’’جناب والا!۲۰۱۳میں اپنی زبان
وادب کے حوالے سے کوئی بات کوئی واقعہ کوئی کتاب کوئی افسانہ کوئی نظم یا
غزل یا کچھ اور جو آپ کے ذہن میں رہ گیا ہو اُسے ہمارے ادبی صفحے کےلئے
لکھنے کی زحمت کریں۔۰۰۰۰۰۰ اُمید ہے کہ توجہ فرمائیں گے۔۰۰۰۰۰۰۰۰ندیم صدیقی۔‘‘
یکم جنوری کوموصول ہونے والےدرجِ بالا عنایت نامہ نے اچانک احساس دلایا کہ
ہمارے کشکولِ حیات سے ایک اور سال کم ہوچکا ہے۔ اس خط نےپھر ایک بار ۲۰۱۳
کے دریچہ میں جھانک کردیکھنے پرمجبور کردیا لیکن ایسا کرنے پرنہایت خوشگوار
یادوں کےبے شمار لعل و گہر ہاتھ لگے ۔ایسے ساتھیوں سے بلاقصدملاقات جن سے
بچھڑے عرصۂ دراز گزر چکا تھا اور ملنے کے امکانات مفقود ہوچکے تھے ۔ ایسے
لوگ کہ جن کی تحریر و تقریر کے سبب ملنے کا اشتیاق تو تھا مگرملاقات کی نہ
کوئی سبیل تھی اور نہ توقع۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں سےملنے کا شرف کہ جن کو
نہ کبھی دیکھا تھا اورنہ جن کے بارے میں سنا تھا ۔ مگر جب وہ ملے تو یادوں
کے روشن چراغ بن گئے اور جب ان سے جدا ہوئے تو بے ساختہ زبان پر بشیر بدر
کا یہ شعر۲۰۱۳ کی سوغات بن کر آگیا ؎
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
سال گزشتہ کی ابتداء کچھ اس طرح ہوئی کہ مشہور محقق و شاعراورادارہ ادب
اسلامی کے صدر ڈاکٹر عبدالباری شبنم سبحانی نیز سابق صدر شعبۂ اردو رانچی
یونیورسٹی ڈاکٹر حسن رضاکی دہلی سے دبئی میں آمد ہوئی اور پھر اس قافلے
میں برطانیہ سے بزرگ شاعر و دانشور ڈاکٹر مختارالدین احمد بھی شامل
ہوگئے۔ان حضرات سےدبئی اور العین کے مشاعروں میں استفادہ کا موقع ملا۔اس کے
علاوہ ابوظبی کےمذاکرہ بعنوان’’قرآن مجید کے ادبی محاسن‘‘میں انہوں نے
اپنےپر مغز مقالے بھی پیش کئے۔ اس کے بعد منعقد ہونے والے مشاعرے میں مقامی
شعرائے کرام کے علاوہ پاکستان سے آنے والے شفیق سلیمی اور شاہ زمان کوثر
نے بھی اپنا کلام سنایا۔مؤخرالذکر دونوں حضرات عرصۂ دراز تک امارات میں
درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اپنے وطن لوٹ چکے ہیں ۔ سلیمی صاحب
کی دو کتابیں تمازت اور تپش شائع ہوچکی ہیں۔
اس ادبی سفر کے بعد شکاگو (امریکہ) سے اسلامی مفکر ڈاکٹر عرفان احمد صاحب
دبئی تشریف لائے۔ آپ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھاتے تھے اس
کے بعد شکاگوکی الیونس یونیورسٹی میں یہ سلسلہ جاری رہا اور سبکدوش ہونے کے
بعد وہیں مقیم ہیں ۔قرآن فہمی کے حوالے سے۸۲ سالہ عرفان صاحب کا جوش و
ولولہ قابلِ رشک ہے ۔ امریکہ سے دبئی ۱۴ گھنٹوں کی فلائیٹ سے وہ رات ۹ بجے
ابوظبی پہنچےایک بجے رات تک محوِ گفتگورہے اور صبح ۸ بجے دبئی چلنے کیلئے
تیار تھے ۔ علوم القرآن کے ماہر ڈاکٹر عرفان نے ویسے تو کئی کتابیں لکھی
ہیں لیکن انگریزی زبان ان کی ضخیم تفسیر (سورہ بقرہ) قرآن کا عکس ایک
معرکتہ آراء تصنیف ہے۔اس سفر کے دوران پاکستان سے معروف مفکرِ قرآن جناب
جاوید احمدغامدی بھی دبئی آپہنچے ۔ غامدی صاحب اپنی ویب سائٹ الموارد اور
پاکستان ٹی وی چینل جیو کے پروگرواموں کے سبب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔
قرآن مجید سے متعلق مختلف عنواین پر ان مشاہیر ِدین کی گفت و شنید میں ہم
جیسے طالب علموں کیلئے سیکھنے کابڑاسامان تھا ۔
اس کے بعد قطر کے اندر بزمِ اردو قطر اور حلقہ ادب اسلامی قطر کے زیر
اہتمام ہونے والے دو الگ الگ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا جہاں نظم و نثر
دونوں کا اہتمام تھا ۔قطرمیں مقامی ادباء و شعراء مثلاً افتخار راغب، محمد
رفیق شاد اکولوی، عتیق انظر، جلیل نظامی، محمد ممتاز راشد کے علاوہ سعودی
عرب سےتشریف لانے والے، طاہر بلال، ابو نبیل مسیح دکنی اورامارات کےعامر
اعظمی کے کلام سے بھی محظوظ ہونےکا موقع ملا۔ ان میں چند تو ایسے تھے جن سے
ملاقات تھی لیکن اکثر پہلی بار ملے تھے ۔ قطر کی ریتیلی زمین پر اردو کی
آبیاری کے ضمن میں ان حضرات کی کو ششوں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ اس
کے بعدبرطانیہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں پر اس سال بوکر ایوارڈ کیلئے
نامزدکردہ اردو کے مشہور افسانہ نگارجناب انتظار حسیناو ر بی بی سی کے
مشہور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی ملاقات نے سفر کو یادگار بنا دیا۔
کالج کے زمانے سے میں انتظار حسین کی کہانیوں کا مداح ہوں لیکن ان سے ملنے
کا اتفاق نہیں ہوا ۔ سنا تھا کہ کسی زمانے میں وہ ممبئی آئے تھے اور
سریندر پرکاش کے مہمان تھے لیکن مجھے اس کی اطلاع نہیں مل سکی تھی اور میں
محروم رہا تھا ۔لندن قیام کے دوران جب پتہ چلا کہ برطانیہ کے لیڈس شہر میں
انتظار حسین صاحب کے اعزاز میں ایک عصرانہ کا انعقاد ہورہا ہے تو ۳۰۰
کلومیٹر کا فاصلہ نہایت مختصر ہوگیا۔ پہلی مرتبہ اپنے چہیتے قلم کار کودیکھ
کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون حاصل ہوا ۔ان کے ساتھ کراچی سے
مشہور افسانہ نگار اور ناقد ڈاکٹر آصف فرخی بھی تشریف لائے تھے ۔ اس تقریب
کے ہفتہ بعد یارک شائر ادبی فورم کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ میں شرکت کا
موقع ملا جس میں رضا علی عابدی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بی بی سی
کی وہ جانی پہچانی آواز جو برسوں ہمارے کانوں میں رس گھولتی تھی ہم سے محو
گفتگو تھی ۔ یہ اک خواب تھا جو حقیقت بن گیا تھا ۔ رضا علی عابدی اپنے
مشہورو معروف سفرناموں کے علاوہ افسانوں کے مجموعے ،بچوں کی کہانیاں اور
تنقیدو تبصرے کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور روزنامہ جنگ میں ہفتہ وار کالم
لکھتے ہیں۔
یارک شائر ادبی فورم برطانیہ کا ایک نہایت فعال ادبی ادارہ ہے جس کے سرپرست
اور روحِ رواں ڈاکٹر مختارالدین احمد ہیں ۔ ان تقریبات میں ادارے کے مختلف
فعال ارکان و فنکاران مثلاًاشتیاق میر، ڈاکٹر اعظم امروہوی،پروفیسر تسنیم
تبسم،جاوید اقبال ستار (مدیرچنندہ)،پروفیسرباصر کاظمی اور محترمہ غزل
انصاری و دیگر خواتین و حضرات کی سعی پیہم کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ اگر
اردو برطانیہ کی سنگ لاخ زمین پر پھل پھول سکتی ہے تو ہندوپاک کی سر سبزو
شاداب فضا میں مٹ نہیں سکتی ۔ اس مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ڈاکٹر فاطمہ
حسن پاکستان سے تشریف لائی تھیں۔ فاطمہ حسن کی کہانیوں کا ایک مجموعہ
،مضامین کی ایک تصنیف اور اور شاعری کی تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ
نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ میں ذرائع ابلاغ کی تعلیم و تدریس سے منسلک ہیں۔ان کا
کلام سننے کے بعد احساس ہوا کہ مرد اچھی شاعری توضرور کرسکتے ہیں لیکن ویسی
شاعری نہیں کر سکتے جیسی کہ فاطمہ حسن اوران جیسی دیگر خواتین شاعرات کرتی
ہیں۔ منفرد آہنگ کے شاعرڈاکٹر عاصم واسطی سے ابوظبی میں ملاقات رہتی ہے
لیکن برطانیہ میں وہ کچھ اور ہی نظر آئے شاید اس لئے کہ برطانیہ ان کا
وطنِ ثانی ہے ۔
برصغیر کا مسلمان برطانیہ جائے اور اسلامک فاؤنڈیشن (لیسٹر) نہ جائے یہ
بہت مشکل ہے ۔ پروفیسر خورشید احمد اور خرم جاہ مراد کا لگایا ہوا یہ پودا
اب برگ و بار لانے لگا ۔ اس کا وسیع و عریض کیمپس ۔ شاندار لائبریری اور اس
میں موجود مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ نامی تحقیقی ادارہ اپنی نرالی شان کا حامل
ہے۔ اس ادارے میں تیس سال بعدڈاکٹرعطاء اللہ صدیقی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔
بین المذاہب تعلقات کے ماہر ڈاکٹر صدیقی نے ویسے تو تحقیق کے کئی اہم کام
کئے لیکن یوروپ میں مقیم مسلمانوں کے مسائل سے متعلق انہیں ایک پروجکٹ
برطانوی حکومت کی جانب سے تفویض کیا گیا اور ان کی رپورٹ پر پارلیمان کے
اندر بحث ہوئی۔ اب یہ کتاب کی شکل میں شائع ہوچکی ہے اور حکومت کے علاوہ
دیگر محققین کیلئے بھی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے علاوہ مارک
فیلڈ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر زاہد پرویز سے بھی ملاقات ہوئی جو اتفاق سے
یوکے اسلامک مشن کے سربراہ بھی ہیں ۔آپ کے آبا و اجداد پاکستان سے نیروبی
ہجرت کرکے چلے گئے تھے اور اس طرح ڈاکٹر صاحب کینیا سے برطانیہ میں آن
بسے۔ ایک مقامی یونیورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ڈاکٹر زاہد اس نئی
ذمہ داری کو سنبھالا ہے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی بہتر خدمت کی جائے ۔
اس سال ممبئی آتے ہوئے دہلی جانے کا اتفاق ہوا جہاں نو منتخب صدر ادارہ
ادب اسلامی ڈاکٹرحسن رضا صاحب میزبان تھے ۔ ان کے ساتھ ڈاکٹرتابش مہدی،جناب
حسنین سائر اور جناب عبدالغفار صاحبان کی نئی پرجوش ٹیم کو دیکھ کر حوصلہ
بندھا۔ امید ہے ان لوگوں کی سعی و پیہم سے پیش رفت ترقی کی نئی بلندیوں کو
سر کرے گا ۔ شرطِ وفا کے خالق جناب انتظار نعیم میرے پرانے کرم فرما ہیں ۔
اس بار ان کے ساتھ بہت تفصیلی ملاقات رہی اورادب کے حوالے سے ان کے طویل
تجربات و مشاہدات سے استفادہ کا موقع ملا ۔ڈاکٹر احمد علی برقی کا کلام
انٹر نیٹ پر پڑھا تھا لیکن جب ملاقات ہوئی تو ان کو کمال کا زود گو شاعر
پایا ان کیلئے بقول خود نثر کے بجائے شعر میں بات کرنا سہل تر ہے ۔ ڈاکٹر
صاحب کی نئی کتا ب روح سخن بھی نظرنواز ہوئی آپ آل انڈیا ریڈیو پر فارسی
شعبہ کے سربراہ ہیں اور اردو کے علاوہ فارسی زبان پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔
سابق صدرِ شعبہ اردوممبئی یونیورسٹی ڈاکٹر معین الدین جینابڑے فی الحال
جواہر لال یونیورسٹی میں ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں صدرشعبہ ہیں ۔ان سے
بھی ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے افسانوی مجموعہ
تعبیرکا پاکستانی ایڈیشن دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ ان کے خوبصورت افسانوں کی
مانند کتاب کا سر ورق بھی نہایت دیدہ زیب ہے ۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ
کی تنقید وتحقیق کی دو کتابیں جلد ہی منصۂ شہود پر آنے والی ہیں۔ دہلی
قیام کے دوران ڈاکٹر شفیق حسین شفق کی کتاب عرفان صدیقی شخص و شاعر کی تلاش
میں جب میں ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس پہنچا تو یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ
اردو کی ادبی کتابیں نہیں بکتی نہیں مفت میں تقسیم ہوتی ہیں اور یہ انکشاف
ہوا کہ اگر اس مکتبہ کے مالک جناب مجتبیٰ خان صاحب جیسی متحرک شخصیت کسی
ادارے کی سربراہ ہو تو نہ صرف کتابیں شائع ہوتی ہیں بلکہ دھڑلےّ سے فروخت
بھی ہوتی ہیں۔ ای پی ایچ کے وسیع و عریض دفتر میں اردو کتابوں کا ایسا
انبار ہے کہ چلنے کی جگہ نہیں ۔ سابق مسٹر انڈیا مجتبیٰ خاں صاحب نے بتلایا
کہ وہ جلد ہی کوچہ پنڈت سے نکل کسی کشادہ تر مقام پر منتقل ہونے والے ہیں۔
ممبئی میرا اپنا شہر ہے لیکن غریب الوطنی کے طفیل وہاں بھی مسافر کی طرح
جانا ہوتا ہے ۔ اس بار ممبئی قیام کے دوران دہلی اردو بک ریویو کے نائب
مدیر جناب ارشد سراج الدین کی تشریف آوری ہوئی اور ان کے ساتھ اپنے ایک
قدیم بزرگ ڈاکٹر محمود الحسن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ عرصۂ دراز کے
بعد ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو ویسا ہی تیز و تند پایا جیسے کہ وہ کئی سال قبل
تھے۔ ان کی تازہ تصنف ادبیاتِ محمودجسے اس سال مہاراشٹر ساہتیہ اکادمی نے
تحقیق و تنقید کے باب میں انعام سے بھی نوازہ ہے نظر نواز ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب
کا یہ عالم ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کردیتے ہیں۔
ارشد صاحب کو جناب اسلم غازی صاحب سے ملنے کا بھی اشتیاق تھا ۔ ارشد صاحب
کی طرح اسلم صاحب بھی میرے چالیس سال پرانے دوست ہیں ۔ ہم تینوں نے بہت ہی
یادگار لمحات ساتھ گزارے اور مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو کی۔
شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ ممبئی قیام کے دوران اپنے بزرگ وکرم فرما
انورقمر سے ملاقات نہ ہوتی ہو ۔ ان سے ملنے پر ادب کے حوالے سےمعلومات میں
کوئی نہ کوئی اہم اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ جریدہ تکمیل نے ان کے منتخب افسانوں
پر جو خصوصی شمارہ نکالا ہے اسے بھی دیکھنے کا موقع ملا ۔ اس میں شامل کئے
جانے والے ہر افسانے پرجناب مظہر سلیم نے ایک تنقیدی مضمون شائع کرکے اسے
یادگار بنا دیا ہے۔انقلاب کے کالم نگارجناب شفیق احمدصدیقی بھی اس موقع پر
موجود تھے ۔اس کے علاوہ روزنامہ صحافت کے م ناگ صاحب سے بھی ادب کے حوالے
تفصیلی گفتگو کا موقع ملا اور وطن سے دوری کے سبب ادبی سرگرمیوں سےجو فاصلہ
بن گیا تھا وہ کسی قدر کم ہوا۔
ممبئی قیام کے دوران اس بار اپنے پسندیدہ اخبار اردو ٹائمز کے دفتر جانے کا
بھی موقع ملا جہاں مدیرِ محترم جناب عبدالرحمٰن صاحب کے علاوہ ندیم صدیقی
،شکیل انصاری اور وصیل خان صاحبان سے ایک عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی اور
پرانے تعلقات استوار کرنے کی سعادت ملی ۔ اسی طرح کا معاملہ روزنامہ
ہندوستان کے دفترمیں بھی ہوا جہاں عزیز دوست اور سدا بہار جناب سرفراز
آرزو سے ملاقات ہوئی ۔ ان سے مل کر ہمیشہ کی طرح جی خوش ہوا۔ مادرِ علمی
ممبئی یونیورسٹی کی ایک یادگار تقریب میں صدر شعبہ اردوڈاکٹرصاحب علی کا
نیاز حاصل ہوا ۔ نہایت سادہ و متین شخصیت کے حامل ڈاکٹر صاحب سے مل کربہت
اچھا لگا ۔ ان کے ہمراہ اردو چینل کے قمر صدیقی ،تحریر نو کےظہیر انصاری ،
نیا ورق کےشاداب رشید،اردو ٹائمز کے ابھرتے ہوئے کالم نگار شہاب اعظم
اورنوجوان مبصر احرار اعظمی سے بھی ملاقات ہوئی۔اسی نوجوان نسل سے اردو کا
روشن مستقبل وابستہ ہے ۔
امارات واپس آنے کے بعد ابوظبی میں جناب ظہورالاسلام جاوید ۔کے زیراہتمام
ایک عالمی مشاعرے میں ندا فاضلی کو سننے کا موقع ملا اس تقریب میں ہندوپاک
کے علاوہ امریکہ اور دیگر عرب ممالک کے شعراء بھی شریک تھے۔اس کے علاوہ
پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے زیراہتمام مشہور شاعرامجد اسلام امجد اور
پروفیسر انور مسعود کے اعزاز میں ایک محفل سجائی گئی جس میں سامعین نے خوب
دل کھول کر ان دونوں سے استفادہ کیا امجد اسلام امجد کی نظمیں اور غزلیں
نیز انور مسعود کے مزاحیہ و سنجیدہ کلا م کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ۳۳ سال بعد
مربی و محسن ڈاکٹر احمدا للہ صدیقی کے ساتھ دبئی میں ملاقات نے اس سال کو
یادگار بنادیا۔ آپ ویسٹرن الیونس یونیورسٹی امریکہ میں انگریزی اور ذرائع
ابلاغ کےڈائرکٹرہیں ۔ امریکی معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط
فہمیوں کا ازالہ اور دعوت اسلامی کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب
ذرائع ابلاغ کی مدد سے جو بیش بہاخدمات انجام دے رہے ہیں انہیں دیکھ کر رشک
آتا ہے ۔
سال کا اختتام اس طرح ہوا کہ امارات میں کراچی سے معروف بزرگ شاعراعجاز
رحمانی صاحب تشریف لائے۔ آپ کی ۱۶ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔جن میں کلیات
غزل ۱۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ منظوم سیرت کی کتاب بھی ۸۰۰ صفحات کی ہے۔۷۸
سالہ رحمانی صاحب مخصوص لب ولہجہ کی شاعر ہیں آپ کو اپنے اور دیگر اساتذہ
مثلاً غالب ، ذوق،انیس، قمر جلالوی وغیرہ کے سیکڑوں اشعار یاد ہیں۔اعجاز
رحمانی صاحب کی موجودگی میں دبئی کے اندر دو اور العین و ابوظبی میں ایک
ایک مشاعرہ ہوا۔ اعجاز رحمانی صاحب کے دستِ مبارک سے جناب افتخار راغب کی
تیسری کتاب غزل درخت اور انور آفاقی کی کتاب لمسوں کی خوشبو کا اجراء بھی
عمل میں آیا اور اس طرح سال ۲۰۱۳ اپنےیادوں کی خوشبو بکھیر کر روانہ
ہوگیا۔
|