ملک میں بلدیاتی انتخابات ایک ڈرامہ بن کر
رہ گیا ہے ،سابق حکومت اور موجودہ حکومتوں نے ہمیشہ سے بلدیاتی انتخابات
کروانے کے سلسلے میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔حکومت حیلے بہانوں سے
انتخابات کو طول دینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔عدل و انصاف اور ملکی بہتری کے
لئے ذاتی مفادات کو پس پشت کے دعویدار حکمرانوں کی اصلیت صاف نظر آ رہی ہے
۔ہر مسئلے کو ابہام میں رکھنے کی روش کو ختم نہیں کیا جا رہا۔جمہوریت کے
دعویداروں نے جمہوری نظام کی دھجیاں اڑا دیں ہیں ۔
جنرل الیکشن میں بڑے وعدے کئے جاتے رہے ہیں لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا کیا
جائے۔’’ وعدہ کوئی حدیث نہیں ہوتا‘‘ ۔ کسی نے کہہ دیا اور کسی نے عمل کر
دکھایا ۔ بلدیاتی امیدواروں اور ان کے سپوٹرز کو مصروف کرنے کے لئے انہیں
تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے ، پلاننگ کے تحت اس کو موخر کرنے کے پہلو تلاش
کر لئے جاتے ہیں ۔ جو کام عوامی پارٹیوں کا مل بیٹھ کر حل کرنے کا ہے وہ
عدلیہ سے کروایا جاتا ہے ۔ کبھی جواز دیا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن اس قابل
نہیں کہ جلد الیکشن کروا سکے ،کبھی پارٹی بیس الیکشن ہو اور اب حلقہ بندیاں
درست نہیں ۔ جیسے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں
تین رکنی بنچ نے کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ اس ضمن میں وزیر بلدیات و قانون
رانا ثنا اﷲ نے فرمایا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلے کو
تسلیم کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کی رو سے از سر نو حلقہ
بندیاں کرنے کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، جس کے لئے کم از کم چھ ماہ
یا ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ نئے سرے سے مردم شماری بھی
کی جائے تو زیادہ وقت لگے گا۔
جو حکومت چاہتی تھی اسے نا تجربہ کار اپوزیشن کی وجہ سے آسانی سے ہدف حاصل
ہو گیا۔ قومی ،صوبائی اسمبلیوں کی حیثیت محض قانون ساز ادارے کی ہوتی ہے ،کوئی
رکن اسمبلی محکمانہ بھرتی تبادلوں وغیروں میں از خود مداخلت کا مجاز نہیں
ہوتا ۔ آئین قانون کے مطابق ارکان اسمبلی کو کوئی ممتاز اور خصوصی حیثیت
حاصل نہیں ہوتی ۔ ارکان اسمبلی کی حیثیت محض ایک سرکاری کارندے اور عوام کے
نمائندے اور خادم کی ہوتی ہے۔ کوئی رکن اسمبلی کسی شہری کی کسی بھی مسئلہ
کی سفارش نہیں کر سکتا، تاہم اپنے حلقے کے عوام کی جائز شکایات اور امور کے
سلسلے میں وہ شہری کی درخواست اپنے ریمارکس کے ساتھ متعلقہ محکمہ کے ذمہ
دارافسر کو بھیج سکتا ہے۔افسر کا فرض ہے کہ اس پر جلد ضروری کارروائی
کرے،لیکن اگر بلدیاتی نظام فعال ہو جاتا ہے،تو عوامی مسائل حل کرنے کی ذمہ
داری بلدیاتی نمائندوں پر آجائیں گی۔سڑکوں،گلیوں،بازاروں،شہر کی صفائی
وغیرہ حلقہ کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرنا بھی انہیں کی ذمہ داریوں میں آجاتے
ہیں۔ لوگوں کے لئے بھی آسانی ہو جاتی ہے۔جہاں وزراء، ایم این اے اور ایم پی
اے سے مسائل حل کروانا تو دور کی بات ہے شرفِ ملاقات مشکل ہوتا ہے ۔
بلدیاتی نظام سے خوف ذدہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے مفادات ختم ہو جاتے
ہیں ۔جہاں ایک چپڑاسی کی ٹرانسفر کرنا ،کوئی سڑک یا گلی کی تعمیر تو دور کی
بات ہے، اُس کی مرمت کروانے کے لئے بھی وزیر اعلیٰ کی اجازت ضروری ہے ۔وہاں
اختیارات ایک بلدیاتی نمائندے کو دیتے ہوئے پریشانی تو ہو گی ۔ یہی وجوہات
ہیں کہ جس کی وجہ سے بلدیاتی نظام کو بحال کرنے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔
تمام وزراء ، قومی و صوبائی نمائندگان کا پروٹوکول اوران کو ملنے والے
تعمیراتی بجٹ میں مفادات ختم ہو جاتے ہیں۔وہ کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کر
کے اس لئے اسمبلیوں میں نہیں آئے کہ صرف قانون سازی یا قومی مفاد میں کام
کریں ۔اُن کے بہت سے ذاتی مفادات ہیں ۔ جنہیں پورا کرنے کے لئے بلدیاتی
نظام کا نہ ہونا مفید ہے۔اگر بلدیاتی نظام فعال ہو جاتا ہے تو عوام کے
مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے امن و امان کی صورتحال، چھوٹے
بڑے مسائل عدالت کی بجائے نمائندے حل کروا دیتے ہیں۔ جس سے عدلیہ پر بوجھ
کم پڑتا ہے۔ لین دین ، اراضی کے مسائل جو عدالتوں میں کئی سال چلنے کے
باوجود لوگ انصاف سے محروم رہتے ہیں ۔اس نظام کی وجہ سے حل ہو سکتے ہیں۔
گلی محلے کے مسائل حل کروانے میں بلدیاتی نمائندے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حکومت کو حقیقی طور پر ملکی مفاد میں بڑے مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت
ہے۔لوڈشیڈنگ ،گیس کا بحران ، مہنگائی ،بے روزگاری ، انڈسٹری کا بند ہونا
،امن و امان کی صورتحال ،اپنی اشیاء کی بین القوامی منڈیوں تک رسائی ، بہتر
خارجہ پولیسی ، دہشتگردی سے نجات حاصل کرنے کے لئے موثر لائحہ عمل ،تعلیم ،
صحت ایسے ایشو ہیں جن پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔شاید انہیں اندازہ نہیں
کہ پچھلی حکومت نے بھی آتے ہی کہا تھا کہ ہم دو سالوں میں ملک کے تمام
مسائل کا حل ڈھونڈ لیں گے۔لیکن پانچ سال کے بعد مسائل کا حل کیا کرنا
تھا،ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا کہ انہیں حل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے
۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور انصاف کا حصول ہے۔جس پر کہا جاتا ہے کہ
ہم کام کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک عوام اس سے بے خبر ہے ،کہیں ایسا نظر نہیں
آتا کہ کرپشن کو روکنے کے لئے کوئی جامع منصوبہ سامنے آیا ہو ، کسی جھوٹی
ایف آئی آر کٹوانے والے کو کوئی سزا دی گئی ہو ۔بہت سے جعلی کیسوں کی وجہ
سے عدالت کا وقت ضائع ہوتا ہے ، اصل مجرم آزاد پھر رہے ہیں ۔ ہزاروں بے
گناہ جیلوں میں نا کردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں اورحکمران خواب خرگوش کے
مزے لینے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔اس سے بڑھ کر کرپشن اور کیا ہوتی
ہے۔حکمرانوں کو خدا کی بے آواز لاٹھی سے ڈرنا چاہئے،ورنہ…… |