دنیا میں سائینس کی نئی نئی
ایجادات ہورہی ہیں اور پرانی الیکٹرونک اشیا متروک ہو رہے ہیں۔ ہرسال ای
ڈمپنگ یا الیکٹرونک آلات کا کچرا بڑھ رہا ہے۔ بعض مملک میں ری سائیکلنگ کے
ساتھ ساتھ الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہونے والے ان مادوں کو محفوظ
طریقے سے تلف کرنے کا رجحان بھی نہیں ہے۔ جن میں سے زیادہ تر زہریلے ہوتے
ہیں۔دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اقتصادی ترقی عالمی معیشت کوآلودگی میں
بدل رہی ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں کوڑے میں پھینک دی جانے والی الیکٹرانک
مصنوعات کا وزن، جو 2012 میں 48.9 ملین ٹن تھا، 2017 میں بڑھ کر 65.4 ملین
ٹن تک جا پہنچے گا اور اس میں سے زیادہ تر کوڑے کی ذمہ دار وہ ترقی پذیر
ریاستیں ہوں گی، جو آج کل اقتصادی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔لیکن
انہی ممالک کی وجہ سے دنیا تیزی کے ساتھ اس ماحولیاتیآلودگی کا شکار ہو رہی
ہے جو آئندہ نسلوں کی صحت کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان بن جائے گی۔
مغربی ممالک نے مدد کے نام پر تیسری دنیا کے غریب ممالک کو اپنی ضائع شدہ
اشیا کا ڈسٹ بن بنا دیا۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں من الیکٹرونک کوڑا جس
میں کمپیوٹر ، مانیٹر ، کی بورڈ ،موبائل فون ،ٹی وی ، ریفریجریٹرز اور دیگر
اشیا شامل ہیں آتا ہے جو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے نہ صرف خارج
ہونے والی انتہائی مہلک گیسوں کی وجہ سے کینسر جیسے موذی امراض کا سبب بن
رہا ہے بلکہ فضائی اور زمینی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کوڑے سے نکلنے
والی سونا اور چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کے لالچ میں مقامی تاجر اس کوڑے کے
نقصانات سے بے خبر اسکی درآمد میں ہر سال اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ
آئندہ 10/15سال بعداس کے نتیجے میں ہونے والے گھمبیر اثرات سے بے خبر
سرکاری ادارے اس کے تدارک کیلئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔صرف
برطانیہ کی ساوتھ ویلز کمپنی نے گذشتہ برس 40لاکھ کمپیوٹر ، 5لاکھ ٹیلی
ویڑن ،30لاکھ ریفریجریٹر ، 40لاکھ دیگر الیکٹرک اشیا اور 2کروڑ موبائل فون
پر مشتمل کوڑا کرکٹ تیسری دنیا کے ممالک میں برآمد کیا جبکہ امریکہ
میں2001میں تقریباً4کروڑ کمپیوٹر متروک ہوئے جو دس گنا کم قیمت پر پاکستان
، بھارت اور چین کو فروخت کیے گئے اور ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اب ہر
سال 6کروڑ سے8کروڑ کے قریب کمپیوٹر متروک ہو جاتے ہیں جن میں سے دو تہائی
ایشیا میں برآمد کر دئے جاتے ہیں۔دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپ میں
صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا تو کارخانوں سے نکلنے والے سکریپ نے وہاں کے
لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیئے جبکہ کمپیوٹر کی صنعتی پیدوار
کے بعد دوران تیاری ٹوٹ پھوٹ پر مشتمل اور پرانے ہو جانے والے مال نے مغرب
کے ان مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا جبکہ وہاں پر اس مال کی ری سائیکلنگ
یعنی اسے دوبارہ قابل استعمال کرنے کیلئے کئی گنا زیادہ اخراجات آتے تھے
جبکہ وہاں کے قوانین اور ان پر عملدرآمد کی وجہ سے ان کے سرمایہ داروں کے
پاس اور کوئی حل نہیں تھا چنانچہ یورپی صنعت کاروں نے اس سکریپ کی زائد
مقدار کو خوشحالی اور ترقی کے نام پر افریقی ممالک میں فروخت کرنا شروع
کردیا مگر جب افریقہ میں اس ضائع شدہ اور مضر صحت الیکٹرونک سکریپ سے
بیماریاں پھیلنے لگیں تو افریقی عوام اس کے خلاف ہو گئے اور سماجی تنظیموں
نے اس کی درآمد کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا یہ احتجاج اتنے جاندار اور
موثر تھے کہ جس پر 1992میں یورپی کمپنیوں اور افریقی ممالک کے درمیان ایک
معاہدہ ہو گیا جس کے تحت افریقہ میں اس سکریپ(ویسٹ) پر درآمد پر پابندی لگ
گئی۔چنانچہ یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے اس ویسٹ کو (Dump)ڈمپ کرنے
کا مسئلہ درپیش ہوا تو انھوں نے جنوبی ایشیا کا رخ کر لیا اور پھر ان ممالک
سے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین میں ہر سال
لاکھوں ٹن الیکٹرونک کوڑا اور دیگرسکریپ آنا شروع ہو گیا۔اگرچہ پاکستان میں
بھی ایسے قوانین موجود ہیں کے جس کے تحت کوئی ایسا سکریپ ملک میں داخل نہیں
ہو سکتا جو انتہائی خطرناک ہو اور عوام کی صحت کیلئے مضر ہو مگربعض اداروں
کے کچھ اہلکاروں کی وجہ سے اس کی درآمد بآسانی ہو رہی ہے۔ لاہور کے علاوہ
دیگر تمام شہروں میں یہ کوڑا جگہ جگہ نظر آتا ہے جس کو بعض پلاسٹک کا کام
کر نے والے افراد خرید کر اسے پگھلاتے ہیں تاکہ اس سے تیار ہونے والے
پلاسٹک دانہ سے دیگر چیزیں بنائی جائیں جبکہ کمپیوٹر کے کوڑے سے سونا اور
چاندی جیسی دیگر قیمتی دھاتیں بھی اس کاروبار کے بڑھانے میں ایک اہم وجہ
ہے۔ی۔ یہ لوگ اس کوڑے کو نہ صرف کھلی جگہوں پر جلاتے ہیں بلکہ مختلف
کیمیکلز میں ڈال کر اس سے دھاتیں علیحدہ کرتے ہیں اس سارے عمل میں ٹیٹینیم
، بیریلیم ، ویناڈینیم ،یوٹیریم اور سیلینیم جیسی دھاتوں کے جلنے سے پیدا
ہونے والی گیس کینسر جیسی موذی کا مرض بن رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق
صرف لاہور کے گردونواح میں ہر ماہ 25سے30ٹن پلاسٹک نکالا جاتا ہے اور
بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہی حال دیگر شہروں کا بھی ہے ،اس
سکریپ سے کالا شاپر جیسی دیگر مصنوعات بنائی جاتی ہیں جبکہ اس کا بچنے والا
گند نالوں اور ندیوں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف فضائی بلکہ زمینی
آلودگی بڑھ رہی ہے اور فضا گندی ہونے کی وجہ سے سانس اور گلے کی دیگر
بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔اور اگر یہ صورت حال ایسی ہی رہی تو آئندہ دس
سالوں کے بعد تمام خطہ آلودہ ہو جائے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق 27کلو کمپیوٹر
کے کوڑے میں سے پلاسٹک 6.26کلو،لیڈ1.72کلو،سیلیکا 6.8کلو، ایلمونیم
3.86کلو،لوہا 5.58کلو ، تانبہ 1.91کلو ،نکل 0.23کلو ، زنک 0.6کلو ، ٹن
0.27کلو گرام نکلتی ہے جبکہ سونا ، چاندی ،آرسینک ، مرکری ، انڈیم ، یٹریم
، ٹیٹا نیم ، کوبالٹ ، کرومیم ، کیڈ میم ، سیلینیم ، بیریلیم ،ٹیٹا لم ،
ویناڈیم اورایروپیم کی بھی خاصی مقدار نکلتی ہے۔اس حوالے سے 1992میں وفاقی
محتسب کو ایک درخواست بھیجی گئی تھی۔ جس پر جسٹس ( ر) پیر عثمان علی شاہ
نیایسے کچرے کی درآمد پر پابندی لگانے کے علاوہ دیگر محکموں کو اس کے مستقل
تدارک کیلئے ہدایت کی تھی مگر اس پر آجتک عمل نہیں ہو سکا۔حال ہی میں ایک
رپورٹ کے مطابقاقوام متحدہ کی تائید و حمایت سے چلنے والے بین الاقوامی
پروگرام StEP کے مطابق کْوڑے میں پھینک دی جانے والی الیکٹرانک مصنوعات کی
مقدار کے حوالے سے چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں نے اب مغربی دنیا کو
بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔StEP مخفف ہے، ’سالونگ دی ای ویسٹ پرابلم‘ کا اور اس
پروگرام میں اقوام متحدہ کے اداروں اور مختلف حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ
ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں اور سائنسدان بھی شامل ہیں۔اس پروگرام کی جانب سے
الیکٹرانک کْوڑے کے سلسلے میں جاری کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ میں
پیشین گوئی کی گئی ہے کہ 2012ء اور 2017ء کے درمیانی عرصے میں ٹیلی وڑن
سیٹوں سے لے کر موبائل فونز تک پر مشتمل الیکٹرانک کْوڑے کی مقدار میں ماضی
کے مقابلے میں 33 فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ
موبائل فونز کو توڑ اور پگھلا کر 24کلوگرام سونا اور 250 کلوگرام چاندی
حاصل کی جا سکتی ہے۔اس رپورٹ کے اجراء کا مقصد ری سائیکلنگ کے ساتھ ساتھ
الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہونے والے اْن مادوں کو محفوظ طریقے سے تلف
کرنے کے رجحان کو بھی فروغ دینا ہے، جن میں سے زیادہ تر زہریلے ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اقتصادی ترقی
عالمی معیشت کو آلودگی کے اعتبار سے بھی کیسے تبدیل کر رہی ہے۔ یو این
یونیورسٹی سے وابستہ اور StEP پروگرام کے ایگزیکٹیو سیکرٹری رْوڈیگر کْوہر
کا کہنا ہے کہ کہ ’ای ویسٹ کے مسئلے پر عالمگیر پیمانے پر توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔اس پروگرام کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں کْوڑے میں پھینک دی
جانے والی الیکٹرانک مصنوعات کا وزن، جو 2012ء میں 48.9 ملین ٹن تھا، 2017ء
تک بڑھ کر 65.4 ملین ٹن تک جا پہنچے گا اور اس میں سے زیادہ تر کْوڑے کی
ذمے دار وہ ترقی پذیر ریاستیں ہوں گی، جو آج کل اقتصادی میدان میں تیزی سے
آگے بڑھ رہی ہیں۔رپورٹ میں مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2017 تک کْوڑے میں
پھینک دی جانے والی پرانی واشنگ مشینوں، کمپیوٹرز، ریفریجریٹرز، الیکٹرانک
کھلونوں اور دیگر برقی آلات کا وزن بڑھ کر دو سو ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگز کے
برابر ہو چکا ہو گا۔بھارت جیسے ممالک میں الیکٹرانک آلات کو بغیر زیادہ
احتیاطی اقدامات اختیار کیے پگھلانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے انسانی صحت
کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔جہاں 2017 تک مغربی دنیا کا الیکٹرانک کْوڑا
بڑھ کر 28.6 ملین ٹن تک جا پہنچے گا، وہاں ترقی پذیر اور بھارت، برازیل اور
جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا برقی فْضلہ کہیں زیادہ یعنی 36.7
ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔کچھ مغربی ممالک کا الیکٹرانک فضلہ غریب ترقی پذیر
ممالک میں پہنچتا ہے، جہاں بہت سے لوگ انتہائی ابتر حالات میں اور بہت ہی
کم اجرت پر اس کْوڑے کے حصے بخرے کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس کْوڑے سے
ماحول کو بھی بے اندازہ نقصان پہنچ رہا ہے۔یہ کْوڑا سود مند بھی ثابت ہو
سکتا ہے۔ ایک تحقیقی جائزے کے مطابق ایک ملین موبائل فونز سے 24 کلوگرام
سونا، 250 کلوگرام چاندی، 9 کلوگرام پلیڈیم اور 9 ٹن سے زیادہ تانبا حاصل
ہو سکتا ہے۔اتوار پندرہ دسمبر کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں یہ بھی
بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر باشندہ سال میں 7 کلوگرام وزن کے برابر
الیکٹرانک آلات کْوڑے میں پھینکتا ہے۔ 29.8 کلوگرام کے ساتھ سب سے زیادہ فی
کس الیکٹرانک کْوڑا امریکی شہری پھینکتے ہیں۔
ری سائیکلنگ کے نام پر الیکٹرانک کوڑا بھارت میں جرمنی اور یورپ سے
کمپیوٹرز، پرنٹرز اور ایسے ہی دیگر پرانے آلات پر مشتمل سالانہ ہزارہا ٹن
کوڑا غیر قانونی طور پر بھارت پہنچتا ہے، جسے وہاں ری سائیکل کیا یعنی
دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرانے برقی آلات میں استعمال ہونے والی دھاتوں
کو ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ ایسے بنیادی مادوں کی شکل دی جا سکتی ہے،
جن سے دوبارہ نئی اَشیا بنائی جا سکتی ہیں۔ اِس عمل سے خام مادوں اور ماحول
پر پڑنے والے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ تاہم دْنیا بھر سے سالانہ جو ہزارہا ٹن
پرانے اور مزید ناقابلِ استعمال الیکٹرانک آلات غیر قانونی طور پر بھارت
پہنچتے ہیں، اْن کی ری سائیکلنگ اْلٹا ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث
بن رہی ہے۔بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب غیر قانونی طور پر قائم کئے
گئے ایک صنعتی علاقے میں ایک ایسا ہی ری سائیکلنگ مرکز ہے۔ یہاں ہریش نامی
ایک مزدور پلاسٹک کی ایک بڑی سی ٹینکی میں ہاتھ ڈالے کھڑا ہے اور اْس کا
کہنا ہے کہ اْسے سبز رنگ کے اِس تیزابی محلول میں، جس سے مسلسل بْلبلے اْٹھ
رہے ہیں، ہاتھ ڈالنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اِس
تیزاب سے اْٹھنے والی بھاپ سانس کی نالیوں کے لئے خطرناک ہے اور وہ یہ بات
اچھی طرح سے جانتا ہے۔ ممبئی میں مزدور الیکٹرانک آلات کو ری سائیکل کرنے
کے ایک مرکز میں کام کر رہے ہیں.
ہرِیش کے مطابق اِس خطرے کے باوجود وہ یہاں کام کرنے پر مجبور ہے کیونکہ
اْس نے اور کسی قسم کی تعلیم و تربیت حاصل نہیں کی ہے۔ ہریش ری سائیکلنگ کے
جس مرکز میں کام کرتا ہے، وہاں دْنیا بھر سے پرانے کمپیوٹر، پرنٹر، سی ڈی
پلیئر اور دیگر آلات لائے جاتے ہیں۔ اِن آلات کو تیزابی محلول میں ڈال دیا
جاتا ہے۔اِس کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں، ایک غیر سرکاری تنظیم
"Toxic Link" کے سربراہ روی اگروال:’’یہ تیزاب بہت زْود اثر ہے۔ جب
کمپیوٹرز اور پرنٹرز کی پرانی پلیٹیں اِس میں رکھی جاتی ہیں تو باقی سب کچھ
اِس میں تحلیل ہو جاتا ہے، صرف خالص تانبا باقی بچتا ہے، جو دوبارہ استعمال
میں لایا جا سکتا ہے۔ اِس تیزاب سے جسم شدید طور پر جل سکتا ہے اور جب اِسے
بہایا جاتا ہے تو اِس سے خارج ہونے والی گیسیں پورے ماحول کو متاثر کرتی
ہیں۔‘‘
روی اگر وال بتاتے ہیں کہ بھارت آنے والا کوڑا کرکٹ اِس نام سے نہیں بلکہ
’مِکسڈ میٹل‘ یعنی ملی جْلی دھاتوں کے نام سے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، اْنہوں
نے الیکٹرانک کوڑا کرکٹ سے بھرے ایسے کنٹینر بھی دیکھے ہیں، جن پر باقاعدہ
کسٹم حکام کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اِن کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ایسا
سالانہ پچاس تا ساٹھ ہزار ٹن کوڑا بھارت لایا جاتا ہے افریقہ کا ’ای ویسٹ‘،
یورپ سے بھی زیادہ ہے۔ اقر خیال کیا جاتا ہے کہ الیکٹرانک اشیا کے حوالے سے
ترقی یافتہ ملکوں کا ’ڈمپنگ گراؤنڈ‘ سمجھا جانے والے براعظم افریقہ اگلے
پانچ برسوں کے دوران الیکٹرانک کْوڑا کرکٹ پیدا کرنے میں یورپ کو بھی پیچھے
چھوڑ جائے گا۔ناقابل استعمال الیکٹرونک آلات کو الیکٹرانک کوڑا یا ’ای
ویسٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے ای ویسٹ ترقی پزیر
ملکوں اور خاص طور پر افریقہ کے کم ترقی یافتہ ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
اسی لیے افریقہ کو ای ویسٹ کا ڈمپنگ گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم تازہ
اعداد وشمار کے مطابق 2017ء تک براعظم افریقہ میں پیدا ہونے والے ای ویسٹ
کی سالانہ مقدار اس حد تک بڑھ جائے گی کہ یہ براعظم یورپ کو بھی پیچھے چھوڑ
جائے گا۔افریقہ کو ای ویسٹ کا ڈمپنگ گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے۔نائجیریا کے
تحفظ ماحول کے ادارے نیشنل انوائرنمنٹل اسٹینڈرڈز اینڈ ریگولیشن انفورسمنٹ
ایجنسی سے تعلق رکھنے والی میرانڈا امارچی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو
بتایا: ’جس سالانہ شرح سے افریقہ میں ای ویسٹ پیدا ہو رہا ہے 2017 تک اس کی
سالانہ مقدار یورپ میں پیدا ہونے والے ای ویسٹ سے بھی بڑھ جائے گی۔اقوام
متحدہ کے تحفظ ماحول کے حوالے سے ادارے کی طرف سے نیروبی میں منعقد ہونے
والے پین افریقن فورم کے دوران ماہرین نے بتایا کہ افریقہ میں ای ویسٹ کی
پیداوار بڑھنے کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی آبادی میں ہونے والا اضافہ، جبکہ
دوسری وجہ اس براعظم میں موبائل فونز، کمپیوٹرز اور دیگر الیکٹرانک آلات کا
تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ماہرین کے مطابق افریقہ میں الیکٹرانک ویسٹ
سے قابل استعمال دھاتیں حاصل کرنے کے لیے پراسیسنگ کا عمل زیادہ محفوظ نہیں
ہے۔ماہرین کے مطابق افریقہ میں الیکٹرانک ویسٹ سے قابل استعمال دھاتیں حاصل
کرنے کے لیے پراسیسنگ کا عمل زیادہ محفوظ نہیں ہے۔فورم کے دوران پیش کی
جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران
کمپیوٹرز کے استعمال میں دس گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ موبائل فون کے استعمال
میں ہونے والا اضافہ سو گنا تک ہے۔ماہرین کے مطابق افریقہ میں الیکٹرانک
ویسٹ سے قابل استعمال دھاتیں حاصل کرنے کے لیے پراسیسنگ کا عمل زیادہ محفوظ
نہیں ہے۔ اس لیے اسے جدید بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی صحت کے علاوہ
اسے ماحول کے لیے بھی محفوظ بنایا جا سکے ۔
|