جدید سائنس نے ہمارے لیے جہاں بے
شمار آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سی مشکلات کو بھی جنم دیا ہے۔ کمپیوٹر
کی ایجاد نے دنیا میں انقلاب سا برپا کردیا ہے اور اس سے انٹر نیٹ کی
وابستگی سے تو اس نے دنیا بھر کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ تاہم اس کے جہاں بے
شمار فوائد ہیں وہی برائیوں اور نقصانات کی ایک لمبی فہرست بھی موجود ہے۔
ایک طرف مغربی ممالک اس سے جاسوسی، پراپیگنڈہ کا کام لے کر بطور ہتھیار
استعمال کررہے ہیں تودوسری طرف اس سے نوجوانوں کے اخلاق کو متاثر کیا جارہا
ہے۔ یعنی ذہنی، اخلاقی اور جسمانی صحت کو بلواسطہ اور بلاواسطہ نقصان پہنچ
رہا ہے۔ پاکستان میں بھی انٹر نیٹ کے استعمال کی بہتات ہے ۔ ہمارے نوجوان
بھی اس کا مثبت استعمال کررہے ہیں مگر اس کا منفی استعمال تو حد سے زیادہ
ہوچکا ہے۔ خاص طور پر سوشل ویب سائیٹس نے تو نوجوان نسل میں بگاڑ پیدا کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انٹر نیٹ نے دنیا بھر
میں چالیس فیصد سے زائد افراد کو ذہنی و نفسیاتی امراض بنا کررکھ دیا ہے۔
ہمارے ہاں تو ایسے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کے
زیادہ تر صارفین کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں اور نہ ہی نوجوانوں کی اس حوالے سے
کوئی خاص تربیت دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں یا تو گپ شپ یا پھر فرینڈ شپ کے لیے
اس کا استعمال کیا جارہا ہے جس کے ظاہر ہے منفی اثرات پڑے ہیں۔ ایسے بہت سے
واقعات منظر عام پر آچکے ہیں کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی ہنستے بستے گھر کو
اجاڑ دیا گیا۔ لوگ انٹرنیٹ کو دھوکے کے لئے بھی استعمال کررہے ہیں۔ سوشل
میڈیا کے نام پر براہ راست ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے ہیں۔ بیہودہ اور
بدتہذیب زبان استعمال کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں اور کالجوں
میں صرف انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے استعمال اور کل پرزوں کے بارے میں نہ بتایا
جائے بلکہ اس کے اخلاقی و ذہنی نقصانات اور ان سے بچنے کے بارے میں شعور
بیدار کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو بھی انٹر نیٹ کے بارے میں قانون سازی کرنے
کی ضرورت ہے۔ بہرحال ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اپنے کلچر کے فروغ،
روایات اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے انٹر نیٹ پر غیر اخلاقی سرگرمیوں سے
پرہیز کرنا چاہئے۔
رما حسن ، راولپنڈی |