گدھا ایک شریف جانور ہے جو محنت
اور سخت جانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پہلے زمانوں میں گدھے صرف مال برداری
کے کام آتے تھے مگر آج کے انسان نے اِن کی ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ اب گدھے مال
برداری کے ساتھ ساتھ دوسرے امور جیسے رہٹ، ہتھ گاڑی کھینچنے اور ہل وغیرہ
کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ بس اِن کی ذرا سی تفریح یہ ہے کہ کسی دوسرے
گدھے کو دیکھ کر اِنہیں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی اجازت دی جائے۔ گدھا بظاہر
انسان دوست جانور ہے مگر اس کی دولتّی بڑی سنگین ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں
جو آدمی انتہائی درجے کا محنتی ہوتا ہے لوگ اُسے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔
یہ حقیقتاً ایک ایسی مخلوق ہے جسے ہم پیار یا غصہ دونوں حالتوں میں گدھا ہی
کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں پتا نہیں گدھے کو قابل نفرت کیوں سمجھا جاتا ہے
حالانکہ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں گدھوں کو بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور اُن کے
اعزاز میں ہر سال باقاعدگی سے خصوصی دن منایا جاتا ہے۔ گوروں کو گدھوں سے
کتنی انسیت ہے اس کی سب سے بڑی مثال امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی
نشان ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں اور اتفاق سے دونوں کے ہی سینگ نہیں ہوتے
البتہ چار پاؤں اور دو پاؤں کا فرق انہیں ایک دوسرے سے جُدا کرتا ہے۔ مرحوم
رنگیلا اور مرحوم سید کمال ہماری فلم انڈسٹری کے دو بڑے نام ہیں۔ سید کمال
نے ستر کی دہائی میں ’’انسان اور گدھا‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی جس
میں رنگیلا نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم اُس دور میں کافی مشہور ہوئی،
کیونکہ اِس میں انسان اور گدھے کی کچھ ملتی جلتی عادات کی بنیاد پر مزاح
پیدا کیا گیا تھا۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کا موازنہ کریں تو ہمیں
بھی انسان اور گدھے کی بہت سی عادتیں مشترک نظر آتی ہیں بلکہ دونوں میں فرق
صرف اتنا رہ گیا ہے کہ اگر انسان غلطی کرے تو گدھا کہلاتا ہے جبکہ یہی غلطی
گدھا کرے تو لاٹھی کھا لیتا ہے لیکن انسان کہلانا پسند نہیں کرتا۔ آج انسان
اور گدھے میں کچھ ہی دوری رہ گئی ہے ورنہ خر مغز اور خر دماغ جیسی اصطلاحات
ہرگز ایجاد نہ ہوتیں بلکہ بات اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ لوگ گدھے کو باپ
تک بنانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ گدھا صرف بوجھ ہی نہیں اُٹھاتا بلکہ
سیاست میں بھی اس کا کافی عمل دخل ہے۔ ہماری قومی سیاست میں گدھا اُس وقت
داخل ہوا جب فلم ’’انسان اور گدھا‘‘ پر پابندی لگی، کیونکہ اِس فلم میں
رنگیلے نے گدھوں کے ہجوم کے سامنے بھٹو کے انداز میں تقریر کی تھی۔ اس میں
شک نہیں کہ گدھے بھی سیاسی ہوتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو رموزِ
سیاست سکھانے میں گدھے کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آپ نے یہ کہانی تو سُنی
ہوگی کہ پرانے زمانے میں ایک آدمی کے پاس گدھا ہوا کرتا تھا اور وہ روزانہ
اِس پر بے انتہا نمک لاد کر دریا پار کرتا۔ ایک دن گدھے کو سیاست سُوجھی
اور اُس نے دریا میں اُترتے ہی اپنا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے پانی میں ڈبکی
لگا دی جس سے سارا نمک بہہ گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ گدھا زمانہ قدیم سے
ہی سیاست کی باریکیوں سے واقف تھا۔ ہر گدھا اس قدر خوش قسمت نہیں ہوتا کہ
وہ مرنے کے بعد بھی یاد کیا جائے لیکن ایک گدھا ایسا بھی گزرا ہے جسے نہ
صرف انسانوں کی طرح دفنایا گیا بلکہ اُس کے نام سے ایک گاؤں بھی موجود ہے۔
آپ راولپنڈی سے مانسہرہ جائیں تو راستے میں حویلیاں کے قریب ایک جگہ
’’کھوتا قبر‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور حقیقت میں وہ ایک کھوتے (گدھے) کی ہی
قبر ہے۔ چند سال قبل اس گاؤں کا نام تبدیل کرکے مسلم آباد رکھ دیا گیا ہے
لیکن علاقہ کے مکین اب بھی اِس جگہ کو پُرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔ اس
کھوتا قبر کے بارے میں بہت سی روایتیں بھی زبان زدِعام ہیں۔ ایک روایت یہ
بھی ہے کہ ایک بار اس گدھے نے ایک بم پر دولتّی جھاڑ دی تھی اور اسی وقت
دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ جہاں کھوتا قبر کی بات چل نہیں وہاں جعلی پیروں کے
قصے بھی یاد آ جاتے ہیں۔ یہ قصے ویسے تو بے شمار ہیں لیکن ایک گدھے سے فیض
حاصل کرنے والی بات شاید آپ کیلئے انہونی ہو۔ ایک مرید جب کئی سال تک اپنے
پیر کی خدمت کرکے جانے کی اجازت چاہنے لگا تو پیر صاحب نے اُسے اِس خدمت کے
صلہ میں ایک گدھا عنایت فرمایا۔ مرید نے جب گدھے کی حالت دیکھی تو پیر صاحب
کو منہ سے دعائیں اور دِل میں بددعائیں دیتا رہا۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا پیر
صاحب کا تحفہ جو تھا اس لیے انکار بھی ممکن نہ تھا۔ مرید نے گدھے کو پکڑا
اور چل دیا۔ ابھی وہ صرف قریب کے گاؤں ہی پہنچا تھا کہ گدھا چل بسا۔ اُس نے
گدھا وہیں دفنایا اور تھک ہار کر اس کی قبر کے پاس بیٹھ گیا۔ اتنے میں اس
گاؤں کے ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا۔ اُس نے جب دیکھا کہ ایک قبر پر ایک
شخص بیٹھا ہے تو اُس نے وہیں دعا مانگنا شروع کر دی اور جاتے ہوئے اس شخص
کو کچھ نذرانہ بھی دے گیا، جبکہ گاؤں میں یہ بات مشہور کر دی کہ اب ہمیں
اپنی منتیں، مرادیں مانگنے کیلئے دوسرے گاؤں نہیں جانا پڑے گا بلکہ اﷲ نے
اسی گاؤں میں ایک ولّی کو بھیج دیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ اس قبر کی جانب
دوڑ پڑے اور لگے اس قبر سے دعائیں، حاجتیں مانگنے اور جاتے جاتے اس شخص کو
نذرانہ بھی دے جاتے۔ اس طرح قبر پر بیٹھے شخص کے وارے نیارے ہو گئے۔ جیسے
جیسے دن گزرتے گئے گدھے کی قبر پر بھی رش بڑھتا گیا اور پھر کچھ ہی عرصہ
میں وہ ایک باقاعدہ مزار کی شکل اختیار کر گیا۔ اس مرید کے پیر صاحب کا
کاروبار کافی ٹھپ ہو گیا اور اُس کی آمدنی پر بھی بہت فرق پڑا۔ اپنے مریدوں
سے پوچھنے پر پتا چلا کہ ساتھ والے گاؤں میں کوئی بڑے ہی پہنچے ہوئے پیر
آئے ہیں اور لوگ اب حاجتیں اور مرادیں پانے اُس کے پاس جاتے ہیں۔ پیر صاحب
نے سوچا چلو چل کر دیکھتے ہیں کونسا ایسا پیر آ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے اُس
کا اپنا کاروبار ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کچھ ساتھیوں کو لے کر جب مزار پر
پہنچا تو دیکھا کہ وہاں اُس کا اپنا مرید ہی کاروبار چمکائے بیٹھا ہے۔ مرید
اپنے پیر کو دیکھ کر بات سمجھ گیا، اُس کو اندر کمرے میں لے گیا ، پہلے
معافی مانگیں پھر پوری کہانی سُنا دی۔ اپنے مرید کی بات سُن کر پیر صاحب
ہنس پڑے اور کہا ’’ اوہ !یہ تو نسل ہی بڑی قسمت والی ہے۔ اِدھر تم نے گدھے
کو دفنا رکھا ہے اور اُدھر میں نے اس کی ماں کو دفنایا ہوا ہے۔‘‘
|