عمومی طور پر یہ محسوس کیا جاتا
ہے کہ ہمارے ہاں ادب کا شعبہ انحطاط پذیر ہے۔ نہ تو بہت اچھی شاعری ہو رہی
ہے اور نہ ہی اچھے ناول یا افسانے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک جمود کی سی کیفیت
کا ذکر کیا جاتا ہے جو کہ کافی حد تک بجا بھی ہے۔ مگر اس زوال پذیری یا
جمود کی کیفیت کے باوجود چند تحریریں اس زمانے میں بھی سامنے آئی ہیں جو کہ
کچھ خاص حوالوں سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔اسی حوالے سے پچھلے دنوں ایک ناول
ـ’’آدھے ادھورے خواب‘‘ میری نظر سے گزرا جسکی کہانی روائیتی محبت کی داستان
پر مشتمل ہونے کے با وجود اپنے اندر کچھ اہم عناصرسموئے ہوئے ہے۔ یہ ناول
ایک ایسی شخصیت نے تحریر کیا ہے جو نہ تو نا ول نگار کے طور پر شہرت رکھتی
ہے ا ور نہ ہی شعر وادب کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔۔۔ڈاکٹر شاہد صدیقی تعلیم
کے حوالے سے ایک معروف شخصیت ہیں۔ انہیں ملک کے چند معتبر ماہر تعلیم میں
شمار کیا جاتاہے۔تعلیم کے حوالے سے ہی ان کے آرٹیکلز پاکستان کے معروف
اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے نظامـ تعلیم کے حوالے سے کئی
انگریزی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کو ایک اچھے استاد اور
ماہر تعلیم کے طور پر جانتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے ایک ناول
تحریر ہونا میرے لئے بھی تعجب کا باعث تھا۔
ناول کی کہانی بنیادی ظور پر ایک استاد اور اس کے شاگردوں کے گرد گھومتی
ہے۔ پروفیسر سہارن رائے اس ناول کا مرکزی کردار ہیں جو کہ اپنے نظریات اور
پڑھانے کے طریقہ کار کی وجہ سے اپنے شاگردوں کو گرویدہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کی
فلاسفی سے متاثر ناول کی ہیروئن امتشال آغا پروفیسر سہارن کے سحر میں مبتلا
انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آخر کار اپنی زندگی گاؤں کے بچوں کو پڑھانے
کے لئے وقف کر دیتی ہے۔ گو ناول میں ہمیں روائتی محبت کی داستان بھی ملتی
ہے مگر وہ اس حوالے سے غیر روائتی بھی ہے کہ یہ محبت ایک شخص کی ذات سے بڑھ
کر اس کے اعلٰی و ارفع کام اور مقصد ِحیات سے محبت ہے۔ جس کے تحت تعلیم کو
فقط نوکری یا تجارت سے بڑھ کے ایک مشن کے طور پر اختیار کرنے کا درس دیا
گیا ہے۔
ناول کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ ہمارے دور کی معروف ـ’’ عدلیہ بحالی
تحریک‘‘ اور اس تحریک میں وکلاء اور سول سوسائٹی کے کردار کو خاص طور پر اس
ناول کاحصہ بنایا گیا ہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اور ہمارا میڈیا
حالات حاضرہ کے واقعات اور تحریکوں کو بخوبی اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ مگر
ایسی تحریکیں ایک ٹھوس ادب پارے کا حصہ کم ہی بن پاتی ہیں۔گو تاریخی واقعات
اور انقلابی تحریکیں ہمارے ناولوں اور افسانوں کا حصہ رہی ہیں۔ خاص طور پر
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حوالے سے بہت سے ناول اور افسانے ہمارے ادب
میں شامل ہیں۔ مگر عصرِ حاضر میں اس طرح کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ
پہلا موقع ہے، یا کم از کم میری نظر سے ایسا پہلی بار گزرا ہے ،کہ ہمارے
عہد کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ جو ’’عدلیہ بحالی تحریک ‘‘ کے نام سے جانا
جاتا ہے۔،وہ ایک ناول کا اہم حصہ بنا۔ اس عدلیہ بحالی تحریک کی صورت میں
میڈیا ، وکلاء اور سول سوسائٹی کا جو کردار ہمارے سا منے آیا ۔ ڈاکٹر صاحب
نے اسے بہت عمدگی سے اپنے ناول کا حصہ بنا کر اردو ادب میں امر کر دیا
ہے۔یہ ناول اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ ہمارا ادب تصورات اور تخلیات
سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش
اردو فکشن میں خوشگوار اضافہ ہے۔
ڈاکٹر شاہد کیونکہ ایک معروف ماہر تعلیم ہیں اور تعلیم ہی ان کا اوڑھنا
بچھونا ہے، وہ اس کیفیت سے اپنے ناول میں بھی دستبردار ہوتے دکھائی نہیں
دیتے۔ گو کہ ناول ایک دلچسپ داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مگر پروفیسر
رائے کے مکالمات اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اس
انداز میں کیا ہے۔ گویا وہ شعبہ تعلیم سے منسلک افراد کو درس دے رہے ہوں ۔
جیسے ایک جگہ تحریر کیا۔۔۔ "استاد کے لئے مشکل مگر ضروری کام ہولڈ بیک کرنا
ہوتا ہے تاکہ طالب علموں کو سوچنے کا موقع مل سکے۔ لیکن اکثر استاد بے صبری
میں اپنا علم کلاس روم میں انڈیل دیتے ہیں اور طالب علموں کے دماغ بند
تجوریوں کی طرح ان کھلے رہ جاتے ہیں۔ علم کے کیسے کیسے ہیرے موتی بغیر
استعمال کے زنگ آلود ہو جاتے ہیں ـ"۔۔۔غیر محسوس طریقے سے ایک اچھے استاد
کی خوبیاں بیان کرنے کیساتھ ساتھ استاد اور شاگردوں کے مابین غیر روائتی
تعلق دکھا کر اس تعلق کی ایک خاص فلاسفی بیان کی گئی ہے۔ یہ ناول دراصل علم
اور ادب کا ایک حسین امتزاج ہے۔
ناول کی زبان سلیس اور عام فہم ہے۔ مکالمے عام گفتگو کے انداز میں پیش کیے
گئے ہیں۔ کہانی اس قدر دلچسپ ہے کہ آغاز سے اختتام تک پڑھنے والوں کو مسحور
کیے رکھتی ہے اور قاری ایک ہی نشست میں اسے ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ گو
بعض جگہوں پر ہمیں مناسب کردار نگاری کی کمی محسوس ہوتی ہے اور بعض اوقات
ناول پر ایک تخلیاتی کہانی کا گمان ہوتا ہے جو کہ حقیقت سے بہت دور ،
آئیڈیلزم پر مبنی دکھائی دیتی ہے کہ نہ تو اس مادیت پسندی کے دور میں اتنے
dedicated اساتذہ ہیں اور نہ ہی شاگرد جو اپنی تمام زندگی کسی خاص مقصد
حیات کے لئے تج دیں۔ مگر اس آئیڈیلزم کے ذریعے بھی پڑھنے والوں کو فکر
انگیز پیغام دیا گیا ہے۔
ناول کو پڑھتے ہوئے بعض جگہوں پر آپ بیتی کا گماں ہوتا ہے یوں جیسے یہ
ڈاکٹر شاہد صدیقی کی اپنی کہانی ہو۔ دیگر کردارو واقعات کے بارے میں تو
ڈاکٹر صاحب خود بہتر بتا سکتے ہیں مگر جس طرح سے ناول میں پروفیسر سہارن
رائے تعلیم کو روپے کمانے اور تجارت کا ذریعہ بنانے کی بجائے مشن بنائے
ہوئے ہے، پروفیسر رائے کی زندگی کا یہ پہلو تو خود ڈاکٹر شاہد کی زندگی سے
مشابہ نظر آتا ہے۔ |