاوہ متعدد ادبی رسائل میں لکھتے ہیں ان میں نگار
پاکستان، نفاذ اردو، ارمغان حمد، الانسان، سربکف، دانش ، جہان حمد، تجدید
نو، تذکرہ، ادبِ لطیف ، عبارت، الملنگایہ اور محافطِ حق شامل ہیں۔ ان کی
اولین کتاب ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آئی جو کہ ’سب رس اور رانی کیتکی کا
تنقیدی جائزہ تھا۔ اس بتد اء کے بعد مولف تدوین کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔
اشتیاق اظہر اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح
پوری کی جانب مائل ہوئے اور اشتیاق اظہر ،مولانا حسرت موہانی اور پروفیسر
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے حوالے سے تالیفات منظر عام پر آئیں۔ دیگر موضوعات
میں نشاط النسا ء بیگم حسرت موہانی ، خطوط ، اداریے کے حوالے سے ایک ایک
کتاب سامنے آئی۔
کاظمی صاحب اس وقت گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں اردو کے استاد
ہیں، کالج کی ادبی سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔میَں بھی اس کالج سے
کوئی ۱۲ سال منسلک رہا، میرے ریٹائرمنٹ کے بعد کالج کے مجلے ’’روایت‘‘ کی
ادارت انہوں نے ہی سنبھالی اور مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ۲۰۱۰ء اور۲۰۱۲ء کے
مجلے شائع ہوئے۔ ان سے قبل مجلہ روایت ۲۰۰۴ء اور مجلہ روایت ۲۰۰۸ے گولڈن
جوبلی نمبر میری ادارت میں شائع ہوئے تھے۔میرے اور کاظمی صاحب سے قبل اردو
کی معروف و محترم شخصیات کالج میگزین کی ادارت کے فرائض انجام دے چکی تھیں
ان میں ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کی ادارت میں کالج کا اولین مجلہ شائع ہوا ،
طلبہ کی جانب سے پروفیسر سحر انصاری میگزین سیکریٹری تھے، بعد میں ڈاکٹر
عبد السلام، پروفیسر مسیح الدین صدیقی،شاہد عشقی، پروفیسر ایس ایم لطیف اﷲ،
پروفیسر سراج الدین قاضی اور ڈاکٹر حسن محمد خان صاحب نے ادارت کے فرائض
انجام دیے۔
آخر میں اپنی بات صہبا اختر کے ان اشعار پر ختم کرونگا
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سرطاقِ فن اِک دیا رکھ دیا
لکھے حرف جو مجھے احترام
قلم کے قبیلے کو میرا سلام
کراچی ، ۲۳ اگست ۲۰۱۲ء |